چینی پراپرٹی مارکیٹ کی بڑی اجارہ دار کمپنی ایور گرانڈ (Evergrande) کے انہدام کے بعد سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت ایک سست رو بحران میں داخل ہو چکی ہے جو اب معیشت کے دوسرے کلیدی شعبوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ یہ بحران اب وہاں پہنچ چکا ہے جہاں سے قرضے جاری ہوتے ہیں، یعنی کہ بینک۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خطرے کی گھنٹیاں
”میں یہاں اپنا پیسہ نکالنے آیا ہوں، لیکن تم مجھے بتا رہے ہو کہ میری کونسی ادائیگیاں باقی ہیں (اور مجھے ایک روپیہ دینے سے بھی انکار کر رہے ہو)۔ اگر میری ماں مر گئی (کیونکہ میں اس کے علاج کے لئے پیسے نہیں دے سکا) تو میں یہاں آکر بھی ایک کفن چڑھاوں گا!“
نئے سال کے آغاز پر 9 فروری 2024ء (چینی نیا سال۔ مترجم) کو ایک اُدھیڑ عمر شخص ایک بینک کے استقبالیے میں کھڑا غم و غصے میں مندرجہ بالا الفاظ کہہ رہا تھا۔ وہ جتنا زیادہ بولتا گیا، اتنا زیادہ اس کا پارہ چڑھتا گیا اور پھر ایک وقت پر وہ مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کر رو پڑا کیونکہ وہ سنٹرل پلینز بینک (the bank of the Central Plains) سے اپنے جمع کردہ پیسے نہیں نکال سکتا تھا۔
اس دوران اس کی ماں ہسپتال میں داخل ہے اور اسے پیسوں کی شدید ضرورت ہے۔ یہ کوئی تنہا واقعہ نہیں ہے۔ ہینان صوبے کے پنگ دنگ شان شہر میں بڑے بینکوں سے پیسہ نکالنا عذاب بننا شروع ہو گیا ہے۔ پورے چین کے کون و مکاں سے لوگ آن لائن آہ و گریا کر رہے ہیں کہ بینکوں سے پیسے نکالنا وبال جان بن چکا ہے۔
اس وقت چینی بینکوں نے پیسوں کی گردش پر شدید رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ کچھ بینک اکاؤنٹس کو اس لئے منجمد کر دیا گیا ہے کیونکہ ان میں کچھ مہینوں سے پیسوں کی گردش نہیں ہو رہی، دائمی امراض کا شکار معمر افراد کو خود بینک پہنچ کر پیسے نکالنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اگر رشتہ دار اکاونٹس سے پیسے نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ہر طرح کی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلا شک و شبہ یہ صورتحال ایک خطرناک اشارہ ہے۔۔۔چین کا بینکاری نظام پیسوں کی شدید کمی کا شکار ہو چکا ہے۔
عام محنت کشوں کی پہلے سے دباؤ کا شکار زندگیاں مزید گھمبیر مسائل کا شکار ہو رہی ہیں جبکہ چھوٹے کاروبار یا افراد کو پیسوں کی کمی کا سامنا ہے اور کچھ تو اس وجہ سے دیوالیہ بھی ہو چکے ہیں۔ اگر پیسوں تک رسائی کا مسئلہ حل نہ ہوا اور اس میں شدت بڑھتی رہی تو ہو سکتا ہے کہ ایک بینک رن (bank run) کا آغاز ہو جائے (بینک رن: مالیاتی نظام میں کسی بھی وجہ کی بنیاد پر بداعتمادی پر عام صارفین خوف و پریشانی کا شکار ہو کر بینکوں میں جمع کیا اپنا تمام پیسہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نظام میں پیسوں کے اتنے نوٹ موجود نہیں ہوتے کہ فوری طور پر تمام صارفین کا تمام پیسہ واپس کر دیا جائے اور نتیجتاً بینک دیوالیے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مترجم) اور مزید بینک دیوالیے کا شکار ہو جائیں۔
ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہینان دیہی بینک اس وقت منہدم ہو گیا جب صارفین کو پتہ چلا کہ پیسہ نکالنا مشکل ہو چکا ہے۔ پچھلے سال اکتوبر میں ہیبے صوبے کے بینک کانگ زو بینک (Cangzhou bank) کو بھی انہی حالات کا سامنا تھا۔ بینک نے ایورگرینڈ کو پیسہ قرض دیا لیکن جب اجارہ داری دیوالیہ ہو گئی تو صارفین اپنی بچت کو لے کر خوف و ہراس کا شکار ہو گئے۔
لیکن موجودہ بحران صرف چند بینکوں کے دیوالیے پن تک محدود نہیں ہے۔ یہ تمام اشارے چین کے پورے بینکاری نظام میں ایک دیوہیکل بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
چینی بینکاری نظام میں قرض اور ادھار
بینک آف چائینہ کی رپورٹ اور سی ایراس ڈیٹا اینڈ انفارمیٹکس کو لمیٹڈ کی تحقیق کو ملا کر اگر دیکھا جائے تو چینی بینکاری نظام میں کل جمع پیسہ 284 ٹریلین یوان ہے۔ سنٹرل بینک کے مطابق 15 دسمبر 2023ء میں چینی بینکاری نظام میں قرضہ جات کا حجم 200 ٹریلین یوان سے تجاوز کر چکا ہے۔ 200 ٹریلین یوان کے قرضہ جات چینی بینکاری نظام میں کل جمع کردہ پیسے کی حد کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ 2023ء میں مالیاتی اداروں کا کل قرضہ 230 ٹریلین ڈالر ہو گا (جس میں سے نصف پراپرٹی قرضہ ہے)۔
لیکن چینی سماج میں قرضہ 200 ٹریلین سے کہیں زیادہ ہے۔ کئی اندازوں اور تحقیقات کے مطابق چینی ریاست کا کم از کم کل قرضہ 350 ٹریلین یوان سے زیادہ ہے جبکہ زیادہ سخت اندازوں کے مطابق 400 ٹریلین یوان تک ہے! اس قرضے کا ایک بڑا حصہ پراپرٹی سیکٹر کا قرضہ ہے اور 80-90 ٹریلین یوان مقامی حکومتوں کی شہری پراپرٹیوں میں سرمایہ کاری ہے جس میں سرکاری اعدادوشمار بھی شامل ہیں۔ یہ سب مل کر 2023ء میں جی ڈی پی کا 150 فیصد تھے۔ بقایا مرکزی قرضہ اور شہریوں کا واجب الادا ادھار ہے۔ اس قرضے کا دباؤ یقینا پورے مالیاتی نظام کی شریانوں میں دوڑتا ہوا بینکاری نظام کی روح تک جا پہنچے گا۔
پراپرٹی بلبلے (property bubble) کے پھیلاؤ کے دوران پراپرٹی مالکان کو قرضہ دینا ایک منافع بخش کاروبار تھا اور چھوٹے بڑے تمام بینک اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے کے لئے بے قرار تھے۔ ان میں سے کئی نے تو خود پہلے کسی اور بینک سے قرضہ لیا اور پھر وہ قرضہ آگے پراپرٹی ڈویلپر یا سرمایہ دار کو دے دیا! نتیجتاً ایک بینک کے دیے گئے قرضہ جات کا کل حجم اس بینک کے اپنے تمام اثاثوں سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا بم ہے جو بینک نے خود ہی اپنی بنیادوں میں شرح نمو میں بڑھوتری کے دور میں رکھ دیا تھا۔
اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کئی چھوٹے بینک تباہی کے دہانے پر کھڑے ہو چکے ہیں اور مرکزی بینک نے چھوٹے بینکوں میں سرمایہ کاری کی رفتار کو سست رو کر دیا ہے تاکہ بحران تیر کی طرح سیدھا اسی کے سینے پر نہ آن لگے۔ چینی حکومت نے بھی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے کہ کئی سو دیہی بینکوں کو مدغم کر کے انہیں بڑے علاقائی بینکوں میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ ان کے ناقابل واپسی قرضہ جات کو ختم کیا جا سکے۔ لیکن یہ منصوبہ اندھیرے میں تیر چلانا ہے۔ رائٹرز نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق:
”اگرچہ تقریباً 4 ہزار چھوٹے بینکوں کو خود سے نظام کے لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں سمجھا جا رہا لیکن خوف یہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک خاطر خواہ تعداد نے منڈی سے قلیل مدتی قرضوں کے ذریعے اپنی فنڈنگ کی ہے تو پھر اگر ان میں سے چند ایک بھی دیوالیہ ہو جائیں تو یہ ایک اجتماعی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے“۔
یہ بحران پھٹے گا کب؟
اس وقت بڑے بینکوں کو وہ خطرہ نہیں لاحق ہے جو چھوٹے بینکوں کے لئے موت کا پروانہ بنا ہوا ہے۔ لیکن یہ ابھی آغاز ہے۔ پچھلے سال ہم نے خفیہ بینکاری (مالیاتی، پنشن یا ریاستی ادارے جنہوں نے آمدن بڑھانے یا ان میں موجود اشرافیہ نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے غیر رسمی اور غیرسرکاری طور پر منافع بخش سکیموں اور منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے یا کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کو قرضے دیے ہوئے ہیں۔ مترجم) کرنے والوں میں سب سے بڑا نام ژونگ ژی اور دولت کی منیجمنٹ کرنے والی چین کی تیسری سب سے بڑی تنظیم ہائے یان ویلتھ کو دیوالیہ ہوتے دیکھا ہے۔ ژونگ ژی کی پراپرٹی میں سرمایہ کاری ڈوب گئی۔ ہائے یان ویلتھ کے تابوت میں آخری کیل معاشی انحطاط میں اثاثوں کی گرتی قدر ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں سرمائے کی کڑی ٹوٹ گئی اور غم و غصے میں ڈوبے سرگرم افراد نے کمپنی کی مرکزی عمارت میں اکٹھے ہو کر پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔
پھر اس وقت پراپرٹی سیکٹر میں جاری تباہ کاری مسلسل گھمبیر ہوتی جا رہی ہے جس پر ہم پہلے بھی مضامین شائع کر چکے ہیں اور اب یہ دیگر بحرانوں کے ساتھ مل کر عوامی تحرک اور نئی جدوجہدوں کی راہیں ہموار کر رہا ہے۔
جہاں مقامی حکومتیں شدید قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں لیکن بینکوں کو ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہیں، وہاں وہ زمینیں بینکوں کو مارٹگیج (رہن) کر دیں گی، جس کے نتیجے میں ان زمینوں کے رہائشیوں کو بے دخل کیا جائے گا۔ یا پھر انہیں انفراسٹرکچر کی ضرورت پڑے گی تاکہ اپنے برباد کھاتوں کو کچھ بہتر کیا جا سکے اور اس لئے انہیں زمین استعمال کرنے کے حقیقی حقوق حاصل کرنا ہوں گے۔ طریقہ کار جو بھی ہو اس کا نتیجہ حکومت اور پسی ہوئی عوام کے درمیان زمینوں پر قبضے کی بنیاد پر براہ راست شدید لڑائی ہی ہو گا۔
مثلاً ژی شوان صوبے کے شہر گان ژی میں راہب اور تبتی اجتماعی طور پر اکٹھے ہو کر حکومتی اہلکاروں کے سامنے سجدہ زیر ہو گئے کہ ان کے مندر اور گاؤں منہدم اور بقایا زرعی زمین پر قبضے نہ کئے جائیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مرکزی حکومت شدید چیخ و پکار کر رہی ہے کہ زرعی زمین کو قائم رکھا جائے۔ فروری میں فارن پالیسی میگزین میں ایک متعلقہ رپورٹ کے مطابق:
