انڈیا: مودی سرکار عوامی اداروں کو بیچنے کے در پے، نجکاری نامنظور!

پچھلے سات سالوں میں مودی سرکار نے انڈین عوام کے الام و مصائب میں مسلسل اضافہ کیا ہے جسے کورونا وباء نے اور بھی اذیت ناک بنا دیا ہے۔ گڈز اور سروسز ٹیکس (GST) کا اجراء، ڈی مونیٹائزیشن اور اچانک غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن نے عوام کی دگرگوں حالت کو اور بھی گھمبیر کر دیا ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

کورونا وباء کے آغاز سے فیکٹریوں کی بندش، نوکریوں سے جبری برخاستگی، چھانٹیاں اور اجرتوں میں مسلسل کمی اب معمول بن چکے ہیں۔ اس وقت بے روزگاری کی شرح 45 سالوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ لیکن وباء کی معاشی تباہی و بربادی کے باوجود مودی مسلسل کارپوریٹ مفادات کی دلالی میں مصروف ہے۔

سال 2020ء میں معیشت کو بچانے کے لئے وزیرِ خزانہ نرملا سیتھارامن کی جانب سے اعلان کردہ 7.9 ارب انڈین روپے (101 ملین ڈالر) کے امدادی پیکج جیسے اعلانات معاشی بحران کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اس کے برعکس ان اقدامات کے نتیجے میں انڈین سرمایہ دار طبقہ قائم و دائم رہا اور کرپٹ ریاستی اشرافیہ مزید امیر ہو گئی جبکہ عام عوام اس تاریخی بحران کی تباہ کاریوں میں مسلسل پس رہے ہیں۔

نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن

حال ہی میں مودی سرکار نے ”نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن (NMP)“ کا اعلان کیا ہے جس میں ”بیکار“ قومی اثاثوں کو نجی کانٹریکٹرز کو دے دیا جائے گا تاکہ سرکاری آمدن میں اضافہ ہو سکے۔ ریاستی ذرائع کے مطابق اس عمل کے ذریعے 6 ٹریلین انڈین روپے (80 ارب ڈالر) دستیاب ہوں گے اور کوئی بھی اثاثہ نجی ملکیت میں نہیں دیا جائے گا۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق جن قومی اثاثوں کو اس سکیم میں لایا جا رہا ہے ان میں قومی شاہراہیں، گیس پائپ لائنز، 15 ریلوے اسٹیشن، 25 ائرپورٹ، 160 کوئلے کی کانوں میں ریاستی شیئرز، 9 بڑی بندرگاہوں میں 31 منصوبے، 2.1 کروڑ میٹرک ٹن سامان ذخیرہ کرنے کی صلاحیت والے گودام، 2 قومی سٹیڈیم اور 2 علاقائی سنٹر شامل ہیں۔ سرکار نے 2 ارب ڈالر کے برابر رقم ITDC ہوٹلوں اور دیگر ریاستی پراپرٹیوں کی تزین و آرائش کے لئے مختص کئے ہیں تاکہ سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا جائے۔

NMP اثاثہ جات میں 26 ہزار 700 کلومیٹر کی سڑکیں، ریلوے سٹیشن، ٹرین آپریشن اور ریلوے ٹریک، 28 ہزار 608 کلومیٹر کے فائبر آپٹکس، ٹیلی کام سیکٹر کے 14 ہزار 917 موبائل ٹاور، 8 ہزار 154 کلومیٹر قدرتی گیس پائپ لائنز اور 3 ہزار 930 کلومیٹر کی پیٹرولیم پائپ لائنز شامل ہیں۔ سرکار اب تک 1400 کلومیٹر قومی شاہراہوں کی نجکاری کر چکی ہے۔

سرکار کی تمام تر تسلیوں کے باوجود اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ پالیسی چور دروازے سے نجکاری کی لوٹ سیل ہے۔ NMP کے ذریعے چھوٹے فروشوں کی جگہ کارپوریٹ سیکٹر آ جائے گا۔ نجکاری کے نتیجے میں عوام کو ملنے والی سروسز اور اجناس کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ اس کے ساتھ کئی نوکریوں کی مستقلی ختم ہو جائے گی جس کے نتیجے میں اجتماعی سودے بازی کا حق ختم ہو جائے گا۔۔اس کے لئے حال ہی میں مودی سرکار نے ٹریڈ یونین مخالف قانون سازی بھی کر لی ہے۔ NMP سے ایک طرف محنت کشوں اور غرباء میں بے روزگاری اور تباہی و بربادی بڑھے گی جبکہ دوسری طرف نجی ہاتھوں میں دولت کے مزید انبار اکٹھے ہوں گے۔

