ہم نے انڈیا میں جاری کسان تحریک پر کئی مضامین شائع کیے ہیں ([4] [3] [2] [1]) اور ایک کسان لیڈر کا انٹرویو بھی نشر کیا ہے۔ موجودہ مضمون میں ہم موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ ڈھانچے، ”حزب اختلاف“ کے کردار، دانشوروں کے دیوالیہ پن اور آگے بڑھنے کے انقلابی راستے پر بات کریں گے۔
[Source]
دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کے دھرنے کو 50 دن گزر چکے ہیں۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے 9 دور ناکام ہو چکے ہیں۔ مودی حکومت کسان دشمن قوانین منسوخ کرنے کو تیار نہیں اور مؤقف اپنائے ہوئے ہے کہ صرف قوانین کے متن پر بات ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ مودی اور اس کی سرکار کسان تحریک کو کچلنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ ان کو خوف ہے کہ اگر تحریک پھیل گئی اور محنت کشوں کے علاقوں تک پہنچ گئی تو غیر معینہ مدت کے لیے عام ہڑتال ناگزیر ہو جائے گی اور نتیجے میں نہ صرف اس حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ انڈین سرمایہ داری کو بھی شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
پہلے تو مودی سرکار نے انتظامی ہتھیاروں کے ذریعے، جن میں پولیس بھی شامل ہے، کسان احتجاج ختم کرنے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے کسانوں اور ان کے قائدین کو وزراء کے ساتھ نہ ختم ہونے والے ”مذاکرات“ کی دلدل میں دھکیل دیا۔ انہوں نے بکاؤ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بے دریغ استعمال کیا اور سوشل میڈیا کو متحرک کرتے ہوئے کسانوں کے خلاف شدید نفرت پھیلائی۔ ان تمام ریاستی ہتھکنڈوں کے باوجود عوام میں کسانوں کی حمایت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں مودی سرکار نے سپریم کورٹ کے ذریعے کسان تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری طرف کسانوں کی تنظیموں نے 21 جنوری سے دارلحکومت کی جانب ایک ٹریکٹر مارچ کا اعلان کر رکھا ہے تاکہ 26 جنوری کو ریپبلک ڈے پر ہونے والی پریڈ کو برباد کیا جا سکے۔ مودی کے مطابق ”یہ انڈیا کے لئے شرمندگی ہو گی“ اور اس نے فوری طور پر سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ ٹریکٹر مارچ کو روکا جائے۔ سپریم کورٹ کو کسانوں کے احتجاج میں مداخلت کر کے منہ کی کھانی پڑی ہے اور اس نے اپنی عزت بچانے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ ٹریکٹر مارچ حکومت اور کسانوں کے درمیان مسئلہ ہے اور اس میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ کسان ابھی بھی دہلی کے مختلف سرحدی علاقوں میں شدید سردی کے باوجود دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تک سردی سے 60 کسانوں کے مرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ چار خودکشیوں کی بھی اطلاع ملی ہے۔
”مذاکرات“ کی سیاست
مودی سرکار کسان تحریک کو تھکانے کے لئے مسلسل مذاکرات کا حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اب تک کسان قائدین اور حکومتی وزراء کے درمیان مذاکرات کے 11 دور ہو چکے ہیں اور یہ سب وقت کا ضیاع تھے۔ ابھی تک مذاکرات کے اگلے دور کی اطلاعات موجود نہیں ہیں کیونکہ فی الحال حکومت صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے اور پھر اگلی تاریخ کا اعلان کرے گی۔ پہلے دن سے مظاہرین کی طرف سے کسان دشمن قوانین کی منسوخی، زراعت کی کارپوریٹائزیشن کے خاتمے اور کسانوں کی معاشی ضمانت کے لئے مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ پچھلے تمام مذاکراتی ادوار میں ان میں سے کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا گیا۔
مودی اپنے سرمایہ دار مالکان اور ان کے بین الاقوامی شراکت داروں کو کسانوں اور عوام کو بھوکا مار کر پورے انڈیا کی زراعت کا تحفہ دینے کے لئے ڈھٹائی سے ڈٹا ہوا ہے۔ عالمی معاشی بحران کی موجودگی میں یہ کارپوریشنز منافعوں کے حصول کے لئے اور بھی زیادہ سفاک ہو چکی ہیں اور اس مقصد کے لئے کسانوں کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
درحقیقت مودی کے پاس دینے کو کچھ نہیں کیونکہ اصلاحات کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔ ہر اصلاحاتی عمل کے لئے بے پناہ فنانس اور دیگر وسائل درکار ہیں جو اب ریاست کے پاس موجود نہیں۔ حکومت سرمایہ داروں کے منافعوں کو قربان نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا بنیادی مقصد ہی ان کا دفاع ہے۔ یہ نہ ان پر ٹیکس لگا سکتی ہے اور نہ ہی ان کی دولت ضبط کر سکتی ہے۔ اس لئے اصلاحات کرنے لئے ریاست کے پاس دو ہی راستے بچے ہیں، پیسہ چھاپو یا دیوہیکل بیرونی قرضے لو۔ پیسہ چھاپنے سے افراطِ زر بے قابو ہو جائے گا اور قرضوں کی ادائیگی کا مطلب پبلک سیکٹر پر جبری کٹوتیاں ہوں گی تاکہ پیسہ بچایا جا سکے۔ مودی سرکار کو پتہ ہے کہ ان دونوں آپشن کو استعمال کرنے کے نتیجے میں عوام بپھر کر بے قابو ہو جائے گی۔ اس لئے سرمایہ داروں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے مودی انڈین اور عالمی سرمایہ داروں کو انڈین معیشت کے تمام سیکٹر پلیٹ میں ڈال کر دے رہا ہے تاکہ منافعوں کے حصول کے لئے لوٹ مار کا بازار گرم ہو۔ میڈیا کے مطابق وزیر خزانہ نرملا سیتھارامن نے ”دنیا کے سب سے بڑے“ نجکاری پروگرام کا آغاز کیا ہے جس میں کئی سو انڈین پبلک سیکٹر یونٹوں کو کارپوریشنوں کے ہاتھوں میں دیا جا رہا ہے۔ لیکن کسان اپنے معاملات سے کارپوریشنوں کو باہر رکھنا چاہتے ہیں، اپنے بڑھتے قرضوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ایک اچھی معیاری زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ تمام مطالبات مودی سرکار کے عزائم کے خلاف ہیں۔ ان حالات میں ”مذاکرات“ کی حکمت عملی کسانوں کے لئے بیکار ہے۔ فیصلہ بند کمروں میں نہیں سڑکوں پر ہو گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ لبرلز اور سٹالنسٹ پارٹیوں سمیت تمام حزبِ اختلاف ”مذاکراتی“ سیاست کے داعی بنے ہوئے ہیں۔ ان پارٹیوں کے ہاتھ کسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ عالمی قائدین یکجہتی کا اظہار کرنے کے ساتھ ”مذاکرات“ پر زور دے رہے ہیں۔ دیگر عالمی قائدین کی طرح کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے سفاکی سے انڈین کسانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کر کے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ”مذاکرات“ کئے جائیں۔ لیکن میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ٹروڈو حکومت نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) میں انڈیا کے حوالے سے کم از کم سپورٹ قیمت (MSP) پر مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے زراعت کی لبرلائزیشن کی حمایت کی تھی۔ برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے ایک بار پھر اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستان میں جاری کسانوں کے احتجاج کو ہندوستان اور پاکستان کی چپقلش قرار دے دیا اور ”مذاکرات“ کا مشورہ دیا! موجودہ حالات میں مذاکرات بیکار ہیں اور سب سے بڑھ کر تحریک کے لئے خطرناک ہیں کیونکہ یہ بلاوجہ کنفیوژ ن پھیلا رہے ہیں اور بلاوجہ توقف کا باعث بن کر تحریک کو اپنا مقصد جیتنے کے راستے پر چلنے سے ہٹا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کا ڈھونگ
مودی سرکار نے سپریم کورٹ کو کسانوں پر چڑھا دیا ہے۔ انڈین عدلیہ پیسوں کے پجاری دھوکے باز وکیلوں، دلال ٹاؤٹوں اور کرپٹ ججوں سے بھری پڑی ہے۔ عدلیہ کا سارا نظام حکمران اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ہے۔ ایک عام کسان یا مزدور سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ عدالت سے کسی قسم کی مدد لے۔ جو ایسا کام کرنے کی ہمت کر بھی لے گا تو وہ نسلوں تک مقروض رہے گا اور انصاف بھی نہیں ملے گا۔
عدلیہ کے شدید کرپٹ کردار کے باوجود عمومی سیاست اور میڈیا اس ریاستی ادارے کو ”غیر جانبدار اور آزاد“ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ عدلیہ ہمیشہ نجی ملکیت کے تحفظ میں حکمران طبقے اور ریاست کے مفادات کی وفادار رہتی ہے۔ متوسط طبقے کے کئی بھلے مانس عدلیہ کے حوالے سے ”غیر جانبدار اور آزاد“ کے ریاستی فراڈ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اس لئے اگر وہ حقیقی زندگی میں نہیں تو کم از کم نفسیاتی طور پر اپنی تمام بیکار زندگی عدلیہ کے عتاب کا شکار رہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے تین ججوں پر مبنی ایک جوڈیشل بنچ تشکیل دیا۔ ان ججوں نے فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جو ”ان معاملات کو دیکھے“۔ کسانوں نے اس سازشی ٹولے کا شکار بننے سے صاف انکار کر دیا۔
جب کسان تحریک کا معاملہ آتا ہے تو ان تمام قابلِ عزت کمیٹی ممبران کا ریکارڈ الٹا ہے۔ ایک کمیٹی ممبر انیل غناوت اپنے آپ کو کسان لیڈر کہتا ہے لیکن درحقیقت وہ مودی کا چمچہ ہے اور کسان دشمن قوانین کا شدید حامی ہے۔ ایک اور کمیٹی ممبر بھوپندر سنگھ مان پنجاب اسمبلی کا سابق ممبر اور بھارتیہ کسان یونین (BKU) کا مرکزی صدر ہے۔ BKU کا آغاز 1980ء کی دہائی میں بطور ریڈیکل کسان گروہوں کے ایک اکٹھ سے ہوا تھاجب انہوں نے مشہور میرٹھ گھیراؤ اور دہلی بوٹ کلب کسان ریلی میں شرکت کی تھی۔ لیکن مان اصلاحات کا زبردست حامی ہے اور انڈین زراعت کی کنٹرول کے ساتھ نجکاری کا حامی ہے۔ حالیہ خبروں کے مطابق مان نے دیگر کسان تنظیموں کے عتاب سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو کمیٹی سے علیحدہ کر لیا ہے۔
دیگر ممبران میں ایک زرعی ماہر ڈاکٹر اشوک گلاٹی اور ایک زرعی سائنسدان ڈاکٹر پرامود کمار جوشی شامل ہیں۔ دونوں مودی کے کسان مخالف قوانین کے زبردست حامی ہیں اور سالہا سال یونیورسٹیوں اور تحقیق میں غلیظ تجربہ حاصل کرنے کے بعد دانشورانہ کچرا اگلتے ہوئے انڈین زراعت کی کارپوریٹائزیشن کو درست قرار دے رہے ہیں۔ یہ کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔ انڈیا کے زرعی کمیشن اور تحقیقاتی ادارے عالمی کارپوریشنوں اور سامراجیوں کے غلام ہیں۔ سپریم کورٹ کو کمیٹی میں ان ”دانشوروں“ کو لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ گلاٹی انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکانومک ریلیشنز (ICRIER) کا ”انفارمیشن سسٹمز چیئر پروفیسر“ ہے۔ اس کی نوکری ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ وہ انڈین ”منافع کے بغیر“ والی پالیسی کے تحت کام کرنے والے تحقیقی اداروں میں کارپوریشنوں اور سرمائے کے داخلے میں کتنا بڑا دلال ہے۔ GE کیپٹل کا ایک سابق ایگزیکٹیو اس وقت ICRIER کا سربراہ ہے۔ اس ادارے کو سامراجی، عالمی بینک اور اجارہ داریاں فنڈ کر رہے ہیں۔ ادارہ کچھ زیادہ ہی ”غیر جانبدار“ ہے! ICRIER کا بنیادی مقصد تحقیقی رپورٹوں اور پالیسی دستاویزات کے ذریعے رائٹ ونگ حکومتوں اور سیاسی قائدین کو ان دانشورانہ دلیلوں سے مسلح کرنا ہے جس کے ذریعے انڈین کسانوں اور مزدوروں پر تابڑ توڑ حملے کئے جا سکیں۔
سپریم کورٹ کی اس چالبازی کے پیچھے چھپ کر مودی کسان تحریک کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میڈیا چینل انڈین عدلیہ کی اعلیٰ ظرفی و مقام کے گن گا رہے ہیں اور کسانوں اور ان کے قائدین کو سمجھا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر سر نگوں ہو جائیں۔ ججوں کی فرمائش ہے کہ کسان احتجاج ختم کر کے گھر چلے جائیں، یعنی وہ بنیادی طور پر کہہ رہے ہیں کہ ”کسانوں کو عدلیہ پر اعتماد کرنا چاہیئے اور جج اتنے قابل ہیں کہ وہ ان کسان دشمن قوانین کی جانچ پڑتال کر سکیں۔ اس دوران کسان اپنا دھرنا ختم کریں اور گھر جائیں“۔۔یعنی وہی مطالبہ جو مودی اور BJP کا ہے۔ وہ جلد از جلد کسان ا حتجاج ختم کروانا چاہتے ہیں کیونکہ کسانوں نے 26 جنوری کو ریپبلک ڈے پر ٹریکٹر مارچ کی دھمکی دے رکھی ہے۔ ٹریکٹر مارچ کے لئے پنجاب، ہریانہ اوردیگر ریاستوں میں کسان تنظیمیں اور یونینز تیاریاں کر رہی ہیں۔ وہ مختلف قصبوں اور دیہات میں ٹریکٹر ریلیاں کر کے حمایت اکٹھی کر رہے ہیں اور دہلی کی طرف مارچ منظم کر رہے ہیں۔ میڈیا ان کو پاکستانی اور چینی ایجنٹ، انڈیا مخالف بدمعاش اور خالصتانی شورش پسند قرار دے رہا ہے۔
سرمایہ داروں کو اشیاء خوردونوش میں بھی منافع دکھتا ہے
عالمی اجارہ داریاں (MNCs) بڑھتی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں اور کورونا وباء کی وجہ سے موجود عدم استحکام میں عالمی سپلائی لائنز پر اپنے پنجے مضبوط کر رہی ہیں۔ کورونا وباء میں پوری دنیا میں اشیا ئے خوردونوش کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اشیائے خوردونوش میں افراطِ زر 10-40 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ سال 2020ء کے اعدادوشمار کے مطابق اشیائے خوردونوش میں افراطِ زر نائجیریا میں 20 فیصد، پاکستان میں 23 فیصد، میکسیکو میں 8 فیصد، جنوبی افریقہ میں 6 فیصد اور برازیل میں 16فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ انڈیا میں افراطِ زر 14 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ اس بحران میں بڑی اشیائے خوردونوش اجارہ داریوں کی دیو ہیکل منافعوں پر رالیں ٹپکا رہی ہیں۔
پھر کئی دہائیوں سے مالیاتی سرمایہ کسانوں کو برباد کر رہا ہے۔ منموہن سنگھ کے دور میں انڈین منڈی کی کارپوریٹائزیشن سے بے پناہ مالیاتی سرمایہ اس سیکٹر میں آیا اور کسانوں کے قرضوں میں حیران کن اضافہ ہوا۔ تمام زرعی جدیدیت ساہوکاروں کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے کسانوں کو قرضوں میں جکڑ کر ہوئی۔ کئی سرکاری اور غیر سرکاری بینکوں کے علاوہ آڑھتیوں نے بھی انتہائی بلند شرح سود پر کسانوں کو قرضے دیے۔ کسان ان قرضوں سے پیداواری اشیاء خریدتے ہیں جن کی قیمتوں میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ بیج کی کمپنیوں نے حالیہ سالوں میں اپنی اجناس میں 100 فیصد اور اس سے بھی زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ کیڑے مار دوائیوں کی قیمتوں میں بھی ہوشرباء اضافہ ہوا ہے۔
کسان مخالف قوانین کے لاگو ہونے کے ساتھ ہی تاجروں نے کسانوں سے خریدی جانے والی اجناس کی قیمتوں میں 50 فیصد تک کاٹ لگا دی جو MSP سے بہت ہی کم ہے۔ لیکن پرچون قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔۔یعنی صاف ظاہر ہے کہ آڑھتی اور کمپنیاں ان کسان دشمن قوانین کا سہارا لے کر دولت کے انبار اکٹھے کر رہی ہیں۔ کسانوں کو ایک آنہ دھیلا نہیں مل رہا اور مستقبل میں بھی کچھ نہیں ملنا۔
پھر کسانوں کو نوسر بازوں کا بھی سامنا ہے جو کسان دشمن قوانین کا سہارا لے کر عجیب و غریب کاروباری ماڈل بنا رہے ہیں۔ مذاکرات کے حوالے سے پنجاب کے ایک کسان لیڈر بلدیو سنگھ سرسا نے کہا کہ ”جب سے نئی زرعی اصلاحات لاگو ہوئی ہیں کسانوں کے ساتھ دھوکوں کی شرح میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آڑھتی دیہات میں آفس کھولتے ہیں، کسانوں سے اجناس خریدتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں۔۔انہوں نے کسانوں کو کوئی پیسے نہیں دیے“۔
مہاراشٹرا کے ایک کسان لیڈر نے میڈیا کو بتایا کہ جب ایک کاروباری کمپنی نے مدھیا پردیش میں 22 کسانوں کو 2 کروڑ روپے کا چیک دیا تو وہ باؤنس ہو گیا۔ کسانوں نے مقامی تھانے میں جا کر فراڈ کی رپورٹ کروانے کی کوشش کی۔ پولیس نے کیس رجسٹر کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں سب ڈویژن کے مجسٹریٹ آفس دہائی دینے بھیج دیا۔ متاثر ہونے والے ایک کسان کے مطابق کچھ بھی نہیں ہو رہا اور کوئی بھی بات نہیں سن رہا۔ اطلاعات ہیں کہ ان کسان دشمن قوانین کے لاگو ہونے کے بعد پورے انڈیا کے مختلف شہروں میں اس طرح کے تقریباً 200 فراڈ ہو چکے ہیں جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔ کرپٹ ریاستی اداروں کی موجودگی میں کسانوں کی کوئی فریاد نہیں سن رہا۔ کاروباروں اور کارپوریشنوں کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انڈین عدلیہ آسانی سے کسانوں کے کیس اور دہائیوں کو نہیں سنے گی کیونکہ اگر کسان کارپوریشنوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے تو انہیں پیچیدہ اور اعصاب شکن بیوروکریٹک راستوں پر خوار کر دیا جائے گا۔ فراڈ، دھوکے اور نقصان کی صورت میں مودی سرکار کی بھارت ماتا کسانوں کے پاس دو ہی آپشن چھوڑتی ہے۔۔خودکشی یا مفلسی۔
دانشورانہ دیوالیہ پن کی یلغار
عام طور پر تحقیق اور تعمیر عوامی پیسوں، انفراسٹرکچر اور وسائل کے ذریعے کی جاتی ہیں لیکن ان کے ثمرات اکثر عالمی اجارہ داریوں کو تحفہ کر دیے جاتے ہیں اور پھر ریاست ان کی حفاظت پیچیدہ پیٹنٹ اور جملہ حقوق محفوظ کرنے والے قوانین کے ذریعے کرتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال زراعت کو بھی درپیش ہے جہاں بڑی کمپنیاں بیجوں، کھاد، کیڑے مار دوائیوں اور زرعی مشینوں کی ٹیکنالوجی کے ان گنت پیٹنٹ اور جملہ حقوق محفوظ دبوچے بیٹھی ہیں۔ وہ اپنے کٹھ پتلی پروفیسروں کے ذریعے عوامی اداروں، تحقیقاتی سینٹروں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داری کر کے اور ان میں گھس کر منافع بخش تحقیق پر قبضہ کر لیتی ہیں۔
آج سرمایہ دارانہ بحران کی وجہ سے ریاست زرعی تحقیق پر بہت کم پیسہ لگا رہی ہے اور ادارے اور تحقیقاتی سنٹر نجی کمپنیوں پر پیسوں کے لئے انحصار کرتے ہیں۔ کمپنیاں سرمایہ کاری اس شرط پر کرتی ہیں کہ جو بھی منافع بخش تحقیق ہو گی اس کی مالک کمپنی ہو گی۔ کاروباری کمپنیاں شاذونادر ہی اپنے وسائل نئے بیجوں، کیمیکل، کیمیاتی تحقیق یا نئی زرعی مشینری کی تحقیق پر لگاتی ہیں۔ وہ آخری مراحل میں تحقیقی ادارے کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی اب پختہ ہو گئی ہے اور اس کے ثمرات سے قابلِ ذکر منافع کمایا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی کمپنیاں پھر غریب ممالک میں اپنی اجناس تحقیقی تنظیموں، یونیورسٹیوں اور فرنٹ کمپنیوں کے ایک پورے نیٹ ورک کے ذریعے متعارف کراتی ہیں۔ انڈیا میں وہ حکومتی محکموں اور نجی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری میں اپنی اجناس کسانوں کو بیچتی ہیں۔ چوٹی کے زرعی سائنس دان ان عالمی اجارہ داریوں کے لئے سیلز مین کا کام کرتے ہیں۔ وہ ان کمپنیوں کے لئے ان گنت رپورٹیں اور پالیسی دستاویزات بنانے میں لمحہ بھر بھی نہیں ہچکچاتے۔ یہ ”قابلِ عزت“ پروفیسر اکثر سرمایہ دار میڈیا پر بلائے جاتے ہیں تاکہ کارپوریشنوں اور منافعوں کے دفاع میں دانشورانہ بکواسیات کا بازار گرم رکھا جائے۔ یہ حیران کن نہیں کہ سپریم کورٹ نے ایسی ہی تنظیموں کے دو دلالوں کو کسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی میں ڈالا ہوا ہے۔ کسانوں کو پروفیسروں اور سائنس دانوں کے بھیس میں ان آستین کے سانپوں سے ہوشیار رہنا چاہیئے۔
طاقتور انڈین سرمایہ داروں کی حقیقت
تاریخ میں دیر سے نمودار ہونے کی وجہ سے انڈین سرمایہ دار ٹیکنالوجی یا تحقیق میں کسی قسم کی ترقی کرنے کی اہلیت صفر ہے۔ وہ تو عالمی اجارہ داریوں کے سامنے اپنی قومی آزادی کو ہی برقرار نہیں رکھ سکا! وہ ٹیکنالوجی اور اجناس میں عالمی اجارہ داریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان کی بقا کا ایک ہی راستہ ہے یعنی ”معمول کی کاروباری سرگرمیاں“ مثلاً ٹیکس چوری، بجلی چوری، غیر قانونی ریاستی سبسڈیوں کا حصول، اجرتوں میں چوری اور کام کی جگہوں پر غلامانہ حالات کی مستقلی، جنگلات کی بربادی، فضائی و آبی آلودگی وغیرہ وغیرہ۔ ایشیاء میں سب سے زیادہ انڈیا میں ہر سال 10 ارب ڈالر کی ٹیکس چوری کی جاتی ہے۔ ایمرجنگ مارکیٹس سمارٹ گرڈ آؤٹ لک 2015ء کی تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ انڈیا میں ہر سال 16.2 ارب ڈالر کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ چوری کارپوریٹ سیکٹر میں ہوتی ہے جہاں نہ صرف بجلی چوری ہوتی ہے بلکہ کسی قسم کے بل کی ادائیگی ہی نہیں کی جاتی۔ 2019ء میں WTO کے اندازے کے مطابق انڈین کی مختلف ریاستوں نے سٹیل، دوائیوں، کیمیکل، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیکسٹائل کے مالکان کو 7 ارب ڈالر کی غیر قانونی سبسڈی دی۔ صنعتی آلودگی کے حوالے سے انڈیا دنیا کی فہرست میں پانچواں ملک ہے جس کے سب سے زیادہ شہر دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں ہیں اور اس وجہ سے ہر سال 20 لاکھ اموات ہو رہی ہیں۔
صرف ان معمول کی کاروباری سرگرمیوں کے ذریعے ہی انڈین کاروباری غیر ملکی کاروبار اور ان کی اجناس کا اندرونِ ملک مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں WTO میں شمولیت اور مختلف عالمی معاہدوں پر آزاد منڈی کے حوالے سے دستخط کر کے ریاست نے تمام بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹیں ختم کر دی ہیں اور اس وجہ سے مسابقت بہت زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے۔ اس گناہ میں موجودہ اور سابق حکومتیں، تمام سیاسی پارٹیاں اور سٹالنسٹ پارٹیاں شامل ہیں۔
آزاد منڈی کی پالیسیاں لاگو ہونے کے بعدانڈین سرمایہ دار کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ عالمی اجارہ داریوں کی دلالی کی جائے اور اس عمل میں مقامی چھوٹی مسابقتی ہستیوں کو نیست و نابود کر تے ہوئے اپنے آپ کو مستحکم کیا جائے۔ یہ کام انتہائی سفاکی اور کامیابی سے پچھلی ایک دہائی میں مکمل ہو چکا ہے۔ پھر انہوں نے پورا زور لگایا کہ ان کی ”معمول کی کاروباری سرگرمیوں“ کو قانونی تحفظ دیا جائے جس میں سرکاری ٹیکس بریک، بجلی سبسڈیاں، برآمدگی پر ٹیکس ریبیٹ، قرضوں پر شرح سود میں کمی، سرمائے پر سبسڈی، قرضوں کی معافی، جنگلات کی بربادی اور آلودگی کے قانونی پرمٹ وغیرہ شامل ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں چند ایک بڑی انڈین اجارہ داریاں جیسے ٹاٹا، برلا، امبانی اور اڈانی منظر عام پر آئیں اور اپنے آپ کو مستحکم کیا۔ اپنے پنجوں میں دیو ہیکل سرمایہ دبوچنے کے بعد اب بڑے انڈین سرمایہ دار بڑے سکون سے چوٹی کے انڈین بیوروکریٹوں اور سیاسی قائدین کی خریدوفروخت کرتے ہیں۔ انڈین بیوروکریسی اور عمومی سیاست کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح دلالی کے لئے کوئی مالک مل جائے۔انڈین پارلیمنٹ بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظاتی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ تمام ریاستی اداروں بشمول عدلیہ اور بیوروکریسی کی یہی صورتحال ہے۔
ان حالات میں انڈین کسان کی جدوجہد حکومت کے خلاف نہیں بلکہ بڑے انڈین کاروباریوں، عالمی اجارہ داریوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے۔ یہ حیران کن نہیں کہ امبانی اور اڈانی سے کسان تحریک میں سب سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے۔ لوگ ان کے کاروباروں پر حملے کر رہے ہیں۔ کسان دشمن قوانین کے خلاف جدوجہد انڈین اور عالمی سرمایہ دار اجارہ داریوں کے خلاف جدوجہد کا پہلا قدم ہے۔
پارلیمانی حزبِ اختلاف: چوروں، بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کا ٹولہ
حزبِ اختلاف ایسے اکڑی پھر رہی ہے جیسے کسان تحریک کے اصل ہیرو یہ ہیں۔ وہ کسانوں اور ان کی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دائیں، بائیں اور درمیانہ، ہر طرح کا ناچ پیش کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت بالکل مختلف ہے۔ حزبِ اختلاف چوروں، بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کا ٹولہ ہے۔ ان کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو اس وقت انہوں نے مرکز اور ریاستوں میں مختلف نام نہاد ”زرعی اصلاحات“ کے ذریعے دیو ہیکل نجکاری اور کارپوریٹائزیشن کا عمل شروع کیا۔ اس عمل میں انہوں نے کسانوں کو قرضوں کے پہاڑ تلے دبا دیا جس کا نتیجہ بے تحاشا خود کشیوں اور مفلسی میں نکلا۔ CPIM جیسی سٹالنسٹ پارٹیاں اپنے اقتدار میں سرمایہ داروں اور عالمی اجارہ داریوں کے مالکان کی دلالی میں اس حد تک بڑھ گئیں کہ انہوں نے ریاستی پولیس اور غنڈے کسانوں پر چڑھا کر خون کی ہولی کھیلی۔ نتیجتاً سٹالنسٹ پارٹیاں سیاسی افق سے تقریباً مٹ چکی ہیں۔
”مذاکرات“ کی سیاست کرنے کے علاوہ حزبِ اختلاف کی پارٹیاں ہولناک سرمایہ داری میں ”جمہوریت“ اور ”پارلیمنٹ کے تقدس“ کو برقرار رکھنے کی مالا جپھتی رہتی ہیں۔ متوسط طبقے کے کانوں میں رس گھولنے والے یہ شیریں الفاظ بولتے ہوئے وہ مودی کے ساتھ اتحاد میں بیٹھ گئیں۔ اتحاد کی بنیاد یہ ہے کہ مودی اور اس کے وزراء سے ”اخلاقی اپیل“ کی جائے کہ جمہوریت اور کسانوں کا خیال رکھا جائے۔ انہوں نے کئی ریلیاں کی ہیں اور حکومت کو پٹیشنیں اور خطوط جمع کرائے ہیں جن میں صدر رام ناتھ کووند بھی شامل ہے۔ رائٹ ونگ کا خاص در خاص آدمی شردپوار انڈیا کا سب سے طویل زرعی وزیر رہا ہے اور اسی نے زراعت کی کارپوریٹائزیشن کا عمل شروع کیا تھا۔ اس وقت وہ مہاراشٹر کی حکومت میں شیو سینا کا اتحادی ہے۔ کانگریس بھی اس اتحاد میں شامل ہے۔ مرکز میں اس وقت وہ حزبِ اختلاف کے مخلوط اتحاد کا سربراہ بنا ہوا ہے جس میں کانگریس اور سٹالنسٹ شامل ہیں۔ اس نے فوراًکسان دشمن قوانین پر سپریم کورٹ کی مداخلت کی حمایت کی اور اس کی تنقید کورٹ کی بنائی گئی کمیٹی تک محدود ہے۔
مزدورو اور کسانو۔۔متحد ہو اور چھین لو اپنا حق ان حکمرانوں سے
جن سرمایہ داروں کے خلاف کسان جدوجہد کر رہے ہیں ان کا منافع صرف زراعت سے ہی حاصل نہیں ہوتا۔ ان کے پورٹ فولیو میں کئی معاشی سیکٹروں کی کمپنیاں شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کسانوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن ان سرمایہ داروں کی ملکیت میں بینک، سافٹ ویئر کمپنیاں، معدنیات کی کانیں، مینوفیکچرنگ، سروسز وغیرہ بہت کچھ ہے۔ وہ آرام سے بیٹھ کر انتظار کر سکتے ہیں، کسانوں کو تھکا سکتے ہیں اور اس سیکٹر سے منافعے لوٹنے کا انتظار کر سکتے ہیں۔ اگرچہ کسان تہیہ کر کے دہلی کے سرحدی راستوں پر بیٹھے ہوئے ہیں کہ جب تک ان کے مطالبات مان نہیں لئے جاتے اس وقت تک وہ اٹھیں گے نہیں لیکن تحریک کو آگے بڑھ کر سرمایہ داروں اور ان کے نظام کو چیلنج کرنا پڑے گا۔
