نیپال: تیزی سے پھیلتی کرونا وبا اور بحران زدہ حکومت

ساری دنیا کو ایک دفعہ پھر کرونا وباء کی شدت کا سامنا ہے، جس میں نیپال بھی شامل ہے۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر کرونا کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، نیپال کی وزارتِ صحت و آبادی کے مطابق کرونا کے مریضوں کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 43 ہزار 418 تک پہنچ چکی ہے، جبکہ اموات کی تعداد 3 ہزار 362 ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے روزانہ 8 ہزار نئے کیس رجسٹر ہو رہے ہیں۔


[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

البتہ، وزیراعظم کھڑگا پرساد اولی (جو 10 مئی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اب نگران وزیراعظم ہے) کی نیپالی حکومت اس مہلک بحران کو حل کرنے کے حوالے سے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ محنت کش طبقے کو اذیتوں اور وباء کے سبب ابھرنے والی بے شمار نئی مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ موجودہ حکومت اس صورتحال سے نبٹنے کے حوالے سے مکمل نا اہل ثابت ہوئی ہے۔ بحران نے حکومتی نا اہلی کو مکمل طور پر بے نقاب کر ڈالا ہے۔

حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ”کمیونسٹ“ مانا جاتا ہے، اگرچہ اس نے ابھی تک ایسی کوئی بھی پالیسی لاگو نہیں کی ہے جو سرمایہ داری سے ناطہ توڑے۔ یہاں لیفٹ الائنس، جس پر اولی کی نیپالی کمیونسٹ پارٹی (یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ) اور نیپالی کمیونسٹ پارٹی (ماؤ اسٹ سنٹر) کا غلبہ ہے، نے 2018ء کے انتخابات جیتنے کے بعد حکومت بنائی ہے، جس کے قبضے میں پارلیمان کے دونوں ایوان ہیں؛ یعنی ایوانِ نمائندگان اور قومی اسمبلی۔

وباء کی پہلی لہر میں تباہی مچ جانے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ حالات کے مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات لیے جائیں گے۔ اس کے برعکس، حکومت کے اوپر عالمی ادارہ صحت جیسے اداروں کی تنبیہات اور تجاویز کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

کرونا کے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھنے کی وجہ سے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے، اور طبی ساز و سامان اور سہولیات کی قلت کے باعث ہسپتالوں میں کم سے کم مریضوں کو داخل کیا جا رہا ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی تقریباً 3 کروڑ ہے، جبکہ آئی سی یو میں صرف 1600 مریضوں کی گنجائش ہے اور وینٹی لیٹرز کی تعداد 600 سے بھی کم ہے۔ 1 لاکھ لوگوں کے لیے 0.7 ڈاکٹر موجود ہیں، جو بھارت سے کم شرح ہے۔ بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے ایک بڑی تباہی تاک لگائے بیٹھی ہے۔ ہمیشہ کی طرح، سب سے زیادہ تکالیف کا شکار محنت کش طبقہ ہی ہے۔ امیر افراد دوسرے لاک ڈاؤن کا لطف اٹھا رہے ہیں، جو 29 اپریل سے نافذ کیا گیا ہے، جبکہ غریبوں کو بے تحاشا مسائل کا سامنا ہے۔

پہلا لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد پچھلے چند مہینوں کے دوران کام کے لیے جو محنت کش شہر واپس آئے تھے اب ایک دفعہ پھر گاؤں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی مکمل بندش کی وجہ سے ان کی اکثریت بے آسرا ہے اور ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہر جگہ پر، لوگوں کو فٹ پاتھوں کے اوپر دیکھا جا سکتا ہے جن کے پاس کھانے پینے تک کے پیسے نہیں ہیں۔

جو محنت کش ’گھروں‘ یا کرائے کے مکانوں میں رہ رہے ہیں، ان کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ روزگار نہ مل پانے کے سبب وہ بھی خوراک، پانی اور دیگر ضروریات پورا کرنے میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ حکومت کی جانب سے شروع کیا جانے والا ویکسینیشن پروگرام غریب علاقوں میں دکھائی نہیں دے رہا۔ جہاں سماج کی درمیانی پرتوں سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کو ویکسین دستیاب نہ ہو وہاں محنت کشوں کو ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صرف امیر اور اوپری درمیانے طبقے، جن کے حکمرانوں اور طاقتور افراد کے ساتھ تعلقات ہیں، کو ہی ویکسین دستیاب ہے۔

