نجی شعبے کی منافع خوری، بے دریغ پیداواری طور طریقے، ماحولیات کی تباہی اور طبی تحقیق میں کم تر سرمایہ کاری نے ایک ایسا طوفان برپا کر دیا ہے جس میں عالمی وبائیں عام ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے ہماری صلاحیت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری نے نہ صرف اس ان دیکھے اور قاتل دشمن کو جنم دیا ہے بلکہ اس کے خلاف جدوجہد میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
[Source]
گو کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں حکومتیں انگشت بدنداں ہیں مگر یہ حادثہ رونما ہونے کو تیار تھا۔ جس طرح وباء سے جنم لینے والا معاشی اور سماجی انتشار پچھلے عرصے میں پک کر تیار ہوا ہے، اسی طرح سرمایہ داری ایک طویل عرصے سے اس پیمانے پر صحتِ عامہ کے بحران کی بھی بنیادیں بھی ڈال چکی تھی۔
”تمہیں ویکسین چاہیے؟ پیسے نکالو!“
سرمایہ داری کے معذرت خواہان صبح شام آزاد منڈی کی منصوبہ بند معیشت پر برتری کے گن گاتے رہتے ہیں۔ لیکن ادویات کی پیداوار اور تحقیق و ترقی کو منڈی کی قوتوں نے مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں کئی عالمی وباؤں کا ظہور ہوا ہے اور نتیجتاً ہزاروں جانیں لقمہ اجل بن گئیں (Sars-CoV-1, Mers, Zika, Ebola وغیرہ)۔ اب تک صرف ان میں سے ایک وباء ایبولا کی ویکسین منڈی میں آ سکی ہے۔
کرونا وائرس کوئی انجانا خطرہ نہیں ہے۔ سارس(SARS) کرونا وائرس خاندان کا ایک حصہ ہے۔ امریکی حکومت نے پچھلے بیس سالوں میں کرونا تحقیق پر 500 ملین پونڈ خرچ کیے ہیں۔ لیکن سائنسدان تاحال بہت پیچھے ہیں۔ Yale School of Public Health کے پروفیسر جیسن شوارٹز نے اس مہینے کے آغاز میں اٹلانٹک میگزین کو بتایا کہ ”اگر ہم نے(2004ء) میں سارس ویکسین کا تحقیقی پروگرام ختم نہ کیا ہوتا تو ہم وہ بنیادیں بنا چکے ہوتے جس پر ہم اس نئے اور قریبی متعلقہ وائرس کا مقابلہ کر سکتے تھے“۔ منافع پر استوار طبی تحقیق و ترقی (R&D) کے بزنس ماڈل، جس میں بلند قیمتوں سے بڑے منافع کو یقینی بنایا جاتا ہے، کو متحرک وباؤں کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ جب وباء ختم ہو جاتی ہے تو منڈی فوری طور پر ختم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں فنڈنگ بند ہو جاتی ہے اور تحقیق ختم کر دی جاتی ہے۔
لیکن حال ہی میں اعلان کیا گیا کہ کرونا وائرس ویکسین کے تجربے کے لیے ایک رضا کار نے خود کو امریکی National Institute of Allergy and Infectious Diseases (NIAID) کے سامنے پیش کیا ہے۔ NIAID نے یہ ویکسین ایک نجی کمپنی Moderna کے اشتراک سے تیار کی ہے اور اس کی بنیاد امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں مختلف یونیورسٹیوں کی تحقیق ہے۔ ویکسین کی منظوری کا عمل تیز تر کر دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے مہینے سے مریضوں پر تجربات شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسی ویکسین کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لیے کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا، اور غالب امکان ہے کہ تب تک وبا لاکھوں لوگوں کی جانیں لیتے ہوئے بیٹھ چکی ہوگی۔ اور پھر بھی NIAID کو ایک اور بڑی دواساز کمپنی کی ضرورت ہو گی جو ویکسین کو تیار کر سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ Pfizer اور Novartisجیسی دیوہیکل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی خام مال پر انتہائی مضبوط گرفت قائم ہے اور انہوں نے ویکسین کی مینوفیکچرنگ پروسیس تک کو پیٹنٹ کروا رکھا ہے۔ ابھی تک تو ان ان ندیدے بلوں کی طرف سے عدم دلچسپی کا ہی مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ امریکی ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز سیکرٹری نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی نجی دواساز کو اپنی پروڈکٹ کے لئے ”معقول“ قیمت تعین کرنے کی اجازت ہو گی۔ اس کا کہنا ہے کہ ”ہمیں نجی سیکٹر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کر کے ایسا نہیں کیا جا سکتا“۔ کروڑوں افراد کے لئے یہ ویکسین جان کی ضمانت ہو گی۔ لیکن جب تک منافعوں کی ضمانت نہیں ہوگی سرمایہ دار اس وقت تک سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ منڈی کی معیشت پوری انسانیت کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ رہی ہے۔
