کنیا کی عوامی بغاوت کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے آج ایک خطاب میں، کینیا کے صدر ولیم روٹو نے اعلان کیا کہ وہ فنانس بل جو کل پارلیمنٹ میں پاس ہوا تھا، قانون میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ وزراء کے ساتھ موجود روٹو نے وضاحت کی کہ نفرت انگیز بل کو پارلیمنٹ میں واپس بھیجا جائے گا، جہاں وہی لوگ جنہوں نے کل اسے 195 ووٹوں میں سے 106 ووٹوں کے ساتھ منظور کیا تھا، متفقہ طور پر منسوخ کریں گے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
محض 24 گھنٹے کے اندر جب روٹو نے مظاہرین کو ’مجرم‘ قرار دیا تھا، آج عوامی طاقت سے خوفزدہ ہو کر روٹو نے ایک بہت زیادہ مصالحت آمیز لہجہ اپنایا اور یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ”کینیا کے لوگوں کی بات سن کر جو کہتے ہیں کہ وہ اس بل سے کچھ لینا دینا نہیں چاہتے، میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔“
روٹو نے تجویز دی کہ ”ہمیں ہمارے قوم کے نوجوانوں کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرنا ہو گا تاکہ ان کے مسائل کو سنا جا سکے اور ان مسائل کے متعلق ان کی ترجیحات پر ان کے ساتھ اتفاق قائم کیا جا سکے“، بجائے اس کے کہ ان سے براہ راست گولہ بارود کے ساتھ نمٹا جائے، جیسا کہ روٹو نے پہلے کوشش کی تھی۔
عوامی طاقت
یہ اچانک یوٹرن دراصل عوام کی طاقت کا کھلا اعتراف ہے، جو ملک بھر میں پولیس کی گولیوں کی پرواہ کیے بغیر باہر نکل آئے ہیں اور پوری حکومت ریاستی اداروں سمیت ہوا میں معلق ہو گئی ہے۔ مظاہرین کو قتل اور اغواہ کرنے (کچھ رپورٹس کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں)، اور ’نظم و ضبط‘ بحال کرنے کے لیے فوج کو بلانے کی دھمکی دینے کے بعد اس وقت بالآخر روٹو اچانک رعایتوں اور مصالحت کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اس تحریک کو طاقت کے ذریعے کچل نہیں سکتا کیونکہ ایسا کرنا فوج کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے اور بغاوتوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس حقیقت کی اہمیت کو مزید کھلے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا کہ سرمایہ دارانہ ریاست کا تمام تر جابرانہ نظام عوام کو دبانے کے لیے ناکافی ہوتا ہے، جب وہ لڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں اور اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہنا چاہیے!
روٹو کو جانا ہو گا!
روٹو نے وعدے صرف وقت کو تول دینے کے لیے کیے ہیں۔ اسے امید ہے کہ پارلیمنٹ کو بل واپس بھیج کر وہ کینیا کے نوجوانوں کو گھر واپس جانے پر آمادہ کر سکتا ہے اور اس کے بعد وہ بدترین جبر سے تحریک کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ لیکن عوام نے فوراً ہی اس دھوکہ دینے کی کروائی کو پہچان لیا ہے۔
تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا آیا ہے کہ رعایتیں صرف انقلابی تحریکوں کی جرأت میں اضافہ کرتی ہیں۔ روٹو کے خطاب دینے کے چند منٹوں بعد، سوشل میڈیا مظاہرین کی بے باک پوسٹوں سے بھر گیا، جن میں مظاہرین نے روٹو کو اس بنیاد پر جھوٹا قرار دیا کہ وہ بل منسوخ کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا۔ یہ بالکل درست طریقہ ہے، عوام کو منتشر ہونے کی بجائے متحد اور ہوشیار رہنا ہو گا۔
اگر حکومت کی جانب سے بل واپس لیا بھی جائے تو یہ بہت چھوٹا مطالبہ ہے اور اب بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے جبر آمیز کاروائیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
کینیا کے پولیس اصلاحات کے گروپ (PRWG) نے پورے ملک میں پولیس کی گولیوں سے 23 افراد کی موت، 50 سے زائد گرفتاریوں، 22 مظاہرین کو اغواہ کرنے اور 300 سے زائد زخمیوں کی رپورٹ کی ہے۔ PRWG کو رپورٹ موصول ہوئی ہے کہ ”پولیس نے نائروبی کے گٹھورائی میں کئی افراد پر مظاہرہ ختم ہونے کے بعد بھی رات 10 بجے سے صبح 1 بجے تک گولیاں چلائیں اور ان افراد میں سے ایک شخص کو 40 بار سے زیادہ بار گولیوں کا نشانہ بنایا۔“
X نامی ایک ویب سائٹ کی ایک پوسٹ میں لکھا ہوا تھا، ”ہم کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ ہی ہم معاف کریں گے“، جبکہ ایک دوسری پوسٹ میں کینیا کے جھنڈے سے ڈھکے ہوئے خون میں لت پت جسم کی تصویر لگائی گئی تھی، اس تصویر کے ساتھ یہ الفاظ درج تھے، ”پیارے صدر ولیم روٹو۔ اب یہ معاملہ صرف فنانس بل کا نہیں ہے۔“
#RutoMustGo اور #RevolutionNoworNever کے ساتھ ساتھ #RejectFinanceBill2024 کے ہیش ٹیگز اب ٹرینڈ میں شامل ہو رہے ہیں، اور ‘Occupy State House’ کے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کے ساتھ ’گفتگو‘کا منصوبہ اگر اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرتا تو یقینا روٹو کے پاس بھاگنے کے لیے اپنا پرائیویٹ جیٹ موجود ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غم و غصہ
اس تحریک نے صرف روٹو اور اس کے پارلیمانی دوستوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا۔ اس تحریک نے مذہبی اجارہ داری کے ٹھیکیداروں کو بھی للکارا ہے جنہوں نے روٹو، فنانس بل اور مظاہرین کے خلاف حکومت کے مظالم کی خاموش حمایت کی ہے۔
ایک شخص نے X ویب سائٹ پر یہ لکھا، ”روٹو کو تاریخ میں ظالم اور جابر کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا، جس کی کلیسا نے حمایت کی۔“
کینیا کی سیاست میں کلیسا کی اجارہ داری کا بڑا اثر ہے اور جب #RejectFinanceBill2024 تحریک آگے بڑھ رہی تھی، تو اس وقت چرچ کے پادریوں اور دیگر مذہبی پیشواؤں کی کرپشن اور بدعنوانی پر بھی عوام کی جانب سے سخت تنقید کی گئی، جن کا معیار زندگی کنیا کی عوام کی اکثریت سے کہیں زیادہ بلند ہے۔
کلیسا کے ساتھ ساتھ کینیا کے انٹرنیٹ کے سب سے بڑے نیٹ ورک، سفاری کام (Safaricom)، پر بھی مظاہرین نے دھاوا بول دیا کیونکہ پارلیمنٹ عمارت کے باہر جب پولیس مظاہرین پر اندھا دھند گولیاں برسا رہی تھی، عین اس وقت سفاری کام کی جانب سے انٹرنیٹ کی سروس کو معطل کر دیا گیا تھا۔ سفاری کام کے مطابق، انٹرنیٹ کے نیٹ ورک کی کچھ کیبلوں میں تکنیکی مسائل کے باعث یہ مسئلہ پیش آیا۔“ لیکن انٹرنیٹ فراہم کرنے والے دیگر نیٹ ورک جیسے کہ ایئرٹیل (Airtel)، کی رپورٹس کے مطابق انٹرنیٹ ٹھیک کام کر رہا تھا۔
کینیا کے بہت سے نوجوانوں کے دماغ ان کے سیاسی رہنماؤں، کلیسا اور بڑے کاروباریوں کے درمیان تعلقات کے بارے بالکل واضح ہو چکے ہیں، جنہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ سب نے کینیا کی عوام کی پیٹھ پر تمام بوجھ لاد کر اپنی تجوریاں بھری ہیں اور یہ تمام لوگ اس بات پر مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ کینیا کی عوام جب ان کے جبر کے خلاف اٹھیں تو ان پر گولیاں چلائی جائیں۔ صرف روٹو نہیں، بلکہ پوری کرپٹ اسٹیبلشمنٹ کو ہی جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔
افراط زر
اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر فنانس بل واقعی واپس لے لیا گیا ہے اور اگر روٹو بھی مستعفی ہوتا ہے، جس کا بہت سے لوگ مطالبہ بھی کر رہے ہیں، تو بلاشبہ یہ اس تحریک کی فتح ہو گی، مگر اس سب سے بھی کینیا کی عوام کے معیار زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔
ملک کا 80 ارب ڈالر (تقریباً GDP کے 75 فیصد) کا بلند ترین قرضہ غیر ملکی بینکوں اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کو واپس کرنے کا مسئلہ بھی جوں کا توں رہے گا۔ حکومتی بجٹ میں کمی، جس کا تخمینہ 200 ارب کینیائی شلنگ ہے، بھی ویسے ہی رہے گی اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کوئی بھی دوسری حکومت بعد میں بھی عوام پر مزید ٹیکس بڑھانے کی صورت میں یا افراط زر میں اضافے کی صورت میں ہی اس کھائی کو بھرنے کی کوشش کرے گی۔
روٹو نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا تھا کہ ”ہم اپنے وسائل کے اندر رہیں گے۔“ اس بات کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ کینیا کی سرمایہ داری کے بحران کی قیمت کینیا کے عوام کو ادا کرنی پڑے گی، تاکہ غیر ملکی بینکوں کے منافعوں اور کینیا کے حکمران اشرافیہ کی لوٹی ہوئی دولت کو بچایا جا سکے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے اس بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایک انقلابی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے، جو تمام سامراجی قرضوں کو مسترد کرے، بڑی صنعتوں اور غیر ملکی سرمایہ کو عوامی ملکیت میں لے اور تمام تر پیداوار کو کینیا کی ساری عوام کے فائدے کے لیے استعمال میں لانے کی غرض سے جمہوری طریقے کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے ‘MPigs’ (منسٹرز) یا پارلیمنٹ کی دوسری جماعتیں اس ضرورت کو پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں، خاص طور پر ریلا اودینگا (Raila Odinga) اور اس کے آزیمیو (Azimio) اتحاد کے لوگ، جو روٹو کی طرح ہی اس کرپٹ حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔
آگے بڑھنے کا راستہ
ریاست عارضی طور پر ہی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی ہے۔ اب انقلابی تحریک کو مزید آگے بڑھانے کا وقت آن پہنچا ہے!
کل (جمعرات 27 جون) کو ’1 لاکھ لوگوں کا مارچ‘ کی کال ایک درست قدم ہے۔ اس کال کو منظم کرنے والوں نے نیروبی کے آس پاس مقیم لوگوں کو شہر کی جانب آنے والے تمام راستے بند کرنے کی کال دی ہے۔ پچھلے ہفتے کی عوامی تحریک کی شدت کے مدنظر کل کے مارچ سے پورے ملک کے بند ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔
حالیہ دنوں کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ عوام کے پاس اس حکومت کو گرانے اور کینیا کی سرمایہ داری کی مکمل طور پر گل سڑ چکی ساخت کو ڈھا دینے کی طاقت موجود ہے، اگر وہ ایسا کرنے کے لیے متحرک ہو جائیں۔ دنیا کے ہر کمیونسٹ کو کینیا کے محنت کشوں، نوجوانوں اور محروم عوام کی حمایت کرنی چاہیے۔
روٹو مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!