عراق: احتجاجی مظاہروں سے پورا ملک لرز اٹھا!

یکم اکتوبر سے دیو ہیکل احتجاجوں اور ریڈیکل مظاہروں نے پورے عراق کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ اس مرتبہ بغداد سے شروع ہونے والی یہ بغاوت تیزی سے پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ عراقی افواج اور پولیس نے شدید ظلم و جبر کیا ہے جس کی وجہ سے کم از کم 150 اموات ہو چکی ہیں (کچھ ذرائع کے مطابق 300 سے زائد) اور 6ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ لیکن اس خوفناک کریک ڈاؤن کے باوجود احتجاج نہیں رکے۔ 8 اکتوبر کے بعد ان میں ٹھہراؤ آیا ہے لیکن 25 اکتوبر کو پھر سے ملک گیر احتجاج کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔(یہ آرٹیکل جمعہ کو ہونے والے مظاہروں سے قبل لکھا گیا تھا۔ جمعے کے روز بھی بغداد، الناصریہ اور بصرہ سمیت پورے عراق میں مظاہرے ہوئے جن پر بدترین ریاستی جبر کیا گیا جس کے نتیجے میں 30افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ 100سے زائد مظاہرین زخمی ہیں۔)

[Source]

عراقی حکومت کا خوف

پچھلے سال جنوبی شہر بصرہ میں مضرِ صحت پانی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور کرپشن پر کئی ہفتے شدید احتجاج ہوئے۔ حالیہ چند سالوں میں موسمِ گرما میں احتجاج ہونا اب انہونی نہیں رہا کیونکہ شدید گرمی اور بنیادی ضرورتوں، جیسے پانی اور بجلی، کی حکومتی نااہلی کی وجہ سے عدم فراہمی سماجی پارہ آسمان پر چڑھا دیتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ یکم اکتوبر کو 3 ہزار افراد کے مارچ کے ساتھ بغداد میں احتجاج خودرو انداز میں شروع ہوئے۔

لیکن پرامن احتجاج پولیس کی فائرنگ، ربڑ گولیوں اور آنسو گیس شیلنگ کی بوچھاڑ میں انتشار کا شکار ہو گیا۔ مظاہرین عراقی جھنڈے اٹھائے حکومت مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے گرین زون پہنچے تھے۔ کئی مظاہرین نے سیکیورٹی فورسز کے حملے کا جواب پتھراؤ سے دیا۔ کئی زخمی اور خون رِستے افراد کو طبی امداد کے لئے اٹھا کر نکالا گیا جبکہ پہلے دن کئی فراد کی اموات ہوئیں۔ اس کے بعد مظاہرے تیزی سے العمارہ، دیوانیہ، ذی قار، حِلہ، بصرہ اور ناصریہ سمیت کئی شہروں میں پھیل گئے۔ بے چینی تیزی سے ہزاروں لاکھوں افراد کی دیو ہیکل تحریک میں تبدیل ہو گئی جس میں زیادہ تر افراد کی عمر 20 سال سے کم ہے۔ اس وجہ سے وزیرِ اعظم عادل عبدل المہدی کی ایک سالہ پرانی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

مذکورہ بالا شہروں میں پولیس اور فوج نے بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ صرف 5 دنوں میں 100 اموات ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر سیکیورٹی فورسز کے خوفناک حملوں کی ویڈیوز چل رہی ہیں۔ مندرجہ ذیل ویڈیو میں ایک 10 سالہ بچے کو صرف جھنڈا لہرانے پر گولی مار دی گئی۔ اس کو گولی مارنے کے بعد تقریباً 10 افراد نے گولیوں کی بوچھاڑ میں بھاگ کر اسے بحفاظت نکال لیا۔ خوف شدید غم و غصے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

