جنرل کنفیڈریشن آف لیبر (CGT) کی 53ویں کانگریس مارچ کے اختتام پر منعقد کی گئی اور یونین کنفیڈریشن کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ 942 مندوبین بائیں اور دائیں بازو میں منقسم چار دن شدید بحث مباحثہ کرتے رہے۔ اگرچہ دایاں بازو قیادت پر کنٹرول قائم رکھنے اور اپنی منظور نظر سوفی بینیت کو جنرل سیکرٹری بنوانے میں کامیاب رہا لیکن بائیں بازو نے تاریخی قوت اور جنگجوئی کا اظہار کیا۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
27 مارچ کو کانگریس کے پہلے دن کئی مندوبین نے سٹیج سے زیادہ جمہوری اقدامات اپنانے کا مطالبہ کیا جبکہ کانگریس نمائندگان اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ کانگریس کا رنگ پہلے دن ہی جم گیا۔ لیکن دوسرے دن آسمان سے بجلی اس وقت گری جب ایک گرما گرم بحث مباحثے کے بعد سبکدوش قیادت کی حالیہ سرگرمیوں پر تنقیدی جائزے کی دستاویز جس کا نام ”سرگرمیاں رپورٹ“ ہے، کو 50.3 فیصد کے ووٹ سے مسترد کر دیا گیا۔
یہ CGT کے سبکدوش ہونے والے جنرل سیکرٹری فیلیپ مارٹینیز اور پوری سبکدوش قیادت کا تاریخی محاسبہ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر نووارد قیادت کے لئے واضح وارننگ ہے جو بنیادی طور پر سابق قیادت سے مختلف نہیں ہے۔ اگلے چند مہینوں اور سالوں میں سماج میں مسلسل بڑھتی طبقاتی پولرائزیشن کے دباؤ میں CGT کی اندرونی پولرائزیشن کا عمل جاری رہنے کے ساتھ شدت اختیار کرتا رہے گا۔
تزویراتی خلفشار
سبکدوش ہونے والی قیادت کی کارگردگی کا مسترد ہونا اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ 2006ء میں ”پہلا روزگار معاہدہ“ کے خلاف جدوجہد کے علاوہ پچھلے بیس سال CGT کو ملکی سطح پر ہر درپیش چیلنج میں ناکامی ہوئی ہے۔ ان شکستوں میں سب سے قابل ذکر 2003ء میں ریٹائرمنٹ اصلاحات، 2010ء اور 2014ء کی پنشن اصلاحات، 2016ء اور 2017ء میں نئے لیبر قوانین اور 2018ء میں ریلوے محنت کشوں کے حقوق میں کمی شامل ہیں۔
2020ء میں CGT کے اقدامات کے برعکس یہ کورونا وباء کا بحران تھا جس نے میکرون کو ریٹائرمنٹ کے ”پوائنٹس کی بنیاد پر سسٹم“ کو لاگو کرنے سے روکے رکھا۔ جنوری 2020ء تک ان اصلاحات کے خلاف جدوجہد واضح طور پر ختم ہو چکی تھی کیونکہ ریلوے محنت کشوں کی غیر معینہ مدت ہڑتال ابتداء سے تنہائی کا شکار تھی۔
شکستوں کی اس طویل فہرست کی تفصیل میں ”سرگرمیاں رپورٹ“ میں سارا ملبہ ”ٹریڈ یونین تقسیم“ اور ”ٹریڈ یونین ازم کا انتشار اور پچھڑے رہنے“ پر ڈال دیا گیا ہے، یعنی تمام الزام CGT کے بائیں بازو پر تھونپ دیا گیا ہے۔ مختصراً CGT قیادت اپنی تمام غلطیوں کو نظر انداز اور ذمہ داریوں سے انحراف کرتے ہوئے پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ناکامیوں کی اصل وجہ واضح ہے۔ درحقیقت ہر اہم تحریک پر CGT قیادت کی جانب سے مسلط کردہ انتہائی نرمی اور تزویراتی انتشار سب سے بڑا جرم ہے۔