دواسازی کی تحقیق و تکمیل کا زیادہ تر حصہ نجی سیکٹر سے آتا ہے۔ 2018ء میں امریکہ میں صحت کے سیکٹر کے 194.2 ارب ڈالر میں سے 67 فیصد نجی تھا، 22 فیصد فیڈرل اداروں کا جبکہ 8 فیصد درسگاہوں اور تحقیقی اداروں کا تھا۔ دواساز کمپنیاں اس تحقیق و تکمیل کی گراں قدری کو بنیاد بنا کر پرانی اور عام استعمال کی دوائیوں کی قیمتیں بڑھائے رکھتی ہیں یہاں تک کہ انسولین جیسی دوائیوں کی قیمتیں 25-100 ڈالر فی وائل ہیں۔ 2015ء میں Turing Pharmaceuticals کے صدر مارٹن شکریلی نے ایک سکینڈل برپا کر دیا جب انہوں نے Daraprim (AIDS سے متعلق بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے والی ایک دوائی) کی قیمت 13.50 ڈالر سے بڑھا کر 750 ڈالر فی گولی کر دی۔ اس جھوٹ کے باوجود کہ اس طرح کے دیو ہیکل منافع دوبارہ تحقیق میں ڈالے جاتے ہیں، نئی دوائیوں کی بھاری اکثریت ریاستی فنڈنگ یا پھر سبسڈی کے ذریعے بنائی جاتی ہیں جن میں اب COVID-19 کی نئی ویکسین بھی شامل ہے۔ میڈیکل تحقیق اور جدت کو پروان چڑھانے کے بجائے نجی دواساز کمپنیاں زیادہ تر اپنا دیو ہیکل مالی وزن عوام کے پیسوں سے تحقیق شدہ دوائیوں کے سند حقِ تحفظ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں، موجوددہ دوائیوں سے اخذ کردہ دوائیوں کو انتہائی مہنگا کر کے بیچتی ہیں اور Viagra جیسی دوائیوں کی بے تحاشہ پیداوار کرتی ہیں۔ ان طریقوں سے (اور 1990ء کی دہائی میں اجارہ داری قوانین کی لبرلائزیشن کے بعد)دواساز کمپنیاں اس صدی کے آغاز میں دنیا کی تیز ترین اور سب سے زیادہ منافع بخش صنعت بن گئیں جن کا منافع صرف 2018ء میں 1.2 ٹریلین ڈالر تھا۔
اتنے دیو ہیکل آسان منافعے کی وجہ سے نجی دواساز کمپنیوں میں نئی ویکسین بنانے کی کوئی دلچسپی موجود نہیں۔۔۔ خاص طور پر متحرک وباؤں کے لئے۔ سائنس بہت کم جانتی ہے کہ وائرس کس طرح زندہ رہتے ہیں اور ان کی افزائش کیسے ہوتی ہے۔ کورونا وائرس جیسی بیماریاں تیزی کے ساتھ نئی شکلیں اختیار کر لیتی ہیں۔ ویکسن تیار کرنا ایک مہنگا، مشکل کام ہے جس کے لیے وقت بھی درکار ہے اور اس میں منافع کی کوئی گارنٹی نہیں۔ Association of British Pharmaceutical Industry کے ڈائریکٹر ٹریور جونزنے دعویٰ کیا ہے کہ ایک نئی دوائی بنانے کے لئے تحقیق اور تکمیل میں 500 ملین ڈالر درکار ہوتے ہیں اور دواساز کمپنیوں کو امید ہوتی ہے کہ پہلے تین سے پانچ سالوں میں یہ سرمایہ کاری واپس مل جائے گی۔ نجی سیکٹر میں آخری سب سے منافع بخش ویکسین Merck کی Gardasil تھی جسے HPV کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور یہ 2006ء میں بیس سال کی تحقیق و تکمیل کے بعد متعارف کرائی گئی تھی۔حال ہی میں Forbes میگزین نے صنعت کے ”جدت کے بحران“ پر تبصرہ کرتے ہوئے بنیادی تضاد کی نشاندہی کی ہے، منافع اوپر جا رہے ہیں لیکن نئی ویکسین اور دوائیاں کم تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ”پیداوار کی ناکامی ایک صنعت میں عجیب و غریب مسئلہ بن چکا ہے جو استعمال کی اہلیت سے زیادہ پیسہ بنا رہی ہے،مانگ لا محدود ہے اور قیمتوں کے تعین میں اختیارپر اجارہ داری ہے۔ لیکن دواسازی کوئی ”عام“ کاروبار نہیں ہے۔ ہر نئی دوائی، ہر کلینکل ٹرائل ایک تجربہ ہے۔ تکمیل کا پہلے سے تعین نہیں کیا جا سکتا جس کا اندازہ 2 فیصد کامیابی کی شرح سے ہوتا ہے۔۔۔ 1995ء سے 2014ء کے دورانیے میں دوائیوں کی قیمت اور صنعتی منافعوں کے ایک ڈیٹا جائزے میں کوئی پیش گو کمی نظر نہیں آئی۔ پیداوار کے مسائل مواقع کی کمی کے بجائے بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ہیں“۔
مختصراً نئی دوائیوں کی تکمیل میں خدشات زیادہ ہیں اور منافعے کم، یعنی دواساز کمپنیاں اپنے وسائل زیادہ منافع بخش ذرائع کے لئے استعمال کرتے ہوئے بے پناہ پیسہ کما رہی ہیں۔ اسی دوران نجی دواساز اپنی اجارہ دار قوت استعمال کرتے ہوئے ریاست سمیت کسی کو بھی نئی دوائیوں کی تحقیق و تکمیل کی اجازت نہیں دیتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو سرمایہ دار بیش بہا منافع کما رہے ہیں تو دوسری طرف منڈی میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ COVID-19 جیسی وباؤں کا سدِ باب کر سکے۔
