بینک آف کینیڈا کے گورنر ٹِف میک لیم نے کاروباریوں سے ایک ملاقات میں کہا ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں اور محنت کشوں کے معیارِ زندگی پر حملے کریں تاکہ افراطِ زر کو قابو کیا جا سکے۔ اگرچہ کمپنیاں تاریخی منافع ہڑپ کر رہی ہیں اور کوئی ایسا ثبوت نہیں جو ثابت کرے کہ اجرتوں اور افراطِ زر کا کوئی باہمی تعلق ہے، کینیڈا کا سب سے اہم بینکار اصرار کر رہا ہے کہ محنت کشوں پر جبر لازم ہے۔ اس سے بڑا اور کیا ثبوت چاہیئے کہ سرمایہ داری محنت کش دشمن ہے اور محنت کشوں کو اس کے خاتمے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
محنت کش حقوق مخالف دائیں بازو کی کارپوریٹ لابی کینیڈین فیڈریشن آف انڈیپنڈنٹ بزنس (CFIB) سے ملاقات میں گورنر میک لیم نے افراطِ زر پر بات کی۔ افراطِ زر 39 سالہ ریکارڈ توڑ کر 8.1 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ اس کے مقابلے میں اجرتوں میں اضافہ 3.1 فیصد رہا ہے۔ یعنی پچھلے ایک سال میں محنت کشوں کے معیارِ زندگی میں 5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ مزید بربادی ابھی نازل ہونی ہے۔
لیکن اجرتیں افراطِ زر کی وجہ نہیں ہیں، اس حقیقت سے قطع نظری کر کے گورنر صاحب نے اعلان کر دیا ہے کہ غرباء کو مزید غریب کیا جائے۔ ”کاروبار کی منصوبہ بندی اس بنیاد پر نہ کریں کہ افراطِ زر کا موجودہ یہی رہے گا۔ طویل معیاد اجرتی معاہدوں میں اسے ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ وقت لگے گا لیکن آپ کو پُراعتماد ہونا چاہیئے کہ افراطِ زر کم ہوگی“۔ یہ الفاظ وہ شخص بول رہا ہے جس کی ٹیکس کے بعد سالانہ تنخواہ 4 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔ وہ مالکان سے کہہ رہا ہے کہ کم اجرتیں رکھ کر منافع لوٹتے رہو جبکہ اعتراف بھی کر رہا ہے کہ ”کچھ وقت لگے گا!“
افراطِ زر کا تنخواہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کمپنیوں کی بے لگام منافع خوری اور پیسہ چھاپ کر منڈی میں پیسوں کی بڑھی سپلائی، کم شرحِ سود اور کمپنیوں کو حکومتی امداد کے نتیجے میں کرنسی کی قدر میں کمی ہونا ہے۔ پیسہ چھاپنے اور کمپنیوں کی ویلفیئر کا نتیجہ یہ نکلا کہ سٹہ باز اور سٹاک بروکر تو مستفید ہو گئے لیکن اب محنت کشوں کو اس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ بنیادی ریاضی ہے کہ اگر معیشت میں مصنوعات اور سروسز پہلے جتنی ہی رہتی ہیں لیکن پیسے کا حجم بڑھا دیا جاتا ہے تو اس حساب سے قیمتیں بھی بڑھیں گی۔
”اُجرت-قیمت گرداب“ کی بکواس
میک لیم نے محنت کشوں پر معاشی حملے کا جواز ”اُجرت-قیمت گرداب“ بتایا ہے۔ یہ دائیں بازو کی تھیوری بڑا آسان ہتھیار ہے جس کے ذریعے محنت کشوں پر ہر قسم کا الزام لگا دیا جاتا ہے چاہے حقیقی دنیا میں تحقیق اس کی جتنی نفی کر دے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ قیمتیں بڑھ رہی ہیں لیکن اُجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اس لئے اُجرتوں پر الزام لگانا بددیانتی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں موجودہ وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کے باپ وزیرِ اعظم پیئر ٹروڈو نے اسی غلیظ تھیوری کو استعمال کرتے ہوئے محنت کشوں پر سفاک حملہ کیا اور غرباء کی جیبیں کاٹ کر امراء کی تجوریاں بھر دیں۔ آج ایک مرتبہ پھر تاریخ کے کوڑے دان سے اس کارپوریٹ ”تھیوری“ کو بینک آف کینیڈا کا گورنر نکال لایا ہے۔
