دو دہائیوں پہلے امریکی قیادت میں عراق پر فوج کشی کا آغاز ہوا۔ اس وقت سے پورا ملک جنگ، فرقہ واریت اور انتہاء پسندی کی لپیٹ میں ہے۔ سامراجیت کی ہولناکی اور بربریت کے خاتمے کے لئے ہمیں انقلابی جدوجہد کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
19 مارچ 2003ء کو امریکی اور برطانوی سامراجیوں نے ”عراقی عوام کو آزاد“ کرانے کے لئے اپنا خونی کھلواڑ شروع کیا۔ لیکن بیس سال بعد تہذیب کی کوکھ ابھی تک جل رہی ہے۔ یہ ملک 10 لاکھ سے زیادہ افراد کا قبرستان ہے جسے مغربی سامراج نے پارہ پارہ کر دیا ہے۔
2011ء میں شرمناک انخلاء کے بعد سامراجی عراق میں اپنی تباہ کاریوں سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ لیکن ”آزاد دنیا کے سورما“ آج ”امن کے لئے جنگ“ اور ”یوکرینی جمہوریت“ کا بھاشن دے رہے ہیں جبکہ عراق جنگ اور اس کی میراث انہیں دنیا کی سب سے زیادہ رجعتی، انقلاب مخالف اور جھوٹی قوت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
سامراج اور جنگ
1991ء میں سویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور رہ گیا تھا۔ امریکی سامراجیوں کو یقین تھا کہ ان کے پاس بے مثال معاشی اور عسکری قوت ہے اس لئے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنا تسلط قائم کر سکتے ہیں۔
انتشار میں دھنستے روس کی کمزوریوں سے فوری فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی حکمران طبقے نے پوری دنیا میں سابق سویت اثرورسوخ میں موجود خطوں میں مداخلت شروع کر دی۔ کئی اثناء میں یہ کام تجارت اور ”سفارت کاری“ کے عمومی ”سامراجی“ طریقہ کار سے لیا جاتا تھا جن کی شرائط ظاہر ہے امریکی مفاد میں ہوتی تھیں۔
لیکن اگر کوئی حکومت واشنگٹن کے مفادات پر سر نگوں نہیں ہوتی تھی تو ایک دیوہیکل عسکری قوت اسے فیصلہ کرنے میں معاونت کے لئے ہر وقت تیار ہوتی تھی۔ جنہیں پھر بھی سمجھ نہیں آتی تھی، جیسے عراق میں صدام حکومت، انہیں مداخلت کرنے کی فہرست میں ڈال دیا جاتا تھا۔
1998ء تک امریکہ نے عراق میں ”حکومت کی تبدیلی“ کو عراق لبریشن ایکٹ منظور کر کے سرکاری پالیسی بنا لیا تھا۔ ظاہر ہے اس سارے حساب کتاب میں عراق کے پاس دنیا کے پانچویں سب سے بڑے تیل ذخائر کا بھی کلیدی کردار تھا۔
پھر 1979ء کے ایران انقلاب میں امریکی سامراج اپنی کٹھ پتلی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ امریکی سعودی بادشاہت کے عدم استحکام کے خوف سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایک نئی پراکسی کی تلاش میں تھے جو ”خطے کو مستحکم“ رکھے۔
2000ء میں جارج بش کی صدارت میں ریپبلیکن پارٹی اقتدار میں آئی اور امریکی جنگی مشین تیزی سے سرگرم ہو گئی۔ اب صرف ایک معقول بہانہ چاہیے تھا۔
بش کابینہ میں کئی افراد کے عراق میں براہ راست مفادات تھے۔ بش اپنے باپ کی طرح تیل کا سابق بیوپاری تھا۔ سیکرٹری برائے ریاست (امریکی وزیر خارجہ) کونڈولیزا رائس شیورون (امریکہ کی دوسری اور دنیا کی بڑی تیل کمپنیوں میں سے ایک) کی بورڈ ممبر تھی۔ نائب صدر ڈک چینی توانائی کمپنی ہیلی برٹن کا سابق چیف ایگزیکٹیو تھا جسے کمپنی سے 20 ملین ڈالر ریٹائرمنٹ پیکج ملا تھا۔ اس کمپنی کو فوج کشی کے بعد عراق کی ”تعمیر نو“ کے لئے ٹھیکے ملے۔