تضاد ات اور بحران
نجی سیکٹر کی عدم دلچسپی کے باعث ریاست نے کئی مرتبہ کوشش کی ہے کہ تحقیق و تکمیل کو پروان چڑھایا جائے۔ اگرچہ پچھلے کچھ سالوں میں ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں ریاستی تحقیق کی فنڈنگ زیادہ ہوئی ہے لیکن یہ ابھی بھی خوفناک حد تک کم ہے۔ مثلاً امریکہ میں یہ صرف 5 فیصد ہے۔ اور دواساز کمپنیوں کی دیو ہیکل اجارہ دای کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومتی اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق مروڑ سکتے ہیں اگر ان کے منافعوں میں کوئی رکاوٹ آئے۔ ریاست سرمائے کے تابع نہیں بلکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔
آخری مرتبہ امریکی حکومت نے1976ء میں Swine Flu کے قومی ویکسین پروگرام کو منظور کیا تھا۔ چار دواساز کمپنیوں Merck کی Sharp & Dohme، Merrell، Wyeth اور Parke-Davis نے حکومت کو 100 ملین ویکسین بیچنے سے انکار کر دیا تھا جب تک ریاست اس کا پورا معاوضہ اور منافعوں کی گارنٹی دینے پر مجبور نہیں ہو گئی۔ اور COVID-19 کی وباء پھوٹنے سے کچھ عرصہ پہلے Coalition for Epidemic Preparedness Innovation (CEPI) نے جاپان، جرمنی، کینیڈا وغیرہ سے 750 ارب ڈالر اکٹھے کئے تاکہ نئی وباؤں کے لئے ویکسین بنائی جا سکے۔ لیکن CEPI کے سائنسی مشاوراتی بورڈ میں موجود نجی دواساز کمپنیوں نے (جن میں Johnson & Johnson، Pfizer اور Takeda شامل ہیں)تنظیم کو مجبور کیا کہ وہ ”تمام ممالک کو CEPI فنڈ سے تخلیق کردہ ویکسین تک برابر اور سستی رسائی“ کا حق حاصل ہو گااصول سے پیچھے ہٹیں۔اس قدم سے سرمایہ داروں نے یقینی بنایا کہ اس فنڈ سے بنائی گئی کوئی بھی ویکسین کسی بھی بیرونی منڈی میں ان کے لئے انتہائی منافع بخش ہو گی۔
میڈیکل تحقیق کے راستے میں سب سے بڑی دو رکاوٹیں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی ارتقاء کی راہ میں حائل ہیں، قومی ریاست اور نجی ملکیت۔ پوری دنیا میں مختلف ممالک کی جانب سے کیے جانے والے معیشت کے لیے حفاظتی قدامات نے دوا ئیوں کی منڈی کو بھی متاثر کیا ہے جن میں مختلف ممالک انتہائی شدومد کے ساتھ اپنی جدید دواساز تحقیق کو چھپا رہی ہیں۔۔ ریاستی اور نجی فنڈنگ دونوں کے تحت۔ COVID-19 بحران میں یہ رجحانات اور بھی زیادہ شدت اختیار کر رہے ہیں۔ عالمی قائدین اپنی قومی سرحدوں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں اور اس وباء سے مقابلے کے لئے وسائل میں حصہ داری سے انکاری ہیں۔ حال ہی میں سربیا کے صدر نے یورپی اتحاد کی ”دیو مالا“ پر اظہارِ تاسف کیا ہے کیونکہ یورپی یونین کے قوانین ڈاکٹروں کی آزادنہ حرکت اور غیر یورو ممالک کو میڈیکل سپلائی فراہم کرنے کے خلاف ہیں۔ پھر اس نے سربیا کی سرحدیں ”غیر ملکیوں“ کے خلاف بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ درحقیقت یورو ممالک کے درمیان اتحاد بھی ٹوٹ چکا ہے اور جرمنی وہ پہلا ملک تھا جس نے اٹلی جیسے ممالک کو انتہائی ضروری فیس ماسک برآمد کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ 26 میں سے 21 Schengen ممالک نے اپنی سرحدویں بند کر دی ہیں جس کی وجہ سے یورپی یونین کا اپنا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ یہ پاگل پن ایک گلے سڑے نظام کا نتیجہ ہے جو ایسے وقت میں آپسی لڑائیوں میں الجھ پڑا ہے جب انسانیت کو سب سے زیادہ اتحاد کی ضروت ہے۔ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور عالمی ہم آہنگی کے بغیر وباؤں کا مقابلہ کرنا شدید مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔
حال ہی میں برطانیہ کی شیفیلڈ یونیورسٹی کے طلباء نے برطانوی مریضوں سے کورونا وائرس کا پورا جینیاتی نقشہ اخذ کر لیا ہے اور جلد ہی وہ یہ تحقیق منظرِ عام پر لے آئیں گے۔یہ حیرت انگیز کامیابی یونیورسٹیوں کو ریاست فنڈنگ کا نتیجہ ہے۔ لیکن اب ایسی تحقیق کی بنیاد پر ایک ویکسین بنانے کی دوڑ لگ گئی ہے اور کئی حکومتیں اس حوالے سے خصوصی مراعات کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ اس غلاظت میں سب سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھلانگ لاگئی جب اس نے اپنے ”سب سے پہلے امریکہ“ قول پر عمل کرتے ہوئے ایک جرمن بائیو دواساز کمپنی CureVac کو COVID-19 ویکسین کی سند حقِ تحفظ اور اینٹی وائرل ایجنٹس کے لئے ”بے تحاشہ پیسوں“ کی آفر کی۔ جرمن حکومت نے اس امریکی آفر پر اپنی ایک آفر پیش کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے ایک بولی کی جنگ شروع ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں قومی ہیلتھ سروسز اور کروڑوں لوگوں کو فاتح کی متعین کردہ قیمت پر ویکسین خریدنی پڑے گی۔
