بنگلہ دیش: گارمنٹس انڈسٹری کے لاکھوں محنت کشوں کی ملک گیر ہڑتال اور بہیمانہ ریاستی جبر

دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بنگلہ دیش اس وقت سیاسی اور سماجی زلزلوں سے لرز رہا ہے۔ حزب اختلاف کے قائدین گرفتار ہو چکے ہیں۔ ہزاروں افراد سڑکوں پر پولیس سے لڑ رہے ہیں جس کے نتیجے میں دو مظاہرین کی اموات ہو چکی ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اہم بات یہ ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کے محنت کشوں کی ایک بہت بڑی ہڑتال کا آغاز ہو چکا ہے۔ 500 سے زیادہ فیکٹریاں بند ہیں جبکہ محنت کش ماہانہ تنخواہ کو 75 ڈالر سے بڑھا کر 209 ڈالر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب مالکان نے صرف 90 ڈالر ماہانہ تنخواہ کی پیشکش کی تو ہڑتالی محنت کشوں کا غم و غصہ پھٹ پڑا۔ پولیس نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں، دو محنت کش مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ تحریک کو ڈرانے کے برعکس ہڑتال جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور مضافات سے شروع ہو کر اب پورے ڈھاکہ میں پھیل چکی ہے۔

اس کے بعد انتظامیہ نے 56 فیصد اضافے کی پیشکش کی ہے جس کے نتیجے میں یکم دسمبر سے تنخواہیں 113 ڈالر ماہانہ ہو جائیں گی۔ اس پیشکش کو یونینز نے جوتی کی نوک پر رکھا ہے اور ایک محنت کش کے مطابق ”تمام اشیاء کی قیمتوں اور کرایوں میں اضافے کے مقابلے میں یہ اضافہ کچھ بھی نہیں ہے“۔

احتجاجوں میں شدت آنے کے ساتھ 8 نومبر کو ایک 23 سالہ ٹیکسٹائل محنت کش خاتون کو پولیس نے سر میں گولی مار کر قتل کر دیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

یہ بنگلہ دیش کی طبقاتی جدوجہد میں ایک نیا موڑ ہے اور محنت کشوں کے دیوہیکل دستے جدوجہد میں واشگاف نعروں کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ یہ سب پس منظر میں موجود انتہائی خوفناک سیاسی اور معاشی بحران میں رونما ہو رہا ہے۔

معیشت

2008-9ء میں عوامی لیگ پارٹی کی شیخ حسینہ اقتدار میں آئی اور اس وقت سے اب تک کی حکمرانی میں ایک طویل معاشی نمو ہوئی ہے جس کی بنیاد ٹیکسٹائل صنعت ہے۔ بنگلہ دیش میں 3 ہزار 500 ٹیکسٹائل فیکٹریاں ہیں جو ملکی 55 ارب برآمدات کا 85 فیصد بناتی ہیں۔ اس بنیاد پر بنگلہ دیش چین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ٹیکسٹائل برآمدی ملک ہے۔

ٹیکسٹائل محنت کشوں کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے جنہیں ہولناک حالات کا سامنا ہے ۔۔۔ اس میں ناقابل یقین اہداف کی تکمیل نہ ہونے پر تھپڑوں اور جوتوں کی بارش بھی شامل ہے۔ بنگلہ دیش دنیا میں کم ترین اجرتیں دینے والے ممالک میں سے ایک ہے اور محدود لیبر قوانین کے حوالے سے دس سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ اس لئے یہ غیرملکی سرمایہ کاری کی محبوب منزل ہے جو پریشان حال مضافاتی عوام کی سستی محنت کے استحصال سے دیوہیکل منافعے لوٹ رہی ہے۔

یہ پچھلی دہائی میں بنگلہ دیش معاشی ترقی کا حقیقی ”راز“ ہے جس کے دوران معیشت کئی سال 7 فیصد شرح نمو سے بڑھتی رہی ہے۔

