مارکسی یونیورسٹی کا اختتام بھی اس کے آغاز کی طرح ناقابلِ یقین رجائیت کے ساتھ ہوا! مارکسی یونیورسٹی کے انعقاد سے لے کر اختتام تک 115 ممالک سے تقریباً 6500 افراد نے خود کو رجسٹر کرایا۔ شروعاتی سیشن کو تقریباً دس ہزار لوگوں نے دیکھا اور تقریب کے دوران تقریباً دو لاکھ اسی ہزار یوروز کے لگ بھگ چندہ بھی جمع کیا گیا۔ یہ دنیا میں کہیں بھی اعلیٰ معیار کی سیاسی بحثوں کے لحاظ سے بلاشبہ ایک حقیقی تاریخی واقعہ تھا۔ یہ سکول حقیقی مارکسی نظریات اور روایت کی قوت کا اور دنیا بھر سے اس تقریب کو کامیاب بنانے والے کامریڈز اور حامیوں کے انقلابی عزم کا ایک زبردست ثبوت تھا۔
[Source]
مارکسی یونیورسٹی میں داخلے کے حوالے سے انتہائی متاثر کن ردِ عمل کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ہمیں انتہائی غیر معمولی ردِ عمل دیکھنے کو ملا۔ پچھلے چار دنوں کے دوران سینکڑوں کامریڈوں، ہمدردوں اور شرکاء نے دنیا بھر سے سیشنز میں شمولیت کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں اور ہمارے اہم ہیش ٹیگز بھی ہزاروں بار شیئر کیے گئے۔ ہمارے پاکستانی سیکشن کے جبری طور پر اٹھائے گئے کامریڈ محمد امین کی بازیابی کے لیے کمپئین کو بھی شاندار ردِ عمل حاصل ہوا اور درجنوں کامریڈز نے محمد امین کی بازیابی کے لیے پوسٹس لگائیں۔ اس سے ہمیں یکجہتی کی جوڑنے والی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے جو محنت کشوں اور نوجوانوں کو قومی سرحدوں سے پار ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں۔
دنیا کو بدلنے والے نظریات
مارکسی سکول اپنے آغاز سے ہی ایک زبردست کامیابی تھا جیسا کہ ہم نے اپنی پہلے دو دن کی رپورٹ میں تفصیل سے بتایا تھا۔ لیکن مارکسی یونیورسٹی کی یہ کامیابی دن بدن مزید بڑھتی گئی۔ سوموار کے دن ہم نے چھ انتہائی دلچسپ سیشنز کیے جو کہ معیشت، انارکزم، تاریخی مادیت، شناخت کی سیاست، آئی ایم ٹی کی تاریخ اور مابعد جدیدیت پر تھے۔ سارا دن جو موضوع بہت زیادہ زیرِ بحث رہا وہ اصلاح پسندانہ اور مابعد جدیدی نظریات کی زندگی کے ہر شعبے میں ایک مکمل ناکامی کے متعلق تھا۔ جیسا کہ جوش ہولرائڈ نے تاریخی مادیت کا دفاع کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یونیورسٹیوں میں موجود پروفیسرز نے تاریخ کی سائنسی طور پر وضاحت کرنے کی کوششوں کو ترک کر دیا ہے۔ اس کی بجائے اب وہ کہتے ہیں کہ چیزیں ”بس یونہی ہوگئیں“۔ لیکن جیسا کہ برطانیہ سے ’لوری‘ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے بڑی وضاحت کیساتھ خواتین کے استحصال کی تاریخی بنیادوں پر بات کی، انہوں نے بتایا کہ تاریخ کے بارے میں مارکسی نقطہ نظر ہمیں سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ جبر، استحصال اور سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز کہاں سے ہوا۔ یہ ہمیشہ سے وجود نہیں رکھتے تھے اور اگر یہ ہمیشہ سے موجود نہیں تھے تو ان کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح حمید علی زادے (عالمی مارکسی رجحان کی ویب سائٹ کے مدیر) نے مابعد جدیدیت پر بات کرتے ہوئے وضاحت کی کہ سابقہ نو آبادیاتی دنیا میں حالیہ عرصے میں بغاوتوں کا ابھار ہورہا تھا۔ اگر ہم سوڈان، لبنان اور نائجیریا وغیرہ میں ریڈیکل نوجوانوں اور محنت کشوں، جو کہ اپنی آزادی اور انسانی عظمت کے لیے تڑپ رہے ہیں، کے پاس جاتے ہیں اور اس دوران مذہبی انتہا پسندی اور پسماندگی کے پیٹی بورژوا اصنام کو رتی برابر بھی گنجائش دیتے ہیں تو ہم ان کو جیت نہیں پائیں گے۔ درحقیقت جیسا کہ فیونا لالی جو کہ برطانیہ میں مارکسسٹ سٹوڈنٹس فیڈریشن کی اہم منتظم ہیں، نے اپنی گفتگو میں کہا ”جب آپ جبر و استحصال کو ان کی مادی جڑوں سے الگ کر دیتے ہو تو اس طرح آپ اس کے خلاف لڑنے کی ہماری صلاحیت چھین لیتے ہو“۔
محنت کشوں اور نوجوانوں کو نسل اور قومیت وغیرہ کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بجائے، جس سے صرف سٹیٹس کو ہی فائدہ اٹھاتا ہے، ہمیں جتنا زیادہ ممکن ہو سکے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے اور سوشلزم کو تعمیر کرنے کے لیے اور اس طرح جبر کو اس کی جڑوں سے ختم کرنے کے لیے محنت کشوں اور نوجوانوں کی طبقاتی بنیادوں پر یکجہتی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مارکس ازم، لینن ازم اور ٹراٹسکی ازم کے حقیقی اور غیر تبدیل شدہ نظریات کے غیر معذرت خواہانہ دفاع میں ہماری تنظیم کے ہم پلہ کوئی نہیں جیسا کہ ایلن ووڈز (عالمی مارکسی رجحان کی ویب سائٹ کے مدیر) نے آئی ایم ٹی کی تاریخ پر گفتگو کے دوران وضاحت پیش کی۔ ہم مابعد جدیدیت اور شناخت کی سیاست کے پیٹی بورژوا نظریات کو کسی قسم کی کوئی جگہ نہیں دیتے، اور یہ مارکسزم کے سچے نظریات کے ساتھ یہی تعلق ہی ہے جو دنیا بھر میں ہماری بڑھوتری کی وضاحت کرتا ہے اور جس کا شاندار اظہار عالمی سکول کے دوران بھی ہوا۔
آخری دن تین سیشنز کے ساتھ شروع ہوا جن میں مارکسزم اور مذہب، مارکسزم بمقابلہ کوئیر تھیوری اور مارکسزم بمقابلہ اخلاقیات پسندی شامل تھے۔ کینیڈا سے ایلیکس گرانٹ نے مارکس ازم کے مذہب سے متعلق نظریات کا انتہائی شاندار طریقے سے تعارف پیش کیا۔ اس نے وضاحت کی کہ مارکسزم کا فلسفہ جدلیاتی مادیت ہے اور بتایا کہ مذہب اور ریاست کا ملاپ ناگزیر طور پر رجعتی عمل ہے۔ تاہم ہمیں لازمی طور پر سمجھنا چاہیے کہ مذہبی یقین کی مادی بنیادیں طبقاتی سماج کی پیدا کردہ تکالیف و مصائب میں ہوتی ہیں اور اس پر غالب آنے کے لیے ہمیں اس نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ صرف محنت کش طبقہ جو اپنے مذہبی عقائد سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو، ایسا کر سکتا ہے۔