منصوبہ بند عالمی معیشت کے تحت پوری دنیا کے وسائل کو COVID-19 کی ویکسین اور موثر علاج تخلیق کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سرمایہ دار ممالک کے مخالف مفادات اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ان مفادات سے بالاتر ہونے کی کوششوں کو کچھ زیادہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوئیں۔مثلاً WHOکے زیرِ انتظام ایک ادارہ Pandemic Influenza Preparedness Framework (PIP) ہے جو مختلف ممالک کے درمیان میڈیکل تحقیق کی حصہ داری کو یقینی بناتا ہے۔ لیکن مختلف حکومتوں اور دواساز صنعت کے دباؤ کی وجہ سے اس کا اطلاق influenza کے علاوہ کسی اور چھوت کی بیماری پر نہیں ہوتا۔ درحقیقت WHO خود اپنے بلندوبانگ اصولوں کا محض ایک سایہ بن کر رہ گیا ہے۔ ٹرمپ نے اس کی نصف فنڈنگ بند کر دی ہے، آئے دن کرپشن کی افواہیں گرم رہتی ہیں اور ورلڈ بینک عالمی طور پر قومی صحت کے حوالے سے سب سے بڑا سرمایہ کار بن چکا ہے۔اس سے مشابہہ ادارے جیسے Centers of Disease Control and Prevention (CDC) کے بھی حالیہ سالوں میں بجٹ کم کر دیے گئے ہیں جو پھر خود عالمی منڈیوں میں خود حفاظتی رجحانات کا شاخسانہ ہے۔
پھر نجی سیکٹر کی میڈیکل کمپنیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی اشیاء (چاہے وہ ان کی تخلیق ہوں یا منڈی سے خریدی گئی ہوں)ان کی ذاتی ملکیت ہیں جن کی افادیت عوامی صحت کے بجائے منافع خوری میں ہے۔ حال ہی میں ایک نجی کمپنی نے دھمکی دی کہ وہ ان دو رضاکاروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے جو 3-D پرنٹنگ کے ذریعے وینٹی لیٹر والو ز بنا کر 10 ہزار ڈالر کی منڈی قیمت کے بجائے 1 ڈالرمیں فروخت کر رہے تھے۔ اس قسم کی نجی سیکٹر بدمعاشی پوری عالمی دواساز منڈی میں معمول ہے۔ مثلاً 1994ء کی Agreement on Trade-Related Aspects of Intellectual Property Rights (TRIPS) کے مطابق تمام کمپنیوں کو کسی بھی WTO ملک میں اپنی کوئی جنس بیچنے کے بدلے میں IP حقوق کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان میں دواساز کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ یہ غریب ممالک کے لئے ایک شدید مسئلہ ہے جہاں انتہائی اہم دوائیاں نجی کمپنیوں کی ملکیت ہیں، جن کی بے پناہ گراں قدری کی منڈی قیمت ادا نہیں کر سکتی اور جو مقامی طور پر سستی اخذ کردہ دوائیاں بنانے کی شدید مخالفت کرتی ہیں۔اس حوالے سے 2001ء میں (WHO کی ایما پر)Doha Declaration on TRIPS and Public Health۔۔ جس میں تمام WTO ممبر ممالک نے رضا مندی ظاہر کی۔۔نے اعادہ کیا کہ عوامی صحت کو IP حقوق پر ہمیشہ فوقیت رہے گی۔ لیکن 2019ء میں Oxfam کے مطابق ”امیر ممالک اور دواساز کمپنیوں نے Doha Declaration کو نظر انداز کرتے ہوئے ترقی پذیر دنیا میں IP حقوق کے حوالے سے فری ٹریڈ معاہدوں اور یکطرفہ دباؤ کے ذریعے اور بھی شدید اطلاق کو یقینی بنانے کا متشدد ایجنڈہ روا رکھا ہے“۔ مختصراً طاقت ور ممالک ہمیشہ کمزور کو پیس ڈالتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کے حقوق ہمیشہ انسانی ضرورت پر حاوی رہیں گے۔
حال ہی میں برطانوی حکومت کی جانب سے ایک اعلامیے نے غیر ارادی طور پر اس وباء کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے نام نہاد آزاد منڈی کی نااہلی عیاں کر دی۔ ٹوری حکومت نے 80 متوازی دوائیوں (جن میں Aluvia, adrenaline اور morphine شامل ہیں) کی متوازی برآمدگی پر نجی کمپنیوں کی جانب سے سٹہ بازی کی وجہ سے پابندی لگا دی ہے جو ان دوائیوں کو برطانیہ سے سستا خرید کر، ذخیرہ اندوزی کر کے بیرونِ ملک مہنگا بیچنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس پورے کھلواڑ کو اس لئے نہیں روکا گیا کہ اخلاقی طور پر یہ ناقابلِ قبول ہے بلکہ حکومت خوفزدہ تھی کہ اس وجہ سے ”ترسیل کے مسائل اور زیادہ گھمبیر“ ہو جائیں گے۔