پچھلے سال پوری دنیا میں حکومتوں نے حیرت انگیز ریاستی امداد کے ذریعے لرزتی سرمایہ داری کو قائم رکھا۔ لیکن ان ہیجانی اقدامات نے عالمی معیشت کی بنیادوں میں بارود بھر دیا ہے۔ اس بارود کے پھٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ آج سے سو سال پہلے جون 1921ء میں لیون ٹراٹسکی نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تیسری کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے عالمی معاشی صورتحال کا تجزیہ کیا اور سرمایہ داری کے حوالے سے تناظر پیش کیا۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کمنٹرن کے الٹرا لیفٹ ممبران نے پیش گوئی کی تھی کہ عالمی جنگ ”سرمایہ داری کے حتمی بحران“ کی بنیاد بنے گی کیونکہ سرمایہ داری کے تمام تضادات پھٹ کر سامنے آ چکے ہیں۔
لیکن اس کے برعکس حکمران طبقے نے جنگ کے بعد یورپ میں ابھرنے والی انقلابی لہر کی شکست کے ساتھ عالمی صورتحال پر قابو پا لیا اور نظام کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے نتیجے میں ایک مخصوص معاشی بحالی کے لئے سیاسی بنیادیں فراہم ہو گئیں۔
ٹراٹسکی نے اس مظہر کی تشریح کرتے ہوئے اس ”اٹھان“ پر خوشی سے نڈھال بورژوازی کو جواب بھی دیا۔ ٹراٹسکی نے کہا کہ:
”اپنے اندرونی تضادات کے زیرِ اثر سرمایہ داری ایک سیدھی لکیر کے بجائے پیچیدہ انداز میں عروج و زوال کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ اسی بنیاد پر سرمایہ داری کے معذرت خواہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنگ کے بعد اٹھان اور ابھار دیکھنے کو ملا ہے اس لئے اس بہترین سرمایہ دارانہ نظام کی دنیا میں تمام عوامل مل کر بہترین کام کر رہے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جنگ کے بعد سرمایہ داری کا گھن چکر مسلسل جاری ہے، اس کا محض مطلب یہ ہے کہ سرمایہ داری ابھی تک مری نہیں اور ہمارا سامنا ایک لاش سے نہیں ہے۔ جب تک سرمایہ داری کو محنت کش طبقہ اکھاڑ کر نہیں پھینکے گا تب تک یہ اپنے گھن چکر میں مسلسل ابھار اور بحران میں زندہ رہے گی۔ ابھار اور بحران سرمایہ داری کی پیدائش سے ہی اس کا خاصہ ہیں اور یہ اس نظام کے قبر میں اترنے تک ساتھ رہیں گے۔ لیکن سرمایہ داری کی عمر اور عمومی حالت کو سمجھنے کے لیے، کہ یہ ابھی بھی ترقی پذیر ہے یا پختہ عمر ہو چکی ہے یا انحطاط پذیر ہے، اس کے گھن چکروں کی تشخیص کرنا لازمی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ممکن ہے جیسے ایک انسانی حیات کی تشخیص کی جا سکتی ہے کہ اس کی سانسیں باقاعدہ ہیں یا بے قاعدہ، گہری ہیں یا سطحی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ سانسوں کی ساخت اور نبض کی دھڑکن کے ذریعے یہ جاننا ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ حیات کی عمومی حالت کیا ہے“۔
لڑکھڑاتی معیشت
ایک صدی پہلے اپنے اجداد کی طرح آج کا حکمران طبقہ بھی سکھ کا سانس لے رہا ہے کہ ان کا نظام زندہ بچ گیا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے سرمایہ داری زندگی سے بھرپور اور متحرک ہے اور کم ازکم ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں رواں سال کے دوران مضبوط بحالی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ سال 2020ء میں عالمی کل مجموعی پیداوار (GDP) میں 3.3 فیصد کمی واقع ہوئی اور اب IMF اس سال 6 فیصد اور سال 2022ء میں 4.4 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان تخمینوں کے مطابق معیشت تیزی سے بحال ہو کر کرونا وبا سے پہلے والی سطح پر چلی جائے گی۔