گھر کے سامان کی لوٹ سیل

اس کے ساتھ مودی سرکار قومی بینکوں کو مدغم کر کے ان کی نجکاری کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ بینک ملازمین اس انضمام کے شدید خلاف ہیں۔ اس سال کے آغاز میں انضمام اور نجکاری کے خلاف 90 ہزار بینک ملازمین نے احتجاج کیا ہے۔ تقریباً ہر انڈین خاندان نے اپنے پیسوں کی سرمایہ کاری اب نجکاری کے نشانے پر موجود لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (LIC) میں کی ہوئی ہے۔ LIC کے اثاثہ جات کی کل مالیت 38 ٹریلین انڈین روپے (500 بلین ڈالر) ہے جنہیں اب نجی سیکٹر کو تحفہ کیا جا رہا ہے۔

پارلیمنٹ نے میرین فشریز بل 2021ء بھی منظور کر لیا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق اب میرین وسائل اور سمندروں کو ملٹی نیشنل کارپوریشنز (MNCs) کی لوٹ مار کے لئے کھول دیا جائے گا۔ اس پالیسی کے تحت روایتی مچھیروں کے لئے لائسنس کا حصول ناممکن ہی ہو جائے گا اور وہ ساحل سے 12 سمندری میل سے آگے ماہی گیری نہیں کر سکیں گے۔ یہ قدغن MNCs کے لئے نہیں ہے۔ انڈیا کے پاس دیو ہیکل ساحلی علاقہ جات اور متعدد بندرگاہیں ہیں جنہیں اب MNCs کی لوٹ مار کے لئے کھولا جا رہا ہے۔

اگرچہ سرکار کے اپنے معاشی اشاریے GDP میں بڑھوتری کی نشاندہی کر رہے ہیں لیکن بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہو اہے جس میں روزگار سیکورٹی کے حوالے سے وباء نے کلیدی منفی کردار ادا کیا ہے۔ سروسز سیکٹر (IT، مہمان نوازی وغیرہ) میں خوفناک استحصال اور ٹریڈ یونین حقوق کی عدم موجودگی کے ساتھ روزگار صنعتی سیکٹر سے زیادہ ہے۔

سینٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکانومی کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی میں 6.95 فیصد کے مقابلے میں اگست میں بے روزگاری کی شرح 8.32 فیصد ہو چکی ہے۔۔یعنی صرف ایک مہینے میں 15 لاکھ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ اب سرکار بے روزگاری اعداد و شمار میں گھپلا کرتے ہوئے ستمبر میں شرح 6.86 فیصد دکھا رہی ہے لیکن یہ بھی وباء سے پہلے کی شرح سے زیادہ ہے۔ بے روزگاری خاندانوں کو مفلسی میں دھکیل رہی ہے۔

یاد رہے کہ یہ اعدادوشمار رسمی سیکٹر سے متعلق ہیں۔ انڈیا میں 80 فیصد آبادی کا تعلق غیر رسمی سیکٹر سے ہے یعنی غیر منظم سیکٹر جس کا سرکاری کھاتوں میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور اب وباء نے اسے برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ انڈیا میں پیٹرولیم مصنوعات پر دنیا میں سب سے زیادہ 260 فیصد ٹیکس ہے۔ ڈی ریگولیشن کی پالیسی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ مائع پیٹرولیم گیس (LPG) کے لئے سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔ نتیجتاً صارفین کے لئے مائع پیٹرولیم گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور معیشت میں افراطِ زر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

مودی-شاہ جوڑی کے پاس عوام کے سلگتے معاشی مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ نجکاری، لبرلائزیشن اور عالمگیریت کی ناکام پالیسیوں پر مسلسل کاربند ہیں۔ اس تمام فنانشل سٹہ بازی، ریاستی اثاثوں کی نجکاری اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI) میں اضافے کے نتیجے میں پیداواری معیشت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ صرف امراء کی جیبیں دولت سے بھری گئی ہیں۔