یہ بھی سامنے آیا ہے کہ امریکی کمپنی Rising Pharmaceuticals نے 23 جنوری کو chloroquine (ملیریا کے لئے دوائی جس کے COVID-19 کے خلاف ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں) کی قیمت بڑھا دی جب چین میں وباء کے پھیلاؤ کے حقائق منظر عام پر آنا شروع ہو گئے۔ 250گرام گولی کی قیمت 97.86 فیصد اضافے کے ساتھ 7.66 ڈالر جبکہ 500 گرام گولی کی قیمت 19.88 ڈالر کر دی گئی۔ اگرچہ عوامی اور ذرائع ابلاغ کے شدید ردِ عمل کی وجہ سے انہیں یہ اضافہ واپس لیتے ہوئے دوائی کی قیمت منڈی کے ”معمول“ پر واپس لانی پڑی لیکن Rising کو پہلے بھی قیمتوں میں ہیرا پھیری پر جرمانہ ہو چکا ہے اور یہ واضح ہے کہ وہ کروڑوں افراد کی صحت داؤ پر لگا کر دیو ہیکل منافع کمانے کے چکر میں تھے۔
کورونا وباء کے حوالے سے نہ یہ کوئی پہلا واقع ہے اور نہ ہی یہ آخری ہو گا۔
اس کا موازنہ کیوبا میں Interferon alfa 2b کی پیداوار اور تقسیم سے کریں جس کی تکمیل 1986ء میں ریاستی کمپنی BioCubaFarma نے چین کے ساتھ اشتراک سے کی۔یہ دوائی کورونا وائرس کی کچھ علامات کا سدِ باب کر سکتی ہے اور چین میں 1500 مریضوں کے حوالے سے اس کے مثبت نتائج آئے ہیں۔ کیوبا نے بھاری مقدار میں یہ دوائی اٹلی جیسے شدید متاثرہ ممالک میں فراہم کی ہیں۔ کئی کیوبن ڈاکٹروں کی ٹیمیں درجنوں ممالک میں اس وباء سے لڑنے کے لئے بھیجی جا چکی ہیں۔ یہ فوقیت کی واضح مثال ہے کہ کیسے ایک چھوٹے سے جزیرے میں منصوبہ بند معیشت کے تحت ایک ایسی وباء کے لئے موثر علاج بنایا جا سکتا ہے جو دنیا کے طاقت ور ترین سرمایہ دارانہ ممالک کو دھول چٹا رہی ہے اور مفت میں سائلین کے لئے میڈیکل وسائل متحرک کئے جا سکتے ہیں۔اسی طرح جہاں منافعوں کی بھوکی دواساز کمپنیوں نے Alzheimer جیسی پیچیدہ بیماریوں کے لئے دوائیوں کی تحقیق بند کر دی ہے وہیں کیوبا کی ریاستی میڈیکل تحقیق نے ALzheimer اور HIV کے علاج میں دلچسپ پیش رفت کی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ کی تجارتی پابندیوں کی وجہ سے یہ زندگی بچانے کے قیمتی علاج ان افراد تک نہیں پہنچ پائیں گے جن کو ان کی اشد ضرورت ہے اور جو بھی ان پابندیوں کے برخلاف ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کا مطلب یہ ہے کہ 1960ء کی دہائی سے سنجیدہ جان لیوا بیماریوں کی ویکسین دریافت کرنے کے لئے درکار تحقیق و تکمیل التواء کا شکار ہے۔ انسانیت کے لئے عالمی وباؤں کا خطرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے (اس کی تفصیل پر آگے چل کر بات ہو گی) اور ان کا سدِ باب کرنے کے لئے ہمارے ہتھیار متروک ہوتے جا رہے ہیں۔ دواساز کمپنیاں اس انتہائی اہم شعبے کے منافعوں کو نجی اور خطرات کواجتماعی کر رہی ہیں۔ اور سرمایہ دار حکومتیں ان کی کھل کر معاونت کر رہی ہیں۔ حال ہی میں New York Times نے ایک چھوت کی بیماریوں کے ماہر کا انٹرویو لیا جس نے کہا کہ ”دواساز کمپنیوں کے لئے زیادہ اہم کیا ہے؟ تجارتی راز خفیہ رکھنا اور منافعوں کو بڑھاتے رہنا یا COVID-19 وباء کی روک تھام میں قائدانہ کردار ادا کرنا؟“ جواب واضح ہے۔ موجودہ وباء کے بحران سے بہتر اور کوئی دلیل ہو نہیں سکتی کہ ان خونخوار غیر پیداواری جونکوں کو جمہوری کنٹرول میں لے لیا جائے تاکہ ان کے دیو ہیکل وسائل کو بھلائی کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
غریب ترین کی خوفناک آزمائش
حال ہی میں COVID-19 نے غریب ترین ممالک کو متاثر کرنا شروع کیا ہے۔ صومالیہ اور تنزانیہ میں ابھی پہلے مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے۔ ایک اور مریض کی تشخیص غزہ کی پٹی میں ہوئی ہے۔ وائرس پھیلے گا اور اس پھیلاؤ کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ کیسے صومالیہ جیسا ایک ملک۔۔ جس کی مفلوج حکومت ہے اور رہائش اور نکاس کا نظام تباہ حال ہے۔۔ سماجی تفاصل کے اقدامات یا کھوئی اجرتوں کا ازالہ کر سکتے ہیں؟ ان کے صحت کے انفراسٹرکچر کیسے ہزاروں متاثر مریضوں کی دیکھ بھال کریں گے؟ اور ان غریب ممالک کے علاوہ ان ہزاروں مشرقِ وسطیٰ کے تارکینِ وطن کا کیا بنے گا جو یورپی کیمپوں میں موجود ہیں؟ جواب واضح ہے۔ کچھ سدِ باب نہیں ہو گا، کوئی میڈیکل ردِ عمل نہیں ہو گا۔ عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔
غریب ممالک میں یہ صورتحال بیماریوں کی روکھ تھام کے حوالے سے ہمیشہ ایسی ہی تھی۔
90 فیصد عالمی عوام کو لاحق بیماریوں پر خرچ ہونے والی عالمی میڈیکل تحقیق کا خرچہ 10 فیصد سے کم ہے۔ HIV/AIDS اور ٹی بی جیسی مہلک بیماریاں غریب ممالک میں پلتی پنپتی ہیں۔ گرم علاقوں کی بیماریاں ہر سال 5 لاکھ افراد کو قتل کر دیتی ہیں۔ اور اگر دواساز کمپنیوں کو ترقی یافتہ ممالک کے لئے دوائیاں بنانے میں کم منافع نظر آتا ہے تو انہیں غریب ممالک میں تو بالکل بھی نظر نہیں آتا۔
International Federation of Pharmaceutical Manufacturers کے سربراہ ڈاکٹر ہاروی بیل جونیئر کا کہنا ہے کہ ”غریب دنیا میں کوئی قابلِ ذکر منڈی موجود نہیں“۔Medecins Sans Frontieres کے ڈاکٹر برنارڈ پیکول کا کہنا ہے کہ منافعوں کے حصول کی ہوس سے ”آپ کی توجہ امیر ممالک کی 30 سے 40 کروڑ عوام پر ہی مرکوز رہتی ہے“۔یہ واضح مثال ہے کہ کس طرح منافعوں کے لئے پیداوار ضرورت سے متصادم ہے۔
مثال کے طور پر 1990ء کی دہائی کے اختتام پر ٹی بی کا جینیاتی نقشہ بن چکا تھا۔ دنیا کے غریب ترین ممالک میں ٹی بی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ 1998ء میں WHO نے ایک سربراہی کانفرنس منعقد کی تاکہ چوٹی کی کمپنیوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے ایک ویکسین اور علاج بنایا کو سکے لیکن کوئی بھی کمپنی ایسے منصوبے پر ام کرنے کو تیار نہ ہوئی جس میں ممکنہ منافع سالانہ یا پانچ سال یا اس ست زیادہ عرصے کا تقریبا ً 350 ملین ڈالر تھا۔ مثال کے طور پر افریقی ممالک میں اس علاج کی ایک گولی کی قیمت 11 ڈالر بنتی تھی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ہر افریقی شہری پر اخراجات 10 ڈالر سے بھی کم تھے۔ مختصراً نجی دوا ساز کمپنیوں نے اپنے کوئی بھی وسائل غریب ممالک کی عوام کی تکالیف ختم کرنے سے بروئے کار لانے سے انکار کر دیا۔ اس منصوبے کو ترک کر دیا گیا۔ اور تحقیق و تکمیل میں سرمایہ کاری میں کمی کے ساتھ کئی نجی کمپنیوں نے ترقی پذیر ممالک کے لئے موجود اہم دوائیوں کی پیداوار جن افریقی sleeping sickness کے لئے پانچ دوائیاں، leishmanisasis بیماری کے لئے aminosidine اور یہاں تک کہ پولیو ویکسین بھی ترک کر دی ہے۔ بیماری کے خلاف جدوجہد کے بجائے سرمایہ داری درحقیقت ہمیں پتھر کے زمانے کی جانب گھسیٹ رہی ہے۔
WHO اور G8 جیسے عالمی اداروں نے غریب ممالک میں سرمایہ کاری کے لئے نجی سیکٹر کو Advanced Market Commitments (AMC) کے ذریعے رغبت دینے کی کوششیں کی ہیں جن میں ترقی یافتہ ممالک دوائیوں کو قابلِ خریداری بنانے کے لئے ان کی قیمتوں کا ایک حصہ برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ متبادل کے طور پر امریکی Food and Drug Administration (FDA) کی جانب سے پیشکش ہے کہ نظر انداز بیماریوں کے لئے موثر دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کو جاچ پڑتال میں ترجیح دی جائے گی۔ لیکن ان تمام حوصلہ افزائیوں کے باوجود وہ ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ ان کی جانب سے پیشکش ”دلچسپ“نہیں ہوتی یا پھر دواساز کمپنیوں نے نظام میں کھلواڑ بہتر کر کے کمائی کے زیادہ بہتر ذروئع تلاش کر لئے ہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ بالا پیشکش کو استعمال کرتے ہوئے Novartis کمپنی نے ملیریا کے خلاف دوائی Coartem امریکیFDA کے ساتھ رجسٹریشن کرواکر 321 ملین ڈالر اضافی کمائے جبکہ ہر جگہ یہ دوائی بکثرت استعمال ہو رہی تھی۔
نجی دواساز کمپنیوں کو ترقی پذیر ممالک میں صرف ایک ہی کشش نظر آتی ہے۔ اور وہ یہ کہ دوا سازی میں سب سے بڑا خرچہ دوائی کے ٹرائل میں آتا ہے اور یہ کام غریب ممالک کو دیو ہیکل عوامی لیبارٹریاں بنا کر انتہائی سستے داموں کرایا جا سکتا ہے۔ ان ٹرائلز کو انڈیا جیسے ممالک میں اور بھی سستا کیا جا سکتا ہے جہاں ٹرائلز نے ایک منڈی پروان چڑھا دی ہے۔ پھر ٹرائلز ایسے ممالک میں کرا کر جہاں قوانین کمزور ہیں اور مجبور افراد لیباٹری چوہے بننے کو تیار، یہ کمپنیاں اخلاقی معیار اور مریضوں کی رضامندی جیسے مسائل سے بھی جان چھڑا لیتی ہیں۔
کچھ غریب ممالک نے دوائیوں کی گراں قدری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اپنی دواسازی اور پھیلاؤ شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے لیکن اس کی وجہ سے قومی قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ان کوششوں کو Pharmaceutical Manufacturers’ Association (دواساز صنعت کے مالکان کی تنظیم) نے ہر موڑ پر سبوتاژ کیا ہے جن کا خیال یہ ہے کہ یہ کوششیں ”ان کے آزاد منڈی حقوق کی راہ میں راکوٹ ہیں“۔ 2008 ء سے 2018ء تک ایک Intergovernmental Working Group on Public Health, Innovation and Intellectual Property Rights (IGWG) نے کوشش کی کہ غریب ممالک کے حوالے سے تحقیق و تکمیل کا ایک ایسا عالمی نظام بنایا جائے جو ان کے مسائل سے مطابقت رکھتا ہو۔ لیکن اس کی سفارشات کو سامراجی ممالک اور نجی دواساز سیکٹر کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ Oxfam کی ایک تنقیدی رپورٹ میں صورتحال کا بخوبی جائزہ لیا گیا کہ ”میڈیکل جدت میں کمی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے لئے وسائل میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہوئے ان کے موثر اور مربوط اطلاق کی ضرورت ہے۔ تحقیق و تکمیل کا موجودہ نظام تمام ممالک میں موجود صلاحیتوں، ہنر اور وسائل کو بروئے کار نہیں لاتا۔ پوری ترقی پذیر دنیا میں تحقیق و تکمیل بکھری ہوئی، غیر مستحکم اور کسی بڑی تبدیلی کے امکانات سے عاری ہے“۔
Oxfam اور IGWG کی شکایات کے باوجود آپ سرمایہ داروں کی نیک پروری سے اپیل کر کے سرمایہ داری کے قوانین کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی منافع بخش منڈی موجود نہیں تو وہ سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ جس قسم کی اصلاحات تجویز کی جا رہی ہیں ان کے لئے موجودہ نظام سے واضح ناطہ توڑنا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ ترقی پذیر دنیا میں جان لیوا بیماریوں کی ویکسین تیار کرنے کے عمل کا ترقی یافتہ دنیا میں ویکسین اور علاج کی تکمیل میں انتہائی مثبت اثر پڑے گا۔ لیکن منڈی کا نظام فوری منافع جانتا ہے۔ انسانی زندگیاں محض کھوٹے سکے ہیں۔
بیماریاں غریب دنیا کو غریب بھی رکھتی ہیں۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں HIV/AIDS (اس کا آغاز غیر قانونی گوشت کی منڈی میں بن مانس سے انسان میں وائرس کی منتقلی کے ذریعے ہواجس کا آغاز خوفناک قحطوں کی پیداوار تھا) نے ترقی پذیر ممالک کو درانتی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ اس وباء کی وجہ سے اس وقت 12 کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق 1991ء میں HIV/AIDS پر تنزانیہ کا 4 فیصد، مالاوی کا 7 فیصد، روانڈا کا 9 فیصد، بورونڈی کا 10 فیصد اور یوگینڈا کا 55 فیصد شعبہ صحت کا بجٹ خرچ ہو رہا تھا۔ پھر افریقہ اور لاطینی امریکہ میں سامراجی مداخلت سے جنگوں اور کُوکے لامتناہی سلسلے نے پہلے ہی تباہ حال صحت کے انفراسٹرکچر کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں ورلڈ بینک کی طرف سے بیماریوں کی روک تھام اور صحت پر اخراجات زیادہ کرنے کے شرمناک دباؤ کو ویسے ہی IMF جیسے اداروں کو دیو ہیکل قرضے واپس لوٹانے کی وجہ سے ترک کر دیا گیا ہے۔ سامرج نے نہ صرف نوآبادیاتی نظام، استحصال اور جنگوں کے ذریعے ان ممالک کو تباہ و برباد کر دیا ہے بلکہ بیماریوں کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب وہ COVID-19 جیسی وباؤں کے سامنے بالکل بے سروسامان ہیں۔
ماحولیات اور زراعت کی تباہی: بیماریوں کی آماجگاہ
اگرچہ COVID-19 کا عین آغاز تو معلوم نہیں لیکن اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ پچھلے سال جانوروں سے انسانوں میں چین کے صوبے ہوبے کے دارالحکومت وہان میں منتقل ہوا اور نئے چینی سال کے دوران پورے ملک اور دنیا میں پھیل گیا۔ یہ 2003ء میں SARS سے مشابہہ ہے جو گوانڈونگ صوبے میں ایک زندہ جانوروں کی منڈی سے منتقل ہونے والا ایک تبدیل شدہ شکل کا کورونا وائرس تھا۔ ان دونوں وباؤ میں ”فطری“ پھوٹ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ درحقیقت یہ سرمایہ دارانہ خون آشام پیداوار کا منطقی نتیجہ ہیں جو جانوروں میں انتہائی خطرناک بیماریوں کے پلنے اور انسانی آبادی میں پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہے۔
