کتاب، ’’لینن کے دفاع میں‘‘: نظریات کا انمول خزانہ

جو شخص لینن کی ذات سے متعلق آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔ لیکن 45 جلدوں پر مشتمل جمع شدہ کام (انگریزی میں) ایک قابل ذکر چیلنج ہے اور اسے عبور کرنے کے لئے ایک زندگی درکار ہے۔ اس لئے ویل ریڈ بُکس پبلیکیشنز کی جانب سے شائع ہونے والی لینن کی سوانح عمری ”لینن کے دفاع میں“ ایک ایسی اشاعت ہے جو باآسانی کسی کو بھی اس کے نظریات اور آج ان کی افادیت سے آگاہی آسان فہم اور مجتمع شدہ شکل میں فراہم کرے گی۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اس کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ بالشویزم کی تاریخ کے نووارد اور کچھ تجربہ یافتہ، دونوں افراد کے لئے ہی موزوں ہے۔ مارکسزم کی راہ پر پہلا قدم رکھنے والے کے ہاتھوں میں ایک ایسی کتاب ہے جو لینن کی شخصیت اور اس کے نظریات پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہے جن کو مسخ کرنے کی بے تحاشہ کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ایسے کامریڈز جو ”لینن اور ٹراٹسکی: ان کے حقیقی نظریات“ جیسی کتاب کی ورق گردانی کر چکے ہیں یا کام پر جاتے ہوئے ”بالشویزم“ کتاب کی آڈیو بک سے مستفید ہو چکے ہیں، ان کے لئے بھی اس کتاب میں دلچسپی کے کئی پہلو موجود ہیں۔

مثال کے طور پر پہلے چند ابواب زیادہ ذاتی نوعیت کے ہیں اور ان میں لینن کی پرورش اور بچپن کے حوالے سے کچھ ایسی تفصیل موجود ہے جس سے بہت کم لوگ آشنا ہیں۔ یہ محض ”جاننے کے لئے اچھا“ مواد نہیں ہے بلکہ بعد کے ابواب میں لینن کے سیاسی ارتقاء اور ریڈیکلائزیشن میں کلیدی کردار کا حامل خزانہ ہے۔

یہ کتاب دو جلدوں اور ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور ظاہر ہے اس کا حجم کچھ زیادہ بن جاتا ہے لیکن اس طرح سے ہمیں کچھ کلیدی واقعات جیسے ”اسکرا“ کا اجراء، روسی محنت کش طبقے کی تحریک میں ابتدائی بحثیں، 1903ء کی تقسیم اور 1905ء کا انقلاب، جسے لینن 1917ء اکتوبر انقلاب کی ’ڈریس ریہرسل‘ کہتا تھا، وغیرہ کے حوالے سے گہرائی میں لازمی جانکاری حاصل ہوتی ہے۔

پہلی عالمی جنگ سے پہلے رجعتیت کا دور اور خود جنگ جیسے واقعات بھرپور انداز میں مارکسزم میں ہر قسم کی ترمیم پسندی کے خلاف اور بے داغ مارکسی جھنڈے کے دفاع میں لینن کی جدوجہد کی تائید کرتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب لینن شدید تنہا اور اکثر اوقات اپنی پارٹی میں ہی اقلیت بن کر رہ گیا تھا۔

باب نمبر 20 ’جلاوطنی سے لینن کا جواب“ جس میں اس کے ”پردیس سے خطوط“ کے تفصیلی حوالہ جات درج ہیں، خاص طور پر انقلاب کے نئے پرلطیف جھونکوں میں ایک بہترین عبوری تحریر ہے۔ اگر لینن بسا اوقات واقعات کے شدید دباؤ اور تھپیڑوں میں پارٹی کو نظریاتی طور پر مسلسل مسلح کرنے کے لئے موجود نہ ہوتا تو اکتوبر انقلاب کا کوئی وجود نہ ہوتا۔

یقینا جلد اول سے واضح ہے کہ بالشویک پارٹی کی تعمیر ایک سیدھی لکیر نہیں تھی۔ یہ ایک کٹھن راستہ تھا جو مشکلات، ناکامیوں اور مایوسیوں سے بھرپور تھا۔ جلد دوئم میں اکتوبر انقلاب اور بعد کے دور کا احاطہ کیا گیا ہے اور اس میں بھی یہی خیال آگے بڑھایا گیا ہے۔ روز اول سے ہی یہ بقا کی بھرپور جدوجہد تھی۔ مصنفین انقلاب کی مختلف حاصلات کو اجاگر کرتے ہیں لیکن ابتدائی سوویت ریاست کو درپیش انتہائی مشکل مادی اور ثقافتی پسماندہ حالات سے انکار نہیں کرتے جس میں خونریز خانہ جنگی اور قحط نے بھرپور کردار ادا کیا۔

یہ ایمانداری بذات خود لینن کی مسلسل اپنائی سچائی کا تسلسل ہے۔۔۔جو ہے وہ بتاؤ۔ درحقیقت ”لینن کے دفاع میں“ میں ایک اور پہلو بھی موجود ہے یعنی کہ وہ کتنا بھرپور انسان تھا۔ لینن کمال حس مزاح اور گرمجوشی کا پیکر تھا۔ مصنفین تعارف میں بتاتے ہیں کہ اس سے ملاقات کرنے والے اس کی ذہانت کے ساتھ اس کی شاندار حس مزاح کے بھی دلدادہ تھے جسے اس کے مخالفین نے ختم یا نظرانداز کرنے کی کوشش کی ہے۔ ”وہ اس لئے اس پہلو پر بات نہیں کرتے کیونکہ حس مزاح ایک خونخوار آمر کے ’بیانیے‘ سے مطابقت نہیں رکھتی“۔

ضمیمہ ”کروپسکایا اور لینن“ میں یہی انسانی پہلو مزید اجاگر ہوتا ہے۔ یہاں لینن کی ساری عمر کی رفیق اور جدوجہد میں ساتھی دیگر حوالوں کے ساتھ لینن کے محتاط طریقوں کو اجاگر کرتی ہے کہ وہ کیسے عوام کے لئے لکھتا تھا، اس کے ادبی شوق، پرانے انقلابی شرنیشیفسکی کے لینن کے ارتقاء پر اثرات اور آخر میں سب سے اہم، لینن نے مارکس کا مطالعہ کیسے کیا۔

لیکن سب سے بڑھ کر ”لینن کے دفاع میں“ آج کے انقلابیوں کے لئے ایک انمول خزانہ ہے۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی چار کانگریسوں کی طرح، جن پر ایک علیحدہ باب میں بحث مباحثہ کیا گیا ہے، یہ کتاب ایک حقیقی مارکسی سکول ہے۔ انتظار نہ کرو اور ابھی سے اپنی کاپی بک کراؤ!