یہ سارا کھلواڑ اب منہدم ہو چکا ہے۔ کورونا وباء کے دوران اور بعد میں عالمی معیشت میں گراوٹ نے ملکی معیشت تباہ و برباد کر دی ہے۔ بے قابو رہن سہن اخراجات، 9.6 فیصد پر منڈلاتا خوفناک افراط زر اور اشیائے خوردونوش کی 13 فیصد افراط زر نے کئی افراد کو مفلوک الحال اور بھوکا بنا دیا ہے۔ ایک ہڑتالی محنت کش کے مطابق ”ہم زندہ رہنے کے لئے کام کرتے ہیں لیکن ہم اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے“۔

حکومت نے پیسہ ادھار لے کر اور شدید جبر کے ذریعے اجرتوں کو کم کرنے کی کوششوں سے معاشی ابتری پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ سال 2016ء سے اب تک بیرونی قرضہ جات دگنے ہو چکے ہیں۔ پوری عالمی معیشت میں بڑھی شرح سود کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی گراں قدر اور وبال جان بن چکی ہے۔

2021ء سے اب تک غیرملکی ذخائر 48 ارب ڈالر سے گر کر 20 ارب ڈالر تک آ چکے ہیں جو ایک ایسے ملک میں صرف 3 مہینے درآمدات کے برابر ہے جس کا سارا نظام ہی درآمدات پر چل رہا ہے۔ اس سال کے آغاز میں آئی ایم ایف سے 3.3 ارب ڈالر قرضہ لیا گیا تاکہ ریاستی بجٹ میں خساروں کو قابو کیا جا سکے۔

پچھلی ایک دہائی میں حسینہ حکومت نے نجی کمپنیوں کو ہوشرباء پیسے فراہم کئے ہیں تاکہ قدرتی گیس سے بجلی گھر تعمیر کئے جائیں۔ اس منصوبے نے معیشت کو گیس پاور پلانٹس سے بھر کر رکھ دیا ہے کیونکہ اس وقت موجودہ صلاحیت کھپت سے 50 فیصد تجاوز کر چکی ہے! ریاستی فنڈز سے اربوں روپیہ آج بھی بیکار پڑے پلانٹس کو دیا جا رہا ہے۔

لیکن بنگلہ دیش کے اپنے قدرتی وسائل انتہائی کم ہیں اس لئے یوکرین جنگ سے جب ایل این جی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو معیشت میں قدرتی گیس خریدنے کی سکت ختم ہو گئی جس کے بعد سے توانائی میں کمی اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔

غیر منطقی ”منڈی کے خفیہ ہاتھ“ نے ملک کو انتشار زدہ کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت عالمی منڈی میں رونما ہونے والے شدید جھٹکوں سے خاص طور پر متاثر ہے کیونکہ اس کا مکمل انحصار ایک صنعت پر ہے۔

شیخ حسینہ حکومت

اگرچہ شیخ حسینہ حکومت کے دور میں ایک دہائی کے دوران معاشی نمو ہوئی ہے جس کی بنیاد ملکی سستی محنت کا عالمی اجارہ داریوں کے ہاتھوں شدید استحصال تھا، مگر اس کا کھلے عام اور بڑے پیمانے پر کرپشن کے ساتھ گہرا تعلق بھی ہے۔

مثال کے طور پر سمٹ گروپ (بنگلہ دیش کے سب سے بڑے گیس پاور پلانٹ کا مالک) کے بانی محمد عزیز خان کا ایک بھائی پارلیمنٹ میں ہے جس کے حسینہ اور عوامی لیگ سے گہرے مراسم ہیں۔ سمٹ گروپ میں براہ راست 9 ارب ڈالر ریاستی فنڈ ڈالا گیا ہے جو حکمران پارٹی اور بڑے کاروباروں کے درمیان قریبی تعلقات کی واضح مثال ہے۔

اگلے سال جنوری میں حسینہ حکومت نئے انتخابات کی تیاری کر رہی ہے اور اس کام میں وہ عوام کو ”میگا پراجیکٹس“ کا حوالہ دے کر راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر ڈھاکہ پر ایک نئی 11 کلومیٹر کی اٹھائی ہوئی ہائی وے بنائی گئی ہے۔ اس سے بڑی جدید بنگلہ دیش کی کوئی مثال ہو نہیں سکتی کہ ایک ایسی ٹال ٹیکس والی سڑک یہاں موجود ہے جس پر سفر کرنے کے پیسے کسی کے پاس نہیں اور جو کچی آبادیوں پر سایہ کئے ہوئے ہے۔ مشہوری کے لئے مہنگے پراجیکٹس پر حکومتی خرچوں پر ایک پھل فروش نے اپنے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے فنانشل ٹائمز میگزین کو بتایا کہ ”میں ان (میگا پراجیکٹس) کا کیا کروں جب میں بھوکا مر رہا ہوں!“۔

