حالیہ عرصے میں امریکی اور برطانوی حکومتوں کی جانب سے اویغور عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر چین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ نے تو سنکیانگ میں تعینات چین کے اعلیٰ ریاستی حکام پر اس حوالے سے پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں اور اویغور قوم پر چینی ریاست کے ظلم و جبر کی کہانیاں آئے دن مغربی ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ہوتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ پریس کے مطابق لاکھوں اویغور اس وقت حراستی مراکز میں قید ہیں جبکہ دیگر کو انتہائی جبر کا سامنا ہے۔ لیکن اب ایسا کیا ہوا کہ مغربی سامراجی روایتی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اویغور عوام کی حالت زار پر شورو غوغا مچا رہے ہیں؟
[Source]
اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چینی ریاست نے اس وقت اویغور افراد پر شدید قومی جبر مسلط کیا ہوا ہے لیکن امریکی اور برطانوی ریاستوں کی تنقید بھی ننگی منافقت کے سوا کچھ نہیں۔
مغربی سامراجیوں نے صدیوں پر محیط عرصے میں نا صرف اپنے گھر بلکہ پوری دنیا میں نسلی جبر کے ’فن‘میں ید طولیٰ حاصل کیا ہے۔ اویغور عوام کے لیے ان سامراجیوں کی مبینہ پریشانی کے پیچھے درحقیقت زیادہ سے زیادہ منافعے کے حصول کا عنصر کارفرما ہے۔۔وہ بھی چین کی قیمت پر۔ مغربی سامراجی اویغور قوم کو چین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ میں محض ایندھن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ چین پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔
کھلی جیل
اویغور چین کے دور پار مغربی صوبے سنکیانگ میں بسنے والی قومی جبر کا شکار اقلیت ہیں۔ اویغور ترک النسل ہیں جن کی اپنی منفرد ثقافت اور زبان ہے۔
نام نہاد ”سنکیانگ اویغور خود مختارعلاقے“ میں رہنے کے باوجود نام نہاد چینی کمیونسٹ پارٹی (CCP) نے اویغور قومیت پر مطلق العنان حکومت مسلط کر رکھی ہے۔ ان کی ثقافت کو شدت سے دبایا جا رہا ہے۔
اویغور قوم صدیوں سے ظلم و جبر کا شکار ہے۔ لیکن 2010ء کے وسط سے چینی ریاست کی یہ باقاعدہ پالیسی چلی آرہی ہے کہ اویغور قوم کی آزاد قومی شناخت کو کچلا جائے۔ اس مقصد کے لئے بدترین ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ انہیں زبردستی اپنی ثقافت ترک کرکے غالب ہان چینی ثقافت اپنانے پر مجبور جا رہا ہے۔
حالیہ چند سالوں سے چینی ریاست اویغور ثقافت کو کچلنے کی پوری کوششیں کر رہی ہے۔ ان کوششوں میں سکولوں میں مادری زبان کو شدید محدود کرنا اور اویغور زبان میں چھپنے والی اکثریت کتابوں کی خریدوفروخت پر پابندی لگانا شامل ہیں۔ ”داڑھی کی غیر معمولی بڑھوتری“ اور گھر سے باہر نقاب کرنے جیسے ’مذہبی رویے‘ اپنانا کسی ایغور کو مصیبت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔
چین کے تمام علاقوں سے بھی بڑھ کر سنکیانگ میں بسنے والے ایغور افراد کی کڑی ریاستی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے لئے پولیس چیک پوسٹوں کے جال، چہرہ شناس سی سی ٹی وی کیمروں اور یہاں تک کہ گاڑیوں اور موبائل فونز میں ٹریکنگ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اور ”ہان-اویغورایک خاندان“ پروگرام کے تحت 1 لاکھ 12 ہزار ہان کمیونسٹ پارٹی ممبران باقاعدگی سے اویغور خاندانوں کی مانیٹرنگ اور چیک اپ کے لئے معمور کئے گئے ہیں۔
اگر کسی ریاستی اہلکار سے کوئی مسئلہ بن جائے تو فوری طور پر ”ری ایجوکیشن کیمپوں“ میں بھیج دیا جاتا ہے یا سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ مغربی میڈیا مسلسل ایک دعویٰ کر رہا ہے کہ 10 سے 15 لاکھ اویغور اور دیگر اقلیتوں کو پچھلے چند سالوں میں اس طرح کے کیمپوں میں بھیجا جا چکا ہے۔
لیکن اس طرح کے دعووں کا ذریعہ دو انتہائی دائیں بازو کے ذرائع ہیں اور جس کی بنیاد ممکنہ طور پر آٹھ اویغور افراد کے بیانات ہیں جن کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت، قید افراد کی تعداد اس سے بہت کم ہو گی۔ لیکن پھر بھی ان کیمپوں کے وجود سے چینی ریاست نے انکار نہیں کیا بلکہ انہیں ”ووکیشنل ایجوکیشن اور ٹریننگ سینٹرز“ کا نام دیا جاتا ہے۔
اویغور قومی سوال
پچھلے کچھ عرصے میں چین نے اپنے جبر میں کیوں اضافہ کر دیا ہے؟ اگر ہم یہ مسئلہ سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے سنکیانگ کے قومی سوال کی تاریخ سے پردہ اٹھانا ہو گا۔
سنکیانگ چینی حکمران طبقے کے لئے اپنے قدرتی وسائل اور وسطی ایشیاء تک رسائی کے حوالے سے انتہائی اہم علاقہ ہے۔ اگرچہ یہ زیادہ تر صحرائی اور پہاڑی علاقہ ہے لیکن اس میں چین کے سب سے بڑے قدرتی گیس کے ذخائر، 40 فیصد کوئلہ اور 22 فیصد تیل موجود ہے۔
قومی سوال کے حوالے سے یہ علاقہ ایک طویل عرصے سے مسائل کا شکار ہے۔ تمام چھوٹی قومیتوں کی طرح اویغور قوم کے مفادات اور حقوق کو صدیوں سے بڑی طاقتیں اپنے پیروں تلے روندتی آئی ہیں۔
یہ علاقہ 1750ء کی دہائی میں ہی بالواسطہ چینی تسلط میں آ گیا تھا اور بعد میں اسے سرکاری طور پر 1880ء کی دہائی میں چینی سلطنت میں ضم کر دیا گیا تھا۔
سٹالن ازم کی میراث
1920ء اور 1930ء کی دہائیوں میں اس علاقے پر روسی انقلاب کے نتیجے میں اٹھنے والی وسطی ایشیائی انقلابی تحریکوں کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ یکے بعد دیگرے اس علاقے کی کئی اقوام آمریت، قومی و مذہبی جبر اور ہان چینی شاونزم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔
لیکن ان تحریکوں کی حمایت کرکے ان کو اقتدار میں لا کر سووویت یونین میں ضم کرنے کے بجائے سٹالنسٹ سوویت بیوروکریسی اکثر قومی آزادی کی تحریکوں کے خلاف سازشیں کرتی رہی۔ سٹالنسٹوں نے سب سے رجعتی قوتوں کی حمایت کی اور ہمیشہ سنکیانگ اور اس کی انقلابی قوتوں کو اپنے سے دور رکھا۔ بالآخر 1934ء میں سٹالنسٹوں نے ایک چینی وار لارڈ شینگ شی کائی کے اقتدار کی راہ ہموار کی لیکن اسے بھی سوویت یونین میں ضم کرنے سے انکار کر دیا۔
سوشلزم یا تو عالمگیر ہے یا پھر کچھ بھی نہیں۔ روسی انقلاب اس کی بہت بڑی مثال تھا۔ سوویت سلطنت کی مظلوم قوموں نے روسی محنت کش طبقے کے ساتھ عظیم روسی سامراجی رجعت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی۔
انقلابِ روس کے بعد قومی سرحدوں سے بالاتر طبقاتی اتحاد پروان چڑھا۔ قومی سوال پسِ پردہ چلا گیا اور ایک مشترک مستقبل کی امید اور یکجہتی پورے سوویت یونین میں پھیل گئی۔ لینن اور ٹراٹسکی کی تمام تحریروں میں واضح ہے کہ روسی عوام کے لئے ایک ہی راستہ تھا کہ عالمی سرمایہ داری کے خلاف عالمگیر جدوجہد کی جائے۔ اس کی جھلک ابتدائی چند سالوں میں سوویت یونین اور کومنٹرن کی تمام پالیسیوں میں نمایاں تھی۔ لیکن سوویت یونین کی زوال پذیری اور سٹالن ازم کے ابھار کے ساتھ یہ سب اپنے الٹ میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اپنی فطرت میں سٹالن ازم شدید شاونسٹ تھا۔ سوویت بیوروکریسی کا مقصد عالمی انقلاب کے بجائے اپنی بقاء تھا۔ اس بنیاد پر ماضی کی تمام تر غلاظتیں جبر، تعصب اور رجعتی عظیم روسی شاونزم بھی آہستہ آہستہ واپس آتی گئیں۔
انہی بنیادوں پر سٹالن نے ”ایک ملک میں سوشلزم“ کا نظریہ پیش کیا جو کہ سٹالنزم کے تنگ نظر قومی مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد پر ان گنت انقلابی تحریکوں کو گمراہ کر کے آگ و خون میں ڈبو دیا گیا۔
سٹالن کے لیے سنکیانگ اور اس کی عوام کے مقدر کا طبقاتی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 1930ء کی دہائی میں رجعتی وائٹ آرمی کے ساتھ ساتھ سوویت فوج کی مداخلت کا مقصد ہی یہ تھا کہ انقلابی بغاوتوں کو سوویت یونین میں پھیلنے سے روکا جائے۔ اس سے نہ صرف سٹالن ازم کی عالمگیریت کے حوالے سے رجعتی فطرت واضح ہوتی ہے بلکہ سوویت یونین میں مظلوم اقوام کی حالتِ زار کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
مزید برآں، سٹالن سنکیانگ کی انقلابی شورش کو روک کر قوم پرست بورژوازی اور رجعتی کومنٹانگ (KMT) کو رعایت دے رہا تھا۔ بالآخر 1949ء میں چینی انقلاب کے غیر متزلزل مارچ کو دیکھتے ہوئے سٹالن نے ماؤ کے ساتھ ڈیل کر کے علاقے کا کنٹرول نوزائیدہ عوامی جمہوریہ چین (PRC) کو دے دیا۔
یقینی طور پر یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا تاکہ انقلاب سوویت یونین میں نہ داخل ہو جائے۔
گر ایک حقیقی عالمگیریت پر مبنی طبقاتی پالیسی موجود ہوتی تو عوامی جمہوریہ چین تمام سوشلسٹ جمہوریاؤں کے ساتھ برابری کی سطح پر سوویت یونین میں شمولیت اختیار کر تا۔ اس کے برعکس دونوں ریاستی اشرافیہ اپنی تنگ نظر قوم پرست پالیسیوں پر کاربند رہتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے تگ و دو کرتے رہے۔ اس کا حتمی نتیجہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں چینی-سوویت تقسیم میں نکلا۔
ماؤ کی قیادت میں سنکیانگ پر پرولتاری عالمگیریت کے تحت حکمرانی قائم نہیں تھی۔ بنیادی طور پر سٹالن ازم اور ماؤ ازم ایک ہی مظہر تھے۔ چینی مزدوروں اور کسانوں نے سرمایہ داری ختم کر کے ایک مزدور ریاست قائم کی لیکن اقتدار مزدوروں کے بجائے نام نہاد ”کمیونسٹ“ بیوروکریسی کے پاس تھا۔ اگرچہ منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر چین نے کئی حاصلات حاصل کیں لیکن سٹالنسٹ روس کی تمام تر خرافات یہاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔
اویغور عوام کے لیے اس سب کا مطلب سفاک قوم پرستانہ پالیسی کا تسلسل ہی تھا جس میں سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کی افسر شاہی نے اویغور قومی سوال کو اپنے فوری تنگ نظر قومی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
ساتھ ہی ساتھ، چینی ریاست نے سنکیانگ کو عوامی جمہوریہ چین میں ضم کر تے ہوئے اویغور عوام کو حقِ خود ارادیت دینے سے انکار کردیا۔ انقلاب کے بعد نئی چینی ریاست کا ڈھانچہ 1940ء کے عشرے کے آخری سالوں میں موجود روسی سٹالنسٹ ریاست کی طرز پر استوار کیا گیا جبکہ لینن اور ٹراٹسکی کی بالشویک پالیسیوں کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا تھا۔ علاقے کو محدود بنیادوں پر نیم خودمختار حکومت بنانے کا حق دیا گیالیکن خطے کی عوام کو حق علیحدگی دینے سے انکار کردیا گیا۔
اگرچہ 1955ء میں سنکیانگ کو ایک ”اویغور خود مختار علاقہ“ بنایا گیا تھا لیکن حقیقت میں اس کا کنٹرول ایک نیم فوجی تنظیم کے ذریعے جاری رکھا گیا ہے جس کا نام سنکیانگ پروڈکشن و کنسٹرکشن کور (XPCC) ہے۔ اسے بنگ توآن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
XPCC کو 1954ء میں قائم کیا گیا تاکہ نئی چینی جمہوریہ کے سرحدی علاقوں میں چینی ہان عوام کو آباد کیا جائے اور اس کے لئے خانہ جنگی سے فارغ فوجیوں کو استعمال کیا گیا۔ اس خطے کو ہمیشہ سنکیانگ کی حکومت کے بجائے بیجنگ میں بیٹھی چینی کمیونسٹ پارٹی براہِ راست کنٹرول کرتی رہی۔ چینی کمیونسٹ بیوروکریسی کی قوم پرستانہ فطرت کی وجہ سے سنکیانگ کا قومی سوال آج بھی حل طلب ہے۔
سفاک پالیسیاں
1960ء کی دہائی میں چینی-سوویت تقسیم کے بعد سوویت یونین نے سنکیانگ میں علیحدگی پسند رجحانات کو پروان چڑھایا جس میں خاص طور پر اویغور قوم پرستی کو فروغ دیا گیا۔ اس کا اویغور قومی امنگوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برعکس یہ سوویت بیوروکریسی کے مفادات کی ایک گھناؤنی سفاک پالیسی تھی تاکہ چینی ریاست کو کمزور کیا جائے۔ سٹالن ازم کے جرائم کی فہرست میں یہ جرم بھی شامل ہے۔
اس پالیسی کے تحت سوویت یونین نے 1968ء میں بغاوت بھڑکانے کے لیے مشرقی ترکستان عوامی انقلابی پارٹی کی فنڈنگ کی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں چینی-سوویت سرحد پر 1969ء میں ایک باقاعدہ فوجی تنازعہ بھی کھڑا ہوگیا۔
بعد ازاں، 1979ء میں افغانستان میں سوویت مداخلت کے وقت چین نے امریکہ کے ساتھ مل کر ردِ انقلابی افغان مجاہدین کی حمایت کی۔ انہوں نے سنکیانگ میں اسلامی انتہاء پسندوں کی ٹریننگ کے لئے کیمپ بنائے اور انہیں ہتھیاروں اور پیسوں سے لیس کیا۔ چینی بیوروکریسی کی یہ پالیسی ”میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے“ کی بنیاد پر تھی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان سے لے کر چلی اور انگولا تک پوری دنیا میں سٹالنسٹ بیوروکریسی کے خلاف لڑائی میں ہر قسم کی رجعتی قوت کو حمایت فراہم کی گئی۔
اس دوران چینی بیوروکریسی نے سنکیانگ میں ہان چینی آباد کاری کو بھی تیز تر کر دیا تاکہ اویغور قوم میں سوویت اثرو رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ 1949ء میں ہان چینی سنکیانگ کی آبادی کا 6 فیصد تھے جبکہ 75 فیصد اویغور تھے۔ اس وقت آبادی کا تناسب 40 فیصد ہان چینی اور 45 فیصد اویغور ہے۔ اگرچہ جغرافیائی پھیلاؤ ناہموار ہے۔ ہان چینی اکثریت مشرقی اور شمالی علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور اویغور اکثریت (70 فیصد سے 95 فیصد تک) جنوب اور مغرب میں رہتی ہے۔ ہان چینی آبادی کی اکثریت شہری ہے۔
XPCC کو اس مقصد کے لئے خصوصی طور پر استعمال کیا گیا۔ نتیجتاً علاقے میں ہونے والی معاشی ترقی کا سب سے زیادہ فائدہ ہان چینی مہاجر مزدوروں اور بیوروکریسی کو ہوا۔ سنکیانگ سے مشرقی حصے بھیجے جانے والے وسائل اور دولت کے باوجود اویغور عوام کی حالت زار میں بہتری نہ آسکی۔
اس وجہ سے اویغور عوام ہان چینیوں سے شدید نالاں ہیں اور ان میں قومی جبر کا احساس شدت اختیار کر رہا ہے۔ لینن نے وضاحت کی تھی کہ حتمی طور پر قومی سوال کی بنیاد روٹی کا سوال ہے یعنی معیارِ زندگی۔
جب پانی سر سے اونچا ہو گیا
سرمایہ داری کی بحالی کے ساتھ اقلیتوں پر قومی جبر بھی بڑھتا گیا۔ 1990ء کی دہائی میں تناؤ مزید شدت اختیار کر گیا جب ہان چینیوں کے خلاف دہشت گردی کی چھوٹی وارداتیں اور بغاوتیں ہوئیں۔ ردِ عمل میں چینی ریاست نے اویغور پر ریاستی جبر اور زیادہ بڑھا دیا۔
2009ء میں پانی سر سے اس وقت انچا ہو گیا جب جنوبی چین کی ایک فیکٹری میں ہونے والی ایک لڑائی کے نتیجے میں ہان چینی مزدوروں نے دو اویغور مزدوروں کو قتل کر دیا۔ علاقائی دارالحکومت ارمچی میں ہونے والے ایک احتجاج میں قتل کے حوالے سے حکومتی تفتیش کا مطالبہ کیا گیا۔
حکومت نے جواب میں پولیس کے ذریعے شدید جبر کیا۔ تناؤ بڑھتے بڑھتے ایک فساد کی شکل اختیار کر گیا جس میں 130 ہان چینی قتل ہوئے، 1 ہزار 135 زخمی ہوئے اور 200 دکانیں جل کر راکھ ہو گئیں۔
اگلے چند سالوں میں اویغور نے ہان چینیوں کے خلاف دہشت گردی کی کئی چھوٹی وارداتیں کیں۔ ان وارداتوں میں اکثر خنجروں سے حملے اور گھروں میں بنایا گیا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ چینی حکومت ان حملوں کا سارا الزام اویغور اسلامی انتہاء پسند گروہوں پر ڈالتی ہے۔ یہ وہی گروہ ہیں جنہیں چینی ریاست نے 1980ء کی دہائی میں منظم کر کے تربیت دی تھی!
ایک حقیقی کمیونسٹ سیاسی متبادل سمیت کسی بھی اور سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں اویغور قوم پرست تحریک نے اسلام کا جھنڈا اٹھا لیا ہے۔ اور سب سے زیادہ ریڈیکل عناصر میں کئی افراد ہیں جو اسلامی بنیاد پرستی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سنکیانگ میں اسلامی بنیاد پرستی ایک حقیقی خطرہ ہے۔ اندازاً 15 سو اویغور جنگجو داعش اور دیگرانتہاء پسند جہادی گروہوں کے لئے لڑنے عراق اور شام گئے۔ اور سنکیانگ میں پرانے افغانی مجاہدین کی باقیات آج بھی موجود ہیں جبکہ ترک اور دیگر وسطی ایشیائی بنیاد پرست قوتیں اس کے علاوہ موجود ہیں۔
چینی ریاست اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو عمومی طور پر چینی محنت کش طبقے اور بالخصوص اویغور قوم پر جبر کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ لیکن اویغور ثقافت کو کچلنے اور پوری قوم کو مٹھی بھر افراد کے اعمال کا قصور وار بنانے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اویغور انتہاء پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
سماجی دھماکہ
درحقیقت، ریاست کو چھوٹے بنیاد پرست گروہوں سے زیادہ سنکیانگ میں ایک سماجی دھماکے سے خطرہ ہے۔ پورے چین میں محنت کش طبقہ شدید اضطراب کا شکار ہے اور سنکیانگ میں ایک عوامی تحریک پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
2010ء سے چین ”اندرونی سیکورٹی“ پر ”بیرونی سیکورٹی“ سے زیادہ خرچہ کرتا آ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ طبقاتی کشمکش اور سماجی بے چینی ہے۔ بیوروکریسی واضح طور پر سماجی دھماکے سے خوفزدہ ہے۔ معاشی بڑھوتری سست روی کا شکار ہے اور بیوروکریسی ہان چینی قوم پرستی اور بڑھتے جبر کو اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔
چینی بیوروکریسی اویغور بدامنی اور دہشت گردی کو استعمال کرتے ہوئے پورے چین میں محنت کشوں کو درپیش مسائل سے دھیان ہٹانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ یہ ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی روایتی پالیسی ہے۔ ساتھ ہی سنکیانگ پر مسلط کردہ مطلق العنان سیکورٹی سیٹ اپ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاکہ یہاں سیکھے اور تراشے ہوئے طریقوں سے پورے چین میں ممکنہ طبقاتی جدوجہد سے نمٹا جا سکے۔
چینی حکمران طبقہ کسی صوررت سنکیانگ کا کنٹرول داؤ پر نہیں لگا سکتا۔ بے پناہ توانائی کے ذخائر کے ساتھ وسطی ایشیاء سے اہم تیل اور گیس کی پائپ لائنیں یہاں سے گزر کر پورے چین کو سپلائی پہنچاتی ہیں۔ اس علاقے کی سات ہمسایہ ممالک سے متصل سرحد ہے اور اس کا چینی بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ (BRI) میں کلیدی کردار ہے۔۔جو کہ چینی سامراجی امنگوں کا اہم ستون ہے۔
سرکاری پریس ایجنسی زن ہوا کے مطابق سنکیانگ BRI میں ایک اہم لاجسٹک علاقہ ہے۔ دارالحکومت ارومچی میں واقع ایک فریٹ سینٹر سے روزانہ 3 ہزار 600 ٹن سامان اترتا اور چڑھتا ہے۔ یہ سینٹر قدرتی وسائل کے علاوہ کپڑوں اور الیکٹرانک اشیاء کا بھی ایک اہم مرکز ہے جس سے 200 سے زائد کمپنیاں منسلک ہیں۔ کسی بھی سطح پر انتشار ان سرگرمیوں کو ناممکن بنا دے گا اور اسی لئے کمیونسٹ پارٹی تیز تر اور وسیع تر جبر کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
XPCC کے ذریعے سنکیانگ میں تعمیر و ترقی مشرقی چین میں بیروزگاری کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ XPCC کے 30 لاکھ سے زائد ملازمین ہیں جن میں سے 86 فیصد ہان چینی ہیں۔ چینی معیشت میں سست روی اور بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ چینی ریاست اس علاقے کو عمومی استحکام کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جائے کیونکہ جنوب اور مشرق کے ساحلی علاقوں میں مزدووروں کی بڑھتی ہوئی اجرتوں کے نتیجے میں مینوفیکچرنگ اب پہلے کی طرح اشیاء کی پیداوار اور برآمدات کے لئے سستی لیبر استعمال نہیں کر سکتی۔ وسطی ایشیاء اور یورپ کی طرف زمینی راستوں پر سنکیانگ میں نئے شہروں کی تعمیر کے لئے دیو ہیکل سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
پیراملٹری ہونے کے ساتھ ساتھ XPCC کا ایک قابلِ ذکر زرعی کاروباری ڈویژن بھی ہے جو کپاس اور ٹماٹر کی پیداوار کر رہا ہے۔ حال ہی میں XPCC نے ہزاروں ہان چینیوں کو صحرائی علاقوں کی آبادکاری اور زراعت کے ایک دیو ہیکل پروگرام کے لئے معمور کیا ہے۔ اس طرح 2013-2017ء کے دوران XPCC کی پیداوار دگنی ہو کر 36.7 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے اور اگر یہ کسی ملک کی پیداوار ہوتی تو جی ڈی پی کے حوالے سے وہ ملک عالمی معیشت کی فہرست میں 99 ویں نمبر پر ہوتا۔
لیکن ”صحرا کی آبادکاری“ کے نتیجے میں اکثر اویغوروں کو اپنی زمینوں سے محروم کر دیا جاتا ہے تاکہ آبی وسائل کو XPCC کے فارمز کی طرف موڑ دیا جائے۔ جنوبی اور مغربی سنکیانگ کے روایتی اویغور علاقوں میں ہان چینیوں کی آبادکاری اور یہ اقدامات علاقے میں مسلسل تناؤ بڑھا رہے ہیں۔
مگرمچھ کے آنسو
اویغور قومیت پر خوفناک جبر کئی سالوں سے جاری ہے اور اس کی مسلسل ذرائع ابلاغ پر کوریج جاری ہے۔ لیکن اس وقت امریکی اور برطانوی سامراجیوں کی اس علاقے میں اتنی دلچسپی کیوں بڑھ گئی ہے؟
17 جولائی کو امریکی حکومت نے ”اویغور انسانی حقوق پالیسی ایکٹ 2020ء“ بل پاس کیا۔ اس بل کے مطابق امریکی ریاستی ادارے پابند ہیں کہ وہ ایغور افراد کے ”حبسِ بے جا، ٹارچر اور ہراسگی“ میں ملوث چینی حکام کی نشاندہی کریں تاکہ ان پر پابندیاں لگائی جا سکیں۔
امریکی ریاست کا دوغلہ پن حیران کن ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ امریکی حکام جو ان گنت افراد کے ”جبری حراست، ٹارچر اور ہراسانی“ میں ملوث ہوں گے انہیں اس بل سے استثناء حاصل ہو گی۔
یقینا امریکی ریاست کو اویغور عوام کی جبری حراست اور ہراسانی کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کیونکہ وہ ان میں سے 22 کو اپنے ٹارچر کیمپ گوانتانامو بے بھیج چکے ہیں! اور سابق امریکی قومی سیکورٹی مشیر جان بولٹن کے مطابق مبینہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی صدر کو 2019ء میں کہا کہ اویغور افراد کو ”ری ایجوکیٹ“ کرنے کے لئے حراستی مراکز قائم کرنا ”درست قدم ہے“۔
عراق اور افغانستان پر دو دہائیوں کی فوج کشی اور تسلط نے یہ ثابت کیا ہے کہ امریکہ مسلمانوں کا دوست نہیں۔
جہاں تک اپنی ہی عوام کو قید کرنے کا تعلق ہے تومطلق اور فی کس حوالے سے امریکہ کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ امریکہ میں 23 لاکھ افراد قید ہیں جو آبادی کے لحاظ سے 698 فی 1 لاکھ کی شرح بنتی ہے۔ اس کے برعکس چین میں قید افراد کی شرح 118 فی 1 لاکھ ہے۔ اگرچہ امریکہ عالمی آبادی کا 4.4 فیصد ہے لیکن اس میں عالمی قیدیوں کی 22 فیصد آبادی موجود ہے۔
اپنی اقلیتوں کی نسل پرستانہ قید کی بنیاد پر امریکی ریاست کے خلاف پابندیاں لگائی جانے کی کہیں کوئی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ امریکی سیاہ فام آبادی کا 13 فیصد ہیں لیکن امریکی قیدیوں میں ان کی شرح 40 فیصد بنتی ہے اور سیاہ فام مرد قیدیوں کی سفید فام مرد قیدیوں کے مقابلے میں شرح 5.8 گنا زیادہ ہے۔
اور میکسیکو کی سرحد پر مہاجرین پر جبر کی پاداش میں، جہاں خاندانوں کو جبراً علیحدہ کر دیا جاتا ہے اور کئی سو افراد کو مجبوراً کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے جہاں وہ ایک ایک ہفتہ بغیر صفائی ستھرائی کھڑے رکھے جاتے ہیں، کی جانے والی انسانی حقوق کی تحقیقات کہاں ہیں؟ یا پھر مظاہرین پر ریاستی جبر کے خلاف جیسا پوری دنیا نے بلیک لائیوز میٹر تحریک میں دیکھا؟
اگر پوری دنیا میں امریکی سامراج کے جرائم کی بات کی جائے تو فہرست اتنی لمبی ہے کہ کتابیں بھر جائیں۔ اور جہاں تک برطانوی ریاست کے جرائم کا تعلق ہے تو وہ بھی ان تمام گناہوں کے مرتکب ہیں بس حجم تھوڑا کم ہے۔
تجارتی جنگ
درحقیقت چینی ریاستی اہلکاروں کے خلاف مجوزہ پابندیوں کا اویغور انسانی حقوق سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق امریکی اور چینی حکمران طبقے کے درمیان بڑھتے تضادات اور جاری تجارتی جنگ سے ہے۔ پابندیوں کی دھمکی ان کئی اوزاروں میں سے ایک ہے جو امریکی حکمران طبقہ چینی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
خود بل میں ایک شق موجود ہے جس کے مطابق امریکی صدر پابندیوں کو لاگو ہونے سے روک سکتا ہے اگر اس کا تعلق ”قومی مفاد“ سے ہو (یعنی بڑے کاروباروں کے مفادات)۔ دوسرے الفاظ میں اگر چینی ریاست امریکہ کے ساتھ سازگار تجارتی معاہدہ کر لے تو وہ اویغور قوم کے ساتھ جو مرضی کرتی رہے سب جائز ہوگا۔
جیسا کہ مظلوم قومیتوں کا مقدر ہے، اویغور قوم کے حقوق کو بڑی سامراجی قوتیں اپنے گھناؤنے مفادات کے لئے ایندھن کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
برطانوی حکومت نے کئی سال سنکیانگ میں چینی ریاست کے اقدامات پر آنکھیں بند رکھی ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب ڈاؤننگ سٹریٹ بیتابی سے چینی سرمایہ کاری کو برباد برطانوی معیشت میں مدعو کرنے کی کوششیں کر رہی تھی۔
ہانگ کانگ پر چین اور برطانیہ کے درمیان بڑھتی لڑائی میں ٹوری پارٹی، جس کی خارجہ پالیسی واشنگٹن کی گماشتگی ہے، کو اچانک یاد آ گیا ہے کہ سنکیانگ میں اویغور قوم پر ظلم ہو رہا ہے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ ڈومینیک راب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سنکیانگ میں چین کے اقدامات ”شدید تشویشناک“ ہیں۔
لیکن راب نے پابندیوں کے خیال پر ٹھنڈا پانی پھینک دیا کیونکہ اس کے اپنے الفاظ میں وہ چین کے ساتھ ”مثبت تعلقات“ کا خواہش مند ہے۔ دوسرے الفاظ میں برطانوی تجارتی اور سرمایہ کاری کے مفادات کو تمام مسائل پر فوقیت ہے۔ امریکہ کے برعکس برطانوی سامراج چین کے خلاف ایک جارحانہ تجارتی جنگ نہیں لڑ سکتا۔
طبقاتی جدوجہد
ہمیں ہر صورت امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے پابندیوں (ممکنہ) کی مخالفت کرنی چاہیے۔ اس سے اویغور قوم پر جاری جبر میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ مسئلہ حل کرنے کے لئے چینی ریاست کو ختم کرنا پڑے گا جو تمام ظلم و جبر کی بنیاد ہے۔ یہ چینی محنت کش طبقے (اور اویغور محنت کشوں) کا بنیادی فریضہ ہے۔ امریکی سامراج پوری دنیا میں کسی محنت کش طبقے یا مظلوم اقلیت کا دوست نہیں ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار کو پورے چین سے ختم کر کے حقیقی مزدور قوت کو اس کی جگہ لینی ہو گی۔ یہ ہدف صرف محنت کش طبقے اور غریب عوام (اس میں چین کے تمام نسلی گروہ شامل ہیں) کی متحد جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس لئے ہان چینی محنت کشوں کو اویغور قوم پر جبر کے خلاف جدوجہد کے لئے سرگرم ہونا پڑے گا کیونکہ ایک منقسم تحریک کمزور تحریک ہوتی ہے۔ چین میں حقیقی کمیونسٹوں کو تمام قوموں کے حقِ خود ارادیت کی جدوجہد کا نعرہ بلند کرنا ہو گاتاکہ محنت کش طبقے کے اتحاد کو مضبوط کیا جائے۔
لیکن ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ایک حقیقی آزاد اویغور قوم کا خیال یوٹوپیا ہے۔ چینی اور روسی سامراج کے درمیان پھنسی ایک معاشی اور عسکری طور پر کمزور ریاست کبھی بھی دیو ہیکل سامراجی قوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یا پھر ان گنت علاقائی قوتیں مداخلت کر سکتی ہیں جس کا نتیجہ سنکیانگ کا شیرازہ بکھرنے میں نکلے گا۔ صرف ایشیاء کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی تمام مظلوم قوموں کی حقیقی آزادی کی ضامن ہو سکتی ہے۔
سرمایہ داری کا بڑھتا عالمی معاشی بحران چینی معیشت کوبرباد کر رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب محنت کش طبقہ انقلاب کے سرخ جھنڈے تلے عمل کے میدان میں متحرک ہو گا۔