اٹلی: کرونا وائرس سے تباہی کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے!

پورے یورپ میں کرونا وائرس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ یہ صورتحال حکومت کی دائمی ناکامیوں کی عکاسی کرتی ہے جس کے اقدامات تاحال مکمل طور پر ناکافی رہے ہیں اور اس کی پوری کوشش ہے کہ ان حالات کا معاشی بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈال دیا جائے۔

[Source]

نئے کرونا وائرس کا اٹلی میں پھیلاؤ خوفناک زور پکڑ رہا ہے۔ اب تک متاثرہ افراد کی تعداد 24 ہزار 747 جبکہ 1800سے زائد اموات واقع ہو چکی ہیں۔ یعنی شرحِ اموات 6 فیصد ہے جو چینی صوبے ہوبئے سے بھی زیادہ ہے جہاں سے اس وبا کا آغاز ہوا تھا۔ یعنی پچھلے چند ہفتوں میں حکومت نے جتنے بھی ایمرجنسی حفاظتی اقدامات کئے ہیں وہ سب ناکارہ ہیں۔

ایک مخصوص قسم کا قومی جنگی جذبہ ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں ہم سب کو حکومت کی کمان میں ایک جان لیوا اور پراسرار دشمن کے خلاف لڑنا ہے تاکہ ہم محاذ پر شہید ہونے والوں سے غداری کے مرتکب نہ ہوں۔ یہ ساری چالبازی اس صورتحال میں حقیقی ذمہ داریوں اور نافذ کردہ اقدامات میں چھپے طبقاتی کردار اور کنفیوژن کی بھی پردہ پوشی کرتی ہے۔

ہم متفق ہیں کہ حفاظتی اقدامات نافذ کرنے چاہئیں اور اس سے بھی زیادہ ریڈیکل اقدامات لینے چاہیے جن میں غیر ضروری سرگرمیوں کی بندش اور شعبۂ صحت کے انفرسٹرکچر کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لئے ہمیں قومی اتحاد کے راگ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس بحران کی حقیقت بیان کرنی چاہیے۔

ناگزیر تباہی نہیں بلکہ ٹھوس ذمہ داریاں

موجودہ صحتِ عامہ ایمرجنسی نے بے رحمی کے ساتھ پچھلے تیس سالوں میں قومی شعبۂ صحت پر کٹوتیوں کے اثرات کو عریاں کر دیا ہے۔ آج وباء کو کنٹرول کرنے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات، درحقیقت ”شعبۂ صحت کے انہدام“ کو روکنے کے لئے ہیں۔ بہرحال یہ حالات ناگزیر نہیں تھے اور نہ ہی ان کی بنیاد کوئی ناقابلِ شکست دشمن ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شعبۂ صحت پہلے ہی اپنی آخری حدود پر کام کرنے پر مجبور تھا۔ کوئی بھی ایسا شخص جس نے معمول کے معائنے کا طویل انتظار کیا ہے، ڈاکٹر کے پاس گیا ہے، جراحی کا انتظار کیا ہے یا ایمرجنسی میں جا کر معائنہ کرایا ہے، اسے اچھی طرح پتہ ہے کہ ہسپتال کی راہداریوں میں مریضوں کے بستر اور سٹاف کی دائمی کمی کرونا وائرس کے آنے سے پہلے ہی مسلمہ حقیقت بن چکے تھے۔

شعبۂ صحت پر حکومتی اخراجات میں سالہا سال سے کٹوتی ہو رہی ہے اور اب یہ GDP کے 6.5 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ WHO کے مطابق اس سطح سے نیچے ایک ریاست صحت کے بنیادی حق کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ درحقیقت، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1.1 کروڑ اطالویوں کے لئے یہ حق سرے سے موجود ہی نہیں۔

2009-17ء کے دوران، شعبۂ صحت میں 5.2 فیصد سٹاف کو برخاست کر دیا گیا، یعنی 46 ہزار 500 ملازمین۔

