30 اگست کو سوویت یونین کا آخری سربراہ میخائیل سرگے وچ گورباچوف 91 سال کی عمر میں مر گیا۔ سوویت یونین میں ’اوپر سے‘ اصلاحات کرنے والی اس کی پالیسیاں، جسے وہ گلاسنوست (کشادگی) اور پیریسترائیکا (تعمیرِ نو) کے نام سے کر رہا تھا، سٹالنسٹ افسر شاہی کی مراعات برقرار رکھنے اور سوویت معیشت کے بدترین تضادات حل کرنے کی ایک آخری ناکام کوشش کا اظہار تھا۔ ان اقدامات کی ناگزیر ناکامی نے روس کے اندر سرمایہ داری کی بحالی، منصوبہ بند معیشت کی تباہی، اور لاکھوں افراد کو غربت میں دھکیلنے کے لیے راستہ کھول دیا۔ یہ بربادی گورباچوف کا ورثہ ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس مضمون میں سوویت یونین کے انہدام تک لے جانے والے واقعات کی وضاحت کی گئی ہے، اور روس اور دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے اس تاریخی بربادی میں گورباچوف کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف نکلس البن سوینسن نے اس موضوع کے اوپر لندن میں ہونے والے برٹش مارکسسٹس 2021ء ریولوشن فیسٹیول میں بھی بات رکھی ہے، جسے آپ نیچے دی گئی ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں:
لیونید بریژنیف، جو خود 1982ء میں مر گیا تھا، کے بعد منتخب کیے گئے جانشینوں کی بے وقت اموات کے نتیجے میں گورباچوف 1985ء میں کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری منتخب ہوا۔ گورباچوف بحرانات میں گھِرے نظام کا سربراہ بن گیا۔ سوویت یونین کی دیوہیکل معاشی بڑھوتری، جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، کے ذریعے منصوبہ بند معیشت نے پر انتشار سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کے اوپر اپنی زبردست فوقیت کو ثابت کر دیا تھا۔ مگر بریژنیف کے دور تک جمود کا آغاز ہو گیا۔ ملٹی ملین طاقتور مراعات یافتہ افسر شاہی کے اختیارات کی تباہ کن بڑھوتری پوری معیشت کے رگ و ریشے میں سرایت کر کے اس کے لیے بہت بڑی رکاوٹ بن گئی تھی۔
1987ء میں ہونے والی کمیونسٹ پارٹی کی 27 ویں کانگریس کے موقع پر، گورباچوف نے اصلاحات کے ایک سلسلے کا اعلان کیا، جس نے پیریسترائیکا (تعمیرِ نو) کے دور کا آغاز کیا۔ ان کا ہدف سٹالنسٹ نظام کے اندرونی تضادات کو حل کرنا تھا۔ جیسا کہ ٹیڈ گرانٹ نے اپنی شاندار کتاب، روس: انقلاب سے ردّ انقلاب تک (جس میں گورباچوف کی ناکام پالیسیوں اور کس طرح وہ سوویت یونین کے اوپر آخری وار ثابت ہوئیں کے موضوع پر ایک پورا باب لکھا گیا ہے، یہ کتاب ویل ریڈ بُکس پر دستیاب ہے)، میں وضاحت کرتا ہے:
”کریملن قائدین کی تقاریر میں کرپشن، ناکارہ پن اور نا اہلیت کے اوپر حملے کوئی نئی بات نہیں تھی، مگر گورباچوف کے اصلاحات پچھلے 30 سالوں میں ہونے والے تمام اقدامات سے بہت آگے چلے گئے۔ اس نے معیشت اور بالعموم روسی سماج کے اوپر افسر شاہانہ جکڑ بندی کو ڈھیلا کرنے کی بات کی۔ گورباچوف مزید ’جمہوریت‘، بعض شرائط کے تحت کارخانوں کے منتظمین کا انتخاب، کمیونسٹ پارٹی کے اندر انتخابات اور اسی طرح دیگر اصلاحات کے حق میں تھا۔ معیشت کو کھولنے اور معاشی بڑھوتری کو محرک فراہم کرنے کی خاطر سٹالنسٹ نظام میں اصلاحات کی ان کوششوں کو ضروری سمجھا جا رہا تھا۔ یہ عمل گلاسنوست اور پیریسترائیکا کے نام پر سر انجام دیا گیا۔