اس جرم کا تجزیہ کر لیتے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے عمومی بحران کی روشنی میں فرانسیسی سرمایہ دارانہ معیشت کے تمام سیکٹروں سمیت پچھلے کئی سالوں سے انحطاط پذیر ہے۔ نتیجتاً موجودہ پنشن رد اصلاحات کی طرز پر مسلسل اور شدید رد اصلاحات فرانسیسی حکمران طبقے کی معروضی مجبوری بن چکے ہیں۔ اس بنیادی وجہ سے حکمران طبقہ محض ”یوم تحرک“ سے گھبرا کر پسپا نہیں ہو گا، چاہے ان کی وسعت اور حجم کتنا ہی دیوہیکل ہو۔
بڑی رداصلاحات کو شکست دینے کے لئے غیرمعینہ مدت ہڑتالوں کی ایک طاقتور تحریک درکار ہے جو معیشت کے کلیدی سیکٹروں میں پھیلتی چلی جائے۔ یہ حقیقت واضح ہے۔ بدقسمتی سے اس کا ”سرگرمیاں رپورٹ“ اور ”CGT کی 53ویں کانگریس کی پالیسی دستاویز“ میں کہیں ذکر نہیں ہے۔
یہ تزویراتی خلفشار انتہائی نرم پروگرام سے جڑا ہوا ہے۔ CGT کی قومی قیادت کا مقصد سرمایہ داری کے خاتمے کے برعکس ”دولت کی ایک زیادہ منصفانہ سماج، ماحولیات دوست اور عالمی امن پسند تقسیم“ ہے۔
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر عدم مساوات میں اضافہ ناگزیر ہے، بے لگام ناانصافی مقدر ہے، ماحولیات کی بربادی نئی انتہاؤں کو پہنچے گی اور سامراجی جنگیں بڑھتی جائیں گی۔ CGT کے سرگرم کارکنوں کی ایک بڑھتی تعداد اس حقیقت کو سمجھ رہی ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ قومی قیادت موجودہ نظام سے مکمل تعلق توڑتے ہوئے ایک زیادہ ریڈیکل پروگرام پیش کرے اور اس کا دفاع کرے۔ اس کا اظہار کانگریس میں ترامیم متعارف کرانے کی کوششوں میں ہوا جن کا مقصد ”پالیسی دستاویز“ کو زیادہ ریڈیکل بنانا تھا۔ سبکدوش ہوتی قیادت کے تمام مشوروں کے باوجود ان ترامیم میں سے چند ایک منظور کر لی گئی ہیں۔
”یونائٹ CGT“
ہم نے بیان کیا ہے کہ کانگریس میں بایاں بازو بھرپور شرکت کے ساتھ انتہائی جنگجوانہ رویہ اپنائے ہوئے تھا۔ اس کی پہلی وجہ CGT کے عام کارکنان کا بڑھتا اضطراب ہے۔ لیکن اس کی ایک وجہ بائیں بازو کے نظم و ضبط میں مسلسل بہتری ہونا بھی ہے۔ دسمبر 2019ء سے اس بائیں بازو کے ممتاز قائدین، بوچز دو رہون کا علاقائی سیکرٹری اولیوئر ماتیو اور CGT کا حصہ کیمیائی محنت کشوں کی یونین کا سیکرٹری ایمانوئل لیپین، نے ایک منظم رجحان ”یونائٹ CGT“ بنا رکھا ہے۔
کانگریس سے پہلے یونائٹ CGT نے کنفیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کے لئے اولیوئر ماتیو کو پیش کیا۔ انہوں نے سبکدوش قیادت کے ”پالیسی دستاویز“ سے زیادہ ریڈیکل تجاویز کی بھی حمایت کی۔ اس میں خاص طور پر CGT کو درپیش ”دہرا فرض“ ہے جس میں ”روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہوئے محنت کشوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا (کام کے اوقات کار، اجرتیں، کام کے حالات وغیرہ) اور ساتھ میں اس جدوجہد کو سرمایہ داروں کی نجی ملکیت کو قبضے میں لیتے ہوئے محنت کشوں کی حقیقی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہے“۔ اس دستاویز میں درج ہے کہ معیشت کے کلیدی سیکٹروں جیسے بینک، ٹرانسپورٹ، دواساز صنعت اور دیگر بڑے صنعتی سیکٹر، کو سرکاری تحویل میں لینے کی جدوجہد ناگزیر ہے۔
