اپریل 2023ء کے پہلے ہفتے میں لیبر پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جیرمی کوربن کو اگلے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دینے کے خلاف ووٹ دیا۔ جس کے بعد لیبر پارٹی کے بائیں بازو سے ایک نئی محنت کش پارٹی کے حق میں کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ لیکن اصل سوال ایک انقلابی قیادت کا فقدان ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بائیں بازو کے خلاف ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے ”سر“ کیئر سٹارمر اور پارٹی کے دائیں بازو نے اگلے انتخابات میں کوربن کو پارٹی ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
لیبر پارٹی کی قیادت پچھلے کئی مہینوں سے اس اشتعال انگیزی کا اشارہ دے رہی تھی۔ لیکن اسے حتمی شکل اس منگل کو نیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی (NEC) کی میٹنگ میں دی گئی جب خود سٹارمر نے شمالی اسلنگٹن سے ممبر پارلیمنٹ کو سرکاری طور پر پارٹی ٹکٹ نہ دینے کی قرارداد پیش کی۔
جواب میں کوربن نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پارٹی جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے۔ سابق لیبر قائد کے مطابق ”مجھے ڈرا دھمکا کر چپ نہیں کرایا جا سکتا۔ میں نے ساری عمر شمالی اسلنگٹن کی عوام کے لئے ایک بہتر سماج کی جدوجہد کی ہے اور میرا اس جدوجہد کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے“۔
اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ٹٹو سٹارمر کے اس اشتعال انگیز قدم نے شمالی اسلنگٹن کے CLP ممبران (انتخابی حلقہ کے لیبر پارٹی ممبران) کو اپنا نمائندہ چننے کے جمہوری حق کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ حکمران طبقے کو ایک اور واضح پیغام ہے کہ سٹارمر کی قیادت میں محنت کشوں اور نوجوانوں کے برعکس بڑے کاروباروں کے مفادات کو محفوظ بنایا جائے گا۔
اس وقت سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کوربن ایک آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے گا یا پھر ایک نئی محنت کش پارٹی کے قیام کی جدوجہد کرے گا۔
اس پُرہیجان ماحول میں سوشلسٹوں کا موقف کیا ہونا چاہیے؟
منافقت
منگل کی قرارداد میں لکھا ہوا ہے کہ:
”لیبر پارٹی کے مفادات اور اگلے عام انتخابات میں اس کے سیاسی مفادات کو مسٹر کوربن کے بطور لیبر پارٹی امیدوار (انتخابات میں) حصہ لینے سے نقصان پہنچے گا“۔
اس میں مزید لکھا ہے کہ اگر کوربن کو پارٹی ٹکٹ ملا تو اس سے پارٹی کی ”انتخابات میں ساکھ“ پر ”منفی اثرات“ پڑیں گے۔ اس کے ساتھ 2019ء انتخابات کے نتائج کا سارا ملبہ بھی سابق قائد پر ڈال دیا گیا ہے۔
یہ سٹارمر اور دائیں بازو کی غلیظ منافقت ہے۔ انہوں نے پارٹی کو بریگزٹ سوال پر دوسرا ریفرنڈم منعقد کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا تھا جس نے ”ریڈ وال“ (وسطی اور شمالی برطانیہ میں انتخابی حلقے جو روایتی طور پر لیبر پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں) اور دیگر علاقوں میں پارٹی کو شکست سے دوچار کیا۔
حالیہ فورڈ تحقیق، ”لیبر فائلز“ اور افشاں ہونے والی بدنام زمانہ رپورٹ سے ثابت ہو چکا ہے کہ کوربن کے برعکس دائیں بازو نے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