پچھلے دس سالوں میں 70 ہزار بستر ختم کر دیے گئے ہیں۔ موجودہ وباء میں کلیدی اہمیت کے میڈیکل یونٹس میں 1980ء میں فی 1 لاکھ افراد کے لئے 922 بستر مختص تھے۔۔ جو کہ اب 262 پر آگئی ہے۔

انتہائی نگہداشت یونٹس (ICUs) میں 6 کروڑ کی آبادی کے لئے 5 ہزار نوے بستر موجود ہیں (اعدادوشمار وزارتِ صحت 2017ء)، یعنی ہر 1 لاکھ آبادی کے لئے 8.92 بستر۔ ان میں سے 50 فیصد بستر پر عام طور پر مریض موجود ہوتے ہیں اور یہ شرح اکثر زیادہ بھی ہوتی ہے۔ 667 وینٹی لیٹر موجود ہیں۔ پہلے ہی پچھلے چند سالو ں میں ICUs کے سربراہان بارہا رپورٹ کر چکے ہیں کہ فلو کا معمولی ترین مسئلہ بھی ان یونٹس کو بھر دیتا ہے۔ 10 مارچ کو ان ICUs میں 877 افراد کو صرف کرونا وائرس کی وجہ سے داخل کیا گیا تھا۔ لومبارڈیا میں یونٹس پہلے ہی بھر چکے تھے اور بار بار مریضوں کو دوسرے علاقوں میں شفٹ کرنے کی فریاد کی جا رہی تھی۔۔ اور ابھی تک تو وباء اپنی انتہاء کو بھی نہیں پہنچی۔ اور جب ایسا ہو گا تو انتہائی بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔

ان کٹوتیوں کے موجودہ صورتحال جیسی کسی ایمرجنسی میں کیا اثرات مرتب ہوں گے، ناصرف اس کی پیش بینی کی جا چکی تھی بلکہ اس کا باریک بینی سے جائزہ بھی لیا جا چکا تھا۔ جانز ہاپکِنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق نے گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی انڈیکس میں اٹلی کو 56/100 نمبر دیا تھا اور ایک ”تیز تر وباء کے ردِ عمل اور تخفیف“ کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے 47.5/100 نمبر تھا۔

آج یہ اعدادوشمار انسانی جانوں میں اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ The Italian Society for Anaesthesia, Analgesia, Reanimation and Intensive Care نے ”انتہائی نگہداشت میں داخلے اور سہولت کی معطلی کے حوالے سے طبّی اخلاقیات“ شائع کی ہیں جن کے مطابق انتہائی نگہداشت میں سازوسامان کی کمی کی وجہ سے زندہ بچنے کے امکانات کی بنیاد پر وینٹی لٹر کس کو دینا ہے اور کس کو نہیں، اور اس کا دارومدار اس بات پر بھی ہو گا کہ مستقبل میں کتنے سال جینے کے امکانات ہیں۔ دستاویز میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ طریقہ کار صرف اور صرف ”طبِ آفت“ میں لاگو ہوتا ہے۔ پھر جنرل میڈیسن اور جراحی کی زیادہ تر اپائنٹمنٹس کی منسوخی کا فیصلہ تاکہ زیادہ سے زیادہ سٹاف ICUs میں تعینات کیا جائے، اس کی ایک دیو ہیکل انسانی قیمت ہو گی (دیر سے تشخیص، میڈیکل کیسز کی پیروی میں تاخیر وغیرہ) جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ یہ کرونا ائرس سے متعلق اموات کی خبروں میں عمومی اعدادوشمار میں ڈوب جائے گی۔ جن کے پاس پیسہ ہو گا و ہ نجی شعبے میں اپنے یہ معاملات حل کر لیں گے۔