اُجرت-قیمت گرداب تھیوری کے مطابق اگر قیمتیں بڑھتی ہیں تو محنت کش اُجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کریں گے تاکہ معیارِ زندگی کو برقرار رکھا جائے۔ لیکن اگر محنت کش اُجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو سرمایہ دار اس مطالبے کو پورا کرنے کے لئے قیمتیں بڑھائیں گے۔ محنت کش پھر اضافے کا مطالبہ کریں گے، سرمایہ دار پھر قیمتیں بڑھائیں گے اور ایک ایسا وقت آ جائے گا کہ ایک ڈبل روٹی کی قیمت 1 ملین ڈالر ہو جاے گی۔ اس ”تھیوری“ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ قیمتوں کا مرضی سے تعین کیا جا سکتا ہے اور منافع محض کوئی خود ساختہ شرح ہے جو اخراجات پر لاد دی جاتی ہے۔ پھر جب ٹِف میک لیم اور اس کی قبیل کے جھوٹے اس تھیوری کی فصیح و بلیغ وضاحت کرتے ہیں تو بڑی چالاکی سے ”سرمایہ دار“ اور ”منافع“ کے الفاظ نکال دیتے ہیں۔ وہ ایسے بیان کرتے ہیں جیسے قیمتیں جادوئی طور پر بڑھ جاتی ہیں جس میں جیبیں بھرنے والے ایک کارپوریٹ حریص کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ محنت کشوں پر سارا الزام ڈال دیا جاتا ہے کہ یہ غریب ہونے کو تیار نہیں اس لئے ایسا ہو رہا ہے جبکہ حقیقی مجرم مالکان قیمتیں بڑھا کر منافع ہڑپ کر کے صاف بچ جاتے ہیں۔ لفاظی کی گھمن گھیریوں میں سرمایہ دار غائب ہو گیا اور ذمہ دار محنت کش ٹھہرا۔
اُجرتوں کے بڑھنے کے ساتھ قیمتیں اسی وقت بڑھتی ہیں جب منافع بڑھ جائے۔ 4 لاکھ ڈالر سالانہ ہڑپ کرنے والا ایک بینکار اُجرتوں کے حوالے سے بڑا فکر مند ہے لیکن قیمتوں کے تعین میں منافعے کے کردار کے حوالے سے اتنا مطمئن کیوں ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب ہے۔ اگر اُجرت-قیمت گرداب حقیقی ہے (جو کہ نہیں ہے) تو اجرتوں میں کمی کے برعکس منافع کم کر کے بھی تو اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
کارپوریٹ منافع خوری
درحقیقت پچھلے عرصے میں منافعے کم ہونے کے بجائے فلک شگاف ہو چکے ہیں۔ کینیڈا میں موجودہ سالانہ کارپوریٹ منافع 402 ارب ڈالر ہے۔ 2021ء میں یہ 344 ارب ڈالر اور 2020ء میں 192 ارب ڈالر تھا۔ یہ دو سالوں میں 109 فیصد اضافہ ہے۔ دیگر تحقیق کے مطابق 2019ء میں کارپوریٹ منافع 12.4 فیصد تھا جو اب 2022ء میں بڑھ کر 15.2 فیصد ہو چکا ہے۔ اس دوران جی ڈی پی کا 1 فیصد اُجرتوں کی مد میں کم ہوا ہے۔ 1960ء، 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں منافعے اوسطاً جی ڈی پی کا 9 فیصد تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں کتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی ہے۔ شرح منافع بھی بڑھ چکی ہے۔ شرح منافع وہ پیسہ ہے جو کسی بھی صنف کی قیمت میں پیداواری لاگت کے علاوہ ہے۔ 2002ء – 2019ء کے دورانیے میں شرح منافع 9 فیصد تھی لیکن 2021ء میں یہ دگنی ہو کر 16 فیصد ہو گئی۔ اشیاء خوردونوش جیسے سیکٹر میں صورتحال تو اور بھی گھمبیر ہے۔ پنسار سامان کا افراطِ زر، بنیادی افراطِ زر سے 2 فیصد زیادہ 9.9 فیصد ہے۔ اس دوران پنسار سامان کے سوداگر جیسے لوب لاز سپرمارکیٹ کی شرح منافع 30.9 فیصد تک بڑھ چکی ہے جبکہ ان کی کمائی دُگنی سے زیادہ ہو چکی ہے!
ٹِف کو قیمتوں پر منافع خوری کے اثرات کی کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن شائد وہ بڑی کمپنیوں کے بورڈ کمروں میں بیٹھے اپنے یاروں کو اپیل کرے گا کہ عوام کی بھلائی کے لئے اپنی تنخواہیں کم کرو؟ ظاہر ہے کہ اگر محنت کشوں کی اُجرتوں سے افراطِ زر پیدا ہوتا ہے تو پھر چیف ایگزیکٹیوز کی تنخواہوں سے بھی ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ بینک آف کینیڈا نے یہ ذکر نہیں کیا کہ 2021ء میں 100 بڑی کینیڈین کارپوریشنز کے چیف ایگزیکٹیوز کی تنخواہیں 32 فیصد بڑھی ہیں۔ یہ 100 دولت مند، ٹیکس کٹوتی کے بعد کل مجموعی 1.16 بلین ڈالر تنخواہیں گھر لے کر گئے جبکہ محنت کشوں کو اُجرتوں میں کٹوتی کروانے کا کہا جا رہا ہے۔
ڈیڑھ صدی پہلے مارکس نے ثابت کیا تھا کہ اُجرت-قیمت گرداب جھوٹ ہے۔ قیمتیں من موجی نہیں ہوتیں۔ یہ پیداواری لاگت پر کوئی طے شدہ (یا بڑھتی) شرح فیصد نہیں ہوتی اور اس کا تعین محض کسی سرمایہ دار کے موڈ سے نہیں ہوتا۔ قیمتیں کسی صنف کی لازمی سماجی وقتِ محن کے گرد گھومتی ہیں۔ اگر ایک صنف کو بنانے میں ایک مخصوص وقت درکار ہے اور پیسے کی قدر مستقل قائم رہتی ہے تو اوسطاً قیمت تبدیل نہیں ہو گی۔
محنت کش کو اس کی محنت کی نہیں بلکہ قوتِ محنت کی اُجرت دی جاتی ہے۔۔۔ایک ایسی قدر جو کام کے دن میں صَرف ہونے والے گھنٹوں میں چند ہی گھنٹوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ محنت کش کی اُجرتوں اور ایک دن کے اوقات کار کے درمیان فرق کو قدرِ زائد کہا جاتا ہے۔ اگر ایک شے کو بنانے میں دس گھنٹے لگتے ہیں اور ایک محنت کش کو پانچ گھنٹوں کی اُجرت دی جاتی ہے تو پانچ گھنٹوں کی قدرِ زائد سرمایہ دار کا منافع بن جاتی ہے۔ لیکن اگر محنت کشوں کی اُجرت چھ گھنٹوں کے برابر ہو جاتی ہے پھر بھی شے کو بنانے میں دس گھنٹے ہی لگتے ہیں۔ صنف کی قدر میں کوئی فرق نہیں آیا اور اگر پیسے کی قدر پہلے جتنی ہی رہتی ہے تو پھر قیمت بھی پہلے جتنی ہی رہے گی۔
اُجرتوں میں اضافہ کسی شے کی قدر کو تبدیل نہیں کرتا بلکہ منافعوں کو کم کرتا ہے۔ اسی طرح اُجرتوں میں کمی سے شے کی قدر میں کمی نہیں ہوتی بلکہ منافعوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے ٹِف میک لیم جیسے بینکار حقیقی اُجرتیں کم کرنے کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں۔۔۔وہ سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں! آخری مرتبہ کب آپ نے دیکھا تھا کہ اُجرتوں میں کمی کے ساتھ قیمتوں میں بھی کمی ہوئی؟ اُجرتیں ہر وقت کم کی جاتی ہیں لیکن قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ مالکان مسلسل زائد منافع ہڑپ کر رہے ہیں۔
افراطِ زر کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟
متعدد عوام ایسے ہوتے ہیں جو افراطِ زر کی وجہ بن سکتے ہیں، حتیٰ کہ اعداد و شمار اور تھیوری بھی یہ بتاتے ہیں کہ اُجرت ان عوامل میں شامل نہیں۔ وباء کے بعد سپلائی چینز میں ہیجان ایک عارضی جزو ہے۔ کارپوریٹ منافع خوری بھی ایک جزو ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں افراطِ زر کا 60 فیصد حصہ منافع خوری کی وجہ سے ہے۔ کچھ لوگوں نے اس شرح پر سوالات اُٹھائے ہیں لیکن پھر بھی منافع خوری ایک واضح جزو ہے۔ لیکن 60 فیصد بہت زیادہ ہونے کے باوجود 100 فیصد نہیں ہے۔ کارپوریٹ بیل آؤٹ پیکجز کے لئے بے تحاشہ پیسہ چھاپا گیا اور کم شرحِ سود نے بھی کرنسی کی قدر کم کی ہے۔ جب معیشت میں نوٹوں کی تعداد زیادہ ہو جبکہ وہ قدریں (اشیاء) جن کی وہ (نوٹ) نمائندگی کرتے ہیں کم ہوں، تو پھر پیسے کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کسی مسئلے کے بغیر پیسہ مسلسل چھاپا جا سکتا ہے۔ وہ غلط ہیں اور غیر دانستہ طور پر 2020ء اور 2021ء میں سرمایہ داروں کو دیے جانے والے ریاستی بیل آؤٹ پیکجز کی تائید کر رہے ہیں۔
افراطِ زر کو ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے محنت کشوں کو افراطِ زر سے کم اُجرتوں میں اضافے کو رد کرنا ہو گا۔ ہمیں افراطِ زر کے مطابق اُجرتوں (cost-of-living-adjustments or COLA) کی جدوجہد کرنا ہو گی اور ماضی میں ہونے والی اُجرتوں میں تمام حقیقی کٹوتیوں کو پورا کرنا ہو گا۔
اس کے ساتھ سرمایہ دارانہ منافع خوری بند کرنا ہو گی۔ ان تمام کارپوریشنوں کو مجبور کرنا ہو گا کہ اپنے کھاتے کھولو تاکہ پورا محنت کش طبقہ دیکھ سکے کہ اُجرتوں، منافعوں، قیمتوں اور چیف ایگیکٹیوز کی تنخواہوں کی مد میں کیا خرچہ ہوتا ہے۔
لیکن ہمیں یہ ادراک بھی ہونا چاہیئے کہ جب تک یہ کارپوریشنیں نجی ملکیت میں ہیں اس وقت تک انہیں بے لگام منافع خوری سے روکا نہیں جا سکتا۔ جو چیز آپ کی ملکیت نہیں اسے آپ کنٹرول نہیں کر سکتے۔ ان تمام معلومات سے مسلح ہو کر محنت کشوں کو خون چوسنے والے چیف ایگزیکٹیوز کے کنٹرول سے کمپنیوں کو چھین کر اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا، جن کی تنخواہوں میں 32 فیصد اضافہ محنت کشوں اور صارفین کے استحصال کا نتیجہ ہے۔ محنت کش جمہوری طریقہ کار سے تمام مصنوعات کی حقیقی اور منصفانہ قیمتوں کا تعین کریں گے جس میں منافع شامل نہیں ہو گا۔
سب سے اہم ہمیں بینکوں کو ضبط کرکے ٹِف میک لیم جیسے دائیں بازو کے خون کے پیاسوں کو ٹھڈا مار کر باہر نکالنا ہو گا جو اُجرت-قیمت گرداب تھیوری کا پرچار کر رہے ہیں۔ اس طرح ہمارے پاس وہ اوزار آ جائیں گے جن کے ذریعے ہم پیسہ چھاپ کر کارپوریٹ بیل آؤٹ اور سٹاک مارکیٹ سٹہ بازی کے برعکس وسائل کو منصوبہ بند ی کے ذریعے مختص کریں گے۔ اس کے ساتھ محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لی گئی کمپنیوں کو ایک جمہوری منصوبہ بند پیداوار کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ محنت کش طبقے کی شعوری مداخلت کے ذریعے سرمایہ داری کی پُرانتشار سپلائی چین رسد کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ منافعوں کے لئے پیداوار انتشار پیدا کرتی ہے اور محنت کش طبقے کا معیارِ زندگی زمین بوس ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو ہم پر یقین نہیں کہ سرمایہ داری کا نتیجہ محنت کشوں کی غربت میں اضافہ ہے تو آپ بینک آف کینیڈا کے گورنر کی باتیں سن لیں جو اسے سرکاری پالیسی بتا رہا ہے! اس کے برعکس ہمیں انسانی ضروریات کی بنیاد پر جمہوری پیداوار تعمیر کرنی ہے۔ ہمیں افراطِ زر اور معیارِ زندگی کی گراوٹ کو ختم کرنے کے لئے سوشلزم کی ضرورت ہے۔