اجارہ دارانہ سرمایہ داری

انڈیا سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے مطابق سٹرکچرل ایڈجسمنٹ پالیسیاں لاگو کر کے اپنی معیشتوں کو لبرلائز کرنا پڑا تھا۔ اس پالیسی کو انتہائی سفاکی سے سال 1991ء میں وزیرِ خزانہ من موہن سنگھ نے متعارف کرایا تھا۔ من موہن سنگھ بعد میں ایک دہائی تک انڈیا کا وزیر اعظم رہا جس کی پالیسیوں کے نتیجے میں سال 2014ء میں مودی سرکار کا جنم ہوا۔

تین دہائیوں تک منڈی کی معیشت کی اصلاحات کے نتیجے میں بے تحاشہ نجکاری ہوئی جس میں ریاستی ملکیت میں کوئلہ، توانائی، کان کنی، ریلوے، انفراسٹرکچر اور دفاع جیسے کلیدی سیکٹرز کو MNCs کے لئے کھولا گیا تاکہ بیرونی سرمایہ کاری (FDI) میں اضافہ ہو سکے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں قومی اور نجی قرضوں میں بھی دیو ہیکل اضافہ ہوا۔

ریاستی اداروں میں مسلسل عدم سرمایہ کاری کے ساتھ MNCs اور نجی سیکٹر کو عوامی پیسوں اور وسائل سے نہال کر دیا گیا۔ نتیجتاً ایک وقت آنے پر نجی سیکٹر قومی سیکٹر کا سارا خون نچوڑ کر پی گیا۔

ریاستی ٹیلی کام کمپنی BSNL کو ائر ٹیل، ووڈا فون، ریلائنس جیو جیسی نجی کمپنیوں نے برباد کر دیا۔ یہ ایک تسلسل سے جاری شعوری پالیسی تھی جس پر کاربند ہر سرکار نے نجی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ یہاں تک کہ BSNL کو 4G لائسنس بھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔ یہی صورتحال ہمیں معیشت کے ہر سیکٹر میں نظر آتی ہے۔

رافائل ڈیل ایک اور مثال ہے جس میں انڈین سرکار نے 7.8 بلین یورو کی ادائیگی پر ایک فرانسیسی کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن سے 36 ملٹی رول جنگی ہوائی جہاز خریدے۔ ان کے آپریشن اور دیکھ بھال کے لئے ہوابازی سے منسلک ایک قومی کمپنی ہندوستان یونی لیور لمیٹڈ (HUL) کے ساتھ موجود معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ بعد میں مودی کے اصرار پر یہ ٹھیکہ مودی کے مالک انیل امبانی کے ریلائنس گروپ کو دے دیا گیا۔

مرکزی اور ریاستی سرکاریں سپیشل اکنامک زونز (SEZs) کا لال قالین بچھا کر MNCs کا استقبال کرتی ہیں۔ ان مخصوص زونز میں لیبر قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہاں مزدوروں کا بے دریغ استحصال ہوتا ہے اور انہیں لیبر یونین بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ماحولیات تحفظاتی قوانین کو بھی بڑی اجارہ داریوں کو خوش کرنے کے لئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ SEZs میں بجلی، پانی، زمین وغیرہ جیسے قومی وسائل بے تحاشہ سبسڈیوں کے تحت فراہم کئے جاتے ہیں۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے اجرتی عدم مساوات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور بڑی اجارہ داریوں کے پنجے قومی معیشت کے ہر حصے پر گاڑھے جا چکے ہیں۔

صحت اور تعلیم کے شعبوں کی بڑے پیمانے پر نجکاری ہو چکی ہے اور یہ دونوں سہولیات اب محنت کش طبقے کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ دیگر غریب ممالک کے مقابلے میں انڈیا میں ان شعبوں میں ریاستی سرمایہ کاری کم ترین ہے۔ کورونا وباء کے دوران انڈیا کی وسیع تر آبادی کو نجی شعبہ صحت پر انحصار کرنا پڑا ہے کیونکہ عوامی شعبہ صحت کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ نجی شعبہ صحت اور بھی زیادہ دگرگوں حالت کے ساتھ انتہائی گراں قدر ہے۔ وباء کے دوران ہزاروں کی موت صرف آکسیجن سلنڈر کی کمی سے ہوئی جبکہ علاج کے قرضوں کا بوجھ الگ پہاڑ بن کر سر چڑھ گیا۔

لیکن وباء کے دوران بھی امیر ترین شخصیات کی لوٹ مار جاری رہی اور ان کی جیبوں میں حیران کن دولت مرتکز ہوئی۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق وباء کے دوران انڈین ارب پتیوں نے اپنی دولت میں 35 فیصد اضافہ کر کے مجموعی دولت 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھا لی ہے۔ سال 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈین آبادی کی بالائی 10 فیصد آبادی کل مجموعی قومی دولت کے 77 فیصد کی مالک ہے۔