اس سارے پراپیگنڈے کے ذریعے شدید بحران سے دھیان ہٹانے کا خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہو رہا اس لئے حکومت کو اب زیادہ سے زیادہ ریاستی جبر پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ حزب اختلاف بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے قائد مرزا فخر الاسلام عالمگیر کو حال ہی میں کئی پارٹی قائدین اور ہزاروں عام کارکنان سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔

عوامی لیگ کی 2014ء اور 2018ء میں انتخابی فتح کی بنیاد ووٹروں کی تعداد میں نمایاں کمی اور دھاندلی تھے، جس کے نتیجے میں پولیس اور حزب اختلاف کے کارکنان کے درمیان خون ریز جھڑپیں ہوئیں۔ آنے والے انتخابات بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے عوامی لیگ سے حکومت چھوڑنے اور انتخابات کی صحت کی ضمانت کے لئے ایک عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

28 اکتوبر کو بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے ڈھاکہ میں حکومت مخالف احتجاج کی کال دی جو ایک دہائی میں سب سے دیوہیکل احتجاج ثابت ہوا اور اس میں ہزاروں عام افراد نے شرکت کی جو رہن سہن کے تباہ کن بحران میں حکمران پارٹی کی شدید کرپشن پر غم و غصے سے بھرے پڑے تھے۔

پولیس نے اس احتجا ج پر گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں دو افراد قتل ہوئے اور حالات بے قابو ہو گئے۔ اگلے چند دنوں میں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے کامیابی سے ٹرانسپورٹ ہڑتال کرائی اور متعد عوامی سواریاں جلا دی گئیں جس کے بعد دارالحکومت منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔

بنگلہ دیش نیشنل پارٹی

لیکن بنگلہ دیش نیشنل پارٹی بھی محنت کش طبقے کی کوئی خیر خواہ نہیں ہے۔ وہ اور عوامی لیگ بنگلہ دیشی حکمران طبقے کے دو متحارب دھڑوں کے نمائندہ ہیں جن کا قیام 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران اور بعد میں ہوا۔ اس وقت سے دونوں پارٹیاں سیاسی اُفق پر چھائی ہوئی ہیں اور ان کا دوسرا نام ہی کرپشن اور استحصال ہے۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے امریکی سامراج کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں۔ امریکی سفیر پیٹر ہاس دن رات بنگلہ دیش نیشنل پارٹی قائدین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے۔ سوموئے نیوز کے مطابق ”وہ اور امریکی سفارت خانہ کسی بھی اور سیاسی گروہ سے زیادہ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی قائدین کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں“۔

اس کے ساتھ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے انتہائی دائیں بازو کی اسلامی قدامت پرست تنظیم جماعت اسلامی کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں جس کی دہائیوں سے وجہ شہرت محنت کش طبقے کے سرگرم کارکنان اور ٹریڈ یونین ممبران کا قتل ہے۔

کرپشن اور جبر پر بات کرنے کا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے پاس کوئی حق موجود نہیں ہے۔ عوامی لیگ نے 2008ء میں حکمران جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کو انتخابات میں اس لئے کچل کر رکھ دیا تھا کیونکہ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے بے تحاشہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کارناموں سے اپنی ساکھ مکمل طور پر تباہ و برباد کر دی تھی۔

عوامی لیگ کی فتح کے بعد سے ان کی مقبولیت ٹکے ٹوکری ہوئی پڑی ہے۔ لیکن کسی بھی واضح سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں پچھلے عرصے میں ان کا ایک طرح سے سیاسی احیاء ہوا ہے کہ یہ واحد چھڑی ہے جس کے ذریعے حکمران جماعت کو زدوکوب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تمام سیاست دانوں کی جانب عوام کا عمومی موڈ مایوسی اور شدید غصے کا ہے اور وہ شدت سے کسی متبادل کے لئے بے چین ہیں۔