کوئیر تھیوری کے موضوع پر بحث کے دوران، جس پر آسٹریا سے ’یولا کپکیک‘ نے لیڈ آف دی، اسی طرح کا جذبہ دیکھنے میں آیا جب اس نے وضاحت کی کہ جس وقت پیٹی بورژوا شناختی نظریہ دان یہ دلیل دیتے ہیں کہ اتحاد ہمیشہ جابر ہوتا ہے، ہماری توجہ اس چیز پر ہونی چاہیے جو ہمیں متحد کرتی ہے یعنی ہمیں اپنی توجہ ہوموفوبیا، ٹرانس فوبیا، جنس پرستی اور اس قسم کی ہر جاہلانہ تنگ نظری کی بنیاد کا خاتمہ کرنے کے لیے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے پر مرکوز کرنی چاہیے۔
اپنی لڑائیوں کو مختلف رنگوں کی قوسِ قزاح میں بکھیرنے کی بجائے ہمیں محنت کش طبقے کی تمام تر قوتوں کو سماج کی انقلابی تبدیلی کی لڑائی میں لگا دینا چاہیے۔ کمیونسٹ اپنے مقاصد کو چھپانے سے انکار کرتے ہیں اور ہمیں اپنے طبقے کے دشمنوں کی تمام بہتان تراشیوں کو رد کرنا چاہیے جیسا کہ بین گلینکی نے اخلاقیات پرستی کے موضوع پر گفتگو کے دوران وضاحت کی کہ وہی لوگ جو مارکس وادیوں کو خون کے پیاسے ’کُو منظم کرنے والے‘ کہتے ہیں، خود ایک ایسے نظام کی حمایت کرتے ہیں جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور خون آشام جنگوں کا باعث بنا ہے اور جس نے آج بھی اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے نسل انسانی پر اپنی بربریت مسلط کر رکھی ہے۔ ہم تشدد پرست نہیں ہیں لیکن ہم طبقاتی معاشرے کی بربریت کو تسلیم کرنے پر بھی رضامند نہیں ہیں۔ ہم انقلابی محنت کشوں کی تحریک کے ساتھ اس گلے سڑے نظام کے خاتمے کے لیے لڑنے کو تیار ہیں۔ بین نے کہا ”طبقاتی جنگ ہی ایک واحد درست جنگ ہے، اور اس جنگ کو لڑنے کے درست ذرائع وہی ہیں جو حقیقت میں انسانیت کی آزادی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں“۔
دنیا بھر کے محنت کشو اور نوجوانو؛ ایک ہو جاؤ!
دن کا اختتام جلسے پر ہوا جس کا تعارف عالمی مارکسی رجحان کی ویب سائٹ ’مارکسزم کے دفاع میں‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ کے جارج مارٹن نے پیش کیا۔ اس نے کرونا وبا کی وجہ سے درپیش آنے والے چیلنجز کے باوجود اس سکول کو آئی ایم ٹی کی تاریخ کا سب سے کامیاب ترین سکول قرار دیا۔ سکول کے دوران دنیا کے ہر کونے سے ہزاروں لوگوں نے سیشنز کو براہِ راست دیکھا۔ ہم آنے والے عرصے میں لیون ٹراٹسکی کی یاد میں منعقد کیے جانے والے آن لائن جلسے کی مزید کامیابی کی توقع رکھتے ہیں، لیون ٹراٹسکی کو آج سے 80 سال قبل میکسیکو میں اگست کے مہینے میں قتل کیا گیا تھا۔ ہمارے نظریات کے لیے جوش و خروش ان متعصب ’دانشوروں‘ کے منہ پر زور دار تمانچہ ہے جو کہتے ہیں کہ محنت کشوں کو نظریات سے کوئی رغبت نہیں۔ اس سے متضاد جارج مارٹن نے چلی کے ایک محنت کش، جو تعمیراتی جگہ پر موجود تھا اور ایک کنیڈین خاکروب کا ذکر کیا جنہوں نے لکھا کہ انہوں نے ہمارے سکول میں شمولیت حاصل کی اور سیشنز سنتے ہوئے آواز بھی اونچی رکھی تاکہ ان کے ساتھی محنت کش بھی سن سکیں۔