نیپال کی بے شرم، کرپٹ اور نا اہل حکومت

اس دوران، اولی کی بے شرم حکومت اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے بے تاب ہے، جس کے لیے وہ کرپشن سکینڈلز اور غلیظ سیاسی حربوں کا سہارا لے رہی ہے۔ کچھ مہینے پہلے، تب کے وزیرِ صحت بنوبختہ دھکال پر چین سے انتہائی ضروری طبی آلات خریدتے ہوئے بہت بڑی رقم کے فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام لگا تھا۔ اس واقعے کو میڈیا نے وسیع پیمانے پر کوریج دی اور عوام کی جانب سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا، مگر حکومت نے اس سب کو نظر انداز کر کے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔

یہ اس بات کا اظہار ہے کہ یہ کوئی عوامی حکومت نہیں ہے۔ اس قسم کے الزامات ریاستی اور مقامی حکومتوں پر لگتے رہتے ہیں مگر ان کا جواب کبھی بھی نہیں ملتا۔ لوگوں کو درپیش مسائل حل کرنے کی مکمل نا اہلیت کی وجہ سے جب ہر طرف سے حکومت پر دباؤ پڑنا شروع ہوا تو وزیراعظم اولی کو پارلیمان میں اکثریت کھو بیٹھنے کا خطرہ لاحق ہونا شروع ہو گیا، جس نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 20 دسمبر 2020ء کو پارلیمان تحلیل کر دیا۔

حزبِ اختلاف کی پارٹیاں، جن کے ساتھ اس کی اپنی پارٹی کے اراکین بھی شامل تھے، سڑکوں پر نکل آئے اور پارلیمان کی دوبارہ بحالی کا مطالبہ کرنے لگے۔ 22 فروری کو سپریم کورٹ نے اس کے فیصلے کو غلط قرار دے کر پارلیمان کو بحال کر دیا۔

حکومت کی کمزوریاں بے نقاب ہونے کے بعد، اس نے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے بے شمار ناکام کوششیں کی ہیں، جن میں قوم پرستی ابھارنے کی کوشش بھی شامل ہے؛ یہ ان سیاستدانوں کی جانب سے کی جا رہی ہے جو ”کمیونسٹ“ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حکومت نے نیپال کا ایک نیا نقشہ جاری کیا جس میں پڑوسی بھارت کے ساتھ واقع لمپیادھورا، کالپانی اور لیپولیخ جیسے متنازعہ علاقے بھی شامل کیے گئے تھے۔ ان ممالک کے بیچ کوئی بھی سرحدی تنازعہ حل نہیں کیا جا سکا ہے، اور کسی دوسرے ملک نے بھی ان دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر لا پرواہی کے ساتھ شاؤنسٹ جذبات کو بھڑکا رہا ہے۔

حکومت نے نیپال اور بھارت کے بیچ سفارتی تعلقات کو تب ختم کیا جب اولی نے ہندو دیوتا رام کی جنم بھومی (جائے پیدائش) کا متنازعہ مسئلہ چھیڑ دیا۔ حتیٰ کہ اس نے نیپال میں دیوتا کی جنم بھومی مانی جانے والی جگہ پر مندر بنانے کی تجویز پیش کی، جس پر اس مہینے کام شروع کیا جائے گا۔ یہ وہی رجعتی اور فرقہ پرستانہ طریقہ ہے جو بھارت میں مودی نے اپنایا ہوا ہے، جس کا مقصد اکثریتی ہندو آبادی اور دقیانوسی خیالات رکھنے والوں کو خوش کر کے انتخابات کے لیے استعمال کرنا ہے۔

حکمران طبقہ اور ان کے حامی کہتے پھر رہے ہیں کہ دھرہارا (کھٹمنڈو میں واقع ایک مینار)، رانی پوکڑی اور دیگر عالی شان عمارات نیپال کی ترقی کا ثبوت ہیں، مگر دوسری جانب ملکی قرض میں شدید اضافہ ہو رہا ہے اور عوام کا معیارِ زندگی شدید گراوٹ کا شکار ہے۔ جب وہ اولی کی بہت زیادہ تعریفیں کرتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں دوسرا کوئی لیڈر نہیں ہے تو اس کے نتیجے میں اولی مزید لا پرواہ اور غیر ذمہ دار بن جاتا ہے۔ اولی کے نیپال کو ترقی دینے کے تمام تر وعدے حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ محنت کش طبقے کی بہتری کے بغیر حقیقی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔ وزیراعظم جن لوگوں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، ان کے حقیقی مسائل حل کرنے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں۔

احتجاجوں کا آغاز

وباء شروع ہونے کے بعد سے، بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں جو اس بحران کے دور میں حکومت کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے مطالبات میں جرائم میں اضافہ ہونے کے سبب لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانا، کرونا کی تشخیص کے ٹیسٹ میں اضافہ کرنا، ہسپتال میں سہولیات اور طبی سامان کی تعداد میں اضافہ کرنا، اور مریضوں اور ہیلتھ ورکرز کی حفاظت کو یقینی بنانا شامل ہے۔ انہوں نے حکومت سے غریب گھرانوں کے لیے امدادی پیکجز متعارف کروانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ان مطالبات کو پورا کرنے کی بجائے حکومت نے پولیس کے ہاتھوں مظاہرین کے اوپر واٹر کینن اور لاٹھیوں کے ذریعے حملے کیے ہیں، اور پُر امن نوعیت کے احتجاجوں میں کئی افراد کو زخمی کیا ہے۔

مختلف قسم کے دیگر احتجاج بھی سامنے آئے ہیں، بشمول پارلیمان تحلیل ہونے کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہرے، جن میں کرونا بحران کے حوالے سے بھی مطالبات کیے گئے۔ ان احتجاجوں میں کئی طرح کے سیاسی رجحانات شامل ہوئے ہیں، مگر ان کی بڑی تعداد مارکس وادی محنت کشوں اور نوجوانوں پر بھی مشتمل تھی، جو اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ نظام نا کام ہو چکا ہے اور آج لوگوں کو درپیش مسائل حل کرنے کا اہل نہیں ہے۔

یہ مسائل محض کرونا بحران تک محدود نہیں ہیں۔ نیپالی سماج میں موجود گہرے معاشی اور سیاسی مسائل کو کوئی بھی حکومت سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حل نہیں کر سکتی۔ حالیہ بحران نے اس بات کو مزید واضح کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے انقلابی رجحان میں اضافہ ہونا نا گزیر ہے۔

بہرحال، ابھی جس چیز کا فقدان ہے، وہ مارکسسٹ نظریے کی مطلوبہ سمجھ بوجھ، طبقاتی جدوجہد کا ایک واضح تناظر، عوامی مطالبات اور نعرے، اور سوشلسٹ تبدیلی کا واضح مقصد رکھنے والی ایک قیادت ہے۔ اس کے باوجود، موجودہ دور کے واقعات زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو آگے بڑھ کر پہلا قدم لینے پر مجبور کر رہے ہیں۔

نیپالی عوام کے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ انہوں نے ”کمیونسٹ“ ہونے کا دعویٰ کرنے والی پارٹیوں کو 2017ء میں بڑے پیمانے پر ووٹ دیا، جس میں سی پی این (یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ) نے 121 اور سی پی این (ماؤ اسٹ سنٹر) نے 53 سیٹیں جیت کر 275 سیٹوں والے پارلیمان میں اکثریت حاصل کر لی تھی، مگر حکومت نے خود کو اس نظام کا تختہ الٹنے کی بجائے اس کا انتظام سنبھالنے تک محدود کر دیا ہے۔

سماج کے اندر انقلابی تبدیلی لانے میں ان ”کمیونسٹ“ پارٹیوں کی ناکامی اس بات کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتی ہے کہ نظریے کو سیکھا جائے اور سماج کے مادی حالات سمجھنے کی اہلیت حاصل کی جائے، تاکہ ہم مارکسزم کے حقیقی نظریات کی بنیاد پر ایک انقلابی پارٹی کو تعمیر کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ اس عمل میں وقت لگے گا مگر تب تک، حقیقی مارکس وادی طبقاتی جدوجہد کی پہلی صفوں میں محنت کشوں کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے ملیں گے۔