IIFL Huran Rich List کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گوتم اڈانی کی دولت 5.1 لاکھ کروڑ انڈین روپے ہو کر مکیش امبانی (7.1 لاکھ کروڑ انڈین روپے) کے بعد دوسے نمبر پر جا پہنچی ہے۔ شانتی لال اڈانی کی دولت 1.40 لاکھ کروڑ انڈین روپے ہو چکی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے طول و عرض میں 119 شہروں میں 1007 افراد کی انفرادی دولت 1 ہزار کروڑ یا اس سے زیادہ انڈین روپے ہے۔ سائرس پوون والا کی سربراہی میں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی دولت 74 فیصد بڑھ کر 1.63 لاکھ کروڑ انڈین روپے ہو چکی ہے۔ یہ کمپنی انڈیا میں 90 فیصد ویکسین لگا رہی ہے اور اس ہولناک وباء میں اس نے دیو ہیکل منافع لوٹا ہے۔

اشتعال انگیزی اور زرعی قوانین

کرپٹ، سرمایہ دار نواز اور عوام دشمن مودی سرکار نے ایسے اقدامات کئے ہیں جو معاشی اور صحت عامہ کے مسائل سے برباد عوام کو مشتعل کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سنٹرل ویسٹا پراجیکٹ۔۔ایک نئی پارلیمنٹ عمارت جو دہلی میں صدارتی محل (راشٹرپتی بھون) اور انڈیا گیٹ کے درمیان ہو گی اور موجودہ پارلیمنٹ کو میوزیم بنا دیا جائے گا۔

نئی پارلیمنٹ کا رقبہ 64 ہزار 500 مربع میٹر ہو گا اور اس میں ایک عظیم دستور ساز ہال ہو گا۔ وباء کے دوران ہزاروں لوگ آکسیجن سلینڈر کے لئے تڑپتے رہے اور دریائے گنگا میں لاشیں بہتی رہیں لیکن نئی عمارت کی تعمیر کا کام جاری رہا۔ کرپٹ سپریم کورٹ نے سال 2021ء میں پراجیکٹ کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔ کام اس وقت بھی جاری رہا جب انڈیا وباء کی تباہی میں ڈوبا ہوا تھا۔ پوری دنیا کو واضح ہو گیا کہ سرکار کی ترجیح عوامی صحت کے برعکس مودی کے کھرب پتی یاروں کی دولت اور غرور کا بول بالا ہے۔

نئی پارلیمنٹ کا ایک خاصہ یہ ہے کہ اس کی دیو ہیکل چاردیواری ہو گی اور عوام کو اس تک رسائی حاصل نہیں ہو گی۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے۔ حکمران طبقے کی کوشش ہے کہ ان کا نیا جاہ پرست پراجیکٹ احتجاجوں کے سائے سے بچا رہے۔

اس کے ساتھ پارلیمنٹ میں نام نہاد مون سون سیشن میں 17 قوانین کسی بحث مباحثے کے بغیر منظور ہو گئے ہیں جن میں جنرل انشورنس ترمیمی بل، ائرپورٹ بل اور ماہی گیری بل شامل ہیں۔ یہ ایسا انوکھا واقعہ تھا کہ کرپٹ سپریم کورٹ کو بھی کہنا پڑا کہ اس طرح سے قوانین منظورکرنا پریشان کن ہے۔ جنرل انشورنس بل کے تحت قومی ملکیت میں موجود انشورنس کمپنیوں کے حصص نجی سرمایہ کاروں کو بیچے جائیں گے جن میں 38 لاکھ کروڑ انڈین روپے مالیت کی لائف انشورنس کارپوریشن (LIC) بھی شامل ہے۔

حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کانگریس، CPI، CPM، TMC اور DMK نے سیلیکٹ کمیٹیوں میں یہ بل نہ بھیج کر علامتی احتجاج کئے ہیں۔ مرکزی سٹالنسٹ پارٹیاں ہمیشہ اپنی جدوجہد کو کرپٹ پارلیمنٹ، عدلیہ یا ریاستی اقدامات کی حدود میں قید کر نے کی جستجو کرتی ہیں۔

حال ہی میں مودی نے اسرائیلی تیار کردہ جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس اپنے مخالفین کی جاسوسی کے لئے استعمال کیا۔ حزبِ اختلاف نے ایک مرتبہ پھر علامتی احتجاج کیا۔ کرپٹ عدلیہ نے بھی اس کارِ خیر میں حصہ ڈالتے ہوئے مذمت کی اور ”مودی سرکار سے جواب مانگا ہے“۔ مودی نے کوئی توجہ نہیں دی، حزبِ اختلاف کی چوں چوں کو انڈیا کے خلاف ایک سازش قرار دے دیا اور اپنی غیر قانونی جاسوسی جاری رکھی۔

ہم نے پہلے بھی رپورٹ کیا ہے کہ کسان پچھلے دس مہینوں سے دہلی کے گردونواح میں تین رجعتی مرکزی زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کسانوں کی چھاتر تنظیم سمیوکتھا کسان بندھ نے 27 ستمبر کو قومی بندھ (عام ہڑتال) کی کال دی جسے پوری آبادی کی تمام پرتوں سے بے پناہ پذیرائی ملی۔

اس کے بعد احتجاجی کسانوں پر 3 اکتوبر 2021ء کو ریاست نے خوفناک حملہ کیا جس میں ایک BJP قائد کے بیٹے نے ایک ہجوم پر گاڑی چڑھا کر ایک صحافی سمیت 4 افراد کو قتل کر دیا۔ مرکزی زرعی قوانین کے خلاف جدوجہد میں اب تک 600 کسان شہید ہو چکے ہیں۔ ان قوانین کے تحت زراعت کی نجکاری ہو جائے گی اور یہ مکمل طور پر اجارہ دار سرمایہ داروں کے قبضے میں چلی جائے گی۔ (نوٹ: یہ مضمون مودی سرکار کے کسانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور تمام مطالبات مان لینے سے پہلے لکھا گیا تھا۔ کسان تحریک کی اس عظیم الشان کامیابی کے متعلق مزید تفصیلات جاننے کیلئے یہاں کلک کریں)

کسان اپنی اجناس پر ایک گارنٹی قیمت کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ موجودہ منڈی (آڑہتی) کے ذریعے اجناس کا حکومتی حصول ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ نظام اقربہ پروری اور استحصال سے برباد ہو اپڑا ہے لیکن نجی منڈی ایک کم از کم سپورٹ قیمت (MSP) گارنٹی کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بینکاری سیکٹر کی سابقہ نجکاری کی وجہ سے زراعت میں سرمایہ سرایت نہیں ہوا لیکن اب اس سیکٹر میں نام نہاد گرین انقلاب کے بعد سرمایہ داروں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

سب سے بڑھ کر انداختہ قیمتیں (بیج، کھاد وغیرہ) بے تحاشہ بڑھ چکی ہیں۔ نجکاری کی وجہ سے کسان اور زرعی مزدور قرضوں میں ڈوب رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق سال 1995ء سے اب تک 6 لاکھ کسان خودکشیاں کر چکے ہیں۔ زرعی قوانین کسانوں کو بڑی اجارہ داریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔

آگے بڑھنے کا راستہ

مودی-شاہ جوڑی اور کارپوریٹ میڈیا سبز باغ دکھا رہے ہیں کہ نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن اور قومی سیکٹر کی نجکاری کے ذریعے انتظامیہ کی کارکردگی بہتر ہو گی، روزگار اور آمدن میں اضافہ ہو گا وغیرہ۔ یہ سب جھوٹ ہے۔

سال 1991ء میں معیشت کی لبرلائزیشن کے بعد سے اب تک نجی سیکٹر کا کردار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ معیشت کو MNCs کے لئے کھول دیا گیا ہے اورتزویراتی سیکٹر جیسے دفاع، کوئلہ، سٹیل، ٹیلی کام میں FDI بڑھ گئی ہے۔ روزگار میں اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی موجودہ روزگار میں بہتری ہوئی ہے بلکہ ساری صورتحال اس کے برعکس ہے۔

مسلسل بڑھتے خساروں اور دیو ہیکل حکومتی قرضوں کا مودی سرکار کے پاس ایک ہی حل ہے اور وہ ہے مزید نجکاری، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ اور عوام کے کندھوں پر مزید بوجھ۔ سابق اور موجودہ سرکاروں کی ریاستی اثاثوں کی نجکاری کی پالیسیوں سے قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں اضافہ ہوا ہے اور نجی کمپنیوں کو باآسانی قومی سیکٹر میں تعمیر کئے گئے وسائل تک سستی رسائی حاصل ہو گئی ہے۔