ہیجان انگیز یہودی مخالفت الزام کی کمپین، ناکام کمزور کُو کی کوشش، مسلسل الزام تراشی اور سبوتاژ، ٹوری پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سازباز۔۔۔غرضیکہ ان خواتین و حضرات نے کوربن کی قیادت اور پارٹی کو برباد کرنے کے لئے دن رات ایک کر رکھا تھا۔
غصہ
اس ہفتے کی حیران کن لیکن متوقع اشتعال انگیزی نے بائیں بازو اور محنت کش تحریک میں موجود کوربن کے ہزاروں حامیوں کو شدید مشتعل کر دیا ہے۔
NEC ووٹ کے بعد سوشل میڈیا پر غصے کا کھلا اظہار ہوا۔ اس میں زیادہ تر وہ سابق لیبر ممبران تھے جنہیں پارٹی سے نکال دیا گیا ہے یا پھر پارٹی قیادت پر دائیں بازو کے قبضے کے بعد وہ مایوسی میں رضاکارانہ طور پر پارٹی چھوڑ کر چلے گئے۔
BFAWU (نان بائیوں کی یونین) نے ایک یکجہتی اعلامیہ جاری کیا ہے۔۔۔100 سال پہلے لیبر پارٹی کے قیام میں یہ یونین شامل تھی اور 2021ء میں اس نے ووٹ کے ذریعے اپنی وابستگی ختم کر دی تھی۔۔۔جس میں روایتی لفاظی کے برعکس اس اشتعال انگیزی کی حقیقی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے کڑی تنقید کی گئی ہے۔
یونین قائدین کے مطابق ”دولت یا سٹیٹس کو کو سٹارمر سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئے اس کی نوکری یہ ہے کہ کوربن جیسی شخصیت کو دوبارہ کبھی کسی اختیارات کی پوزیشن پر منتخب نہ ہونے دیا جائے۔۔۔پارٹی کے اندر اور باہر انہیں ایک ایسے سیاست دان سے خوف تھا جسے خریدا نہیں جا سکتا، جو طے شدہ دھاندلی زدہ کھیل کی پالیسیاں جاری نہیں رکھتا“۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ”سب سے اولین ترجیح یہ ہے کہ امید کی ہر شمع بجھا دی جائے اور اسی لئے ہم امید کی شمعیں جلانے والے بائیں بازو اور جیرمی کوربن کے خلاف مسلسل ہرزا سرائی دیکھ رہے ہیں“۔
مایوسی
بائیں بازو کے مسلسل تابڑ توڑ حملوں کے خلاف کسی قسم کی مزاہمت کی عدم موجودگی میں اپریل کے پہلے ہفتے کے واقعات کے بعد کئی بائیں بازو کے افراد اور بھی زیادہ مایوس ہوں گے کہ لیبر پارٹی سماج کو تبدیل کرنے کا کبھی بھی اوزار نہیں بن سکتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سٹارمر اور دائیں بازو کی ساری پلاننگ ہی یہ ہے کہ بائیں بازو کو اتنا تنگ کیا اور ستایا جائے کہ وہ مجبور و مایوس ہو کر پارٹی چھوڑ دیں تاکہ پارٹی پر دائیں بازو کی گرفت اور بھی مضبوط ہو۔
اس کے ساتھ اس حالیہ حملے کے بعد دیگر یونینز سے یہ مطالبہ بھی زور پکڑے گا کہ BFAWU کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پارٹی سے وابستگی ختم کر دی جائے۔
اس کی ایک مثال یونائٹ یونین کی کانگریس سے پہلے قراردادوں کا پیش ہونا ہے جن میں وابستگی کا سوال اُٹھایا گیا ہے۔
”اتحاد“
اگرچہ عام سرگرم کارکن شدید غصے میں ہیں اور بائیں بازو کی جانب سے یکجہتی کا اظہار ہو رہا ہے لیکن اس سلگتے غصے کا اظہار قیادت میں موجود نہیں ہے۔
مثال کے طور پر مومینٹم تحریک کے بانی جان لانسمین نے کوربن کے خلاف کاروائی پر تنقید اس بنیاد پر کی ہے کہ اس سے پارٹی کے دائیں اور بائیں بازو کے درمیان ”اتحاد“ کو نقصان پہنچے گا۔
مومینٹم کے عالی دماغ کا کہنا ہے کہ ”وہ لیبر پارٹی کے دائیں بازو کی طرح لیبر اتحاد کا اہم اور مطلوبہ حصہ ہے۔ یہ قائد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اتحاد کو توڑنے کے بجائے اسے قائم رکھے“۔