”امریکہ اور انڈیا سمیت دیگر ممالک کی طرح چین میں بھی زرعی زمین کی تباہی کی وجہ پچھلی تین دہائیوں کی شدید صنعت کاری اور شہروں کا پھیلاؤ ہے۔ زرعی زمینوں پر مینوفیکچرنگ، انفراسٹرکچر اور شہری تعمیرات کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے کے لئے مسلسل قبضہ کیا جاتا رہا ہے۔ زمین کے لئے مسابقتی مفادات کے نتیجے میں زرعی زمین پر زیادہ منافع بخش مقاصد کے لئے قبضہ کیا جاتا رہا ہے۔ اشیائے خوردونوش کے بیوپاریوں، کیش اجناس کے کاشتکاروں اور پراپرٹی ڈویلپرز کے درمیان زمین کے لئے کشمکش میں زیادہ سے زیادہ منافعوں کے حصول کی دوڑ نے اکثر اشیائے خوردونوش کے کسانوں کی ضروریات کو نظرانداز کیا ہے، خاص طور پر جب درآمد کردہ اشیائے خوردونوش مقامی پیداوار سے زیادہ سستی ہوں“۔
مجموعی طور پر چینی معیشت انحطاط کا شکار ہو چکی ہے اور تفریط زر (deflation) ہر جگہ نظر آ رہی ہے۔ پیداوار سکڑ رہی ہے، بیروزگاری میں عمومی طور پر اور نوجوانوں کے لئے خاص طور پر اضافہ ہو رہا ہے جو اب کئی دہائیوں کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری تیزی سے نکالی جا رہی ہے۔
فنانشل ٹائمز میگزین نے نشاندہی کی ہے کہ اس وقت مجموعی طور پر چین کو انتہائی خطرناک تفریط زر اور قرضوں کے بلبلے کا سامنا ہے۔ قرضوں کا ایک دیوہیکل حصہ واجب الاداء ہونے والا ہے لیکن اس کی عدم ادائیگی سے مانگ میں کمی ہو گی جو ایک معاشی سست روی کے ساتھ مل کر سرمایہ کاری کی خواہش کو مزید مدھم کر دے گا اور نتیجتاً بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ کچھ مبصرین نے تو ایک عظیم کسادبازاری سے موازنہ بھی لکھ دیا ہے۔
تمام اطراف سے خطروں کی یہ گھنٹیاں بینکاری، چینی حکومت، سرمایہ داری اور طبقاتی جدوجہد کے عمومی بحران میں یکجا ہو چکی ہیں۔
سرمایہ داری کی حدود میں ناقابل حل مسئلہ
اس وقت پوری دنیا کے بورژوا معیشت دان چینی بینکاری نظام کو لاحق خطروں کو بھانپ چکے ہیں۔ ایک طرف چین دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری ہے جو اسے عالمی پیداواری کڑی میں ایک منفرد اور ممتاز پوزیشن عطا کرتی ہے۔ دوسری طرف چینی بینکاری نظام دنیا کا سب سے بڑا نظام ہے اور اس لحاظ سے عالمی معیشت کے اعصاب پر سوار ہے۔ اس لئے چین میں ایک ممکنہ بینکاری بحران عالمی منڈی پر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
ایک آسان مانیٹری پالیسی (شرح سود، کرنسی کی قدر اور پیسوں کی سپلائی میں اضافہ یا کمی وغیرہ۔ مترجم) کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ چینی حکومت بیل آوٹ پیکجوں کی ایک دیوہیکل لہر کی بھی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن ہم نے مغرب میں مقداری آسانی (Quantitative Easing) کی پالیسی کے تحت دیکھا ہے کہ محض منڈی میں پیسے پھینک دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
سرمایہ داری کا بنیادی تضاد یہ ہے کہ پیداوار سماجی اور ذرائع پیداوار نجی ملکیت میں ہیں جس کی وجہ سے مسلسل زائد پیداوار اور معاشی بحرانوں کا سامنا رہتا ہے۔ بحرانوں کے اس نہ ختم ہونے والے گرداب اور انتشار سے آزادی صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے خاتمے میں ہی ممکن ہے۔