امریکی انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی ایک تحقیق کے مطابق 80 فیصد بنگلہ دیشیوں کا خیال ہے کہ ”سیاسی اشرافیہ اور عوام کے درمیان ایک دیوہیکل خلیج موجود ہے“ جبکہ ہر تین میں سے ایک فرد سمجھتا ہے کہ نئی سیاسی پارٹیوں کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے اس غم وغصے کو ایک راستہ فراہم کرنے اور اس کو ایک قوت محرکہ کے طور پر استعمال کرنے کے برعکس نام نہاد ”لیفٹ“ کی اکثریت ”کم تر بدی“ کا سبق صبح شام طوطے کی مانند رٹ رہی ہے اور اسلامی قدامت پرستوں کی حمایت کے ساتھ موجود دائیں بازو کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے خلاف عوامی لیگ کی حمایت اسی مفروضے کے تحت کر رہی ہے۔ یہ ایک غلط طریقہ کار ہے۔ محنت کش طبقہ اور نوجوان صرف اپنی ہی قوتوں اور پہل گامی پر اعتماد کر سکتے ہیں۔

محنت کش طبقہ

ٹیکسٹائل محنت کشوں کی سیاسی اُفق پر آمد انتہائی اہم ہے اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

بنگلہ دیش کی معیشت کا ٹیکسٹائل صنعت پر مکمل انحصار ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سیکٹر کے محنت کشوں کے ہاتھوں میں اس وقت جزاء اور سزاء کی قوت مرتکز ہے۔ درحقیقت ملک کے 40 لاکھ ٹیکسٹائل محنت کش (16 کروڑ 94 لاکھ کُل آبادی) ملکی جی دی پی کا 16 فیصد بناتے ہیں۔ یعنی ان کے ہاتھوں میں پوری معیشت روکنے کی قوت موجود ہے۔

حکمران طبقہ اور عوامی لیگ میں موجود اس کے ٹوڈی محنت کشوں کی منتیں کر رہے ہیں کہ ہڑتال ختم کی جائے۔ مالکان دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر ”خریدار کا اعتماد“ مجروح ہو گیا تو ٹیکسٹائل صنعت کا منافع ختم ہو جائے گا اور محنت کش نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

اس لئے ٹریڈ یونین قائدین کا فوری مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ فیکٹریاں اپنے کھاتے کھول کر محنت کشوں کے سامنے رکھیں اور ثابت کریں کی تنخواہیں ادا نہیں ہو سکتیں۔ اگر وہ انکار کر دیں تو ان فیکٹریوں پر فوری قبضہ کیا جائے اور محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لے کر یہ فیکٹریاں چلائی جائیں!

ایک حکومتی وزیر نے محنت کشوں کے مطالبات کو ”غیر معقول“ کہا ہے اور انہیں کام پر واپس جانے کی تلقین کی ہے جس کے بعد ہی ایک ”معقول اجرتی ڈھانچہ“ لاگو کرنے کا سوچا جائے گا۔ یہ تو ہڑتال کی شدت تھی جس نے مالکان کو ان کے سب سے نازک حصے پر چوٹ لگائی (ان کی جیبیں) جس کے بعد مالکان اپنی پیشکش کو بڑھانے پر مجبور ہو گئے تھے!

محنت کش بیوقوف بننے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی ریاستی جبر کے آگے جھکنے کو تیار ہیں۔ اس ہفتہ وار چھٹی پر 3 ہزار محنت کشوں نے ایک حالیہ افتتاح شدہ فیکٹری میں ہڑتال توڑنے والے بھگوڑوں کو روکنے کی کوشش بھی کی۔

ہڑتالوں کو توڑنے کی آخری کوششوں میں مالکان نے جابرانہ لبیر قوانین کو استعمال کرتے ہوئے محنت کشوں کو تنخواہ دیے بغیر فیکٹریوں کے گیٹ بند کر دیے ہیں۔