IMF کے مطابق اگلے دور میں جی ڈی پی اور قومی قرضے کی شرح 90 فیصد ہو جائے گی۔ اس وقت موجودہ مالیاتی خسارہ 4.68 لاکھ کروڑ انڈین روپے ہے یا موجودہ بجٹ کا 31.1 فیصد ہے۔ معیشت میں گراوٹ اور کورونا وباء کے دوران لاک ڈاون کے باوجود سرکار کا دفاعی بجٹ کم نہیں ہوا ہے۔ اس کا حجم 72.9 بلین ڈالر ہے۔۔یعنی انڈیا، چین، امریکہ اور روس سمیت سال 2020ء میں سب سے زیادہ دفاعی اخراجات کرنے والا ملک ہے۔

ریاستی اثاثوں کی فروخت اور نجکاری کی پالیسی سے معاشی نمو بہتر نہیں ہو گی۔ اس کے برعکس جو بھی نئی آمدن ہو گی وہ سامراجی سرمایہ داری کے تحت قرضوں کی ادائیگی میں چلی جائے گی۔ انڈیا اس عالمی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے اور اس پر بھی عالمی سرمایہ دارانہ بحران کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ اس وقت بے پناہ افراطِ زر، جمود، توانائی بحران، بے روزگاری، قوتِ خرید میں گراوٹ وغیرہ انڈین معیشت کا خاصہ بن چکے ہیں اور مودی-شاہ سرکارکے پاس ایک ہی حل موجود ہے کہ تمام قومی اثاثے بیچ دو۔

”انڈیا میں تیار شدہ“ اور ”خود انحصاری“، مودی کے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ایجاد کردہ ڈھکوسلے ہیں۔ موجودہ سرمایہ دارانہ بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے کی پشت پر اشیاء خوردونوش، گیس اور بجلی کی سبسڈیوں میں کمی اور لیبر حقوق کو پامال کر کے ڈالا جا رہا ہے۔ اس دوران سال 2019ء میں کارپوریٹ سیکٹر کو 1.45 ٹریلین انڈین روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔

سرمایہ داری میں ہر راستہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے۔ محنت کش طبقے کے پاس اس بحران کو حل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ MNCs اور ارب پتیوں کی تمام لوٹی ہوئی دولت ضبط کر لی جائے اور صنعت کو ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں لے لیا جائے۔

ٹراٹسکی نے اپنے مضمون ”ہمارے عہد میں مارکسزم“ میں سوشلسٹ انقلاب کی ناگزیریت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”سماج کی خدمت پر معمور حکومت اور سائنس کی انتہاء کو پہنچی تکنیک کے ملاپ کے ذریعے ہی منصوبہ بند معیشت بنائی جا سکتی ہے۔ اگر تکنیک اور حکومت نجی ملکیت کی غلامی سے آزاد ہوں تو ایسا ملاپ ممکن ہے۔ یہیں پر عظیم انقلابی فرائض کا آغاز ہوتا ہے۔ تکنیک کو نجی مفادات کے پنجوں سے نکالنے اور حکومت کو سماج کی خدمت پر معمور کرنے کے لئے لازم ہے کہ ’ضبط کرنے والوں کو ضبط کر لیا جائے‘۔ صرف ایک طاقتور طبقہ جو اپنی آزادی کے لئے پرعزم ہو اور اجارہ دار قابضوں کا مخالف ہو، صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کام کو مکمل کیا جائے۔ صرف ایک مزدور حکومت کے ساتھ ملاپ میں ہی ہنرمند تکنیکیوں کی ایک پرت ایک حقیقی سائنسی اور حقیقی قومی یعنی سوشلسٹ معیشت تخلیق کر سکتی ہے“۔

پچھلے دور میں جابر مودی سرکار کے خلاف طبقاتی جدوجہد کا ہتھیار استعمال کر کے کسان تحریک نے مشعلِ راہ روشن کر دی ہے۔ انڈین سماج کی تمام جبر زدہ اور استحصال زدہ پرتوں کو لازمی متحد ہو کر ”عظیم انقلابی فریضے“ کے لئے تیار ہونا ہے جس کے ذریعے ان خون آشام بھیڑیوں کے چنگل سے معیشت کو آزاد کرا کر پورے سماج کی بہتری کے لئے جمہوری کنٹرول میں منظم کیا جائے۔