ابھی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ امبانی کی ریلائنس ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے ٹاور توڑ کر اپنے غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ میڈیا نے رپورٹ کیا کہ مانسا ضلع میں ٹاور گرا کر کیبل جلا دی گئی۔ جالندھر میں مظاہرین نے جیو کمپنی (امبانی کی کمپنی) کی فائبر آپٹک کیبل جلا دی۔ اب تک پورے ملک میں 1500 موبائل ٹاور خراب کر دیئے گئے ہیں جس پر پنجاب وزیرِ اعلیٰ امریندر سنگھ (کانگریس پارٹی) نے کسانوں کو شدید نتائج کی دھمکی دی ہے۔ لیکن وزیرِ اعلیٰ کی دھمکی کے بعد مزید ٹاوروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ امبانی کی ملکیت میں پیٹرول سٹیشنوں اور شاپنگ مالز پر بھی حملے کئے گئے ہیں۔ کئی کسانوں نے ذخیرہ اندوزی کی غرض سے بنائے گئے امبانی کے گوداموں کے باہر دھرنے دیے ہیں۔ اب تک کسان قائدین ماننے سے انکار کر رہے ہیں کہ ان کے کسانوں نے امبانی کاروبار کے انفرسٹرکچر کو نقصان پہنچایا ہے۔
غصہ موجود ہے اور کسان قائدین کو ایک ایکشن پلان بنانا پڑے گا جس کے ذریعے کسان دشمن قوانین کے پیچھے چھپے انڈین اور بیرونِ ملک اجارہ داریوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تحریک کو دیگر صنعتوں کے مزدوروں کے ساتھ جوڑا جائے جہاں یہ سرمایہ دار کام کر رہے ہیں جیسے کار سازی، ہوا بازی، بجلی، ریلوے، اسٹیل، تعمیرات، صحت، فنانس سروسز وغیرہ۔ ان سیکٹروں کے مزدوروں کے ساتھ اتحاد میں غیر معینہ مدت عام ہڑتال مودی سرکار کو دنوں میں ختم کر دے گی اور ان بڑے سرمایہ داروں کے لئے سنجیدہ خطرہ بن جائے گی۔ پھر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا آغاز کیا جا سکے گا۔
کسان دشمن قوانین کسانوں کے لئے خوفناک ہیں لیکن یہ مزدوروں کے لئے بھی موت کے پروانے سے کم نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان قوانین کے لاگو ہونے کے ساتھ ہی آلو اور پیاز جیسی اجناس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ یہی حالات گندم اور چاول کے ہیں۔ انڈین مزدور عام طور پر اپنی اجرت کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ اشیاء خوردونوش پر خرچ کرتا ہے اور اس وقت اس کی بری حالت ہے۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں معمولی اضافہ مزدوروں اور ان کے خاندانوں کو بھوک اور مفلسی میں دھکیل دیتا ہے جس کا نتیجہ خوراک کی کمی سے منسلک بڑھتی اموات اور بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس وقت مودی حکومت کی جانب سے ٹریڈ یونین دشمن قوانین میں اضافے کی وجہ سے پہلے ہی ہندوستانی مزدور تباہ حال زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پھر کورونا وبا کے نتیجے میں لگنے والے لاک ڈاؤن اور بیروزگاری کے طوفان نے کروڑوں مزدوروں کو اپنے خاندانوں سمیت واپس اپنے دیہات جانے پر مجبور کر دیا۔ اب ان کے پاس کوئی نوکری نہیں اور کرپشن زدہ MGNREGA نظام بھی بیروزگار نوجوانوں کو دیہات میں غیر ہنرمند کام دلانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (MGNREGA) 2005 میں UPA سرکار کی جانب سے لاگو کیا گیا تھا جس کے تحت دیہات کے غیر ہنر مند افراد کو 100 دنوں تک علاقائی سیاست دانوں کی طرف سے روزگار دینے کی گارنٹی تھی۔ البتہ یہ نظام کرپشن، رشوت اور تعلق واسطے کی بنیاد پر تقرریوں کی بھینٹ چڑھ گیا، جس کے نتیجے میں تقریبا 78 فیصد تنخواہوں کی عدائیگیاں مقررہ وقت سے کافی عرصے بعد کی دی جاتی تھیں۔
انڈین مزدور اس وقت وباء اور بیروزگاری کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی ٹریڈ یونین اشرافیہ ان چیلنجز کامقابلہ کرنے کے لئے ریڈیکل اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔ اصلاح پسندی کی غلاظت میں غرق یہ نام نہاد مزدور لیڈر اس وقت مسلسل تحریک کو روکے بیٹھے ہیں۔ خوفناک بحران اور مودی کے مزدور دشمن قوانین کی یلغار میں انہوں نے26 نومبر 2020ء کو ایک روزہ عام ہڑتال منظم کی جس میں 25 کروڑ مزدوروں نے شرکت کی۔ یہ ایک اچھا قدم ہے لیکن مودی کے مزدور دشمن حملوں کو روکنے کے لئے ناکافی ہے۔ بڑی ٹریڈ یونینز کی اکثریت سیاسی پارٹیوں سے منسلک ہے جو یا تو اقتدار میں بیٹھی ہیں یا پھر حزبِ اختلاف میں، جن میں سٹالنسٹ پارٹیاں بھی شامل ہیں۔ یہ تمام سیاسی پارٹیاں مزدور تحریک کو دبا کر رکھتی ہیں اور مزدوروں کی لڑائیوں اور تحریکوں کو پارلیمنٹ کی غلیظ چار دیواری میں قید رکھتی ہیں۔ یہ وہی پارلیمنٹ ہے جو کرپٹ غنڈوں، قاتلوں، کالے دھن کے پجاریوں، ریپسٹ غرض ہر قسم کی سماجی غلاظت سے بھری پڑی ہے جس کا واحد مقصد انڈین سرمایہ دار اور سرمایہ داری کا تحفظ ہے۔ انڈین پارلیمنٹ کا ایک ہی کام ہے کہ مزدوروں کوترقی کا دھوکہ دیا جائے، ان کی زندگیاں برباد کی جائیں اور ان کی تمام حقیقی تحریکوں کو ناکام بنایا جائے تاکہ سرمائے کی حکمرانی قائم و دائم رہے۔
مرکزی ٹریڈ یونینز کی رائٹ ونگ اور اصلاح پسند قیادتوں کے باوجود ان ٹریڈ یونینز میں موجود مزدور سرمایہ داروں، ریاست اور اس نظام کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کے لئے راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ اگر اس حوالے سے کوئی دوسری تنظیمیں متبادل پیش کرتی ہیں تو وہ سننے کے لئے تیار ہیں۔ صنعتوں کے اندر مزدوروں کیلئے ناقابل برداشت صورت حال ہونے کے باوجود ان ٹریڈ یونینز کی ممبرشپ میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مزدوروں کا طبقاتی شعور بہت پیچھے جا چکا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ٹریڈ یونین قیادتوں کی ڈرپوک حکمت عملی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ درحقیقت پورے ملک کے مختلف شعبوں میں ہمیں مزدوروں کے اچانک سے وقوع پزیر ہوتے ہوئے احتجاج نظر آتے ہیں۔
کسانوں کو محنت کشوں کی ان نوجوان اور غصے سے بھرپور پرتوں کو احتجاج میں شمولیت کی دعوت دینی چاہیے۔ ہر شہر، قصبے اور دیہات میں کسانوں کو مزدوروں اور ٹریڈ نینز سے ملاقاتیں کر کے انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنا چاہیے۔ اس عمل میں بہت ساری رکاوٹیں ہوں گی لیکن مودی اور اس کے سرمایہ دار مالکان کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی جیتنے کے لئے مزدوروں اور کسانوں کا ایک طاقتور اتحاد ناگزیر ہے۔
دائیں بازو کی کئی قوتیں اور فسطائی شعلہ بیان اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس میں کانگریس، SAD، SP، TMC اور شیو سینا شامل ہیں، جو کھوکھلے الفاظ میں کسانوں کی حمایت کر رہی ہیں۔ شیو سینا کا ماضی مہاراشٹرا ریاست میں فسطائیت اور مزدوروں کے بہیمانہ قتل عام سے داغدار ہے۔ دیگر پارٹیوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔
پچھلے دو سالوں میں ملک میں دنیا کی سب سے بڑی طلبہ، نوجوان اور عوامی تحریکیں برپا ہوئیں ہیں۔ چاہے وہ طلبہ تحریک ہو، شہریت قانون کے خلاف تحریک ہو، جموں اور کشمیر کی حیثیت کے حوالے سے تحریک ہو، خواتین کی جدوجہد ہو، پولیس گردی کے خلاف لڑائی ہو یا فسطائی RSS کے خلاف جدوجہد ہو، سرگرم عوام نے بار ہا مودی سرکار کو چیلنج کرکے شاندار جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ مایوس ہیں کہ گلی سڑی سیاسی پارٹیوں کے پاس انہیں دینے کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کچھ موجود نہیں۔ کسانوں کو طلبہ، شاہین باغ احتجاجیوں اور دیگر تحریکوں سے حمایت ملی ہے۔ مودی کی سرمایہ دار سرکار میں سماج کی ہر پرت کو ذلت و رسوائی اور استحصال کا سامنا ہے۔ عوام اس ہولناکی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کی متحدہ جدوجہد ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال منظم کر سکتی ہے جو مودی سرکار اور اس کے سرمایہ دار مالکان کے پرخچے اڑاتے ہوئے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔
مزدور اور کسان دشمن قوانین نامنظور!
کسانوں کے قرضے منسوخ کرو!
زمین، رہائش اور سوشل سیکورٹی فراہم کرو!
اجارہ داریوں پر قبضہ کرو!
غیر معینہ مدت عام ہڑتال زندہ باد!
مودی سرکار گرا ڈالو!
مزدور کسان اتحاد زندہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!