نجی شعبۂ صحت عام دنوں میں ہوشربا منافعے کماتا ہے اور اس ایمرجنسی میں تو اس کی بے نظیر چاندی ہو جائے گی جبکہ صحتِ عامہ کا شعبہ بحران کے بوجھ تلے ڈوب جائے گا۔ درحقیقت صورتحال اتنی غلیظ ہو چکی ہے کہ کچھ نجی صحت کے مراکز دو دو ٹکے کے موسیقاروں کے ساتھ مل کر لاکھوں یورو کے اشتہار لگا رہے ہیں۔ نااہل ریپر فیدیز اپنی بیوی کے ساتھ مل کر سان رافائیل ہسپتال کے لئے عوامی چندے کی مہم چلا رہا ہے جو اٹلی کے سب سے بڑے نجی ہسپتالوں میں سے ایک ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس ایک غیر معمولی مسئلہ ہے لیکن یہ کوئی انہونی نہیں۔ پچھلے

17 سالوں میں یہ پانچواں مہلک وائرس ہے، یعنی تواتر سے ایک ایسی حقیقت جس کا ادراک، سدِ باب اور علاج کرنے کی اہلیت شعبۂ صحت کی ذمہ داری تھی۔ یہ کسی طبِ آفت(Catastrophe Medicine) کا نہیں بلکہ معمول کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ انسانی زندگیوں سے براہِ راست منسلک شعبے میں یہ آفت کٹوتیوں اور نجی منافع کو یقینی بنانے کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس آفت کا نام سرمایہ داری ہے اور جن افراد نے ان اقدامات کو نافذ کیا اور شعبۂ صحت کی نجکاری سے ہوشربا منافعے کمائے وہ پچھلے چند ہفتوں میں رونما ہونے والی اموات کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔

حکومت شعبۂ صحت کے ملازمین کی بے پناہ محنت اور قربانیوں کے پیچھے چھپ رہی ہے لیکن وہ اس نظام کو تبدیل کرنے یا بہتر کرنے کے لئے ایک قدم نہیں اٹھا رہی۔ شعبۂ صحت کے ملازمین کے اجتماعی سودہ بازی معاہدے(CBA) کی ابھی تک تجدید نہیں ہوئی۔ 20 ہزار نئے افراد کو بھرتی کرنے کا پروگرام جس کا تین ہفتے پہلے بحران کے آغاز پر بڑا چرچا کیا گیا اور منظور بھی کر لیا گیا کسی مستقل ملازمت کی گارنٹی نہیں دیتا۔ بلکہ یہ صرف ”آزاد کنٹریکٹ کام ہے، جس میں ہم آہنگ اور جاری امدادِ باہمی شامل ہے اور اس کا دورانیہ 6 ماہ سے زیادہ نہیں ہو گا“ یا ”مقررہ مدت کے لئے انفرادی کام“ ہے جس سے زیادہ سے زیادہ مستقبل میں ملازمت کے لئے فوقیت حاصل ہو سکتی ہے۔اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ اس پلان میں 5ہزار ٹرینی ڈاکٹر شامل نہیں۔

بحران سے نمٹنے کی منصوبہ بندی

8 اور 9 مارچ کو فرمان جاری کرنے کے بعد کونتی حکومت ثابت قدم اور فیصلہ کن ہونے کا تاثر دینا چاہتی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان فرمانوں نے پچھلے طویل عرصے میں لئے جانے والے تمام اقدامات کی ناکامی پر مہر ثبت کر دی ہے۔ ان اقدامات میں منصوبہ بندی اور سدِ باب کرنے کی صلاحیت کا فقدان، واقعات کے رونما ہونے پر حیرانی اور خطا اوسان اور اعلانات میں تضادات، سب کچھ شامل ہے۔

درحقیقت پورے عمل میں سدِ باب کرنے کی صلاحیت اور وبا کے نمودار ہونے کے مقامات کی نشاندہی کا فقدان ہے۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے کہ جس میں علامات کئی دن چھپی رہتی ہیں اور یہ اقدامات اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے کلیدی تھے۔