”ان تجاویز کا حقیقی مزدور جمہوریت سے کوئی واسطہ نہیں تھا، جو افسر شاہانہ نظام کے ہوتے ہوئے وجود نہیں رکھ سکتی، بلکہ ان کا ہدف جمود کا شکار سوویت معیشت کے بد ترین تضادات حل کرنا تھا۔ سوویت معیشت کا بحران، افسر شاہی کی گروہ بندیاں جس کا اظہار ان ’اصلاحاتی‘ اقدامات سے ہو رہا تھا، اس ہنگامہ خیز دور کی علامات تھیں جس کا آغاز سوویت یونین کے اندر ہونے جا رہا تھا۔ گورباچوف نے نظام کی اصلاحات کرنے والی اپنی مہم کے دوران سوویت یونین کی تمام جمہوریاؤں کے اندر بے تحاشا کرپشن، جرائم اور عدم اطمینان کو کچھ حد تک بے نقاب کیا۔ گورباچوف کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو سماجی دھماکہ ناگزیر ہوگا۔ سوویت سماج کے اندر دیوہیکل پیمانے پر عدم اطمینان پھیل گیا تھا۔ سوویت پریس میں کرپشن کے ہزاروں واقعات کا ذکر ہونے لگا تھا۔۔۔۔
”بند گلی سے نکلنے کے لیے بیتاب ہو کر، گورباچوف نے محنت کشوں سے اپیل کر کے اور افسر شاہانہ قبضے کی خطرناک ترین صورتوں کو عبرت کا نشانہ بنا کر معیشت میں کچھ روح پھونکنے کی کوشش کی۔ بہرحال، گورباچوف محنت کشوں کے مفادات کی نمائندگی نہیں کر رہا تھا۔ اس کی اصلاحات کا مقصد افسران کی ’غیر قانونی‘ مراعات اور اختیارات کے خلاف جنگ کا آغاز کرنا تھا، جبکہ ’قانونی‘ مراعات میں برابر اضافہ کیا جا رہا تھا۔ اس کی حکومت میں پہلے ہی اجرتوں کی تفریق میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا، جس کا لینن سختی سے مخالف رہا تھا۔
”در حقیقت، گورباچوف کی تجاویز کا لینن کی جمہوریت یا حقیقی سوشلزم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ افسر شاہی محنت کش طبقے سے خوفزدہ تھی۔ قانونی و غیر قانونی اختیارات، رشوت اور چوری میں کمی کرنا لازم تھا۔ البتہ، ایسا کرتے ہوئے، گورباچوف افسر شاہانہ پرت کی مراعات میں مکمل مداخلت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ’جائز‘ مراعات میں اگر بڑھوتری نہ بھی ہوتی، انہیں کم از کم برقرار رکھنا وہ ضروری سمجھتا تھا۔“ (روس: انقلاب سے ردّ انقلاب تک)
ایک عرصے کے لیے یہ اصلاحات کچھ حد تک مؤثر رہیں، مگر وہ بنیادی طور پر سوویت یونین میں موجود بحران کا خاتمہ نہیں کر سکتی تھیں۔ یہ اس لیے کیونکہ بحران کی وجہ افسر شاہی تھی۔ اور جیسا کہ ٹیڈ گرانٹ لکھتا ہے، ”افسر شاہی کو محنت کش طبقے کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔“ گورباچوف کا ہدف افسر شاہی کو ہٹانا نہیں، بلکہ اس کی خرابیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے اس کے اقتدار کو پہلے سے مزید مستحکم کرنا تھا۔
جب اصلاحات ناکام ہوئیں تو بعض نے سرمایہ دارانہ مغرب کی کھلے عام نقالی کرنا مناسب سمجھا۔ پیٹی بورژوا جذباتی ذہنیت رکھنے والا گورباچوف یہ سمجھنے میں مکمل ناکام رہا کہ واقعات کس جانب بڑھ رہے ہیں۔ جیسا کہ ٹیڈ گرانٹ نے وضاحت کی:
”بند گلی میں پھنسی ہوئی حکومت کا سامنا ہوتے ہوئے، افسر شاہی کا ایک بڑھتا ہوا دھڑا نجات کے لیے مغرب کی طرف دیکھنے لگا، جو خود ابھی تک عارضی و مصنوعی ترقی سے گزر رہا تھا۔ افسر شاہانہ اشرافیہ کے نمائندگان نے مغرب کے دورے تیز کر دیے اور وہاں کے کروڑ پتیوں، سفارت کاروں اور صدور کے ساتھ ہاتھ ملانے لگے۔ انہوں نے اس پُر رونق نظارے کا موازنہ پچھلے جمود کے ساتھ کیا، اور ان کو اپنا ماضی کچھ زیادہ دلکش نہیں لگا۔ اسی طرح، افسر شاہی کے ایک دھڑے میں مغرب کو ماڈل سمجھنے کا خیال بتدریج مضبوط جڑ پکڑنے لگا۔
”یہ سوویت یونین اور وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کے مکمل نظریاتی دیوالیہ پن کا اظہار تھا۔ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اڑنے والے گورباچوف اور شیورد نادزے جیسے افراد کو سامنے لایا گیا۔ تمام افسران کی طرح، انہوں نے بھی اپنے طالب علمی کے دور میں مارکسزم لینن ازم کے نام پر پھیلائے جانے والی بکواس کو اپنا لیا تھا۔ مگر حقیقی مارکسزم ان کے لیے بند کتاب کی مانند تھا۔ ان کے پاس طبقاتی نقطہ نظر کے مکمل فقدان کی عکاسی گورباچوف کے ان احمقانہ بیانات سے ہوتی ہے کہ سرمایہ دار ’بھی انسان ہیں‘۔ بہ الفاظِ دیگر، مغربی قائدین کے ساتھ باہم مل بیٹھ کر بات چیت کی جا سکتی تھی اور آرام کے ساتھ اپنے اختلافات دور کیے جا سکتے تھے، جیسا کہ یہ سب محض ’ذاتی تعلقات‘ کا سوال ہو اور نہ کہ ان دو سماجی نظاموں کے ناقابلِ مفاہمت اختلافات کا سوال جو ایک ساتھ وجود نہیں رکھ سکتے!“ (روس: انقلاب سے ردّ انقلاب تک)
آخر میں، ظاہر ہے، پیریسترائیکا اور گلاسنوست نے جن تضادات کا آغاز کیا تھا اس کا نتیجہ دو ہی صورتوں میں ممکن تھا: یا سیاسی انقلاب، جس میں محنت کش طبقہ افسر شاہانہ جکڑ بندیوں کا تختہ الٹ کر سوویت یونین کے اندر حقیقی مزدور جمہوریت بحال کرتا، یا پھر سرمایہ داری کی جانب انہدام۔ محنت کشوں کی انقلابی، بالشویک لینن اسٹ قیادت کے بغیر سوویت یونین آخر الذکر راستے پر چل پڑا۔ عوام کے اوپر خوفناک اثرات مرتب ہوئے۔ 1990ء سے 1995ء تک، پیداوار میں 60 فیصد گراوٹ آئی۔ 1991ء سے 1993ء کے بیچ اجرتوں میں 43 فیصد کمی ہوئی۔ پسماندہ پرتوں کے حالات تیزی کے ساتھ بگڑنے لگے۔ جہاں خواتین کی اجرتیں ایک دور میں مردوں کی اجرتوں کا اوسط 70 فیصد ہوا کرتی تھیں، 1997ء تک یہ اوسطاً 40 فیصد تک گر گئیں۔ اس دوران، 1989ء کے بعد اموات کی شرح میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔
جہاں تک گورباچوف کا تعلق ہے، وہ اس کے بعد قابلِ نفرت شخصیت بن گیا۔ مغربی سامراجی اس کی تعریف میں آسمان سر پر اٹھا دیا کرتے تھے، جیسا کہ اس کی حالیہ برسی کے موقع پر بڑے روزنامہ اخباروں میں اس کو یاد کرتے ہوئے کیا گیا۔ مگر اسے جلد ہی روسی بورژوازی نے پیچھے دھکیلا، اور تب سے وہ ’پیزا ہٹ‘ کے اشتہار کے لیے بخوبی جانا جاتا ہے، اور سوویت یونین کے انہدام پر نوحہ کرتے ہوئے اس کے چند جذباتی بیانات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ٹیڈ گرانٹ لکھتا ہے:
”ریگن اور دیگر مغربی قائدین اگرچہ بظاہر گورباچوف کی تعریف کے پُل باندھا کرتے ہیں لیکن وہ پیٹھ پیچھے اس کے اوپر ضرور قہقہے لگاتے ہوں گے۔ سرد مہر اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے والے امریکی سیاستدانوں اور سفارت کاروں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ہوگا! یہ حادثاتی پیٹی بورژوا شخص تیزی کے ساتھ ان نفیس انسانوں کے سامنے جھک جانے کی منطق کی جانب مائل ہوتا گیا، جنہوں نے سوویت یونین کا گلا گھونٹ کر اسے گرانے کا ارادہ کر لیا تھا۔۔۔
”تمام ممکنات میں سے، گورباچوف روس کے اندر سرمایہ داری کی بحالی نہیں چاہتا تھا، پھر بھی اس نے اس کے لیے راہ ہموار کی اور اس کے بعد نو وارد بورژوازی کے دھڑے نے یلتسن کی قیادت میں اقتدار سنبھالتے ہی اسے ایک طرف پھینک دیا۔ بہرحال، وہ اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ نام نہاد اصلاحات کی واپسی ممکن نہیں، جبکہ اس کے بھیانک نتائج پر فضول سسکیاں بھی لے رہا ہے۔ اس حوالے سے، اس کی شخصیت بالکل مغرب کے سوشل ڈیموکریٹک قائدین کی طرح ہے، جو سرمایہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے جو اس کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔“ (روس: انقلاب سے ردّ انقلاب تک)
گورباچوف کے چاہے جو بھی ارادے رہے ہوں، اس کے اقدامات انقلابِ روس کی آخری باقیات کی تباہی میں مددگار ثابت ہوئے، جن کے اوپر چوروں اور بدمعاشوں کے ٹولے جھپٹ پڑے، جو آج تک روس پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ آئیے گورباچوف کی لاش کے ساتھ اس کے ورثے کو بھی دفن کریں۔