برطانوی سامراجیوں کے لئے عالمی برادری میں اپنی تباہ حال ساکھ سے چمٹے رہنے کے لئے یہ جنگ ایک ذریعہ تھی۔ برطانوی سامراج کے طویل انحطاط اور سابق سلطنت کے خاتمے کے بعد برطانیہ کا کردار امریکی سامراج کے محض ایک ادنیٰ منشی کا تھا۔
جھوٹ اور پراپیگنڈہ
2001ء میں امریکہ میں 9/11 دہشت گردی کے حملے نے سامراجیوں کو دیرینہ جواز فراہم کر دیا۔ انہوں نے فوراً افغانستان پر فوج کشی کر کے طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ دسمبر 2001ء تک ایک امریکہ نواز حکومت قائم ہو چکی تھی۔
افغانستان میں اتنی آسان ”فتح“ کے بعد سامراجیوں نے انتہائی نخوت سے اپنے اگلے ہدف کا رخ کیا۔۔۔عراق میں صدام حسین کا خاتمہ۔
واشنگٹن نے ”رضامندوں کا اکٹھ“ تیار کیا جو امریکی قیادت میں مغربی سامراجیوں کا ایک الحاق تھا جس میں برطانیہ سے ٹونی بلیئر شامل ہونے کے لئے بے قرار تھا۔ انہوں نے عسکری مداخلت کو جواز فراہم کرنے کے لئے مسلسل پراپیگنڈہ شروع کر دیا۔
ان کے لئے نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ بہترین اوزار تھا جس کے ذریعے اپنی اپنی عوام کی حمایت حاصل کی جا سکتی تھی۔ یہ حقیقت کہ عراق میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا ایک معمولی مسئلہ بنا کر مسترد کر دیا گیا جس کے بارے میں بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
شروع میں صدام کو القاعدہ اور 9/11 سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب یہ جھوٹ افشاں ہو گیا تو بش اور بلیئر نے ”وسیع پیمانے پر بربادی پھیلانے والے ہتھیار“ اور ”آزاد دنیا کو فوری خطرے“ کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بحث بھی شروع کر دی کہ صرف ایک تیز تر عسکری آپریشن کے ذریعے پورے خطے میں خوشحال جمہوریت لائی جا سکتی ہے جس کے بعد امن اور استحکام کا دوردورہ ہو گا۔
اس سارے کھلواڑ میں بلیئر خاص طور پر ایک اہم اثاثہ ثابت ہوا جس نے یہ سارا معاملہ اپنی بدنام زمانہ ”مکار فائلوں“، ”اخلاقی خارجہ پالیسی“ اور مسیحی اخلاقیات کا تڑکہ لگا کر پیش کیا۔
ایک وقت تک امریکہ اور برطانیہ کوشش کرتے رہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے ایک قرارداد منظور کروا لی جائے تاکہ اندرون ملک عوام کو جنگ ایک ”قانونی“ حیثیت میں بیچی جا سکے۔ لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو سامراجیوں نے دھونس کے ذریعے اپنی فوج کشی مسلط کر دی۔
نام نہاد ”لیفٹ“ سمیت کچھ نے اس بنیاد پر جنگ کی مخالفت کی۔ لیکن اگر اس جنگ کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی بھی تو یہ ایک خوفناک رجعتی سامراجی جنگ ہی رہنی تھی۔
اقوام متحدہ ڈاکووں کے اکٹھ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس کا مقصد ”عالمی امن“ یا ”عالمی قانون“ کا تحفظ نہیں ہے بلکہ عالمی سرمایہ داروں کے متحارب گروہوں کے درمیان مصالحت کرانا ہے۔ لیکن ان (عالمی سرمایہ دار) کے متضاد مفادات۔۔۔منافعوں کا حصول اور عالمی منڈی کی بندر بانٹ۔۔۔اسے (اقوام متحدہ) ثانوی حیثیت کے سوالات پر بک بک کرنے تک ہی محدود رکھتے ہیں۔
آج یہ سب تماشہ ننگا ہو چکا ہے۔ عراق کی مثال واضح ہے کہ سامراجی ممالک ”آزادی“ اور ”جمہوریت“ کے لئے جنگ نہیں کرتے بلکہ اپنی قومی اجارہ داریوں کے تسلط اور ان کے منافعوں کی ہوس کے تحفظ کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ اس کے لئے خام مال، منڈیوں اور حلقہ اثرورسوخ کے لئے جنگیں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔
”مشن کامیاب!“
سامراجیوں نے فوج کشی کا آغاز 19 مارچ 2003ء کو ”شاک اور خوف“ کمپئین کے ساتھ کیا۔ 9 اپریل کو بغداد مفتوح ہو گیا اور 30 اپریل تک جنگ کے فوج کشی مرحلے کو مکمل قرار دے دیا گیا۔
اگلے دن یوم مئی پر جارج بش نے ایک ایئرکرافٹ کیریئر پر ”مشن کامیاب“ کا اعلان کر دیا۔ بظاہر عراق میں جنگی آپریشن ختم ہو چکے تھے۔
امریکی فوج نے فوری طور پر ”عبوری اتحادی اتھارٹی“ (CPA) بنائی جو قابض افواج کے زیر سایہ ایک نوآبادیاتی انتظامیہ تھی۔ اس کے بعد امریکی سامراج کو کھلی چھٹی مل گئی کہ پورا ملک سرمایہ کاری اور دیوہیکل تیل ذخائر کی نجکاری کے لئے کھول دیا جائے۔
CPA نے زمانہ قدیم سے چلی آ رہی تقسیم کرو اور حکمرانی کرو پالیسی لاگو کرتے ہوئے عراق پر عجلت میں تیار کردہ ”جمہوریت“ مسلط کر دی جس کی بنیاد خود ابھارا گیا نسلی اور فرقہ وارانہ انتشار تھا۔
امریکی سامراج کے آہنی بوٹ نے جلد پہلے سے تباہ حال عراقی ریاستی مشینری کا قلع قمع کر دیا۔ انہوں نے ایک اعلان کے ذریعے سابق بچی کچھی عراقی فوج کا خاتمہ کر دیا اور ماضی میں صدام کی باتھ پارٹی سے کسی بھی حوالے سے منسلک یا ممبر فرد پر حکومتی نوکری کرنے پر پابندی لگا دی۔ ایک رات میں 1 لاکھ افراد بیروزگار ہو گئے۔
بربریت اور خانہ جنگی
اس قدر نخوت اور تکبر سے کچلنے اور قبضہ کرنے کے نتائج بہرحال نکلنے تھے اور پھر وہ نکلے۔
امریکہ کی بنائی کٹھ پتلی ریاست مکمل طور پر عوام سے کٹی ہوئی تھی جس کی مخالفت ایک مسلح شورش کر رہی تھی۔
اس کے ساتھ صدام کی سابق ریاست کی تباہی و بربادی (اور 1 لاکھ بیروزگار اور بپھرے ہوئے فوجی) کے بعد طاقت کا ایک دیوہیکل خلاء پیدا ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں پورا ملک متحارب مسلح ملیشیاوں کی جنگ میں ڈوب گیا۔
ویتنام کی طرح امریکہ کے سامنے کوئی منظم فوج نہیں تھی جس کو شکست دینی تھی۔ یہاں امریکہ کو چھوٹے پیمانے پر حیران کن حملوں کا سامنا تھا جن کے بعد مجرم ایک ہمدرد عوام میں غائب ہو جاتے تھے۔
مکھیوں کا مقابلہ گولیاں برسا کر کرنے کی طرز پر ”اتحادی“ حکمت عملی نے۔۔۔اندھا دھند بمباری، تشدد اور سفید فاسفورس کا استعمال۔۔۔کثیر تعداد میں عوام کو قتل کیا جس کے نتیجے میں عراق مزید تباہ و برباد ہوا اور رجعتیت کی آبیاری ہوئی۔
اس سب کے نتیجے میں امریکہ اگلے آٹھ سال گوریلا جنگ میں پھنسا رہا۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے اتحاد مذہبی اور قومی تقسیم کے درمیان توازن کا کھلواڑ کھیلتا رہا۔ لیکن ناگزیر طور پر تناؤ مسلسل بڑھتا رہا جس کے نتیجے میں 2006ء میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی پھٹ پڑی۔
اس کے ساتھ صدام کی فوج کا خاتمہ کرنے کے بعد پورے خطے میں طاقتوں کا توازن ریزہ ریزہ ہو گیا۔ سعودی عرب اور دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک نے عراق میں سنی انتہاء پسند گروہوں کو فنڈ کرنا شروع کر دیا تاکہ ایران کے بڑھتے اثرورسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔
2011ء میں امریکی انخلاء کے بعد عراق رجعتی انتہاء پسندوں اور سازشی علاقائی طاقتوں کا اکھاڑہ بن گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جنگ سے پہلے ملک میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ لیکن اب ان کھنڈرات میں یہ بیج بھی شامل ہو گیا جو نشونما پاتے ہوئے داعش کی ہولناک خلافت بن گیا۔
ایک مرتبہ پھر امریکہ کی بوئی فصل کاٹنے کا وقت آ گیا تھا۔ القاعدہ کا ارتقاء مجاہدین سے ہوا تھا جنہیں امریکی سامراج نے افغانستان میں سویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لئے پروان چڑھایا تھا۔ تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔
اپنا ہی گند صاف کرنے کے لئے امریکی قیادت میں اتحاد کو 2014ء اور 2020ء میں پھر مداخلت کرنی پڑی۔ اگرچہ داعش کے قبضے کو توڑ دیا گیا لیکن یہ بیماری ہمسایہ ملک شام میں پھیل گئی۔
آج کے نتائج
تاریخ عراق جنگ پر اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔
امریکی اخراجات 1.9 ٹریلین ڈالر رہے جبکہ 4 ہزار 614 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔
عراق میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد قتل ہوئے، 92 لاکھ دربدر ہوئے، 25 فیصد غربت ہے، 14 فیصد بیروزگاری اور زیادہ تر انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
ان کھنڈرات پر دنیا کی سب سے زیادہ رجعتی اور رد انقلابی قوتوں امریکہ اور ایران کی غلام ایک کٹھ پتلی حکومت بیٹھی ہوئی ہے۔
سامراجیوں نے کشت و خون کا ایک عفریت بنا کر اسے ”جمہوریت“ کا نام دے دیا ہے۔ اس لئے حیران کن نہیں کہ صدام حسین کی خون آشام آمریت کے لئے کچھ پرانی یادیں ہیں جس نے اپنی 25 سالہ تاریخ میں 2 لاکھ 50 ہزار افراد قتل کئے۔
پوری دنیا کو خبردار کرنے کے چکر میں کہ اگر ہماری مخالفت کرو گے تو کیا نتائج ہوں گے، امریکہ اور برطانیہ نے عراق۔۔۔اور افغانستان۔۔۔میں چھلانگ لگا کر اپنے گھٹنے توڑ ڈالے۔ ایک صحت مند حکومت کے برعکس انہوں نے ابدی بربریت کو بے لگام کر دیا اور اپنے آپ کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیا۔
خون آشام اہداف کے لئے ایسی مہنگی اور طویل حماقت کے دوررس سیاسی نتائج مرتب ہوئے۔
شامی خانہ جنگی تک مغربی سامراج پہلے کی طرح مداخلت کرنے سے قاصر ہو چکا تھا کیونکہ اندرون ملک عوام جنگوں سے تنگ آ چکی تھی۔ عراق جنگ کے لئے عوامی حمایت جھوٹ کے بے نقاب ہونے اور فوجی لاشوں کی واپسی کے ساتھ ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ بش اور نیو لیبر کے خاتمے کا آغاز ہو گیا کیونکہ دونوں صرف اس وجہ سے اقتدار سے چمٹے ہوئے تھے کہ کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس جنگ نے امریکی تسلط کی حقیقی محدودیت کو ننگا کر دیا۔ اگرچہ آج بھی امریکہ پوری دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے لیکن اب یہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے اور ہر جگہ ایک ہی وقت میں اپنی مرضی مسلط کرنے سے قاصر ہو چکا ہے۔
پوری دنیا میں اور سب سے زیادہ یوکرین میں اس کے سامنے اب زیادہ بے خوف علاقائی قوتیں کھڑی ہیں جو اس نئے بحران زدہ عالمی نظم میں موجود کثیر قطب کے درمیان کھیل سکتی ہیں۔
اگرچہ امریکہ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے لیکن اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج روسی سامراج کو فوری طور پر کمزور کرنے کی کوششوں میں وہ ایک مرتبہ پھر بربریت اور رجعتیت کے بیج بو رہا ہے۔ مثال کے طور پر یوکرین میں فسطائی پیراملٹری کو اسلحہ اور تربیت دی جا رہی ہے۔ جلد یا بدیر اس کے اسی طرح نتائج برآمد ہوں گے جس طرح مجاہدین کے معاملے میں ہوا تھا۔
برطانیہ کے لئے یہ ساری صورتحال تذلیل کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان کا حصہ ہے جس کا آغاز سویز کنال بحران سے ہوا تھا۔ یہ ایک عالمی سلطنت سے انحطاط پذیر ہو کر حقیر ہونے کی داستان ہے۔
عراق برطانوی سامراج کی آخری سنجیدہ مداخلت تھی۔ یوکرین میں اس کی اوقات ایک مسلسل چیختے کتورے کی ہے جس پر واشنگٹن اور دیگر عالمی قوتوں کی کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔
برطانوی فوج خود زوال کا شکار ہے جس کے ٹینک ختم ہو رہے ہیں اور سازوسامان متروک ہو چکا ہے۔ اسے اب ”شدید مشکلات کا شکار“ اور ”کھوکھلی قوت“ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک امریکی جنرل کے مطابق ”یہ اب برطانیہ اور اپنے اتحادیوں کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہی“۔
عوامی تحریکیں
اس سارے کھلواڑ میں محنت کش طبقہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہیں بیٹھا رہا۔ فوج کشی کے آغاز سے پہلے تاریخ کی سب سے بڑی تحریکوں میں سے ایک تحریک پیدا ہو چکی تھی جس میں پوری دنیا میں 5.5 کروڑ افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
لیکن اس تحریک کی وسعت ایک کمزوری بھی ثابت ہوئی۔ برطانیہ میں ”جنگ کو روکو اتحاد“ میں ٹریڈ یونینسٹ اور سوشلسٹ، لبرلز اور مذہبی گروہوں کے ساتھ ایک کھوکھلے نعرے کے تحت اکٹھے تھے تاکہ ان میں سے کوئی ڈر کر فرار نہ ہو جائے۔۔۔”امن“۔
لیکن سرمایہ داری کی بنیاد پر کوئی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ جنگیں حکمران طبقے کا مفاد ہیں اور جب تک محنت کش طبقہ اسے غیر مسلح نہیں کرتا اس وقت تک سامراجی سکون سے اپنی کھڑکیاں بند کر کے احتجاجوں کی آواز بند کرتے رہیں گے اور لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا۔
کئی سال بعد 2011ء میں عرب بہار کا ابھار ہوا۔ یہ ایک جھلک تھی کہ مشرق وسطیٰ کے عوام میں اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے دیوہیکل امکانات موجود ہیں۔
یہ ایک انقلابی تحریک تھی جس نے فرقہ ورانہ تقسیم کو کاٹ کر رکھ دیا، مشرق وسطیٰ میں آگ کی طرح پھیل گئی، چند ایک آمروں کا تختہ الٹ دیا اور عراق میں بھی پھیل گئی۔
لیکن ایک انقلابی پارٹی اور واضح سوشلسٹ پروگرام کی عدم موجودگی میں یہ بغاوتیں ناگزیر طور پر ناکام ہوئیں۔
اگلے سالوں میں ناگزیر طور پر اور تحریکیں ابھریں گی لیکن سرمایہ داری کے گہرے ہوتے بحران کے ساتھ ان کا معیار پہلے سے زیادہ بلند تر ہو گا۔
سوشلسٹ انقلاب
تاریخ عراق جنگ کو سامراجیت کے دوغلے پن اور سفاکی پر ایک سبق کے طور پر یاد رکھے گی۔
سامراجی ”جمہوریت کا دفاع“ اور ”قومی خودمختاری“ کا شور مچاتے ہوئے طریقہ کار پر لمحہ بھر شرمندہ ہوئے بغیر اپنے ننگے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔
”حکومت کی تبدیلی“ امریکی یا برطانوی افواج کا نہیں بلکہ محنت کش طبقے اور غریبوں کا فرض ہے۔ مغرب میں محنت کشوں کا حقیقی دشمن گھر میں موجود ہے!
ان ہولناک جنگوں کے ذمہ دار خون آشام بھیڑیوں کے ہاتھوں سے اقتدار چھین کر ہی حقیقی اور دیر پا امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
پوری دنیا کو سامراجیوں نے جہنم بنا دیا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب سرمایہ داری کے تحت ضائع ہوتے دیوہیکل وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر انہیں انسانی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرتے ہوئے اس دنیا کو جنت بنا دے گا۔
انہی بنیادوں پر عراق میں گہری تقسیم اور رستے زخموں کا علاج کیا جا سکتا ہے اور ہمیشہ کے لئے سامراج کی خونخوار میراث کو دفن کیا جا سکتا ہے۔
ٹائم لائن
1۔ 1991-1992ء: امریکہ عراق پر پہلی فوج کشی کرتا ہے (پہلی گلف وار)۔
2۔ 31 اکتوبر 1998ء: امریکہ عراق لبریشن ایکٹ منظور کر کے حکومت کی تبدیلی کو سرکاری پالیسی بناتا ہے۔
3۔ 16-19 دسمبر 1998ء: امریکہ اور برطانیہ عراق پر بمباری کرتے ہیں لیکن جنگ نہیں کی جاتی۔
4۔ 20 جنوری 2001ء: جارج بش اقتدار میں آتے ہی جنگ کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔
5۔ 11 ستمبر 2001ء: سعودی دہشت گرد امریکہ میں حملے کرتے ہیں۔ بش ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا اعلان کرتا ہے۔
6۔ 7 اکتوبر 2001ء: امریکہ اور برطانیہ افغانستان پر فوج کشی کرتے ہیں اور دو مہینوں میں طالبان سے اقتدار چھین لیا جاتا ہے۔
7۔ جنوری 2002ء: بش عراق کو ”بدی کا محور“ کا حصہ قرار دیتا ہے۔
8۔ 15 فروری 2003ء: پوری دنیا کے 600 شہروں میں جنگ مخالف احتجاج ہوتے ہیں۔ لندن میں ریکارڈ 15-20 لاکھ افراد احتجاج کرتے ہیں۔
9۔ 19 مارچ 2003ء: امریکی قیادت میں اتحاد عراق پر فوج کشی کرتا ہے۔
10۔ 10 اپریل 2003ء: بغداد پر امریکی قبضہ ہو جاتا ہے۔
11۔ 1 مئی 2003ء: صدر بش ”مشن کامیاب“ کا اعلان کرتا ہے۔
12۔ 23 مئی 2003ء: عبوری اتحادی اتھارٹی عراقی فوج اور باتھ ریاست کو تحلیل کر دیتی ہے۔
13۔ 31 مارچ 2004ء: امریکی کنٹریکٹرز کے قتل کے بعد فلوجہ کی پہلی جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ شورش ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے۔
14۔ 18 اپریل 2004ء: ابو غریب جیل میں امریکی مظالم کی تصاویر شائع ہوتی ہیں۔
15۔ 17 اکتوبر 2004ء: عراق میں القاعدہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
16۔ 31 مارچ 2005ء: عراقی انٹیلی جنس کمیشن نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ جنگ سے پہلے وسیع پیمانے پر بربادی والے ہتھیار کی امریکی ”انٹیلی جنس“ غلط تھی۔
17۔ 22 فروری 2006ء: العسکری مسجد کی بمباری کے نتیجے میں فرقہ ورانہ خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔
18۔ 10 جنوری 2007ء: صدر بش 20 ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کرتا ہے۔
19۔ 28 مئی 2009ء: عراق سے آخری برطانوی فوجیوں کا انخلاء ہوتا ہے۔
20۔ 15 دسمبر 2011ء: عراق سے آخری امریکی فوجیوں کا انخلاء ہوتا ہے۔
21۔ جون 2014ء: داعش موصل اور تکریت پر قبضہ کر لیتی ہے۔ حکومت اور داعش کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔ امریکہ دوبارہ مداخلت کرتا ہے۔
22۔ دسمبر 2017ء: عراقی حکومت داعش پر فتح کا اعلان کرتی ہے۔