یہ ان سینکڑوں میں سے دو مثالیں ہیں جن کی سوشل میڈیا بھی تصدیق کرتا ہے۔ مارکسی یونیورسٹی کی شاندار کامیابی کے علاوہ بھی جارج مارٹن نے بیان کیا کہ وبا کے تین مہینوں کے دوران ہماری ویب سائٹ پر 18 لاکھ لوگوں نے وزٹ کیا۔ بڑے پیمانے پر عوامی صحت کے اس بحران نے عالمی پیمانے پر ہماری بڑھوتری کے اضافے کا آغاز کیا ہے جو ہر جگہ، بالخصوص نوجوانوں میں، جو نظام کے متعلق بڑھتے ہوئے سوالات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ سب کچھ باقی سوشلسٹ تنظیموں سے متضاد ہے جو اس وقت تقسیموں اور بحرانوں کا شکار ہیں۔ جارج نے کہا کہ یہ ہماری مارکسی نظریات کی پختہ بنیادیں اور مزدور تحریکوں کی جانب ہمارے دوستانہ اور غیر فرقہ پرور رویہ ہی ہے جو ہمیں ان سب سے الگ کرتا ہے۔
جارج نے وضاحت کی کہ تھیوری محض کوئی دانشورانہ ورزش نہیں ہوتی بلکہ راہنماءِ عمل ہوتی ہے۔ جیسا کہ مارکس نے فیورباخ پر اپنے تھیسس میں لکھا تھا کہ فلسفیوں نے فقط دنیا کی مختلف طریقوں سے تشریح کی ہے، جبکہ اصل کام اس کو بدلنا ہے۔ اس کے بعد جارج نے سیشن میں شریک افراد کو، دنیا کو تبدیل کرنے کی اس جدوجہد میں آئی ایم ٹی میں شامل ہونے کی التجا کی۔ جارج نے کہا کہ درست قیادت کے ساتھ ہمارا طبقہ اس بار فتح یاب ہوگا۔ اسکے بعد انٹرنیشنل کے ہر کونے سے کامریڈوں کو ہر خطے میں مارکسزم کی ناقابلِ رکاوٹ پیش قدمی کو بیان کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔ کامریڈ پارس نے وضاحت کی کہ انٹرنیشنل کا سب سے بڑا سیکشن اب تقریباً پاکستان کے ہر علاقے میں اپنی موجودگی رکھتا ہے جہاں محنت کش اور نوجوان غربت، بے روزگاری، جبر اور ریاستی کرپشن میں گھرے ہوئے ہیں۔ افق پر ایک انقلابی صورتحال موجود ہے اور ہمارے کامریڈز تیزی کے ساتھ ضروری انقلابی قیادت تعمیر کر رہے ہیں جو عوام کے لیے ریفرنس پوائنٹ بن سکیں اور انہیں آگے کا راستہ دکھا سکیں۔
اس کے بعد برازیل سے لُوسی نے گفتگو کی جہاں بولسنارو کی کمزور اور رجعتی قیادت کے کرونا وائرس کے متعلق غیر ذمہ دارانہ ردِ عمل نے محنت کش طبقے کے غصے کو پروان چڑھایا ہے۔ ’فورا بولسنارو‘ کے نعرے کو جوش و خروش سے استعمال کرنے والی لیفٹ کی پہلی تنظیم کے بطور ہمارے کامریڈوں نے اس گلی سڑی حکومت کے خلاف جدوجہد میں اہم قائدانہ کردار ادا کیا اور ان بنیادوں پر تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔ اس کے بعد برطانیہ سے ’فیونا‘ نے گفتگو کی جہاں ہم نے پچھلے عرصے کے اندر تعداد میں ایک قابلِ قدر بڑھوتری کا تجربہ کیا۔ کاربن کی تحریک کی ناکامی کے بعد مایوس کارکنان کی ایک پوری پرت نے ریڈیکل نتائج اخذ کرنا شروع کیے ہیں جنہیں حالیہ کرونا وبا پر کابو پانے کیلئے لاگو کی گئی برطانوی حکومت کی تباہ کن پالیسیوں نے مزید تقویت بخشی۔ اس سب نے مارکسی نظریات کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، خاص طور پر نوجوانوں اور طالب علموں میں جہاں برطانوی کامریڈز متواتر اور اچھی شرکت کی حامل آن لائن میٹنگز کے ذریعے کافی بہتر نتائج لے رہے تھے۔ وہ جلد ہی ہفتہ وار بنیادوں پر پرچے کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو کامیابی کی جانب ایک شاندار قدم ہے۔