پچھلے فروری کے مہینے میں ہم نے اس دستاویز کا تنقیدی جائزہ لیا تھا۔ ہم نے خاص طور پر نشاندہی کی تھی کہ ”دہرا فرض“ مزید وضاحت طلب ہے۔ بہرحال، یونائٹ CGT کے کامریڈز نے سرمایہ داروں کی نجی ملکیت پر قبضہ کرنے کی جدوجہد کو دوبارہ ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے۔ یہ بہت مثبت ہے اور مستقبل میں جدوجہد کے لئے انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ اس بنیاد پر اولیوئر ماتیو اور ایمانوئل لیپین کی CGT ایگزیکٹیو کونسل میں شمولیت کے لئے کانگریس میں 36.5 فیصد مندوبین کا ووٹ دینا بھی بہت حوصلہ افزا ہے۔ سبکدوش ہونے والی قیادت کو ان دو کامریڈز کو ایگزیکٹیو قیادت میں لینے پر مجبور کرنا کافی نہیں تھا بلکہ یہ مستقبل میں یونائٹ CGT کے روشن دیوہیکل امکانات کا بھی اظہار ہے۔
”فیمنسٹ“ بحث
کانگریس سے پہلے یونائٹ CGT کے کامریڈز نے پورے ملک میں ایک درجن سے زیادہ بحث مباحثے منعقد کئے۔ کئی سرگرم یونین کارکنان نے ان میں حصہ لیا۔ ان میں سے کئی نشستوں کو یونائٹ CGT نے فلم بند کر کے جاری کیا ہے۔ ہم اولیوئر ماتیو کے تمام خیالات سے متفق نہیں ہیں لیکن جو بھی ان نشستوں کو دیکھے گا وہ اقرار ضرور کرے گا کہ ان کا سیاسی معیار اچھا اور زیر بحث موضوعات پر گرفت مضبوط ہے۔ یہ بات فیلیپ مارٹینیز اور دیگر سبکدوش قیادت کی امیدوار اولیوئر ماتیو اور یونائٹ CGT کے کامریڈز پر تنقید کے حوالے سے قطعی طور پر نہیں کی جا سکتی۔
کئی مہینوں سے امیدوار میری بوئسون کا فیلیپ مارٹینیز اور اس کا ٹولہ دفاع کر رہا ہے، جسے کانگریس میں سوفی بینیت کے حق میں رد کر دیا گیا، جس کی بنیاد ایک رٹا رٹایا سبق تھا کہ ”وہ ایک عورت ہے“۔ انہوں نے کھلے عام اولیوئر مارٹینیز اور اس کے کامریڈز پر خواتین کے سوال پر غفلت کا الزام لگایا۔ غرض یہ کہ CGT کی سبکدوش قیادت نے سب سے گھٹیا الزام تراشی کا سہار الیا جس کا خواتین کے استحصال اور جبر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ایک ”بحث“ جس کا سفاک مقصد لبائیں بازو کو بدنام کرتے ہوئے دائیں بازو کو جتوانا ہے جس کا حصہ میری بوئسون ہے۔
اس گھٹیا چالبازی کے خلاف خواتین سمیت کئی کامریڈز نے شدید احتجاج کیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک مرتبہ پھر ”فیمنسٹ“ بحث مباحثے نے محنت کش تحریک میں انتہائی گھٹیا، غلیظ اور رجعتی کردار ادا کیا ہے۔ بدقسمتی سے ”ریڈیکل بایاں بازو“ اس جال میں پھنس گیا جس کا ہمیشہ کی طرح آغاز NPA (انتہائی دائیں بازو کی نیشنل اینٹی کیپٹلسٹ پارٹی جس کے نظریات اور پروگرام مختلف منتشر خیالات کا ملغوبہ ہیں) نے ”ٹریڈ یونینزم کی مردانہ روایات“ کا الزام لگا کر کیا۔
اس وقت CGT کی قائد سوفی بینیت ہے۔ کیا یہ اچھی خبر ہے؟ میکرون کے حامیوں کا تو یہی خیال ہے، اس لئے نہیں کہ وہ ایک عورت ہے بلکہ وہ CGT کے دائیں بازو کی نمائندہ ہے۔ اس کے انتخاب کے بعد میکرون کے حامی ممبر پارلیمنٹ مارک فیراچی نے خوش خبری سنائی کہ یہ ”سماجی مذاکرات کے لئے اچھی خبر ہے“۔ اس کا مطلب مستقبل میں رد اصلاحات کے ”مذاکرات“ کے لئے اچھی خبر لیا جائے۔ میکرون کے ایک اور حامی ممبر پارلیمنٹ پال کرسٹوف نے کہا ہے کہ ”کسی کی خواہش نہیں کہ CGT پر ریڈیکل ازم مسلط ہو جائے۔۔۔ہم ایک اصلاح پسند کے CGT کا قائد بننے پر خوش اور مطمئن ہو سکتے ہیں“۔ وغیرہ وغیرہ۔
مختصراً سرمایہ داروں کے نکتہ نظر سے۔۔۔جو محنت کشوں اور محنت کش خواتین پر اپنی جنگ جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہے۔۔۔سوفی بینیت کے انتخاب کی خبر اولیوئر ماتیو کے منتخب ہونے سے ہزار درجے بہتر ہے۔ ہمارا نکتہ نظر یکسر مختلف ہے۔ یہاں صنف کا نہیں طبقے کا سوال ہے۔
حاصل بحث
ہم یہاں جگہ میں کمی کی وجہ سے ماحولیات کے سوال پر بات نہیں کر سکے جو کانگریس میں دائیں اور بائیں بازو کے درمیان گرما گرم بحث کا ایک اور موضوع تھا۔ ہم اس پر بعد میں بات کریں گے۔
ایک متبادل کی عدم موجودگی میں ”آؤٹ گوئنگ منیجمنٹ اورینٹیشن دستاویز“ کو 73 فیصد ووٹ ملے۔ لیکن اگر CGT میں طاقتوں کے توازن کو مدنظر رکھا جائے تو ”سرگرمیاں رپورٹ“ کا رد کیا جانا زیادہ اہم ہے۔ اس عمل نے امیدوار میری بوئسون کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ کانگریس کے دوران اولیوئر ماتیو نے انکشاف کیا کہ اس نے تین ہفتے پہلے سوفی بوئسون کے مقابلے میں اپنے آپ کو پیش کرنے والی سیلین ورزیلیتی کو اتحاد کی پیشکش کی تھی۔ اولیوئر مارٹینیز کے اس انکشاف پر کئی کامریڈز حیران ہو گئے۔ سب سے بڑھ کر اس پیشکش کی بنیاد CGT کے اندرونی بحث مباحثے میں سیلین ورزیتی کی پوزیشن کا ٹھوس تجزیہ نہیں ہے۔ پھر اس نے اولیوئر مارٹینیز کی پیشکش کا کوئی جواب بھی نہیں دیا۔
ان سب کے باوجود اصل بات یہ ہے کہ یونائٹ CGT اس تاریخی کانگریس سے بہت مضبوط ہوئی ہے۔ اس حوالے سے یہ قابل ذکر ہے کہ فرانس میں ”انتہائی بائیں بازو“ کی اکثریت تنظیموں نے اس کانگریس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ یہ ایک اور اظہار ہے کہ ”انتہائی بایاں بازو“ حقیقی محنت کش تحریک سے مکمل طور پر بیگانہ ہے۔
جہاں تک ہمارا سوال ہے تو ہم اپنی قوتوں کے مطابق CGT کی انقلابی سمت میں سفر کی جانب پیش قدمی میں شانہ بشانہ شامل رہیں گے۔ فرانسیسی محنت کش تحریک اور محنت کشوں کے اقتدار پر قبضے کا انحصار اسی پر ہے۔