پہلی نظر میں لگتا ہے کہ بڑی جاندار بحالی ہے۔ جب کورونا وبا پہلی مرتبہ پھیلنا شروع ہوئی تو عالمی معیشت دھڑام سے گر پڑی اور ایسا لگ رہا تھا کہ 1930ء کی دہائی کا معاشی بحران دوبارہ سے نموار ہو رہا ہے۔ سال 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں امریکہ، یورپ اور برطانیہ کے GDP میں 10سے 20 فیصد گراوٹ ہوئی جو 1929ء کے گریٹ ڈپریشن کے بعد کسی بھی سہ ماہی میں سب سے بڑی گراوٹ ہے۔
یہاں تک کہ پچھلے سال اکتوبر میں IMF پیش گوئی کر رہا تھا کہ کرونا بحران سے بحالی سست رو ہو گی اور لگے ”گھاؤمستقل“ ہوں گے۔
بالآخر حکمران طبقے کے ہیجانی اقدامات کے نتیجے میں سرمایہ داروں کے بھیانک ترین خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکے اور نظام لڑکھڑاتا ہوا اب تک قائم ہے۔
سماج کے لاک ڈاؤن میں داخل ہونے کے ساتھ حکومتوں نے معیشت میں بے مثال مداخلت کرتے ہوئے سرمایہ داری کو زندہ رکھا۔ اس بنیاد پر ممکنہ گراوٹ اور سماجی ابھار کو روک دیا گیا۔
IMF کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق حکومتیں مالیاتی سپورٹ کے پیکجز کے ذریعے اب تک 16 ٹریلین ڈالر خرچ کر چکی ہیں۔ مقداری آسانی اور پیسہ چھاپ چھاپ کر قومی قرضوں میں اضافہ کر کے مرکزی بینک معیشت میں 10 ٹریلین ڈالر ڈال چکے ہیں۔ لیکن مکمل انہدام سے بچنے کی ایک قیمت ہے۔ ٹراٹسکی کے الفاظ میں ”ہمارا سامنا ایک لاش سے نہیں ہے“۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس کی تشریح کردہ ”سرمایہ دارانہ حیاتی“ کی ماضی کے مقابلے میں آج سانسیں اکھڑ رہی ہیں، اس کا دل اور پھیپھڑے اہم اعضاء کو آکسیجن فراہم کرنے کے لئے زیادہ زور لگا رہے ہیں۔
سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ مکمل انہدام سے بچنے کے بعد اب سرمایہ داروں کو فکر لگی ہے کہ معیشت بالکل ہی دوسری سمت چل پڑی ہے یعنی اس وقت معیشت تیزی سے بڑھتے ہوئے بے قابو ہو رہی ہے۔ فنانشل ٹائمز میں مارٹن وولف نے تبصرہ کیا کہ ”سرمایہ کاروں پر افراطِ زر کا بھوت منڈلا رہا ہے“۔
عارضی بحالی، مستقل بحران
سرمایہ دار معیشت کی بحالی کی ”معمول کی طرف واپسی“ پر بغلیں بجا رہے ہیں لیکن عالمی معیشت کا اس وقت بہت سے طوفان گھیراؤ کر رہے ہیں۔
سابق امریکی وزیر خزانہ لیری سمرز کے مطابق سب سے پہلا مسئلہ پچھلے ایک سال میں لاگو کردہ ”حیران کن ڈھیلی مالیاتی شرائط“ اور توسیع پسند مالیاتی پالیسیاں ہیں جن کا مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے۔
اس میں بے پناہ رکی ہوئی مانگ بھی شامل ہے کیونکہ صارفین وبائی پابندیوں کی وجہ سے خرچہ نہیں کر پا رہے تھے اور ان کے پاس پیسہ جمع ہو رہا تھا۔ کچھ اندازوں کے مطابق یہ ذاتی بچت برطانیہ جیسے ممالک میں GDP کے 10 فیصد تک ہو سکتی ہے (اگرچہ عوام میں اس کی تقسیم انتہائی نا ہموار ہے)۔