روس سے اولیگ اگلا مقرر تھا جس نے اپنی بات کا آغاز روسی سیکشن کے راہنما ایلیکسی کو خراجِ تحسین پیش کرنے سے اپنی بات کا آغاز کیا جو ایک حادثے کے بعد صحت یاب ہو رہے ہیں۔ ہم کامریڈ کو انقلابی نیک خواہشات بھیجتے ہیں۔ اولیگ نے وضاحت کی کہ کیسے 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد محنت کشوں کی تحریک کی زوال پذیری کا مطلب تھا کہ روس کی انقلابی روایات موثر طریقے سے دفن کر دی گئی ہیں۔ تاہم روس کے کامریڈز ان کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنی قوتوں کی تعمیر اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اکتوبر انقلاب کا بھوت روسی حکومت کے اوپری عہدوں پر بیٹھے مافیاز کو ڈرانا جاری رکھے، ایک منظم کام کر رہے ہیں۔
اس کے بعد اٹلی سے الیسیو نے بات رکھی کہ کیسے کرونا وائرس جس نے اٹلی پر پہلے حملہ کیا تھا، عوامی شعور میں ایک بڑی تبدیلی کو جنم دیا ہے اور کیسے نچلی پرتوں سے محنت کش غیر محفوظ ماحول میں واپس کام کی جانب دھکیلنے کے خلاف خود رو طریقے سے مزاحمتی ردِ عمل دکھا رہے ہیں۔ کامریڈوں نے ایک انتہائی کامیاب یکجہتی کیمپئین”محنت کش قربانی کا بکرا نہیں ہیں“ منظم کی، جس نے انہیں بڑی میٹنگز کا انعقاد کرنے اور نئے انقلابی دستے کے ساتھ جڑنے کے قابل بنایا۔ وہ کئی نوجوانوں اور سکولوں کے طالب علموں کو بھی تنظیم میں جیت رہے ہیں جو آنے والے عہد کے ڈرامائی واقعات کے اندر بہت اہم کردار ادا کریں گے۔
آخر میں ’لورا‘ نے ‘درندے کے پیٹ یعنی امریکہ سے رپورٹ پیش کی۔ سینڈرز کی تحریک، کرونا وبا اور سیاہ فام تحریک جیسی ڈرامائی پیش رفتوں کے بعد 600 سے زیادہ لوگوں نے ہمارے امریکی کامریڈوں سے تنظیم میں شمولیت کے لیے رابطہ کیا ہے۔ ان کی کتابوں کی فروخت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح ان کی ویب سائٹ پر آنے والوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ اب ہمارے پاس امریکہ کے 60 مختلف شہروں اور قصبوں سے کامریڈز موجود ہیں۔ مارکسی ڈیموکریٹوں اور بلیک لائیوز میٹر تحریک کے متعلق ٹرمپ کی بڑبڑاہٹ سے ہٹ کر بھی مارکسسٹ اور کمیونسٹ نظریات کے لیے بڑے پیمانے پر سامعین موجود ہیں اور اسی لیے امریکی حکمران طبقہ ان نظریات سے درست طور پر خوف زدہ ہے۔ سکول کے آغاز سے ہی، سکول کے دوران چندوں سے اور اتوار کے دن بڑے مجموعے کے حصول سے ہم نے تقریباً کل ملا کر دو لاکھ اسی ہزار یوروز جمع کیے جو کہ ایک شاندار نمبر ہے اور جو ہمارے کامریڈوں اور حامیوں کے عزم اور قربانی کے جذبے اور بہتر دنیا بنانے کی جدوجہد سے ان کی گہری وابستگی کو ثابت کرتا ہے۔
مستقبل مارکس وادیوں کا ہے!