لانسمین پھر کوربن کو مشورہ دیتا ہے کہ اسے آزاد امیدوار نہیں بلکہ باعزت طور پر ریٹائر ہو کر بائیں بازو کا کسی قسم کا مدبر سیاست دان بن جانا چاہیے۔
اسی طرح NEC کے ووٹ پر جان میکڈونلڈ نے ایک ٹویٹ کیا کہ یہ ایک ”متحد پارٹی“ کی ضرورت کو نقصان پہنچائے گا۔
لیکن لانسمین کے برعکس سابق شیڈو چانسلر نے محنت کش تحریک کو اپیل کی ہے کہ اس فیصلے کو ختم کروانے کے لئے کمپین کی جائے۔
جارحیت
پارٹی ”اتحاد“ کے لئے اس قسم کی اپیلیں لیبر پارٹی کے بائیں بازو کی سب سے بڑی کمزوری رہی ہے۔ پہلے دن سے جب بلیئرائٹس ان کی پیٹھ میں چھرے گھونپ رہے تھے (یا پھر جیسے دائیں بازو کے ممبر جیس فیلپس نے کہا ہے کہ سامنے سے)، اس وقت بھی بائیں بازو کے قائدین اسی اتحاد کے لئے کوشاں تھے۔
بدقسمتی سے اس ساری صورتحال نے عمومی طور پر اور خاص طور پر جدوجہد کے اہم لمحات میں کوربن تحریک کو پرانتشار اور غیرمتحرک کر دیا۔
پارٹی میں دائیں بازو سے منسلک سرمایہ داری کے گھس بیٹھیے ایجنٹوں کو پارٹی سے نکالنے کے لئے عام ممبران کو منظم کرنے کے بجائے بائیں بازو کے قائدین مسلسل ”مفاہمت“ اور ”امن“ کے امکانات کا چورن بیچتے رہتے ہیں۔
عملی طور پر اس کا مطلب مسلسل مراعات دینا تھا تاکہ بلیئرائٹس اور اسٹیبلشمنٹ کسی طرح خوش ہو جائیں جن میں ان تمام ”جرائم“ کا اقرار ہے جو کبھی سرزد نہیں ہوئے، امن کی کوششیں ہیں جنہیں ہمیشہ لات ماری گئی اور عام ممبران کی لازمی دوبارہ منتخبی کے ذریعے جمہوری طریقہ کار سے ان ٹوری نوکروں کو پارٹی سے نکالنے کی کوششوں کو بلاک کرنا ہے۔
ان کے مقابلے میں دائیاں بازو انتہائی سفاک تھا۔ انہیں اپنے طبقاتی مفادات کا پورا دراک تھا اور وہ ہر وقت ایک انگلی کی پیشکش پر پورا بازو کاٹنے کے چکر میں لگے رہتے تھے۔
مختصراً یہ کہ بائیں بازو کی کمزوری نے ہمیشہ دائیں بازو کی جارحیت میں اضافہ کیا۔
جوابی حملہ
اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دایاں بازو کسی قسم کی مزاہمت کے بغیر ایک مرتبہ پھر پارٹی پر قابض ہو گیا ہے۔ پارٹی 5 لاکھ ممبرشپ کی دیوہیکل سطح سے تطہیر (بشمول سوشلسٹ اپیل کے حامیوں کی) اور شدید مایوسی کی نظر ہو کر بالکل کھوکھلی ہو چکی ہے۔
اس لئے ”CLP اور دیگر ملحق“ میں میکڈونلڈ کی عام ممبران کو کمپین کی کال بھی کھوکھلی ہے۔۔۔دیر آمد، غلط آمد۔
اسی طرح مومینٹم بھی بائیں بازو کارکنان سے مسلسل ”رُک کر جدوجہد“ کرنے کی اپیلیں کر رہی ہے۔ ایک ای میل میں منتظمین نے جوشیلا اعلان کیا کہ ”ہم کیئر سٹارمر کی خواہش پوری نہیں ہونے دیں گے۔۔۔ہم کہیں نہیں جا رہے۔ ہم اپنے آپ کو قومی دائرے سے جلاوطن نہیں کریں گے“۔
بڑی جارحانہ گفتگو ہے۔ لیکن یہ جارحانہ مقابلہ اس وقت کہاں تھا جب دائیں بازو کے خلاف اس کی فوری ضرورت تھی؟ جب پہلی مرتبہ کوربن کو نسل پرستی کے جھوٹے الزامات میں معطل کیا گیا اس وقت عوامی تحرک کدھر تھا؟ اور اس وقت کہاں ہے؟
پارلیمانی لیبر پارٹی میں رہ جانے والے لیبر پارلیمنٹ ممبران کو ہر لمحہ خوف لاحق ہے کہ اگلا کون سولی چڑھے گا۔ پورے ملک میں مقامی پارٹیوں کی زیادہ تر قیادت دائیں بازو کے ہاتھوں میں جا چکی ہے یا پھر وہ غیر فعال ہو چکی ہیں۔ بائیں بازو کی یونینیں اپنی وابستگی ختم کرنے پر غور کر رہی ہیں اور زیادہ تر کارکنان اپنی قوتیں دیگر جدوجہدوں اور ہڑتالوں پر مرکوز کر رہے ہیں۔
بہرحال دایاں بازو ٹس سے مس نہیں ہو گا اور نہ ہی اپنی سوچ بدلے گا۔ پارٹی میں کوربن کی واپسی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سٹارمر اور بلیئرائٹس کا صفایا کر دیا جائے۔ لیکن دائیں بازو کے قائدین کے پاس اس حوالے سے کوئی تناظر ہے اور نہ کوئی حکمت عملی۔ ان کے پاس ایک موقع تھا جو وہ گنوا بیٹھے اور نتیجہ آج کی مایوس کن بند گلی ہے۔
نئی پارٹی؟
اس صورتحال میں بائیں بازو سے کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کوربن کو ایک آزاد امیدوار بننا چاہیے یا پھر لیبر پارٹی کو خیرآباد کہہ کر SGC (سوشلسٹ کمپین گروپ) ممبر پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی بنا لینی چاہیے۔
BFAWU نے اعلان کیا ہے کہ ”جیرمی جو راہ چنے گا ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اگر وہ آزاد امیدوار بنتا ہے تو ہم اس کی کمپین کی حمایت کریں گے“۔
اس کا تعلق اس تجویز کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے کہ یونائٹ جیسی یونینیں۔۔۔لیبر پارٹی کے سب سے بڑے مالیاتی مددگاروں میں سے ایک۔۔۔اپنی وابستگی ختم کریں اور اس مہم میں اپنا پورا زور لگائیں۔
بحث یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو سوشلزم کے لئے ایک نیا اوزار تیار ہو گا جو لیبر پارٹی میں موجود تمام گند سے پاک ہو گا۔۔۔بلیئرائٹس، بڑے کاروبار، بیوروکریسی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی تجاویز صدق دل سے پیش کی جا رہی ہیں۔ لیکن ثانوی سوالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں بنیادی مسئلے کی نشاندہی کرنا ہو گی۔
سچائی یہ ہے کہ لیبر پارٹی میں بائیں بازو کے پاس مکمل طاقت تھی۔
پارٹی میں کوربن کے حامی کلیدی عہدوں پر فائز تھے۔۔۔قائد کے دفتر سے لے کر جنرل سیکرٹری تک۔ لاکھوں ریڈیکل محنت کشوں اور نوجوانوں نے کوربن اور اس کے پروگرام کی حمایت میں پارٹی ممبرشپ لی۔ لاتعداد CLPs بائیں بازو کے کنٹرول میں آ گئیں۔
لیکن یہ سب جل کر راکھ ہو گیا کیونکہ کوربن تحریک کے قائدین کو لازمیت سے شدید خوف تھا۔۔۔اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت، دائیں بازو کے ممبران پارلیمنٹ کی غیر منتخبی اور اوپر سے نیچے تک پوری پارٹی کی تبدیلی اور ازسرنوتعمیر۔
اصلاح پسندی
یہ سارا مسئلہ اس ”بائیں بازو“ کی مبہم اصلاح پسند سیاست سے جنم لیتا ہے۔۔۔یہ یقین کہ ایک زیادہ مہربان اور رحم دل سرمایہ داری ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں محنت کش اور سرمایہ دار پر امن تعاون کے ذریعے سب کی بھلائی کے لئے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
یہ یقین ان سے تمام فیصلے کروا رہا تھا۔۔۔سب سے بڑھ کر یہ خود فریبی کہ محنت کش طبقے کے مفادات کا نمائندہ بایاں بازو حکمران طبقے کے مفادات کے نمائندے دائیں بازو کے ساتھ شیروشکر رہ سکتا ہے۔
اگر انہی اصلاح پسند بنیادوں پر ایک نئی بائیں بازو کی پارٹی منظم کی جاتی ہے جس کے پھر یہی اصلاح پسند قائدین ہوں گے تو پھر انہیں انہی مسائل کا سامنا ہو گا جنہوں نے کوربن تحریک کو ناکامی سے دوچار کیا۔
ایک مرتبہ پھر ماضی میں کی گئی غلطیاں اول و آخر دہرائی جائیں گی۔
اور پرانی کہاوت پر مہر ثبت کر دی جائے گی کہ جو تاریخ سے نہیں سیکھتے، اسے دہرانا ان کا مقدر ہے۔ لیبر تحریک میں بائیں بازو نے واضح طور پر اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھا ہے۔۔۔یونیسون یونین میں بائیں بازو نے لیبر پارٹی کے بائیں بازو کی حماقتیں ایک مرتبہ پھر دہرائیں۔
فرق صرف یہ تھا کہ ان حماقتوں کو محدود دورانیے میں پورا کر لیا گیا۔موجودہ حالات میں اصلاح پسندی کی محدودیت اور بھی زیادہ نمایاں ہو چکی ہے۔ آج کا عہد سرمایہ دارانہ بحران کا دور ہے۔۔۔اصلاحات کے برعکس رد اصلاحات کا عہد۔
صرف ایک بے باک سوشلسٹ پروگرام ہی محنت کش طبقے کو درپیش بنیادی مسائل حل کر سکتا ہے۔
قیادت
کسی بھی نئی بائیں بازو کی پارٹی کے لئے لازمی ہو گا کہ اس کی بنیاد ریڈیکل محنت کشوں اور نوجوانوں کی عوامی شمولیت پر قائم ہو جس کے مقامی جمہوری ڈھانچے موجود ہوں۔
لیکن جب مومینٹم کے ابتدائی دنوں میں کوربن حامیوں نے یہی کام کرنے کی کوششیں کی تھیں تو لانسمین جیسے بائیں بازو کے قائدین نے فوراً عام کارکنان کی منظم اور متحرک ہونے کی کوششوں کا گلا گھونٹ دیا تھا۔
اس کی وجہ لانسمین اور اس جیسوں کے کوئی جابرانہ بیوروکریٹک رجحانات نہیں تھے بلکہ اصلاح پسند سیاست تھی۔
ان قائدین کو خوف تھا کہ ایک ایسی تحریک پیدا ہو جائے گی جو ان کے کنٹرول سے نکل کر جنگجوانہ راستے پر چل پڑے گی یعنی بلیئرائٹ گھس بیٹھیوں کے ساتھ براہ راست متصادم ہو جائے گی۔
انہی مسائل کے خلاف یہی قیادت تاریخ کو ایک مرتبہ پھر دہرائے گی۔
یہ کوئی خام خیالی نہیں ہے بلکہ پچھلے چھ مہینوں میں ”بس بہت ہو گیا“ کے نام سے جاری کمپین سے یہ سب ثابت ہوتا ہے۔
پورے ملک میں ”بس بہت ہو گیا“ ریلیوں میں دیوہیکل شمولیت اور اپنے تئیں نمائندگان کی شعلہ بیان تقریروں کے باوجود اس قوت اور جوش و خروش کو ایک حقیقی عوامی تحریک یا ایک نئی سیاسی پارٹی کی ابتداء کے طور پر بروئے کار نہیں لایا گیا۔
اس کے برعکس اصلاح پسند سیاست اور قیادت کے بیوروکریٹک کنٹرول کے نتیجے میں کمپین ہوا میں تحلیل ہو کر حالیہ ہڑتالی لہر میں ایک حاشیہ بن کر رہ گئی ہے۔
انقلاب
اس ساری صورتحال میں محنت کش اور نوجوان واقعات کے تابڑ توڑ حملوں میں مسلسل ریڈیکلائز ہوتے ہوئے اس ”بائیں بازو“ کی نرم اور ڈرپوک اصلاح پسندی سے آگے افق پر دیکھ رہے ہیں۔
یہ عمل خاص طور پر بڑھتی تلخ صنعتی جدوجہدوں میں مزید پختہ ہو گا۔ اس کی مثال عام ممبران کی جانب سے نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کے محنت کشوں کو پیش کئے جانے والے غلیظ معاہدے کی مخالفت میں کمپین ہے۔
اس وقت ہر تین میں سے ایک نوجوان اپنے آپ کو کمیونسٹ کہتا ہے یا اس کے حوالے سے مثبت جذبات رکھتا ہے۔ یہ اعدادوشمار برطانیہ کی انقلابی سمت کے آئینہ دار ہیں۔ سوشلسٹوں کو اس مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاست کرنا ہوگی نہ کہ ماضی کی مایوسیوں کو سر پر سوار کر کے۔
محنت کش طبقے کی اشد ضرورت نئے تڑکے کے ساتھ پرانی کوربن تحریک کے برعکس ایک انقلابی قیادت ہے جو سرمایہ داری کے خاتمے میں پرعزم آگے بڑھنے کی راہ روشن کرے۔
ایسی قیادت ایک اعلان کے ساتھ عدم سے وجود میں نہیں آجائے گی۔ اس کو سرگرمیوں کے ذریعے شعوری طور پر تعمیر کرنا ہو گا جس کی بنیاد سب سے زیادہ پرعزم طبقاتی جنگجو اور شفاف ترین نظریات اور تناظر ہوں۔۔۔یہی مارکسزم ہے۔