عالمی مارکسی رجحان کے برازیلی سیکشن (ایسکویرڈا مارکسسٹا) نے جنوری میں شروع ہونے والی تحریک، جس نے فرانسیسی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا کے بارے میں ریوولوشن (ہمارے فرانسسی سیکشن) کے سرکردہ رکن جیروم کا انٹرویو کیا۔ میکرون کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی کوششوں سے شروع ہونے والی یہ جدوجہد جمود کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، لیکن فرانس کی صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ پولرائزڈ اور مشتعل ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایسکویرڈا مارکسسٹا (ای ایم): فرانس میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے بڑے مظاہروں اور ہڑتالوں کا ہم نے بڑی دلچسپی سے مشاہدہ کیا ہے۔ کیا آپ ان اہم عوامل کی وضاحت کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے موجودہ صورتحال پیدا ہوئی؟
جیروم میٹیلس (جے ایم): اس تحریک کی فوری وجہ میکرون حکومت کی طرف سے نافذ کردہ پنشن اصلاحات تھی، جس نے ریٹائرمنٹ کی عمر کو 62 سے بڑھا کر 64 سال کر دیا تھا۔ لیکن یقیناً، ہم نے 19 جنوری سے جو کچھ دیکھا ہے وہ مہنگائی، عوامی خدمات کی ناقص صورتحال، سرکاری ملازمین پر حملوں، کام کے بگڑتے حالات کی وجہ سے عدم اطمینان کا گہرا اظہار ہے اور پچھلی دو دہائیوں کی تمام رد اصلاحات کا نتیجہ ہے۔
اس تحریک کو فرانسیسی سرمایہ داری کے بحران اور طبقاتی جدوجہد کی بڑھتی ہوئی لہر کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جس نے 2003ء سے عوامی تحریکوں کے ایک سلسلے میں اپنا اظہار کیا ہے، جس میں 2010ء میں پنشن اصلاحات کی اہم ہڑتالیں بھی شامل ہیں۔ 2018-2019ء کی پیلی واسکٹ تحریک اس رجحان کا حصہ تھی۔
ای ایم: ہم نے دیکھا کہ نوجوان بھی ملک گیر سطح پر اس تحریک میں شامل ہوئے، حالانکہ مظاہروں کی وجہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ تھا۔ نوجوانوں نے حکومت کے خلاف ہڑتالی ورکرز کے ساتھ اتنی یکجہتی کیوں ظاہر کی؟
جے ایم: ورکرز کے ساتھ یکجہتی فرانس میں طلبہ کی تحریک میں پرانی قائم روایت ہے۔ مئی 1968ء نے اس حوالے سے گہرا اثر چھوڑا ہے۔ لیکن اگر ہم مظاہروں میں یونیورسٹی اور ہائی سکول کے طلبہ کی شرکت کو قریب سے دیکھیں تو یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ تب تک نسبتاً کم تھی جب تک میکرون نے پنشن اصلاحات کو پارلیمانی ووٹ کے بغیر منظور کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 49.3 کا استعمال نہیں کیا تھا۔ یہ بالکل بھی حیران کن نہیں ہے کہ نوجوان صرف پنشن اصلاحات کے سوال پر متحرک ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سرمایہ داری کے عمومی بحران کے تناظر میں یہ نعرہ بہت مخصوص تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ جب حکومت نے آرٹیکل 49.3 کے ذریعے یہ رد اصلاحات نافذ کی تو نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ متحرک ہوا۔ میکرون کی جمہوریت مخالف چال نے انہیں سڑکوں پر آنے پر آمادہ کیا۔ اور ظاہر ہے کہ جمہوری نعروں کے پیچھے نوجوان اس حکومت کے خلاف نکلے۔ اگر ٹریڈ یونینوں کی قیادت اس مزاج کی عکاسی کرتی تو پوری تحریک بہت لڑاکا اور دھماکہ خیز راستہ اختیار کر سکتی تھی۔ لیکن یہی وجہ ہے کہ ان لیڈروں نے اس مزاج کی عکاسی نہیں کی۔ انہیں نوجوانوں کی خود رو تحریک کا خوف تھا۔
ای ایم: ہم نے حال ہی میں فرانسیسی یونینوں میں اپوزیشن کی مضبوطی دیکھی ہے جو جنگجو اور انقلابی راستہ تجویز کر رہی ہے۔ ورکرز میں یہ انقلابی رجحان کیسے پیدا ہوا؟
جی ایم: سی جی ٹی (CGT) جو ٹریڈ یونینوں کی سب سے زیادہ جنگجو اور انقلابی کنفیڈریشن ہے، کی حالیہ کانگریس ایک تاریخی موڑ ثابت ہوئی۔ اگرچہ دایاں بازو قیادت کا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا لیکن بایاں بازو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور متحرک بنیادوں پر کھڑا تھا۔ مثال کے طور پر، سبکدوش ہونے والی قیادت کی ’سرگرمی کی رپورٹ‘ (حالیہ واقعات کی اس کی بیلنس شیٹ کی تفصیلی دستاویز) کو 50.3 فیصد ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
قیادت کی رپورٹ کو مسترد کرنا اس حقیقت کی تصدیق تھی کہ 2006ء میں ’پہلے روزگار کے معاہدے‘ کے خلاف لڑائی کے علاوہ سی جی ٹی کو گزشتہ 20 سالوں سے ملک گیر سطح پر صرف شکست ہی ہوئی ہے۔ سی جی ٹی کی اندرونی پولرائزیشن جلد ختم نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں شدت اختیار کرے گی کیونکہ یہ معاشرے میں بڑھتے ہوئی طبقاتی پولرائزیشن کا نتیجہ ہے۔ سی جی ٹی کا بایاں بازو، ’یونائٹ سی جی ٹی‘، مزید منظم ہوتا جا رہا ہے۔
کانگریس سے پہلے، یونائٹ سی جی ٹی نے سبکدوش ہونے والی قیادت کی ’پالیسی دستاویز‘ کے ایک انقلابی متبادل کی حمایت کی۔ انہوں نے سی جی ٹی کا سامنا کرنے والے ”دو فرائض“ کی حمایت کی، جس میں ”مزدوروں کی زندگیوں (کام کے اوقات، اجرت، کام کے حالات، وغیرہ) کو بہتر بنانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت اور ساتھ ہی، اس جدوجہد کوسرمایہ داروں کے استحصال اور تسلط سے مزدوروں کی نجات کی جدوجہد سے جوڑنا“ شامل ہیں۔ بائیں بازو کی اس اپوزیشن کی محدودیت کے باوجود جو اب بھی ایک اصلاح پسند کردار رکھتی ہے یہ ایک بہت ہی مثبت پیش رفت ہے۔
ای ایم: عالمی مارکسی رجحان (IMT) کے فرانسیسی سیکشن، ریوولوشن، نے فرانس میں اس تحریک میں کیا کردار ادا کیا؟
جے ایم: ہم نے اپنے اخبار کے پانچ شمارے شائع کیے ہیں، جس میں تحریک کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا ہے۔ ہم نے جنوری سے اب تک ہونے والے 13 مظاہروں میں ہزاروں کاپیاں فروخت کیں۔ ہم نے کیمپس میں ہونے والی جنرل اسمبلیوں میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے موقف کی وضاحت کی کہ صرف پنشن اصلاحات کو منسوخ کرنے کا نعرہ ناکافی ہے۔ نوجوانوں اور ورکرز کی نئی پرتوں کو متحرک کرنے کے لیے ہمیں ایک بہت وسیع اور انقلابی پروگرام کی ضرورت ہے۔ ایسے پروگرام کی ضرورت ہے جو آبادی کی اکثریت کے مسائل کو ختم کرنے کی جدوجہد کو واضح کرے۔ اس پروگرام کو میکرون اور اس کے گروہ کے خاتمے کے مقصد سے بھی منسلک ہونا چاہیے۔
اسی طرح، صرف بڑے مظاہرے بھی کافی نہیں ہیں۔ اگر ہم جیتنا چاہتے ہیں تو بہت سے شعبوں میں منظم غیر معینہ مدت کی ہڑتالوں کی جانب بڑھنا ہوگا۔ حالیہ مہینوں میں اسی چیز کی کمی ہے: وہ شعبے جو بڑی تعداد میں متحرک ہوئے وہ الگ تھلگ رہ گئے ہیں۔ اس میں ورکرز کا نہیں بلکہ ٹریڈ یونینوں کی قیادت کا قصور ہے جس نے غیر معینہ مدت کی ہڑتالوں کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
ہمارے دلائل اور تجزیے کا طلبہ نے خیر مقدم کیا۔
ای ایم: اس سال پیرس اور ان شہروں میں جہاں حکومت کے خلاف تحریک سب سے زیادہ مضبوط رہی ہے، یکم مئی کے مظاہروں کا کردار کیا تھا؟
جے ایم: ملکی سطح پر 20 لاکھ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر موجود تھے۔ یہ 2002ء (جب جین میری لی پین ]میرین لی پین کا والد[ صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں گیا تھا) کے بعد 1 مئی کو ہونے والا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ یہ فرانس میں پنپنے والے دھماکہ خیز موڈ کی ایک اور تصدیق تھی۔
ای ایم: احتجاجی تحریک کہاں جا رہی ہے اور آپ کے خیال میں اسے کامیاب بنانے کے لیے کیا ضروری ہے؟
جے ایم: غیر معینہ مدت کی ہڑتال ختم ہو چکی ہے۔ ٹریڈ یونین رہنماؤں نے تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور اسے زبردستی ختم کر دیا ہے۔ نتیجتاً حکومت کی فتح ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی فتح ہوگی جو انہیں مہنگی پڑے گی۔ میکرون پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہے، اس کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے اور عوامی مزاج پہلے سے زیادہ دھماکہ خیز ہے، مہنگائی مسلسل عوام کے غصے کو ہوا دے رہی ہے۔ یہ ساری صورتحال 24 گھنٹے کے اندر بدل سکتی ہے، اور خود کو ایک نئے مئی 68 میں تبدیل کر سکتی ہے۔