آخر میں ایلن ووڈز نے اختتامی کلمات ادا کیے۔ اس نے کہا کہ زندگی میں پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ وہ پوری دنیا سے گفتگو کر رہا ہے۔ اس نے زور دیا کہ آئی ایم ٹی تمام سرحدوں کے پار محنت کش طبقے کی ناقابلِ تقسیم جڑت کا علمبردار ہے۔ اسی طرح ہم ان تمام رجعتی نظریات کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں جو محنت کشوں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری بحثیں مجرد کردار کی حامل نہیں ہیں۔ اگر ہمیں طبقاتی جنگ کو جیتنا ہے تو محنت کشوں اور نوجوانوں کو درست طریقہ کار اور نظریات سے مسلح کرنا ہوگا۔ ایلن کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے ہم لیون ٹراٹسکی کی پیروی کرتے ہیں جس نے مارکسزم کے حقیقی نظریات و روایات اور بالشویزم کے دفاع کے لیے اپنی جان دی۔ انہوں نے بحث کو یوں سمیٹا:
”آئی ایم ٹی عالمی سطح پر وہ واحد تنظیم ہے جو اس انٹرنیشنل کی روایت کی وارث کہلانے کا حق رکھتی ہے جسے لیون ٹراٹسکی نے اپنے دھوکہ دہی سے قتل کیے جانے سے قبل تعمیر کیا تھا۔ ہمیں خود پر اعتماد ہونا چاہیے کامریڈز۔ ہمیں لازمی طور پر ان نتائج تک پہنچنا چاہیے: اگر ہم یہ ضروری کام نہیں کریں گے۔۔۔تو کوئی اور ہمیں یہ کام کر کے نہیں دے گا۔ آئی ایم ٹی اپنے کندھوں پر عالمی انقلاب کا مقدر اٹھائے ہوئے ہے!“
اس سکول کا فریضہ ہر قسمی بہتان، رجعت اور ترمیم پسندی کے خلاف مارکسی نظریات کا دفاع کرنا تھا۔ یہ اس اعتماد اور یقین کے ساتھ مکمل کیا گیا جس کے ساتھ ہر کامریڈ، جس نے تقریب میں بات کی اور ان سب نے مارکسزم کی سائنس پر ایک شاندار گرفت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن سکول بذاتِ خود ان نظریات کی درستگی اور طاقت کی سند تھا۔ جس وقت بورژوازی، پیٹی بورژوازی اور فرقہ پرور اس ہنگامہ خیز دنیا کو خوف اور تذبذب سے دیکھتے ہیں اور جو دکھائی دیتا ہے اسے سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں، مارکس وادی زور دیتے ہیں کہ ہم ایک پرانے سماج کی موت کے کرب اور نئے کے پیدا ہونے کی جدوجہد کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ نظریاتی پختگی اور بہتر مستقبل میں یقین زیادہ سے زیادہ محنت کشوں اور نوجوانوں کو ہمارے بینر کی جانب کھینچ رہا ہے۔ یہ ہمارے نظریات کی بنیاد پر ہی ہے کہ ہم اس انقلابی عہد کی طرف رجائیت سے دیکھتے ہیں جس میں ہم داخل ہو گئے ہیں اور اپنی زندگیوں کے اندر سوشلسٹ انقلاب کے فریضے کو پورا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
مارکسی یونیورسٹی اختتام کو پہنچ گئی ہے لیکن سوشلزم کے لیے جدوجہد جاری ہے۔ فتح کی طرف بڑھو! ہمارا حصہ بنیں!