اب لاک ڈاؤن ختم ہو رہے ہیں اور معیشت جمود سے باہر آ رہی ہے۔ اس وقت دو اضافی مانگیں۔۔حکومتی اور گھریلو۔۔اکٹھی منڈی میں داخل ہو رہی ہیں۔
لیکن منڈی کے انتشار میں نام نہاد ”خفیہ ہاتھ“ پیداوار کو مانگ کے مطابق تیزی سے بڑھا نہیں سکتا اور اس وجہ سے رکاوٹیں اور قلتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ عالمگیریت بھی پسپا ہو رہی ہے جس سے عالمی سپلائی چینز کو بھی از سرِ نو ترتیب کرنا پڑ رہا ہے۔ تاریخ کی کم ترین سرمایہ کاری کی موجودگی میں پیداوار نہیں بڑھے گی۔
نتیجتاً مانگ میں اچانک اضافہ اس وقت براہِ راست سپلائی کی قدغنوں سے ٹکراا رہا ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ افراطِ زر یعنی قیمتوں میں عمومی اضافہ ہو گا۔
خطرے کی گھنٹیاں
ابھی سے افراطِ زر کا اعدادوشمار میں اظہار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر اس سال اپریل میں سال 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سب سے بلند شرح سالانہ افراطِ زر 4.2 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ یہ شرح پچھلے ماہ کے مقابلے میں 2.6 فیصد زیادہ ہے۔
ہر کاروبار بڑھتی قیمتوں کی رپورٹ دے رہا ہے جس میں اسٹیل سے لے کر بحری مال برداری اور سیمی کنڈکٹرز تک سب شامل ہیں۔
اس کے ساتھ سستے قرضوں کی وجہ سے کئی اثاثوں کے دیو ہیکل بلبلے بن چکے ہیں جن میں اسٹاک اور شیئرز، پراپرٹی، کرپٹو کرنسی اور سٹے بازی کی نئی انواع و اقسام شامل ہیں۔
امریکی فیڈرل ریزرو سمیت کئی تبصرہ نگار اور پالیسی ساز ان حالیہ افراطِ زر کے اعدادوشمار کے حوالے سے پرسکون ہیں۔ پچھلے سال اسی وقت پر قیمتوں کی خوفناک گراوٹ (اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ پیٹرولیم کی منفی قیمت ہونا بھی شامل ہے) کے پسِ منظر میں ان کا کہنا ہے کہ معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے ساتھ قیمتوں کا بڑھنا قدرتی امر ہے۔
اس لئے فیڈرل ریزرو کا تناظر یہ ہے کہ صورتحال کو اسی طرح جاری رہنے دیا جائے کیونکہ گھریلو بچت کے خرچ ہونے اور پیداکاروں کے از سرِ نو منظم ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ عبوری ہے۔
بائیڈن کے حامی یہ دلیل دے رہے ہیں کہ کرونا وبا سے پہلے کے مقابلے میں امریکی روزگار میں مسلسل موجود گراوٹ ایک عندیہ ہے کہ نظام ابھی سست رو ہے اور اس لئے دیر پا افراطِ زر کا کوئی خطرہ موجود نہیں۔
پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی دہائیوں سے افراطِ زر میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا، خاص طور پر سال 2008ء کے معاشی بحران کے بعد تقریباً صفر شرح سود اور مسلسل مقداری آسانی کے باوجود کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔
سمرز نے خود صورتحال کی وضاحت کی ہے کہ اس وقت ”طویل مدتی جمود“ لاحق ہے جس میں ”غیر معمولی آسان مالیاتی شرائط“ انتہائی نحیف شرح نمو حاصل کرنے کے لئے درکار ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سال 2008ء کے بعد مرکزی بینک پیسے چھاپ رہے تھے، نجی بینک کم پیسہ بنا رہے تھے کیونکہ کاروباروں اور گھریلو صارفین کی جانب سے کریڈٹ کی مانگ (قرضے، گھر لینے کے لئے قرضے) میں مسلسل کمی تھی۔
اس حوالے سے کچھ رجائیت پسندوں کاکہنا ہے کہ اس وقت عبوری افراطِ زر ایک اچھا مظہر ہے کیونکہ اس کا متبادل خوفناک ہے یعنی تفریطِ زر اور گراوٹ۔
دیگر پریشان ہیں کہ اس وقت تو افراطِ زر شائد زیادہ مسئلہ نہیں لیکن مستقبلِ قریب میں یہ کیا شکل اختیار کرے گا۔
ظاہر ہے کہ کئی ممالک ابھی بھی لاک ڈاؤن میں ہیں، اکٹھی ہوئی مانگ کا ایک بڑا حصہ ابھی بھی منڈی سے باہر ہے اور عالمی معیشت میں بائیڈن حکومت کی جانب سے مستقبل میں جاری کردہ کئی ٹریلین ڈالر کے مالیاتی پیکج منڈی میں آ رہے ہیں جو امریکی GDP کا 18 فیصد ہوں گے۔
اور اس مرتبہ مقداری آسانی کے دور کے برعکس پیسوں کی عمومی سپلائی میں دیو ہیکل اضافہ ہو چکا ہے۔
آگے کنواں پیچھے کھائی
اس لیے صدر بائیڈن کو خبردار کرنے کا شور بڑھ رہا ہے کہ کینیشیئن پالیسیوں کو کنٹرول کیا جائے ورنہ افراطِ زر کے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ نتیجتاً اس کے اثرات سرمایہ دار قرض خواہوں پر پڑیں گے، قرضوں کی قدر میں کمی ہو گی اور مزدوروں کی حقیقی اجرتیں متاثر ہوں گی۔
یہ لیری سمرز کی سوچ ہے اور اس نے حال ہی میں امریکی مرکزی بینک کی شدید سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ”خطرناک طمانیت“ کا شکار ہے کیونکہ ”ایسے افراطِ زر کو بڑھانے والے عوامل کی حوصلہ افزئی کی جا رہی ہے جس کی پوری ایک نسل میں مثال نہیں ملتی“۔
لیکن سمرز کی پریشانی دراصل افراطِ زر نہیں بلکہ اسے حکمران طبقے کے ایک قابلِ ذکر حصے کی طرح یہ خوف لاحق ہے کہ علاج مرض سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ممتاز ڈیموکریٹک معیشت دان نے خبردار کیا ہے کہ بے قابو افراطِ زر کے نتیجے میں فیڈرل ریزرو کو مجبوراً ردِ عمل میں شرحِ سود بڑھانی پڑے گی تاکہ پیسے کی سپلائی کو محدود کرتے ہوئے معیشت کو کنٹرول کیا جا سکے۔
لیکن اب سرمایہ داری کو سستے قرضوں کی لت پڑ چکی ہے اور اس طرح کا کوئی بھی اقدام قیامت خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ قرضوں میں ڈوبے گھرانے اور حکومتیں دیوالیہ ہو سکتی ہیں۔ نیم مردہ کمپنیاں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی اور پیسہ سٹاک مارکیٹ سے نکل کر دیگر محفوظ ٹھکانوں میں پہنچ جائے گا جس کی وجہ سے چاروں اطراف دیو ہیکل بلبلے دھماکوں سے اڑ جائیں گے۔
امریکہ میں پیدا ہونے والا یہ بحران جلد ہی عالمگیر شکل اختیار کر لے گا۔ اس کے بعد پھر وہی ہو گا جو کہا جاتا ہے۔ اگر امریکہ کو چھینک آ جائے تو دنیا کو بخار چڑھ جاتا ہے۔
ایسی کوئی بھی ہولناک صورتحال تیزی سے نومولود بحالی کا گلا گھونٹتے ہوئے امریکہ اور پوری دنیا کو معاشی بحران میں مبتلا کر دے گی اور مزید کروڑوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔
اس لیے حکمران طبقہ اس راہ پر چلنے سے پہلے دس مرتبہ سوچے گا۔ ماضی کی انگنت مثالوں کی طرح اس مرتبہ بھی کینیشیئن پالیسیاں افراطِ زر کو جنم دیں گی جس کے نتیجے میں مزید تضادات اکٹھے ہوتے جائیں گے۔
دوسرے الفاظ میں ایک محدود مدت اٹھان کے بعد ایک یا دوسرے طریقے سے سرمایہ داری کا بحران پہلے سے زیادہ بھیانک اور خونخوار ہو کر نازل ہو گا۔
ہر راستہ بربادی ہے
یہ گھمبیرمسئلہ۔۔پہلے معیشت بہت زیادہ متحرک ہو جاتی ہے پھر سرد پڑ جاتی ہے۔۔سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی عدم استحکام اور انتشار کا عکس ہے۔ ٹراٹسکی کے مطابق یہ ”سرمایہ داری کی عمر اور عمومی حالت“ کی ایک اور نشانی ہے۔
بورژوازی کے نمائندوں کو پیچھے گڑھا آگے کھائی کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر وہ معیشت میں مسلسل پیسہ نہیں پھینکتے تو بحالی رُک جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ پلٹا بھی کھا جائے۔ لیکن اگر وہ اسی راستے پر گامزن رہتے ہیں تو افراطِ زر کا اژدہا نگل جائے گا۔ سرمایہ داری میں ہر راستہ بربادی کی طرف ہی جاتا ہے۔
جب کرونا وبا نے عالمی معیشت کے درودیوار گرا دیے تو حکمران طبقے کے پاس بے پناہ پیسہ پھینکنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ متبادل بڑے پیمانے پربے روزگاری تھا جس کے بعد سڑکوں پر آگ لگ جانی تھی۔
اسی طرح وبا کی ہر نئی لہر کے ساتھ سرمائے کے سیاست دانوں کو مزدوروں کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی اور کاروباروں کو مالیاتی امداد دینی پڑی جن سے متعلق انہوں نے دل کو تسلی دی کہ یہ اقدامات عارضی ہیں۔
”آزاد منڈی“ میں اعتماد کے تمام دعووں کے برعکس حکمران طبقہ دیکھ رہا ہے کہ معاشی ”توازن“ بحال کرنے کے لئے کس دیو ہیکل پیمانے پر تباہی مچاتے ہوئے عوام پر معاشی حملے کرنے پڑیں گے۔ اور انہیں یقین نہیں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں جو طوفان برپا ہو گا اس سے وہ نمٹ سکیں گے یا نہیں۔
ایک بااثر ہارورڈ یونیورسٹی کے معیشت دان کینیتھ روگوف کا بائیڈن کی ”نئی ڈیل“ کے حوالے سے کہنا ہے کہ ”ہاں، کچھ خطرہ تو موجود ہے کہ مستقبل میں ہمیں معاشی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے لیکن فی الحال ہمیں سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے“۔
لیکن ہر آغاز کا انجام لازم ہے۔ ایک طرف تو حکومتوں کو اب سمجھ آ رہی ہے کہ پیسوں کے جو نلکے کھول دیے گئے ہیں انہیں بند کرنا اب آسان نہیں۔ ظاہر ہے اگر نشئی کی منشیات بند کر دی جائیں تو وہ فوراً پاگل ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف نظام کو سہارا دینے کے لئے خرچ ہونے والے کھربوں ڈالر قرضوں کا پہاڑ بن کر کھاتوں کو تہس نہس کر رہے ہیں۔
کل عالمی قرضہ۔۔قومی، کارپوریٹ اور گھریلو۔۔اس وقت 281 ٹریلین ڈالر ہے (عالمی GDP کا 355 فیصد) اور وبا کی وجہ سے اس میں 24 ٹریلین ڈالر اضافہ ہوا ہے۔ IMF کے مطابق کل عالمی حکومتی قرضہ اس وقت GDP کا 100 فیصد ہو چکا ہے۔
جلد یا بدیر یہ قرضہ واپس کرنا ہو گا۔ بذریعہ افراطِ زر اگر آسان شرائط والی مانیٹری اور مالیاتی پالیسیاں جاری رہتی ہیں جس کے بعد حقیقی اجرتیں کم ہو جائیں گی یا بذریعہ جبری کفایت شعاری جس میں سروسز میں کٹوتیاں اور ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی سرمایہ دار حکومتوں کے پاس قرضے لینے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اس لیے اب تک وہ حساب کا دن ٹالتے آئے ہیں۔ لیکن جلد یا بدیر قیامت کا دن آئے گا۔ اس دن کی آمد کی پہلی جھلکیاں ہم کولمبیا اور دیگر ممالک میں بغاوتوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔
سرمایہ داری کا نامیاتی بحران
حرف با حرف پیش گوئی کرنا کہ مستقبل میں کیا ہو گا، ناممکن ہے۔ ہمارے پاس کوئی غیب کا علم نہیں۔ واقعات کا دھارا انواع و اقسام کے مدغم عوامل کا مرہونِ منت ہے۔ اس میں معاشی سے لے کر سیاسی فیصلوں اور وبا کی بدلتی کیفیت، غرضیکہ سب کچھ شامل ہے۔
امکانات ہیں کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے ساتھ (اگرچہ کسی نئی وبائی لہر میں لاک ڈاؤن پھر ناگزیر ہو جائیں گے) ایک عارضی بحالی کا دور آ جائے۔ اور ایسی بحالی کے ساتھ ممکنہ افراطِ زر ناگزیر ہو سکتا ہے جس کی وجوہات مندرجہ بالا سطور میں بیان کی جا چکی ہیں۔
اس سے آگے ہم یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ ہو سکتا ہے افراطِ زر بے قابو ہو جائے جیسے لیری سمرز اور دیگر کو خوف ہے۔ اگر مرکزی بینک فوری طور پر مداخلت کر کے محدودیت کی پالیسیاں لاگو کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ نحیف بحالی کی ساری قلعی کھل جائے۔
طویل مدت میں ہو سکتا ہے کہ عالمی معیشت کی حالت ”جاپانی معیشت“ جیسی ہو جائے جس میں شرح نمو صفر اور قیمتیں کم تر رہیں۔ آسان ترین مالیاتی شرائط کے باوجود، کیونکہ پوری دنیا میں زائد پیداوار کا مسئلہ جاری ہے۔
امریکی معیشت دان نوریئل روبینی (نام نہاد ڈاکٹر ڈوم) جیسے دیگر نے سٹیگ فلیشن کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔۔معاشی بحران کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ جیسے 1970ء کی دہائی میں ہوا تھا۔
اہم کام سرمایہ دارانہ نظام کی حرکیات کی باریک بینی یا پیش گوئی کرنا نہیں بلکہ ٹراٹسکی کے نقشِ قدم پر ”سرمایہ داری کی عمر اور اس کی عمومی حالت کا اندازہ لگانا ہے، یہ تعین کرنا کہ کیا یہ ابھی بھی ترقی پذیر ہے یا عمر رسیدہ ہو چکی ہے یا انحطاط پذیر ہے“۔
اس بنیاد پر اسی تقریر میں اور بعد میں ایک خط میں بھی ٹراٹسکی نے ”سرمایہ دارانہ ترقی کا منحنی خط (Curve of Capitalist Development)“ کا عمومی تصور دیا۔
پہلے بھی ہم ٹراٹسکی کے الفاظ میں بیان کر چکے ہیں کہ سرمایہ داری کی سرشت میں تیزی اور مندی موجود ہے۔ لیکن یہ گھن چکر ایک وسیع خطِ منحنی پر موجود ہیں جو موجودہ دور کی فطرت کی نشاندہی کرتی ہے کہ سرمایہ داری میں عمومی تیزی یا مندی کا رجحان ہے۔
اس حوالے سے ٹراٹسکی نے مزید وضاحت کی کہ ”یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس وقت صورتحال میں بہتری ممکن ہے یا نہیں، بلکہ کیا اس وقت صورتحال میں اتار چڑھاؤ کی خطِ منحنی کا رجحان اٹھان ہے یا گراوٹ ہے۔ یہ سوال کا سب سے اہم پہلو ہے“۔
ایک مرتبہ پھر، موجودہ دور کو سمجھنے اور سرمایہ داری کے تناظر کے لئے یہ سب سے اہم سوال ہے۔
سادہ الفاظ میں کیا ہم دوسری عالمی جنگ کے بعد جیسے دور میں ہیں جب سرمایہ داری ایک طویل معیاد اٹھان میں تھی جس کی بنیاد پر اصلاحات ہوئیں اور اصلاح پسندی پروان چڑھی؟
یا پھر موجودہ دور پہلی عالمی جنگ کے بعد جیسا ہے جب ٹراٹسکی تجزیہ کر رہا تھا کہ ”سرمایہ داری میں طوفانوں اور تناؤ کا دور ہے“ جہاں بحران اور طبقاتی جدوجہد ممتاز ہو گی؟
بحران کا عہد
اس سوال پر ہم ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ عالمی جنگ کے بعد کی خوشحالی قصہ ماضی ہو چکی۔ ایسی تعمیر و ترقی کے لئے بنیادیں ہی موجود نہیں ہیں۔
درحقیقت اگر ہم ایک قدم پیچھے ہٹ کر پچھلے چار سالوں کا عمیق جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کی صحت سے متعلق تمام اشاریوں کا رجحان انحطاط پذیر ہے یعنی پیداواری قوتوں میں بڑھوتری سے لے کر موجود صلاحیت کا بھرپور استعمال، کاروباری سرمایہ کاری سے لے کر شرح سود تک سب گراوٹ کا شکار ہیں۔
ٹیڈ گرانٹ نے ”کیا مندی ہو گی؟“ میں وضاحت کی تھی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد بے مثال سرمایہ دارانہ خوشحالی و ترقی کی بنیاد مخصوص عوامل کا امتزاج تھا جن میں جنگ میں پیداواری قوتوں کی تباہی جس وجہ سے نئی سرمایہ کاری ہوئی اور عالمی تجارت میں بے پناہ اضافہ، جس کی بنیاد امریکی سامراج کی اجارہ داری اور نئی منڈیوں کا کھلنا شامل تھے۔
اسی طرح 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں عمومی ترقی کی بنیاد عالمی تجارت میں مسلسل بڑھوتری (گلوبلائزیشن) تھی جس میں چین اور روس نے سرمایہ داری دوبارہ متعارف کروا کر عالمی منڈی میں شمولیت اختیار کی۔
لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی جزو اس وقت موجود نہیں۔ عالمی تجارت میں بڑھوتری کے برعکس ہر جگہ تحفظاتی اقدامات بڑھ رہے ہیں۔ اور منافع بخش سرمایہ کاری کے ذرائع جو سرمایہ داری میں حقیقی معاشی بڑھوتری کے انجن ہیں، اس وقت ناپید ہیں۔
اس وقت قلتوں کی شکایت کی جا رہی ہے۔ لیکن عہد کا عمومی کردارقلت کے برعکس زائد پیداوار کا ہے۔
وبا سے پہلے اس کے نشاندہی ہر جگہ کی جا سکتی تھی۔ اجناس سے لبریز منڈیاں، سویا سے لے کر اسٹیل اور سمارٹ فونز تک تمام صنعتوں میں زائد صلاحیت، کم تر قیمتیں، بے قابو سٹہ بازی اور بڑے کاروباروں کے پاس بیکار پڑے پیسوں کے انبار۔
کرونا وبا کے حوالے سے حکمران طبقے کے تمام اقدامات نے اس تضاد کو حل کرنے کی بجائے زائد پیداوار اور نظام میں عدم استحکام کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔
سستے پیسے نے سٹہ بازی کو بے لگام کر دیا ہے اور پہلے سے بھی زیادہ کاروبار نیم مردہ ہو چکے ہیں۔ اندازاً اس وقت ہر پانچ میں سے ایک امریکی کمپنی نیم مردہ ہو چکی ہے (غیر منافع بخش، سستے قرضوں پر زندہ)۔ ان کمپنیوں میں 20 لاکھ سے زیادہ نوکریاں اور 2 ٹریلین سے زیادہ کارپوریٹ قرضہ مدفون ہے۔
اس کے ساتھ یورپ کے کروڑوں نیم مردہ مزدور بھی ہیں جو درحقیقت بے روزگار ہیں لیکن نوکریوں پر حکومت کی طرف سے چھٹی پر فراہم کردہ تنخواہوں کی وجہ سے موجود ہیں۔
حتمی تجزیئے میں ریاستی حمایت ایک طرح کی تحفظاتی پالیسی ہے جو عالمی سطح پر زائد پیداوار کے علت و معلول بن چکے ہیں۔ ہر حکومت ریاستی مداخلت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی منڈیوں اور کاروباروں کو تحفظ دے رہی ہے اور کوششیں کر رہی ہے کہ بحران کہیں اور برآمد کر دیا جائے۔ لیکن ”اپنے ہمسائے کو لوٹ لو“ جیسی پالیسیوں کا عمومی نتیجہ یہ ہے کہ عالمی منڈی سکڑ رہی ہے اور معیشت کے تمام سیکٹر زائد صلاحیت سے لبریز ہو رہے ہیں۔
انقلاب کی ضرورت
یہ تمام بحث کینیشیئن ازم، خسارے پر فنانسنگ، ریاستی مداخلت اور کسی بھی شکل میں منافع پر مبنی معیشت کو چلانے کی کوششوں کی محدودیت کو واضح کرتی ہے۔ سرمایہ داری کو منظم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اپنی سرشت میں پر انتشار اور بحران زدہ ہے جس کی بنیاد منطقی پیداواری پلاننگ کی بجائے نجی ملکیت، مسابقت اور منافعوں کی اندھا دھند تلاش ہے۔ ٹراٹسکی نے درست طور پر وضاحت کی تھی کہ ”بحرانات اور خوشحالیاں سرمایہ داری کی پیدائش میں ہی موجود تھیں اور یہ قبر تک اس کے ساتھ رہیں گی“۔
لیکن ٹراٹسکی نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ ”سرمایہ داری کا کوئی حتمی بحران نہیں“۔ حکمران طبقہ کسی بھی بحران سے نکل سکتا ہے اور نکلتا رہے گا۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس کی قیمت کیا ہو گی؟
اس حوالے سے اسی تقریر میں ٹراٹسکی نے اصرار کیا کہ:
”سرمایہ داری کو کنٹرول کرکے توازن کی بحالی میں اٹھایا جانے والا ہر اقدام فوری طور پر سماجی توازن کے لئے فیصلہ کن بن جاتا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ کمزور کرتا ہے اور زیادہ قوت کے ساتھ محنت کش طبقے کو جدوجہد کی راہ پر دھکیلتا ہے۔۔
مختصراً یہ کہ علمی اور تجریدی حوالے سے سرمایہ داری میں توازن ممکن ہے۔ لیکن یہ کسی سیاسی اور سماجی خلاء میں نہیں ہوتا۔۔اس کا اظہار صرف طبقات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ معاشی زندگی کے توازن کے لئے اٹھایا گیا ہر قدم، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، عدم استحکام سے دوچار سماجی توازن کے لیے ایک دھچکا ہے جس پر محترم سرمایہ دار آج بھی انحصار کرتے ہیں۔ اور یہ سب سے اہم پہلو ہے“۔
دوسرے الفاظ میں پچھلے ایک سال میں سیاسی استحکام کو برقرار کھنے کے لئے حکمران طبقے نے انتہائی ہیجان انگیز اقدامات کیے ہیں۔ لیکن ان اقدامات کی وجہ سے دیو ہیکل معاشی بحرانات اور عدم استحکام کی داغ بیل پڑ گئی ہے۔ اور اس آگ کو بجھانے کی کوششوں کا مطلب محنت کش طبقے پر مزید حملے ہیں جن کا ناگزیر نتیجہ تمام ممالک میں طبقاتی جدوجہد میں تیزی ہے۔
پھر ایک عارضی بحالی بھی ہڑتالوں اور جدوجہد کو جنم دے سکتی ہے کیونکہ محنت کش پچھلے ایک سال اور پچھلی کئی دہائیوں میں اپنی کھوئی ہوئی حاصلات کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس دوران خون آشام ارب پتیوں کی وبا سے منافعوں کی لوٹ مار کے مناظر عام عوام میں غم و غصے اور نفرت کو مزید بھڑکائیں گے۔
حتمی طور پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ واقعات نئے نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک دہائی سے زیادہ عرصے کا بحران اور جبری کٹوتیاں ہیں جو پہلے ہی پوری دنیا میں شدید سیاسی پولرائزیشن اور عوامی تحریکوں کو جنم دے چکے ہیں۔ اور تاریخ کا دھارا کبھی واپس نہیں موڑا جا سکتا۔
جدوجہد میں داخل ہونے والی نئی نسل صرف بحران اور جبر کو ہی جانتی ہے۔ یکے بعد دیگرے ہر ملک میں یہ محنت کش اور نوجوان مزاحمت کر رہے ہیں تاکہ اس بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ ملے اور اس گلے سڑے سٹیٹس کو کا کوئی متبادل ملے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کرتے ہوئے سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے مسلسل بحرانوں کو ختم کر سکتا ہے۔