سامراجیوں کو بھی اس بڑھتی صورتحال کے حوالے سے شدید پریشانی ہو رہی ہو گی۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل صنعت جن دیوہیکل عالمی شہرہ آفاق کمپنیوں کو مال سپلائی کرتی ہے ان میں پرائمامارک، زارا اور ایچ اینڈ ایم شامل ہیں۔ ظاہر ہے وہ پریشان ہیں کہ ان کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے اور وہ حسینہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ”ذمہ دار خریداری کے اصول“ لاگو کئے جائیں لیکن جب اجرتوں پر کوئی نیا معاہدہ ہو تو ”افراط زر کا بھی خاص خیال رکھا جائے“۔

BGIWF یونین کے صدر نے اس بات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کمپنیوں کو ”بروقت سپلائی اور منافعے سے ہی غرض ہے۔ لیکن سپلائی چین کی بنیادوں میں موجود محنت کشوں کی خوشحالی اور اس حقیقت سے انہیں کوئی غرض نہیں کہ کئی محنت کش بھوکے مر رہے ہیں“۔

مغربی میڈیا کی جانب سے پریشانی کا اظہار ثبوت ہے کہ بنگلادیش کی ٹیکسٹائل صنعت کے محنت کش عالمی سطح پر کتنے طاقتور ہیں۔

لیکن یہ کام وہ تنہاء نہیں کر سکتے۔ کامیابی کے لئے ان ہڑتالوں کو پورے بنگلہ دیشن کے محنت کشوں سے جوڑتے ہوئے انہیں متحرک کرنا ہو گا۔۔۔ چٹاگانگ کی بندرگاہوں سے لے کر ٹرانسپورٹ اور توانائی سیکٹر کے محنت کشوں تک۔

اجرتوں اور حالات کام میں بہتری کے فوری مطالبوں کو ایک سیاسی جدوجہد سے جوڑنا ہو گا تاکہ بنگلہ دیش کے سماج کی چوٹی پر بیٹھے بینکاروں اور سرمایہ داروں کے غلیظ ٹولے سے اقتدار اور طاقت چھین لئے جائیں۔

امکانات

حکمران طبقہ منقسم ہے اور پرانے طریقہ کار سے اب حکمرانی نہیں کر سکتا۔ جبر عوام کو مسلسل مشتعل کر رہا ہے۔ محنت کش انتہائی طاقتور ہیں اور بہادری اور جارحیت میں مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔

حکمران طبقہ منقسم ہے اور پرانے طریقہ کار سے اب حکمرانی نہیں کر سکتا۔

معاشی بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا اور محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع ترین پرتوں کو جدوجہد میں جوڑتا جائے گا۔

اگر عوامی لیگ جنوری میں انتخابات جیت جاتی ہے، دھاندلی یا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے بائیکاٹ کے نتیجے میں، تو یہ سماجی انتشار کے لئے عمل انگیز ہو گا۔ عوام کی زیادہ وسیع پرتیں سڑکوں پر آئیں گی اور ہم حکومت کے خلاف ہڑتالوں کا کردار مزید سیاسی ہوتا دیکھ سکتے ہیں جن کا مقصد سیاسی تبدیلی بن جائے گا۔

محنت کشوں کے ایک حقیقی سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سفاکی سے اس انتشار کو اپنے تنگ نظر مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرے گی اور اسے استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی۔

ایک دیوہیکل انقلابی دھماکے کیلئے تمام معروضی عناصر پک کر تیار ہو رہے ہیں۔ اپریل 2022ء میں ڈیلی سٹار میں معیشت دان ڈاکٹر عبداللہ شبلی نے ایک مضمون تحریر کیا جس میں سوال کیا گیا کہ ”کیا بنگلہ دیش اگلا سری لنکا بن سکتا ہے؟“ اس وقت سے اب تک حالات مزید خراب ہو چکے ہیں اور سرمائے کے حکمت کاروں کے لئے مزید خراب ہوں گے۔

لیکن اگر ایک انقلابی پارٹی بروقت تیار نہیں ہوتی تو خطرہ موجود ہے کہ عوام کی انقلابی قوت سماج کی بنیادی تبدیلی کے بغیر تحلیل ہو جائے گی اور قیادت درمیانے طبقے کے عناصر کے پاس آجائے گی جو عوامی غم وغصے کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔

بنگلہ دیش اور پوری دنیا میں ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے!