فلسطین کی آزادی کے لیے متحرک صامدون نیٹ ورک نے ایک کھلا خط جاری کیا ہے۔ آئی ایم ٹی کی جانب سے لکھے گئے اس خط کے درج ذیل جواب میں فلسطین کی تحریکِ آزادی کی مکمل حمایت کرتے ہوئے جدوجہد کے درست طریقہ کار کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اپنے اس خط میں صامدون نیٹ ورک نے تحریک آزادی کے کارکنان سے اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ ”فلسطینی قیادت کے جانے کا وقت آ گیا ہے!“۔ یہ خط بھی آئی ایم ٹی کے جواب کے بعد نیچے شائع کیا جا رہا ہے۔
[Source]
صامدون کے پیارے کامریڈز!
مارکس وادیوں کے لئے فلسطینی تحریکِ آزادی کا سوال ہمیشہ کلیدی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ اس لئے ہمیں آپ کی حالیہ اپیل ”فلسطینی قیادت کے جانے کا وقت آ گیا ہے!“ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی جس کی طرف کینیڈا میں موجود آپ کے ایک رکن نے ہماری توجہ دلائی۔
یہ اپیل فلسطینی عوام کے روایتی انقلابی عزم اور استقلال سے بھرپور ہے۔ ہم تہہ دل سے اس اپیل کی انقلابی روح کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن اس اپیل میں ایک اہم کمزوری ہے جو ہم سمجھتے ہیں فوری طور پر زیرِ بحث لانی چاہیے۔ ہماری کوشش ہے کہ مندرجہ ذیل سطور میں اس کے خدوخال واضح کر سکیں اور ہم پر امید ہیں کہ یہ ضروری کاوش فلسطینی انقلاب کی بڑھوتری میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔
فلسطینی عوام گزشتہ 72 سالوں سے ہولناک اسرائیلی سامراجی بربریت کا شکار ہے۔ اسرائیلی ریاست نے لاکھوں فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ ایک وطن کے مطالبے کو خوفناک ترین جارحانہ اقدامات کے ذریعے کچلا گیا ہے۔ اس عمل میں لاکھوں زندگیاں ضائع ہوئی ہیں یا تباہ وبرباد ہو چکی ہیں۔
فلسطینیوں پر مظالم اسرائیلی ریاست کا ایک کلیدی ستون ہے۔ ایک طرف قومی تعصب اور جنگی جنون کی اشتعال انگیزی کے ذریعے سماج کی رجعتی ترین پرتوں کی حمایت حاصل کرنا حکمران طبقے کی بنیادی ضرورت ہے تو دوسری طرف خوف کو سماج کی دیگر پرتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
پس فلسطینی سوال پر ریاست ہمیشہ متحد رہتی ہے۔ اسرائیل میں سیاسی بحران کی شدت کے ساتھ یہ حقیقت اور بھی واضح ہو گئی ہے۔ پچھلے ایک سال میں ہونے والے تینوں انتخابات میں بنیامین نیتن یاہو اور بینی گانز کے پروردہ ریاستی دھڑے ایک دوسرے کو بے رحمانہ حملوں کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن جب بھی فلسطینی علاقوں پر قبضے کا سوال اٹھا تو اس حوالے سے ان میں مکمل ہم آہنگی موجود تھی۔ مغربی لبرلز کی آنکھوں کا تارا بینی گانز اپنی جارحانہ تجاویز میں اکثر نیتن یاہو سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل جاتا تھا۔ اب وہ وزیرِ دفاع ہے اور اسرائیلی سامراجی عزائم کی تکمیل اس کی ذمہ داری ہے۔
فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی جرائم میں مغرب برابر کا شریک ہے۔ اس مسئلے کے حوالے سے نام نہاد جمہوری حکومتیں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں ان کے تنخواہ دار ملازم یا تو بالکل خاموش ہیں یا پھر حقائق کو سفاکی سے مسخ کر کے اسرائیلی جنگی مشینری اور فلسطینیوں کو دو ہم پلہ فریقین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ فلسطینی مزدوروں اور غریبوں کے دشمن ہیں۔ لبرلز اور این جی اوز کی تمام تر بھیک اور التجائیں ان حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ امریکی اور یورپی سامراج اسرائیلی ریاست کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے عسکری اور مالیاتی امداد کی مد میں کئی سو ارب ڈالر خرچ کر کے مشرقِ وسطیٰ میں رجعتیت اور ردِ انقلاب کا یہ قلعہ تعمیر کیا ہے۔
خطے میں موجود عرب بورژوازی بھی مختلف نہیں ہے۔ وہ فلسطین پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں لیکن درحقیقت وہ فلسطینی سوال کو اپنے تنگ نظر مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انقلاب کے نام سے ہی خوف سے لرزنے والے سعودی شاہی خاندان نے خطے میں ہمیشہ ردِ انقلاب کا ساتھ دیا ہے۔ وہ کئی سالوں سے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ میں فلسطینی تحریک کو عمومی طور پر اور اس تحریک کے بائیں بازو کو خصوصی طور پر برباد کر رہے ہیں۔
اور فلسطین کے دیگر نام نہاد دوستوں کی کیا صورتحال ہے؟ مصری ریاست سرگرمی سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی میں مصروفِ عمل ہے اور اردن کی ریاست مغربی کنارے پر اسرائیل کے سرحدی محافظ کا کردار ادا کررہی ہے۔ ترکی، ایران، حزب اللہ اور اسد آمریت نے ہمیشہ فلسطین کے لئے واویلا مچایا ہے لیکن صرف اس لئے تاکہ فلسطینیوں کو مہرے کے طور پر استعمال کر کے اسرائیلی اور امریکی سامراج سے مراعات حاصل کر سکیں اور ساتھ ہی اندرونی سیاست میں اپنے آپ کو ترقی پسند بنا کر پیش کر سکیں۔
ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے دنیابھر کے حکمران طبقات کو فلسطینی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے متحد ہوتے دیکھا۔ حتمی تجزیے میں یہ ایک طبقاتی سوال ہے۔ یہی اوسلو معاہدے اور نام نہاد امن عمل کی بنیاد تھی۔
یہ، درحقیقت، ایک یونائیٹڈ فرنٹ تھا جس کے ذریعے فلسطینی عوام کو زیر کر لیا گیا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب فلسطینی عوام پہلے انتفادہ کے دوران گلی محلوں اور چوکوں چوراہوں پر ایک انقلابی لڑائی میں مصروف عمل تھے۔ نام نہاد فلسطینی قیادت نے سرمایہ دار طبقے کا ہی ساتھ دیا۔ اس قیادت نے حقیقی تحریک میں کسی بھی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
نام نہاد قیادت نے تمام کلیدی سامراجی طاقتوں کی خوشنودی میں تحریک کو اوسلو معاہدے کی بند گلی میں دھکیل دیا۔ بدلے میں اسرائیل نے احسان کرتے ہوئے انہیں فلسطینی عوام کا جیل داروغہ بنا دیا۔ فلسطینی اتھارٹی کبھی بھی ایک حقیقی آزاد ریاست نہیں تھی اور نہ ہی کبھی ہو گی۔ اس کا بنیادی مقصد اسرائیلی ریاست کے ایما پر فلسطینی عوام کو قابو میں رکھنا ہے اور اربوں ڈالروں سے نام نہاد قائدین کی تجوریاں بھرنا ہے۔
غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی، جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی قتل ہو رہے ہیں، میں ان کا بھیانک کردار ان کے حقیقی مفادات کی عکاسی کے لئے کافی ہے۔
حماس کو مختلف تصور کرنا بھی ایک فاش غلطی ہو گی۔ اس تنظیم کی کئی دہائیوں تک رجعتی عرب بادشاہتوں اور کاروباریوں نے پرورش کی ہے تاکہ فلسطینی تحریک کے بائیں بازو کو سبوتاژ کیا جا ئے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ انہی وجوہات کی بناء پر دہائیوں تک خود اسرائیلی انٹیلی جنس نے ان کی سرپرستی کی۔ حماس کی نام نہاد مزاحمت محض کاغذی کاروائی ہے اور ان کے پاس حقیقی آزادی کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ موجود نہیں۔
اس لئے فلسطینی عوام کے جمہوری حقوق کو سلب کرنا محض اسرائیلی حکمتِ عملی ہی نہیں۔ یہ ایک عمومی رضامندی ہے جس میں مشرقِ وسطیٰ سمیت دیگر عالمی سرمایہ دارقوتیں شامل ہیں۔ اوسلو معاہدہ اس رضامندی کی بنیاد تھا۔ یہ ایک دیو ہیکل دھوکہ تھا جس کو امن عمل اور ”فلسطینی اتھارٹی“ کے قیام جیسی کھوکھلی جمہوری لفاظی کا تڑکہ لگایا گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ، بنیامین نیتن یاہو اور سعودی بادشاہت کی طرف سے بڑھ چڑھ کر تشہیر کی جانے والی ”صدی کی سب سے بڑی ڈیل“ نے اس فریب کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔
چنانچہ، جیسا کہ آپ نے اپنے بیان میں درستگی کے ساتھ نشاندہی کی ہے، کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ عوامی جدوجہد ہے۔ فلسطینی عوام کو پوری دنیا میں طاقت کے ایوانوں اور عدالتوں میں کہیں حقیقی اتحادی نہیں ملیں گے۔ نہ ہی ان کو محمود عباس اور خالد مشعل کی شکل میں حقیقی قائدین دستیاب ہیں۔ جیسا کہ آپ نے کہا ہے کہ، ایک نئی قیادت تخلیق کرنی پڑے گی! فلسطینی عوام اپنی اور خطے میں موجود اپنے استحصال زدہ بہنوں اور بھائیوں کی قوتوں پر ہی انحصار کر سکتے ہیں۔
حال ہی میں ہم نے لبنان، عراق، ایران، مصر اور اردن میں طاقتور تحریکوں کا ابھار دیکھا ہے۔ یہ تحریکیں اسی حکمران طبقے کے خلاف ہیں جو فلسطینیوں کے استحصال میں برابر کا شریک ہے۔ ان ممالک کی عوام اور استحصال زدہ فلسطینیوں کے مفادات مشترک ہیں۔
اس لئے آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ فلسطینی محنت کشوں کا پورے خطے کے مزدوروں، غرباء اور نوجوانوں کے ساتھ وسیع تر اتحاد بنایا جائے۔ مشرقِ وسطیٰ کے غلیظ حکمرانوں کے خلاف ایک عمومی جدوجہد کے حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں۔ حکمرانوں کے خلاف عوامی غم و غصے اور مایوسی میں موجودہ بحران مزید اضافہ کرے گا۔
اور اب ہم آپ کے اعلامیے میں موجود کمزوری کی طرف آتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ ”انقلابی جمہوری جدوجہد کا احیا“ چاہتے ہیں۔ ہم فلسطینی عوام کی جمہوری حقوق کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ تاہم آپ کا اعلامیہ غالباً ایسی جدوجہد کی دلالت کرتا ہے جو کہ سرمایہ داری کی حدود میں مقید ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غلطی ہے۔ اور بعینہ اسی خیال کی وجہ سے، کہ فلسطینی آزادی سرمایہ داری سے ناطہ توڑے بغیر حاصل کی جا سکتی ہے، آج تحریک ایک بند گلی میں پھنسی ہوئی ہے۔
آج کی تما م تحریکیں سرمایہ دارانہ حکمران طبقے کی گلی سڑی فطرت کو واضح کرتے ہیں، ایک ایسا طبقہ جس کے مفادات مشرقِ وسطیٰ کی عوامی امنگوں سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ خطہ بے پناہ دولت پیدا کرتا ہے لیکن اس کی بھاری اکثریت زندہ رہنے کے لئے روزانہ جدوجہد کرتی ہے۔ اس دوران امرا غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت کے سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں۔ یہی سرمایہ داری کی منطق ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں سماج کو اکثریت کے بجائے اقلیت کے مفادات کے لئے منظم کیا جاتا ہے۔امیر خونخوار جونکیں جیسے ٹرمپ، نیتن یاہو، آلِ سعود، ال سیسی، اردوگان، ال حسین، خامنہ ائی اور ہاں ابو معاذن اور خالد مشعل اور اسی قبیل کے افراد۔
فلسطینی آزادی کی جدوجہد سامراج اور بحیثیتِ مجموعی سرمایہ دار طبقے کے خلاف جدوجہد سے علیحدہ نہیں کی جا سکتی۔ اگر کسی لمحے پر آزادی حاصل کر بھی لی جاتی ہے تو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر فلسطین فوری طور پر عالمی منڈی کی گرفت میں آ جائے گا اور وہی سرمایہ دارانہ قوتیں اس پر حاوی ہوں گی جو آج جبراً اس پر قابض ہیں۔ جیمز کونولی کے امر ہوجانے والے الفاظ میں جو اس نے آئرش حریت پسندوں سے کہے:
”اگر تم کل انگریز فوج کو ہٹا لو اور ڈبلن قلعے پر ہرا جھنڈا لہرادو، اگر تم ایک سوشلسٹ جمہوریہ کو منظم نہیں کرتے تو تمہاری کوششیں ناکام رہیں گی۔ برطانیہ پھر بھی تم پر حاکم ہو گا۔ وہ اپنے سرمایہ داروں، اپنے جاگیرداروں، اپنے سرمایہ کاروں، اس ملک پر مسلط کمرشل اور انفرادی اداروں کی بھرمار کے ذریعے، جن کو ہماری ماؤں کے آنسوؤں اور شہداء کے خون نے سینچا ہے“۔
اس حقیقت کا اطلاق آج فلسطینی آزادی پر ہوتا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان الفاظ نے کس شاندار انداز میں وہ سب کچھ بیان کر دیا جو فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام ایک بند گلی میں پھنس چکا ہے۔ یہ نظام اربوں لوگوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ فلسطینی قائدین کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں وہ کچھ نہیں کر سکتے اور سامراج کی طرف سے لاگو کٹوتیاں اور حملے کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مزاحمت کرنا بیکار ہے لیکن یہ بات اس وقت تک درست ہے جب تک یہ جدوجہد سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں مقید رہتی ہے۔ لیکن اب تو ہمارے سامنے زندہ مثالیں موجود ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں یکے بعد دیگرے انقلابات یہ واضح کر رہے ہیں کہ یہ صورتحال لازمی نہیں۔ ہر جگہ عوام اس بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے۔ ان جدوجہدوں کو پورے خطے اور دنیا میں ایک دوسرے سے جوڑنا وقت کی اشد ضرورت بن چکا ہے اور فلسطینی جدوجہد کو ہر صورت اس کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔
آنے والے قت میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں نئے اور زیادہ طاقتور انقلابات پھوٹیں گے۔ آنے والے کسی ایک لمحے میں یہ پوری صورتحال اسرائیل پر بھی اثر انداز ہو گی۔ اسرائیل میں موجودہ بحران آنے والے دور میں شدید سماجی انتشار کی نوید ہے۔ جس گہرے بحران میں ہم داخل ہو چکے ہیں اس کے شدید تازیانوں سے اسرائیلی سماج پر رجعتی صیہونیوں کی گرفت کمزور ہو گی۔ خطے میں ایک عمومی انقلابی لہر کے ساتھ فلسطینی عوام کے لئے اسرائیل کی غریب عوام اور محنت کشوں کے ساتھ جڑنے کی راہیں ہموار ہوں گی۔ 2012ء اور 2013ء میں لاکھوں اسرائیلی سڑکوں پر نکل آئے تھے جنہوں نے ”مصریوں کی طرح لڑو“ جیسے نعرے لگائے تھے۔ مستقبل میں یہ صورتحال ایک نئی اور زیادہ بلند سطح پر نمودار ہو گی۔ فلسطینی تحریک اس صورتحال کو ایک ہتھوڑے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی سماج کو طبقاتی بنیادوں پر توڑ سکتی ہے تاکہ اسرائیلی ریاست کی طاقت کو کمزور کیا جائے۔ یہ اسرائیلی سامراج کے خاتمے کے لئے پیشگی شرط ہو گی۔
سرمایہ داری اپنی تاریخ کے گہرے ترین بحران میں داخل ہو رہی ہے۔ اگرچہ اس وجہ سے مزدوروں اور غرباء کے لئے شدید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں لیکن یہ راہِ انقلاب بھی ہموار کر رہا ہے۔ ہم آپ کو مشرقِ وسطیٰ اور پوری دنیا میں سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک نئی دنیا تعمیر کرسکتے ہیں جہاں تمام استحصال زدہ انسان استحصال اور جبر کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں، اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اپنا مستقبل خود تراش سکتے ہیں۔ یہ ایک سوشلسٹ سماج ہو گا جس میں بربریت، جنگیں اور تباہی نہیں ہو گی۔ اور جہاں دوستی اور انسانی اتحاد تمام انسانیت کی خیریت اور خوشحالی کی بنیاد ہو گی۔
سامراجیت مردہ باد!
اوسلو معاہدہ اور ”صدی کی سب سے بڑی ڈیل“ مردہ باد!
استحصال زدہ فلسطینی عوام اور ان کی اپنے وطن کے لئے جدوجہد کی مکمل حمایت!
سرمایہ داری مردہ باد!
مشرقِ وسطیٰ اور بعید میں ایک سوشلسٹ فیڈریشن زندہ باد!
انقلابی جذبات کے ساتھ!
عالمی مارکسی رجحان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطینی نوجوان اور طلبہ تنظیمیں: ”فلسطینی قیادت“ کے جانے کا وقت آ گیا ہے!
ہم، زیر دستخطی فلسطینی نوجوان اور طلبہ تنظیمیں اور ہمارے ساتھ دیگر ایسوسی ایشنز، تنظیمیں اور ادارے بھی شامل ہیں جن کے دستخط اس اعلامیے میں موجود ہیں، پورے مقبوضہ فلسطین اور تارک وطن فلسطینی نوجوانوں اور طلبہ کو جمہوری انقلابی راستے کی بحالی کے ذریعے جدوجہد میں ایک نئے مرحلے کے آغاز کے لئے ایک عوامی پہل گامی اور ترویج میں اپنے ساتھ شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔ اس پہل گامی کی بنیاد ہماری فلسطینی عوام کے یہ مقاصد ہیں یعنی واپسی، آزادی اورمسلسل جدوجہد تاکہ ان کے تمام جائز قومی مقاصد اور امنگیں پوری ہوں چاہے ان سب کے لئے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ درکار ہو۔
فلسطین کی جدوجہد، ہماری عوام کی مقدس جدوجہد، ہمارے عرب وطن میں موجود استحصال زدہ طبقات اور پوری دنیا میں آزادی کی علمبردار قوتوں کی جدوجہد کو ختم کرنے اور ہماری عوام اور ہماری قوم کی یادداشتوں سے حذف کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ہماری عوام کے حقوق ہر جگہ مسخ اور ملیا میٹ کئے جا رہے ہیں۔ اس عظیم مقصد کو تباہی و بربادی اور ملیا میٹ ہونے سے صرف ہماری عوام کے دل و دماغ اور زورِ بازو ہی بچا سکتے ہیں یا پھرپرعزم، محبِ وطن انقلابی نوجوان اور خواتین، مزدوروں اور کسانوں کا استقلال۔
اس لئے آج ہم اپنی فلسطینی عوام کو اور خاص طور پر نوجوان فلسطینی نسلوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور اس کے ٹولے کی پالیسیوں اور پوزیشنوں کو مسترد کر دیں اور اعلان کریں کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت ہماری عوام کی نمائندہ نہیں ہے اور ہماری قومی جدوجہد سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ہم اپنی عظیم عوام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس عوامی مرضی کو منظم کرتے ہوئے وسیع تر عوامی ڈھانچہ منظم کریں تاکہ اوسلو معاہدہ اور اس کے تباہ کن اثرات کے چنگل سے چھٹکارا پایا جا سکے۔
ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ نام نہاد ”فلسطینی قیادت“ کے پروگرام جس کا مقصد ہی ہتھیار ڈالنا اور دستبرداری ہے، کو ختم کرنے کی وسیع جدوجہد میں شامل ہوں۔ یہ کرپشن زدہ طریقہ کار 40 سالوں میں ایک خیالی ریاست کی تشکیل کے منصوبے کی تشہیر کے بعد اب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اس سیاسی قیادت نے ہماری عوام کو صرف شرمندگی اور تباہی سے ہی نوازا ہے اور آج اس کی کوشش ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کی آزاد انتظامیہ کو تبدیل کر کے ہماری آزادی تحریک کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اس طبقے کا پیسہ قبضے کے ایجنٹوں، ”معاشی امن“ اور معمولاتِ حالات کے منصوبوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ہماری عوام کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ اس پرت کو تنہا کریں اور مقبوضہ فلسطین کے اندر اور باہر چوکوں، سکولوں، فیکٹریوں، کھیتوں، یونیورسٹیوں اور سکولوں میں اس کے منصوبوں کو نیست و نابود کر دیں۔
آج ہم امریکی، صیہونی اور رجعتی پالیسیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جو ہماری عوام کی زندگی اور بنیادی حقوق کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب ہمیں جبری طور پرنیست و نابود کرنے کا منصوبہ زور پکڑ رہا ہے تاکہ قومی آزادی کے منصوبے کے تمام امکانات مسدود کر دیے جائیں، ایک ایسے وقت میں جب مقبوضہ جیلوں میں قیدیوں کی تحریک پر حملے کئے جا رہے ہیں اور کیمپوں میں موجود ہماری عوام کے تمام فطری اور انسانی حقوق سلب کئے جا رہے ہیں، ایسے وقت میں خاموشی اس جرم میں شراکت داری، دھوکہ دہی اور ہتھیار ڈالنے اور ناکامی کے مترادف ہے۔
ہتھیار ڈالنے والے ان قائدین کا رملہ میں موکاتہ ہیڈ کوارٹرز سے جانے کا وقت آ گیا ہے اور اس شکست خوردہ پرت کو جو صیہونیوں اور سی آئی اے کو گلے سے لگا کر رکھتی ہے، غزہ میں ہماری عوام کی مجموعی سزا میں ملوث ہے، جو شہداء اور قیدیوں کے خاندانوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھتی ہے، حریت پسند تحریک کو کچلتے ہیں اور مقبوضہ قوتوں کے ساتھ مل کر ہمارے سماج کی بنیادوں، اس کی قومی مزاحمت اور اس کے نوجوانوں اور طلبہ کو نشانہ بناتے ہیں۔
فلسطینی عوام کے خلاف اور فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کی حمایت میں استعمال ہونے والی تمام تر کوششوں اور وسائل کے باوجود اوسلو منصوبے کی شکست اور محمود عباس اور اس کے حواریوں کی تنہائی آج اور بھی زیادہ ممکن ہو چکی ہے۔ لیکن اس طویل تاریخی جدوجہد میں عوام اور سماج کی بنیادوں سے، ہماری تاریخ کی گہرائیوں سے اور ہماری جنگجو جدوجہد کی روایات سے اور ہر عوامی کمیونٹی، ہر محلے، کیمپ، شہر اور گاؤں کی کوکھ سے انقلابی لائحہ عمل پیدا کرتے ہوئے اس کی ترویج کرنے کی صلاحیت کا کلیدی کردار ہے۔
ہم تمام فلسطینی مزاحمتی قوتوں، ان کے سیاسی اور دانشورانہ رجحانات اوردستوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس ٹوٹ پھوٹ اور تباہی و بربادی کی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے ایک متحد قومی محاذ بنائیں۔ یہ ہر جگہ ہماری عوام کی حمایت اور حوصلے کے لئے ہو گا اور اس کی تلوار اور ڈھال ہماری عوام کی تاریخی عظیم الشان قربانیوں اور جدوجہد کی حفاظت کر ے گی جس کا مقصد اپنے حقوق حاصل کرنا اور غلامی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے صیہونی استبدادسے مجموعی اور مکمل آزادی ہے۔
ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ عوامی رابطہ کاری کو وسیع تر کریں اور فلسطینی جدوجہد کے ہفتے (مئی 15-22،2020ء) میں قومی سرگرمیوں کو تیز تر کریں جو جدوجہد کے ایک نئے دور کے آغاز کا پہلا مرحلہ ہو گا اور اس کا نعرہ ہو گا، یوم ِفلسطین۔۔واپسی اور آزادی کا دن۔ تاریخ اس جرم کی گواہ ہے، وہ نکبہ جو 1947-48ء سے آج تک جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی تمام قربانیوں اور سالہا سال کی جدوجہد کے ساتھ فلسطینی جدوجہد بھی جو فتح تک جاری ہے۔
ہتھیار ڈالنے اور تباہ و برباد ہونے کا راستہ نامنظور!
”خود مختار حکومت“ اور ”انتظامی آزادی“ کا منصوبہ نامنظور!
واپسی اور آزادی کا راستہ زندہ باد!
فتح تک مزاحمت اورانتفادہ کا راستہ زندہ باد!