جنوبی کوریا ایک یسا ملک ہے جس میں اٹلی کے متوازی مریض سامنے آئے ہیں لیکن ابھی سے یہ وباء کنٹرول میں ہے کیونکہ ”مریضِ اول“ سے پہلے ہی ٹیسٹ شروع ہو چکے تھے۔ اب تک 2 لاکھ ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں (اٹلی میں یہ تعداد 60 ہزار ہے)، یعنی روزانہ 20 ہزار۔ اسپیشل سٹیشن بنائے گئے جہاں لوگ اپنی گاڑیوں سے اترے بغیر ٹیسٹ کروا سکتے تھے، جسمانی حرارت کو ناپنے والے تھرمل کیمرے استعمال کئے گئے اور ایسی موبائل ایپلیکیشنز بنائی گئیں جو مشتبہ افراد کی حرکات پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔ اس طرح حکومت نے وائرس سے متاثرہ افراد اور مشتبہ افراد کو کو عوام سے بالکل علیحدہ کرنے کے لئے موثر اقدامات کرتے ہوئے وباء کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا۔ جس طرح سے اٹلی عوام کو بالکل علیحدہ کر رہا ہے اس کے اپنے فوائد تو ہیں لیکن یہ آخری حربہ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ایک قرنطینہ علاقے میں مزید لوگ بھی متاثر ہو گئے۔۔ چاہے وہ علاقائی قرنطینہ تھا یا گھریلو۔

ابتداء میں چین میں اس طرح کے فوری اقدامات کا کوئی وجود نہیں تھا اور درحقیقت ریاست نے بحران کی موجودگی سے ہی انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے وباء وسیع پیمانے پر پھیل گئی۔ اس کا نتیجہ پورے ہوبئے صوبے کے قرنطینہ اور مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں نکلا لیکن سب سے بڑھ کر شعبۂ صحت کے لئے وسائل کو حیران کن طور پیمانے پر متحرک کیا گیا، نئے ہسپتال بنائے گئے، عوامی داخلہ سینٹر بنائے گئے جن میں بیماری کی شدت کی بنیاد پر شعبے بنائے گئے، وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کیے گئے، سازو سامان اور سدِ باب کا طریقہ کار وسیع پیمانے پر ہر جگہ پہنچایا گیا اور پورے چین سے شعبۂ صحت کے ملازمین متحرک کئے گئے۔ یہ وہ اقدامات اور وسائل ہیں جنہوں نے وباء کے پھیلاؤ کا سدِ باب کیا، نا کہ ”نظم و ضبط کی روح“ جس کو ایک ڈنڈے کی طرح اطالوی انتظامیہ عوام کے سروں پر برسا رہی ہے تاکہ انہیں غیر منظم جاہل گردانتے ہوئے سارا الزام ان کے کندھوں پر ڈال دے۔

اٹلی میں نہ تو چینی اور نہ ہی جنوبی کوریا ماڈل کی پیروی کی گئی۔ نام نہاد مریضِ اول کی تلاش ایک منصوبہ بند اور کنٹرولڈ آپریشن کے بجائے ایک سراغ رساں کہانی بن چکی ہے۔ ریڈ زون قائم کرنے کے علاوہ پہلا فرمان تضادات سے بھرپور تھا، یعنی سکول بند کر دیے گئے لیکن مئے خانے شام چھ بجے تک کھلے رہ سکتے تھے۔ نہیں، وہ رات زیادہ دیر تک کھلے رہ سکتے تھے لیکن لوگوں کے لئے ایک دوسرے سے محفوظ فاصلہ رکھنا ضروری تھا۔۔لیکن اس دوران لوگ کام پر بھی جا سکتے تھے۔ یہ فرمان اتنے بے تکے تھے کہ فٹبال میچوں میں ایک علاقے کے لوگوں کو سٹیڈیم میں آنے کی اجازت تھی لیکن دوسرے علاقے کے لوگ نہیں آ سکتے تھے۔ ایسے جیسے وائرس شعبۂ صحت کی ان بالکل جاہلانہ تقسیموں کی پاسداری کرنے کا پابند ہے۔

ہسپتالوں کو بلیٹن فراہم کئے گئے تاکہ انہیں ایمرجنسی منیجمنٹ پر مخصوص ہدایات فراہم کی جا سکیں۔ لیکن پھر دو دن بعد پتہ یہ چلا کہ ان ہدایات پر عمل درآمد اس لئے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ درکار سازوسامان ہی موجود نہیں اور شعبۂ صحت کے ملازمین ضروری حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ آج متاثرہ عوام میں سے 12 فیصد کا تعلق شعبۂ صحت سے ہے جس کی وجہ سے وسائل میں مزید کمی ہو رہی ہے۔ متاثرہ افراد کے خلاف گھناؤنی مہم چلائی کی گئی کہ وہ بغیر کسی احساس کے بیماری کو پھیلا رہے ہیں جبکہ درحقیقت مزدوروں کو بنیادی حفاظتی سامان ہی نہیں دیا گیا (سپر مارکیٹوں میں کیش کاؤنٹر پر دستانے وغیرہ)۔ ہزاروں کام کی جگہوں سے ایسی رپورٹیں آ رہی ہیں۔

نجی ملکیت کا تقدس

تمام تر تضادات اور تذبذب کے باوجود کونتی حکومت نجی ملکیت کے تقدس کو پامال کرنے سے ہمیشہ ہچکچائے گی۔ عوام کی زندگیوں کو نظم و ضبط فراہم کرنا پڑتا ہے۔ متبادل فراہم کئے بغیر سروسز بند کر دو یا متاثرین کو کسی قسم کی حفاظت فراہم کرنا ضروری نہیں (جیسے سکولوں اور بچوں کے نگہداشت سنٹر بند کر دینا) لیکن نجی معیشت کے لئے منافعے بناتے رہنا انتہائی اہم ہے۔ یہاں تک کہ ایک ایسی صورتحال میں کہ جس میں نافذ کئے گئے تمام اقدامات طبقاتی بنیادوں پر ہیں اور ان کے اثرات بھی، مزدوروں کو ہدایات دی جا رہی ہیں کہ وہ ہڑتال نہ کریں۔

میلان کے میئر سالا کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیو #Milanonosiferma (میلان بند نہیں ہوتا) میں رضاکارانہ خدمات اور پیداوار کو زبرد ست خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ویڈیو میں ایسے دعوے کئے گئے ہیں جیسے ”ہم ہر روز کئی ان دیکھے سُروں میں کام کرتے ہیں“ یعنی صورتحال کچھ بھی ہو استحصال دن رات جاری رہتا ہے۔10 مارچ کو بڑے کاروباروں کے ماؤتھ پیس Sole24Ore اخبار نے سرخی لگائی کہ ”لومبارڈی میں فیکٹریاں کھل گئیں۔ احتیاط کے ساتھ پیداوار جاری ہے“۔ کیا احتیاط برتی گئی ہے اس کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ آگریٹا میں STMicroelectronics میں، جہاں دو مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے، صرف وہی شفٹ معطل کی گئی ہے جس میں یہ دو مریض کام کر رہے تھے جبکہ باقی کام ویسے ہی جاری ہے۔ جن فیکٹریوں میں مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے وہاں سے رپورٹیں آ رہی ہیں کہ مزدور اپنے لئے حفاظتی ماسک گھروں سے لانے پر مجبور ہیں۔ اس وقت مالکان بحران کے معاشی اثرات سے شدید خوفزدہ ہیں اور مزدوروں کی صحت کا خیال ان کے ذہنوں میں دور دور تک موجود نہیں۔

اس وقت مزدور خود متحر ک ہورہے ہیں کہ اپنی صحت کی حفاظت کے لئے مطالبات کریں یا کم از کم ان کو خود سے قرنطینہ ہونے کی اجازت دے جائے۔ مزدوروں نے پومیجلیانو میں Fiat کی ایک فیکٹری، لیونارڈو (ایک ائروسپیس کمپنی) میں قوانین کے تحت کام اور آچیرا میں کوڑا کرکٹ اٹھانے والے محنت کشوں نے خودرو ہڑتالیں کر کے اپنے نمائندوں پر دباؤ ڈالا اور کئی ایک نے کام کی جگہوں سے ٹائم آف بھی لیا اور بے ضابطہ چھٹیاں بھی کیں۔ یہ ممکن ہے کہ Confindustria (مالکان کی فیڈریشن) ملک کے کچھ حصوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی کام بند کرنے پر مجبور ہو جائے۔

مزدوروں کی صحت اور حفاظت کے لئے غیر ضروری کام بند کرنا اس وقت ناگزیر ہو چکا ہے۔ لیکن اس کی معاشی قیمت مزدوروں کے کندھوں پر کسی صورت نہیں ڈالنی چاہیے۔ حکومت نے مزدوروں کو کہا ہے کہ وہ اپنی چھٹیوں کے دن استعما ل کریں۔ اس حکم کو مسترد کرنا چاہیے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ایمرجنسی کی قیمت مزدور ادا کریں گے اور ہر کسی کے پاس یہ دسترس موجود نہیں۔ چھٹیوں کے باوجود اجرت کو ملنی چاہیے جس طرح قرنطینہ میں موجود مزدوروں کی بھی اجرتوں کی ادائیگی جاری رہنی چاہیے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی سماجی تحفظ موجود نہیں۔ فوری طور پر ایک فنڈ بھی شروع کرنا چاہیے جس کے ذریعے خود کار ملازمین اور ان چھوٹے کاروباروں کو تحفظ فراہم کر نا چاہیے جو اس بحران کے نتیجے میں ناگزیر طور پر برباد ہوں گے۔

اس جدوجہد میں ٹریڈ یونین تحریک کو ہراول کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس یونین اشرافیہ مزدوروں کی صحت اور معاشی حفاظت کی جدوجہد کو مکمل طور پر ترک کر کے قومی اتحاد اور جذبہِ قربانی کی بیان بازی میں ڈوب کر بیانات و اسباق دینے پر اکتفاء کر رہی ہے کہ کیسے حکومتی احکامات کی احسن پیروی کی جائے یا پھر بھاری بھرکم الفاظ میں مزدوروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کس طرح وہ کچھ سماجی تحفظ کے مطالبات کر سکتے ہیں۔

ایمرجنسی صورتحال میں ایمرجنسی اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ صحتِ عامہ کا تحفظ اس وقت فریضہئ اول ہونا چاہیے اور تمام وسائل کو پلاننگ کے ساتھ ایک مربوط طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں مندرجہ ذیل اقدامات کی فوری اور اشد ضرورت ہے:

1۔ طویل المدتی پلان کے ساتھ نظام کی ضروریات پوری کرنے کے لئے شعبۂ صحت میں نئے افراد بھرتی کئے جائیں۔ اس میں یونیورسٹیوں میں شعبۂ صحت میں داخلوں کی حدود کو ختم کرنا شامل ہے۔

2۔ ICUs اور بستروں میں فوری اضافہ کرنے کا پلان لاگو کیا جائے۔ شعبۂ صحت کے انفراسٹرکچر کو محدود کرنے کے تمام پلان فوری طور پر ختم کئے جائیں۔

3۔ قومی صحت عامہ کے نظام کو علاقوں میں بانٹنے اور نجکاری کے تمام منصوبے ختم کئے جائیں۔

4۔ تمام نجی صحت کے وسائل اور انفراسٹرکچر کو کسی قسم کے معاوضے کے بغیر قومی تحویل میں لیا جائے تاکہ بحران پر قابو پایا جا سکے۔ اس کے ساتھ تمام نجی وسائل کو قومیایا جائے تاکہ انہیں قومی شعبۂ صحت کے ساتھ منسلک کیا جائے اور ملازمین کو نوکری کا مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔

5۔ ان کلیدی کمپنیوں کو فوری طور پر قومیایا جائے جو صفائی اور حفاظتی سامان بناتی ہیں تاکہ میڈیکل اور ICU سامان اور ماسک جیسے ذاتی حفاظتی سامان کی بڑے پیمانے پر پیداوار کرتے ہوئے انہیں مفت فراہم کیا جائے۔

6۔ تمام غیر ضروری کام جس سے مزدوروں کی صحت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے فوری طور پر معطل کیا جائے اور جو مشینری اس صحتِ عامہ کے بحران سے لڑنے کے لئے میڈیکل پیداوار کے لئے تبدیل کی جا سکتی ہے اسے تبدیل کر دیا جائے۔

7۔ بند کمپنیوں کے ملازمین کو پوری تنخواہ دی جائے۔ جو مزدور حفظانِ صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے قرنطینہ میں ہیں ان کو مکمل اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔

8۔ جن پیداواروں کو معطل کرنا ناممکن ہے ان کا کنٹرول RSU (Unitary Trade Union Representation) اور RLS (Worker’s Representation for Safety) کی بنیاد پرمزدوروں کو دیا جائے۔

ان تمام اقدامات کی قیمت کو تجویز کردہ قومی قرضے میں اضافے کے تحت نہیں، جس کے نتیجے میں سارا معاشی بوجھ مزدوروں کے کندھوں پر آن پڑے گا، بلکہ قومی قرضے کی منسوخی کے ذریعے کیا جائے۔
مندرجہ بالا ناگزیر اقدامات موجودہ نظام کے ساتھ متصادم ہیں جن میں پیداوار چند ایک سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہے کیونکہ پیداوار اور سروسز کا مقصد اجتماعی فلاح کے بجائے منافع ہے۔۔ غیر مربوط انداز میں۔ یہاں یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ دیگر ممالک میں وباء کی موجودگی میں ایک ملک میں وبائی بحران کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں پھر یہ بحران دوبارہ پیدا نہیں ہو گا۔ اس کے لئے ایک عالمی مربوط پلان کی اشد ضرورت ہے لیکن سرمایہ داری میں یہ ایمرجنسی ایک تحفظاتی جنگ کا عنصر بن سکتی ہے۔ اٹلی میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علاقائی باہمی ربط بھی قائم کرنا ناممکن ہے۔

اس نظام کے قوانین کے مطابق اس وباء کے معاشی نتائج نئی کٹوتیوں کی پالیسیوں کی شکل میں نکلیں گے جو پھر ناگزیر طور پر شعبۂ صحت کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔ اس وقت کرونا وائرس کی وجہ سے ابتدائی جھٹکے کی کیفیت ہے لیکن سماج میں موجود ہر شخص کی نظروں میں یہ نظام اپنی تمام تر سفاکی اور خوفناکی سمیت عریاں ہو چکا ہے۔

ایک مرتبہ جب یہ بلا ٹل جائے گی تو پھر مالکان فوری طور پر نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کریں گے۔ ان میں قومی اخراجات کی بندر بانٹ پر ایک نئی لڑائی کھل جائے گی (جس سے قومی قرضہ مزید بڑھے گا) جس میں ہر کام کی جگہ پر خوفناک قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے گا تاکہ ضائع شدہ منافعے واپس حاصل کئے جائیں۔ وائرس کے خلاف جنگ کے بعد ہم سے مطالبہ کیا جائے گا کہ معیشت کو دوبارہ چلانے کی جنگ میں قربانیاں دی جائیں اور اس جنگ میں ایندھن ایک مرتبہ پھر محنت کش طبقہ ہو گا۔ لیکن قومی اتحاد کی لفاظی ابھی سے تضادات سے بھرپور ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اس کا شیرازہ لاکھوں ٹکڑوں میں بکھر جائے گا۔
اور جب وہ وقت آئے گا تو ہم منافعے بٹورنے والے حریصوں کو بل پیش کریں گے۔۔ اور انہیں بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی!