”خدا جسے برباد کرنا چاہیں، اسے پہلے پاگل بنا دیتے ہیں“۔
”اپنے دشمن سے کبھی نفرت نہ کرو۔ تمہاری قوت فیصلہ متاثر ہو سکتی ہے“ (مائیکل کورلیونی، دی گاڈ فادر)۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
12 جنوری 2024ء کی صبح کو امریکہ اور برطانیہ نے آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور ہالینڈ کی حمایت کے ساتھ یمن پر کروز میزائل اور ہوائی حملے لانچ کر دیے۔
اس حملے کا اعلان بڑے زور و شور سے کیا گیا۔ اسے ایسا بنا کر پیش کیا گیا جیسے یہ ایک اکلوتا قدم ہے جو بحیرہ احمر میں عالمی جہاز رانی پر مبینہ حوثی حملوں کا جواب ہے۔ یہ دعویٰ دو طرح سے جھوٹ ہے۔
پہلا دعویٰ، مغربی پروپیگنڈہ مشینری کی جانب سے پیش کردہ سوچا سمجھا جھوٹ، کہ یمن پر حملہ ایک اکلوتا واقعہ ہے جو نیلے آسمان سے اچانک بجلی کی طرح گرا ہے؛ سفید جھوٹ ہے۔
درحقیقت امریکہ اور اسرائیل پچھلے کئی ہفتوں سے لبنان، عراق اور بالخصوص شام میں، اہداف پر مسلسل بمباری کر رہے ہیں۔ لیکن اس سب کو خفیہ رکھا گیا ہے۔
یمن پر حملہ ان جارحانہ اقدامات کا ہی ایک شاخسانہ ہے۔
مزید براں، یہ جارحانہ اقدامات کے ایک ایسے عمل کا حصہ ہے جو ابھی تک اپنے حتمی ہدف تک نہیں پہنچ پایا ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور سفید جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ اس قدم کا اسرائیلی حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جن کے نتیجے میں غزہ میں 23 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔
اس نکتے پر خاص طور پر برطانوی وزیر خارجہ اور سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بہت زور دیا جس نے ایران، حوثیوں کے حامی، پر ”خطے میں ایک نقصان دہ کردار“ ہونے کا الزام لگایا۔
کیمرون کے الفاظ درحقیقت واشنگٹن میں بیٹھے اس کے آقا کی ہی نمائندگی کر رہے ہیں۔
لارڈ کیمرون واقعی ایک وفادار نوکر کا کردار نبھانے کے لئے بہترین شخص ہے۔ اس کا اشرافیہ والا لہجہ اور بے عیب آداب پی جی وڈہاؤس کے ناولوں میں بٹلر (ذاتی ملازم) ریجینالڈ جیوز کی یاد دلاتے ہیں۔
یہ برطانیہ کا آج کی دنیا میں حقیقی کردار ہے۔ ایک ثانوی قوت جس کے پاس ایک وفادار نوکر کے علاوہ اور کوئی کردار موجود نہیں جو وفاداری سے مالک کے تلوے چاٹ کر اس کا ہر حکم بجا لاتا ہے۔
کیونکہ بائیڈن اعلان کر چکا تھا کہ وہ ”اپنی عوام اور عالمی تجارت کے لئے مزید لازمی اقدامات کا حکم دینے کے لئے تیار ہے“، کیمرون کا اپنے مالک کے تلوے چاٹ کر حمایت کرنا انتہائی سطحی حرکت تھی۔
بہرحال وفادار نوکر نے فوراً ”آمین یا آقا“ کا اعلان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی ایک اور کردار، ”لیبر“ قائد کہلانے والا (لیبر پارٹی کا قائد) مسخرہ سر کیئر سٹارمر، فوراً گرتا پڑتا ہانپتا ہوا توقعات کے عین مطابق اعلان کرنے پہنچ گیا۔۔۔ ”میں بھی!“۔
کچھ ممبران پارلیمنٹ نے نحیف آواز میں شکایت کی کہ انہیں ان فضائی حملوں سے پہلے بحث مباحثے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن جلد ہی یہ دل سوز سسکیاں جنگی جنونیوں کی چیخ و پکار میں کچل دی گئیں۔ ظاہر ہے جب امریکی سامراجی مفادات داؤ پر لگے ہوں تو پارلیمانی جمہوریت کی کیا اوقات ہے؟
غزہ سے کوئی تعلق نہیں؟
یہ بکواس اور سفید جھوٹ ہے کہ اس حملے کا غزہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حوثیوں نے پہلے دن سے واضح کیا ہے کہ وہ جہاز رانی پر اس لئے حملے کر رہے ہیں کیونکہ اسرائیل غزہ میں عوام کا قتل عام کر رہا ہے اور وہ اس وقت تک یہ حملے جاری رکھیں گے جب تک طبی اور اشیائے خوردونوش کی امداد اس غمگین خطے کی لٹی پٹی اور تباہ حال عوام تک نہیں پہنچ جاتی۔
مغرب نے ان معاملات کو نظر انداز کیا ہے اور اس کی واضح وجوہات ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے بمباری کرنے کے لئے اجازت لینا مناسب نہیں سمجھا، اگرچہ یہ جارحیت ایک آزاد قوم کے خلاف تھی۔
غزہ کی عوام پر نیتن یاہو کی خونی جنگ کے آغاز سے اب تک بائیڈن اور اس کی حکومت جنوبی افریقہ کی حکومت کی نشاندہی کردہ نسل کشی کے دانستہ حامی بنے ہوئے ہیں۔
سیکورٹی کونسل میں امریکہ مسلسل اسرائیل پر جنگ بندی لاگو کرنے کی ہر کوشش کو ویٹو کر رہا ہے۔ اس وجہ سے اس نے بمباری کے قدم پر اجازت لینا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ اس کا اپنا عمل ویٹو ہو جانا تھا۔ اس کام کے لئے بانجھ اقوام متحدہ اور مضحکہ خیز ”عالمی قانون“ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔
اندھا بائیڈن
تاریخ واقعات سے بھری پڑی ہے جب حکمرانوں اور حکومتوں کی بیوقوفیوں کی وجہ سے حالات ہاتھوں سے نکل گئے۔ اگر حالیہ امریکی معیار سے موازنہ کیا جائے پھر بھی واشنگٹن میں موجودہ حکومت کی تنگ نظری اور جہالت حیران کن ہے۔
بائیڈن مسلسل چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ عالمی پالیسی اور سفارت کاری جیسے لوازمات سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اس دھوکے میں اندھا ہے کہ امریکہ اتنی دیوہیکل معاشی اور عسکری قوت ہے کہ وہ اس طرح کی تفصیلات کو پیروں تلے روند سکتی ہے اور پوری دنیا پر ننگی جارحیت کے ذریعے اپنی مرضی مسلط کی جا سکتی ہے۔
یہ درست ہے کہ امریکہ آج بھی دنیا کا سب سے امیر اور طاقتور ترین ملک ہے۔ لیکن یہ قوت لامتناہی نہیں ہے اور ہر روز اس کی حدود سفاکی سے عیاں ہو رہی ہیں۔
بائیڈن سرد جنگ کی غلیظ باقیات میں سے ایک ہے جب امریکہ کو سوویت یونین کی شکل میں ایک دشمن درپیش تھا۔ اس قوت کے انہدام کے بعد امریکی حکمران طبقے کا ایک حصہ اس دھوکے کا شکار ہو گیا کہ امریکہ دنیا میں واحد سپر پاور رہ گیا ہے اور اب پوری دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔
اُس وقت سابق سوویت یونین چوک پر بے یار و مددگار پڑا تھا، اس کی ساکھ پوری دنیا میں بکھری پڑی تھی اور اس کا قائد بورس یلتسن جیسا نشئی مسخرہ تھا جو امریکہ کا غلام تھا اور کسی روسی سرکس میں ناچنے والے بھالو کی طرح واشنگٹن کی ہر سیٹی پر ناچنے کو تیار تھا۔
لیکن تاریخ کا پہیہ آگے گھومتا ہے، اُن دنوں اور آج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ روس اب کمزور اور بانجھ نہیں رہا۔ یہ درست ہے کہ آج وہ ایک سرمایہ دار ملک ہے جس پر ایک خوفناک، خونخوار اور کرپٹ اقلیت مسلط ہے جس کا قائد ایک لڑاکا بدمعاش ہے۔ لیکن اب وہ کمزور اور بے یار و مددگار یقینا نہیں ہے۔
اس حوالے سے امریکیوں کو شام میں ایک شرمناک شکست کا سبق بھی مل چکا تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس تجربے سے کوئی ایک لازمی سبق نہیں سیکھا۔
انہوں نے دانستہ طور پر یوکرین کو روس کے ساتھ ایک لایعنی جنگ میں دھکیل دیا۔ اس جنگ سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا اگر اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جاتا کہ یوکرین NATO کا ممبر نہیں بن سکتا۔ لیکن انہوں نے زیلنسکی کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ایک ایسی جنگ میں کود پڑے جسے جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یوکرینی حکومت اور NATO میں اس کے حامیوں کو شرمناک شکست فاش ہو چکی ہے۔ اس خونی جنگ کو مزید گھسیٹنے کا مطلب یہی ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی اور انسانی جانوں کا ضیاع جاری رہے گا۔ لیکن حتمی نتیجہ ناگزیر ہے۔ پھر بھی بائیڈن اور اس کا ٹولہ یوکرینی خون کے آخری قطرے تک لڑنے مرنے کو تیار ہے۔
بائیڈن کی پالیسی کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہے بلکہ یہ سرد جنگ سے ورثے میں ملا جنون اور نفرت ہیں جو اسے مسلسل پاگل کئے جا رہے ہیں۔ جب بھی وہ پیوٹن سے متعلق کوئی بات کرتا ہے تو ان حقائق کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ پیوٹن کا نام منہ سے جھاگ اڑائے بغیر لینے کے قابل ہی نہیں ہے۔
بائیڈن کے لئے یہ سارا معاملہ ذاتی نوعیت کا بن چکا ہے۔ لیکن اس طرح خارجہ پالیسی نہیں چلائی جا سکتی۔ بائیڈن صاحب کو مافیا گاڈ فادر ڈان کورلیونی کے الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جب اس نے اپنے ایک پیروکار کو تنبیہ کی تھی کہ ”اپنے دشمن سے نفرت نہ کرو۔ تمہاری قوت فیصلہ متاثر ہو سکتی ہے“۔
یہ پچھلے کچھ عرصے میں واشنگٹن کی جاری بیوقوفانہ خارجہ پالیسی کا درست تجزیہ ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ اپنے مخالفین کے کردار، قابلیت اور عقل و فہم کو سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ لیکن دشمن کو کم تر سمجھنا ہمیشہ نقصان دہ پالیسی ہی رہی ہے۔
یوکرین جنگ کے آغاز سے مغربی پروپیگنڈہ مسلسل واویلا مچاتا رہا ہے کہ روس یہ جنگ نہیں لڑ سکتا جبکہ یوکرینیوں کی جنگی قابلیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس بیوقوفی کے آج سب کے سامنے نتائج واضح ہیں۔
آگے کیا ہو گا؟
یوکرین میں اپنی غلطی سے سیکھنے کی بجائے وہ ایک مرتبہ پھر اپنی غلطی دہرا رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کی وسعت، اس کا پھیلاؤ اور اس کے امکانات کئی گنا دیو قامت ہیں۔
خطے میں اپنی عسکری مداخلت کا جواز واشنگٹن یہ پیش کر رہا ہے کہ ”غزہ میں جاری جنگ کو خطے میں پھیلنے سے روکا جائے“۔ لیکن موجودہ قدم نے اس دعوے کو کھوکھلا اور جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ درپیش مسئلے کے تمام خدوخال اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ کیا منطقی نتیجہ نکلتا ہے۔
امریکیوں نے شیخی بگھاری ہے کہ یمن میں ان کے میزائلوں اور بمباری نے کئی اہداف کو نشانہ بنایا ہے اور اس کے ہولناک نتائج مرتب ہوئے ہیں۔
لیکن درحقیقت اس حملے کے کیا نتائج ہیں؟ کیا اس طرح حوثی جہاز رانی پر مزید حملے کرنے سے باز آ جائیں گے؟ اس کا فوری تیز و تند جواب حوثی ملیشیاء کے قائد نے اس دھمکی کے ساتھ دیا کہ ”جواب سخت اور موثر ہو گا“۔
امریکی واضح طور پر سمجھ رہے تھے کہ حوثی ایک آسان ہدف ہوں گے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ حوثی ایک خوفناک دشمن ہیں۔۔۔ سخت گیر، منظم اور ایک فولادی قوت جو دہائیوں سے مسلسل جنگیں لڑ رہے ہیں۔
پچھلے نو سالوں سے وہ سعودی ایئر فورس کے سامنے چٹان بنے کھڑے ہیں جسے امریکہ نے جدید ترین ہوائی جہازوں اور میزائلوں سے مسلح کر رکھا ہے۔
سعودیوں نے مسلسل ان کے فوجی اڈوں پر بمباری اور شہریوں کی دیوہیکل آبادی کا گولیوں اور بمبوں کے ذریعے قتل عام کیا ہے۔ معاشی ناکہ بندی کی خوفناک پالیسی اس کے علاوہ ہے جس کے ذریعے انہیں بھوکا رکھ کر مارا جا رہا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود حوثی مسلسل لڑ رہے ہیں، دشمنوں کو شکست فاش دے رہے ہیں اور دارالحکومت صنعاء سمیت ملک کے شمال مغرب پر اپنا تسلط بھی قائم کر لیا ہے۔ اس طرح کی جنگجو اور ثابت قدم قوت کو چند امریکی میزائل اور بم اپنے اہداف پورا کرنے سے باز نہیں رکھیں گے۔
یہ واضح ہے کہ حوثیوں کو عوام میں دیوہیکل حمایت حاصل ہے۔ اس کا اظہار امریکی اور برطانوی افواج کی بمباری کے بعد لاکھوں غصیلے یمنیوں کے احتجاج میں ہو چکا ہے۔
یہ خیال کہ ایک فضائی بمباری ان لوگوں کو ڈرا دے گی، بہت بڑی غلطی تھی۔ اس کا نتیجہ بالکل اُلٹ نکلا ہے۔۔۔ عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور قائدین کے اعصاب مزید پختہ ہو گئے ہیں جو جارح سے انتقام لینے کی قسمیں کھا رہے ہیں۔
یہ انتقام کیا ہو گا؟ پورے خطے میں امریکی فوجی اڈوں اور تنصیبات پر حملے؟ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ امریکی اور برطانوی جنگی بحری جہازوں پر حملے؟ یہ کہنا مشکل ہے لیکن لگتا نہیں کہ حوثیوں کے پاس ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لئے درکار فوجی صلاحیت یا سامان موجود ہے۔
لیکن بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی پر مزید حملے؟ یہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ حوثیوں کے پاس ان حملوں کی صلاحیت موجود ہے۔ ظاہر ہے یہ حملے جاری رہیں گے بلکہ ان کی شدت میں اضافہ بھی ہو گا۔
امریکہ نے یمن میں مزید حملے بھی کئے ہیں جس سے تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اور وسیع پیمانے پر جنگ کے امکانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ لیکن جتنی مرضی فضائی بمباری کر لی جائے، حوثیوں کو بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی کی تباہی پھیرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
بہت کم عرصے میں ان حملوں کی غیر فعالیت اور بانجھ پن واضح ہو جائے گا۔ امریکہ ایک غریب اور پسماندہ ملک کے سامنے کمزور اور بانجھ نظر آئے گا۔ پھر کیا ہو گا؟
اب ہم معاملے کی بنیاد تک جا پہنچے ہیں۔ حقیقی ہدف یمن، لبنان، شام یا عراق نہیں بلکہ ایران ہے جسے امریکی سامراجی ایک طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں درپیش تمام مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔
یہ کوئی حادثہ نہیں کہ وہ مسلسل حوثیوں کو ایران کی پراکسی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ مسلسل بحث کر رہے ہیں کہ ان کے تمام اقدامات کے پیچھے ایران کا خفیہ ہاتھ ہے۔
اگرچہ یہ درست ہے کہ ایران حوثیوں کی معاونت کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ محض ایران کی پراکسی ہیں یا تہران کا ہر حکم من و عن تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اگر وہ حوثیوں پر کوئی دباؤ ڈالنا بھی چاہیں تو غزہ میں اسرائیل اور امریکہ کی ہولناک جارحیت ان کو کوئی ایک جواز فراہم نہیں کرتی۔
بہرحال امریکہ اور اس کے اتحادی تہران پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہو سکتا۔ ایران پر جارحانہ اقدامات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جس کے مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں پر انتہائی سنجیدہ اور دیوہیکل اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ امریکی سامراج کے کسی ایسے ایک قدم کے انتہائی خطرناک نتائج ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں پورے خطے کے اندر ہر امریکی فوجی اڈہ، ہر تنصیب، ہر تیل کا کنواں، ہر کاروبار اور تمام امریکی مفادات نشانے پر ہوں گے۔
یہ سب درست ہے اور واشنگٹن میں ایسے کسی قدم کی مخالفت ضرور ہو رہی ہو گی۔۔۔ ہو سکتا ہے یہ مخالفت خود پینٹاگان سے ہو رہی ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا کوئی قدم اٹھانا ممکن نہیں ہے۔
اگرچہ اس وقت وہ یوکرین کی خوفناک دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے وسائل، اسلحہ اور گولہ بارود خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں لیکن اب وہ اور بھی بڑی دلدل میں ڈوبنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
یمن پر حملے نے خطے کے ہر ملک میں عوام کے غم و غصے کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ یہ غم و غصہ حملے سے پہلے موجود تھا لیکن اب پورا خطہ بارود کی ایک ڈھیری بن چکا ہے جو کسی بھی لمحے میں ایک دھماکے سے پھٹ سکتا ہے۔
پہلے ہی دیگر ممالک اس لپیٹ میں آ رہے ہیں۔۔۔ لبنان، شام اور عراق۔ لیکن اب اس خطے میں کوئی ایک مستحکم حکومت یا ریاست نہیں بچی۔
لارڈ کیمرون نے خبردار کیا تھا کہ ”یاد نہیں پڑتا کہ دنیا کبھی اتنی غیر مستحکم، خطرناک اور غیر یقینی رہی ہو“۔ وہ غلط نہیں ہے۔ لیکن اپنے اقدامات اور اپنے اعمال کے ذریعے امریکی اور برطانوی سامراجی جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ حتمی تجزیے میں مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کی عوام اس کی قیمت ادا کرے گی۔