احتجاجوں کی وجوہات کیا ہیں؟

عراق میں مئی 2018ء کے انتخابات کے بعد مقتدی الصدر کا سائرون اتحاد (اصلاحاتی اتحاد) پارلیمنٹ میں سب سے بڑا بلاک بن کر ابھرا جس میں شامل اہم پارٹیاں شیعہ اسلامی الصدری تحریک سے تعلق رکھنے والی سالمیت پارٹی اور عراقی کمیونسٹ پارٹی ہیں۔ الصدر کی کامیابی کی بنیادی وجہ اس کی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازی ہے جس نے پورے ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کی ترجمانی حاصل کر لی۔ ایک آزاد شیعہ امیدوار کے طور پر عبدل المہدی کو وزیرِ اعظم کی نشست کے لئے دو بلاکوں نے اکتوبر 2018ء میں نامزد کیا، ایک الصدر اور العبادی جو پہلے وزیرِ اعظم رہ چکا تھا اور دوسرا ایرانی نواز ہادی الامیری اور سابق وزیرِ اعظم نوری المالکی۔ لیکن ایک سال گزرنے کے بعد بھی عراقی معیشت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

غم و غصے کی بنیاد تباہ حال معیشت ہے جو اب ایک دھماکے کے ساتھ اپنا اظہار کر رہی ہے۔ عراق کے دنیا میں چوتھے بڑے تیل کے ذخائر ہیں لیکن 4 کروڑ آبادی کے ملک میں 22.5 فیصد افراد 1.90 ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران 16 فیصد گھرانے کس نہ کسی طرح اشیائے خوردونوش کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

اگرچہ بیروزگاری کے اعدادوشمار کبھی بھی ایمانداری سے پیش نہیں کئے گئے لیکن یہ سرکاری 7.9فیصد اور نوجوانوں میں 16 فیصد سے بہت زیادہ ہے۔ ملک داعش کے ساتھ خونریز جنگ لڑنے کے بعد دوبارہ پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا ہے جس نے 2014ء میں ملک کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق 10 لاکھ سے زائد افراد ابھی بھی داخلی مہاجرین ہیں جبکہ 67 لاکھ افراد کو فلاحی امداد کی ضرورت ہے۔

ریڈیکل احتجاج

یہ واضح ہے کہ ان حالات میں مظاہرین کے پاس کھونے کو کچھ خاص نہیں اور وہ تحریک کو مزید بڑھانے کے لئے پرعزم ہیں۔ پرامن مظاہروں پر خوفناک ریاستی جبر نے ان میں شدید غصہ اور نفرت بھر دی ہے جس کی وجہ سے مظاہروں کا کردار اور بھی زیادہ ریڈیکل ہو گیا ہے۔ ایک 43 سالہ بیروزگار انجینئر عباس ناجِم کا کہنا تھا کہ عراق نے 16 سال کرپشن اور ناانصافی برداشت کی ہے:

”ہم گولیوں یا شہیدوں ہونے سے نہیں ڈرتے۔ ہم آگے بڑھتے رہیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے“۔

احتجاج تیزی کے ساتھ زیادہ ریڈیکل اقدامات کی طرف گئے ہیں۔ عوامی جتھوں نے ناصریہ میں دعوہ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی اور دیگر کئی سیاسی پارٹیوں کے ہیڈکوارٹروں کو آگ لگا دی جبکہ میسان میں صوبائی عمارت کو بھی آگ لگا دی گئی۔

عراق میں سیاسی اور مذہبی منافرتیں بہت گہری ہیں اور عام طور پر احتجاج کوئی پارٹی یا فرقہ منظم کرتی ہے۔ اس حوالے سے یہ احتجاج انتہائی منفرد ہیں۔

BBC کی سیمونا فولٹین کا کہنا ہے کہ

”ابھی تک جن مظاہرین سے میری بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے جس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔۔مرد، عورتیں، گریجویٹ، بیروزگار، بزرگ۔ انہوں نے کسی بھی سیاسی پارٹی کی مداخلت سے انکار کیا ہے۔۔یہ سب لوگ درحقیقت تمام حقوق سے محروم ہیں اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے شدید مایوس ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام مظاہرین ایک بات پر متحد ہیں کہ انہیں ایک اچھی زندگی چاہیے۔ انہیں سہولیات اور نوکریاں چاہئیں اور وہ اپنے معیارِ زندگی کو بہتر کرنا چاہتے ہیں“۔

سنگاپور یونیورسٹی کے مشرقِ وسطیٰ انسٹیٹیوٹ میں ماہر فنر حداد کا بھی کہنا ہے کہ ”ہم پہلی مرتبہ سن رہے ہیں کہ عوام حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے“۔

عراقی محض کسی لیڈر یا سیاسی پارٹی کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ 2003ء میں امریکی لشکر کشی کے بعد بنایا گیا سیاسی نظام ختم کیا جائے۔۔ایک ایسا نظام جو ناکام ہو چکا ہے۔ ان کا نعرہ ”حکومت کا خاتمہ“ وہی نعرہ ہے جو 2011ء کے مصری انقلاب میں مصری عوام نے لگایا تھا۔

یہ صورتحال انتہائی اہم ہے اور حقیقی انقلابی موڈ کی عکاس ہے۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ مظاہرین ہر قسم کی فرقہ واریت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ پرانے فریب اور عقائد، یعنی مخصوص سیاست دان ہی مخصوص فرقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، دم توڑ رہے ہیں۔ اگرچہ احتجاج ابھی صرف شیعہ علاقوں میں ہی ہوئے ہیں لیکن سنی مسلمانوں اور خاص طور پر نوجوانوں نے بھرپور اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔

موصل سے نوجوان سنی مسلم عمر نے سڑکوں سے سنی عدم موجودگی بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ”اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمیں داعش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگر ہم احتجاج کریں گے تو ہمیں سڑکوں سے اٹھا کر خفیہ جیلوں میں پھینک دیا جائے گا۔ لیکن ہم بھی استحصال زدہ ہیں اور ہم بھی باقی عوام کی طرح برباد ہیں۔۔ شائد کچھ زیادہ ہی ہوں“۔

لیکن بغداد میں احمدیہ جیسے مخلوط علاقوں میں سنیوں نے احتجاجوں میں حصہ لیا ہے۔ ان میں سے کچھ نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے اور ان میں وہی طبقاتی غم و غصے کے جذبات موجود ہیں جنہوں نے شیعہ نوجوانوں کو بغاوت پر مجبور کیا ہے۔

نوجوانوں میں یہ فریب تیزی سے ختم ہو رہا ہے کہ شیعہ اور سنی فرقوں کے مفادات مختلف ہیں۔ بغداد میں ہزاروں افراد نے نعرے بازی کی کہ ”ہم بھائی بھائی ہیں، چاہے شیعہ ہوں یا سنی، ہم اپنا ملک نہیں بیچیں گے!“

اگر حکومت بہتر سہولیاتِ زندگی فراہم نہیں کر پاتی تو پھر احتجاج ہر صورت سنی علاقوں میں بھی پھیل جائیں گے۔ بلاآخر عوام سیکھ رہی ہے کہ ان کے حقیقی دوست اور دشمن کون ہیں۔

کنٹرول بحال کرنے کی حکومتی کوششیں

حکومت کا ردِ عمل محض مظاہروں کو کنٹرول کرنے تک محدود ہے۔ 3 اکتوبر کو عراق کا 75 فیصد انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا تاکہ مظاہرین کی منظم ہونے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ اس کا الٹ اثر پڑا۔ کئی لوگ تو سڑکوں پر یہ دیکھنے نکل پڑے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ جو ظلم و ستم اور جبر انہوں نے سڑکوں پر دیکھا اس کی وجہ سے احتجاج مزید ریڈیکل ہو گئے۔

حالیہ رپورٹوں میں یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ سیکورٹی فورسز اپنے رویے پر بولنے والوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہے ہیں۔

مثلاً ایک 28 سالہ وکیل عل جاسب ال حتاب اور 51 سالہ ڈاکٹر محمد رحیم ال حیلو کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ سیکورٹی فورسز کی پوری کوشش ہے کہ مظاہرین میں خوف و ہراس پھیلایا جائے اور دھمکایا جا رہا ہے کہ فیس بک پر ان کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کے خلاف آواز اٹھانی بند کی جائے ورنہ انہیں بھی قتل کر دیا جائے گا۔

پارلیمانی لیڈر محمد ال حالبوسی نے مظاہرین کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”تمہاری آواز سنی جا رہی ہے“۔ لیکن مظاہرین اس طرح کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ایک احتجاجی کا کہنا تھا کہ ”یہ ہمارے نمائندے نہیں۔ ہمیں اب اور مزید پارٹیوں کی ضرورت نہیں۔ کوئی بھی ہمارے لئے نہ بولے“۔

22 سالہ بیروزگار یونیورسٹی گریجویٹ علی نے کہا کہ ”ہم اس وقت تک ڈٹے رہیں گے جب تک یہ حکومت ختم نہیں ہو جاتی۔ میری جیب میں اس وقت صرف 250 لیرا ہیں (0.20 ڈالر، 0.16 پونڈ) جبکہ حکومتی اہلکاروں کے پاس کروڑوں ہیں“۔

سیاست دان پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان مظاہروں کو کسی طرح ختم کیا جا سکے۔ مہدی اس وقت استعفیٰ دینے کا سوچ رہا ہے جبکہ ایران اس کی ایران نواز حکومت قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ تہران کے خیال میں یہ حکومت عراق میں امریکی اثرورسوخ کا سدِ باب کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

یہ واضح ہے کہ صدر اور امیری اتحاد حقیقت پسندانہ وجوہات کی بناء پر مہدی حکومت کو جاری رکھنا چاہتا ہے کیونکہ وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کے بعد مظاہرین اور زیادہ شیر ہو جائیں گے اور صورتحال بہت زیدہ خطرناک ہو جائے گی۔ لیکن صدر نے ایک اعلامیے میں مہدی حکومت کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے مظاہرین کو کہا ہے کہ وہ احتجاج جاری رکھیں۔ لیکن یہ اعلامیہ بذاتِ خود متضاد ہے کیونکہ مہدی کو حکومت میں بٹھانے والا خود صدر ہے اور اس کے خفیہ مذاکراتی عبدل مہدی کو مستعفی نہ ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ درحقیقت صدرخود مہدی حکومت کا حصہ ہے۔

صدر کی تحریک پچھلے چار پانچ سالوں سے عوامی مظاہروں کو منظم کر رہی ہے۔ لیکن حکومت میں شمولیت اختیار کرنے اور ایران سے کئی مراعات حاصل کرنے کے بعد صدر نے احتجاج بند کر دیے۔ لیکن عوام اس سال پھر احتجاجوں پر باہر نکلے جن میں سب سے زیادہ پرجوش احتجاج بغداد میں صدر کے اپنے علاقے صدر شہر میں ہوئے۔ اس وجہ سے صدر دوغلی پالیسی پر کاربند ہے کہ وہ اپنے حامیوں کے سامنے بدترین دھوکہ دہی کی پردہ پوشی کرر ہا ہے جو بڑی تعداد میں احتجاجوں میں شریک ہو رہے ہیں اور اس مُلا سے تنگ آتے جا رہے ہیں۔

مظاہروں کا اگلا دور

مظاہروں کا اگلا دیو ہیکل دور 25 اکتوبر سے شروع ہونے جا رہا ہے۔ مظاہرین ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیاں جیسے صدر کی پارٹی ان مظاہروں میں گھس کر انہیں کنٹرول کرنے کی کوششیں کریں۔ لیکن زیادہ تر مظاہرین اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹ رہے بلکہ نئے مطالبات سامنے لے کر آ رہے ہیں۔ کسی تنظیم کی عدم موجودگی یا غیر منظم ہونے کی وجہ سے یہ مطالبات سوشل میڈیا پر پھیلائے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ ممبر پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں فوری کٹوتیاں۔

2۔ سیاسی پارٹیوں کے فنانشل معاملات پر ٹھوس کنٹرول اور ان کے ذرائع آمدن کی شفافیت۔

3۔ ملکی دولت کی عوام میں تقسیم اور مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ تاکہ وزراء اور دیگر نوکریوں میں کوئی فرق نہ رہے۔

4۔ توانائی کے لئے متبادل ذرائع یعنی شمسی پینل پلانٹ، ہوا سے توانائی اور کوڑا کرکٹ سے توانائی کا حصول۔

5۔ تیل کی فروخت سے ہر عراقی کو ماہانہ تنخواہ۔

6۔ گریجویٹ، بیروزگار اور ضرورت مندوں کے لئے بنیادی تنخواہ۔

7۔ رہائش کی تعمیر، خاص طور پر غرباء کے لئے۔

یہ مطالبات طبقاتی مواد سے لبریز ہیں اور ان میں پورے نظام کے خلاف نفرت اور بداعتمادی چھلک رہی ہے۔ مظاہرین اس کرپٹ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اب سیاست دانوں کے وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، وہ پوری حکومت سے چھٹکارا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بیرونی سامراجی مداخلت سے بھی جن میں خاص طور پر امریکہ اور ایران شامل ہیں۔ انقلابی عوام اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی ہے۔

کئی ذرائع کے مطابق ایک عنصر جس کی وجہ سے احتجاج پھٹ پڑے، 28 ستمبر کو سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عبدل وہاب السعد ی کی برطرفی تھا۔ کئی عراقی السعدی سے ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ داعش کے خلاف جنگ میں اس کا ایک کلیدی کردار تھا۔ انہیں لگتا ہے کہ ایک قومی ہیرو صرف اس وجہ سے اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے کیونکہ وہ کرپشن اور سیاسی طبقے کے خلاف اپنے انسدادِ دہشت گردی سروسز (CTS) سے جدوجہد کر رہا تھا۔

لیکن السعدی جیسے افراد کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی مغالطہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ اس کی برطرفی کی سب سے اہم وجہ ریاست میں موجود ایرانی نواز قوتوں کا فوج پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہو سکتی ہے۔ السعدی کا احتجاجوں اور کسی قسم کے انقلاب سے دور دور کا تعلق نہیں۔ السعدی کی برطرفی محض حکمران طبقے کے دو حصوں کی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے جن میں سے ایک ایران نواز ہے اور ایک امریکہ نواز۔ عوام حکمران طبقے کے کسی حصے پر اعتبار نہیں کر سکتے جن کے مفادات عوام سے یکسر مختلف ہیں۔

ایک سوشلسٹ پروگرام کی جدوجہد لازم ہے!

تحریک کی سب سے اہم کمزوری نظم و ضبط، قیادت اور ایک واضح انقلابی پروگرام ہے۔ تحریک کی کامیابی اور عوامی امنگوں کی فتح کے لئے یہ لازم و ملزوم ہیں۔

عراقی کمیونسٹ پارٹی نے محنت کش طبقے کو سنگین دھوکے دیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ وہ ایک جرأت مند سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر عوام کی قیادت کرنے کے اہل نہیں۔ اس لئے سب سے لڑاکا اور سرگرم طبقاتی جنگجوؤں کا یہ انقلابی فریضہ ہے کہ وہ دوبارہ سے مضبوط مارکسی بنیادوں پر کمیونسٹ تحریک تعمیر کریں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ سماج کی بالائی سطحوں پر بیٹھے سیاست دان کتنی بار تبدیل ہوتے ہیں۔ عراق میں سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طفیلیے عراقی سرمایہ دار طبقے کے تمام ذرائع قبضے میں لے کر ایک جمہوری مزدور ریاست کا اقتدار قائم کیا جائے جس کی بنیاد عوامی قوت ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ تحریک کو مشرقِ وسطیٰ میں پھیلاتے ہوئے خطے کی دیگر استحصال زدہ عوام کے ساتھ جڑت بنانے کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے جو خود انہی آلام و مصائب سے دوچار ہیں۔ لبنان میں عوامی احتجاج محنت کش طبقے کو سکھا رہے ہیں کہ کس طرح یکجہتی قومی سرحدوں کو پھاڑ کر آگے بڑھ کر مزدوروں کے مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرتی ہے جو دنیا کے ہر ملک کا صرف اور صرف حکمران طبقہ اور سامراجی قوتیں ہیں جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کو تاخت و تاراج کر کے رکھ دیا ہے۔