حالیہ سالوں میں وباؤں کے بڑھتے پھیلاؤ کو جزوی طور پر ماحولیات کی سرمایہ دارانہ تباہی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ 1940ء سے اب تک کئی سو مہلک جرثومے منظر عام پر آ چکے ہیں جن میں HIV اور Ebola افریقہ میں، Zika لاطینی امریکہ میں شامل ہیں۔ان میں سے دو تہائی سے زیادہ سدھائے جانوروں کے بجائے جنگلی جانوروں میں پائے جاتے ہیں۔ درختوں کی کٹائی، شہروں کے پھیلاؤ، سڑکوں کی تعمیر اور کانکنی کے ذریعے جنگلوں کی تباہی سے جنگلی جانوروں کی رہائش تباہ و برباد ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے جنگلی جانوروں اور انسانوں میں براہِ راست رابطہ بڑھ جاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ مہلک جرثومے جو بغیر نقصان کے جنگلی جانوروں کے جسم میں موجود ہوتے ہیں وہ ہم میں امڈ آتے ہیں۔ ماحولیاتی بیماریوں کے ماہر تھامس گیلیسپی نے Scientific American کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ”میں کورونا وائرس وبا سے بالکل حیران نہیں ہوا۔ بے تحاشا جرثوموں (جو جنگلی جانوروں کی جسم میں رہتے ہیں)کی دریافت ابھی باقی ہے۔ ہم تو ابھی بالکل سطح پر کھڑے ہیں“۔
مثال کے طور پر 2017ء کی Ebola وبا کا آغاز چمگادڑوں سے ہوا جو جنگلوں کی تباہی کے بعد زرعی زمینوں میں موجود درختوں اور گھروں میں مسکن بنانے پر مجبور تھیں۔ یہ جانور بار بارکاٹنے، فضلہ مادہ یاغیر رسمی ”زندہ منڈیوں“ میں بطور گوشت کے استعمال کی وجہ سے۔۔جہاں جانوروں کی مختلف اقسام آپس میں ایک جگہ غیر فطری طور پر موجود ہوتی ہیں جو فطری طور پر کبھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں نہیں آتیں۔۔ انسانوں سے میں حیوانی جرثوموں کو پھیلانے کی وجہ بن رہے ہیں۔ یہ منڈیاں افریقہ اور ایشیاء میں غریب عوام کی گوشت تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن گیلیسپی کے مطابق یہ ”جرثوموں کی ایک جانور کی قسم سے دوسرے جانور میں منتقلی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ جب بھی ایک جگہ پر کئی اقسام کا انوکھا رابطہ ہو گا، چاہے وہ کوئی فطری جگہ ہو جیسے کوئی جنگل یا پھر ایک زندہ جانور مارکیٹ، جرثومے ایک قسم سے دوسری میں منتقل ہو سکتے ہیں“۔ یہی سب اس میوٹنٹ کورونا وائرس میں ہوا جس نے SARS وباء پھیلائی اور ممکن ہے COVID-19 کا بھی باعث ہو۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ وائرس نے ایک چمگادڑ یا پینگولین کے ذریعے پہلے 55 سالہ انسان کو متاثر کیا۔
لیکن یہ ایسی کیفیت ہے جس میں خطرناک جرثومے جانوروں سے منتقل ہو سکتے ہیں۔ صنعتی زراعت میں لاکھوں افراد تنگ جگہوں پر ٹھونسے جاتے ہیں جرثوموں کو خطرناک بننے کے لئے بہترین سازگار ماحول فراہم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پر Bird Flu جنگلی مرغابیوں سے منتقل ہوا تھا۔ لیکن جبinfluenza مرغیوں کی صنعت میں پہنچتا ہے تو وہ ساری مرغیوں کو برباد کرنے کے بعد جلد ہی اپنی ہیت تبدیل کر کے زیادہ خطرناک بن جاتا ہے۔ یہ وجہ تھی جس میں خوفناک avian influenza کی قسم H5N1 کا جنم ہوا جو انسانوں پر اثر انداز ہو کر انہیں قتل کر دیتا ہے۔ پھرجانور کی ایک قسم کی زیادہ سے زیادہ بڑھوتری کی کوششیں ایک ایسی صنعتی زراعت کو جنم دیتی ہے جس میں ایک ہی قسم کے جانور کی افزائش کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال جرثوموں کی انتہائی خطرناک اشکال کی ترویج کے لئے بہترین سازگار ماحول بنا دیتی ہے۔ مثال کے طور پر Swine flu کا جنم سوؤروں کی صنعتی زراعت سے ہوا۔۔حالانکہ سوؤروں کی صنعت نے WHO پر دباؤ ڈالا کہ اس وائرس کو اس کے سائنسی نام H1N1 سے پکارا جائے تاکہ اس صنعت سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ کچھ سائنسدانوں کی جانب سے یہ بھی تھیوری پیش کی گئی ہے کہ سوؤروں کی صنعت میں novel coronavirus کا بھی جنم ہوا ہے۔
یہ مسائل تمام ترقی یافتہ صنعتوں میں زراعت کے شعبے کو متاثر کرتے ہیں اور امریکہ اور یورپ میں کھانے کی پیداوار نے H5N2 اورH5Nx influenza کو بھی جنم دیا ہے جن کے حوالے سے امریکی عوامی صحت کے نمائندوں نے خاموشی سے کام لیا ہے۔ لیکن یہ کوئی حادثہ نہیں کہ پچھلے کئی سالوں میں خطرناک وباؤں کا جنم چین سے ہوا ہے۔ یہاں بھی الزام سرمایہ دارانہ پیداوار کو ہی جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چینی معیشت کی تیز تر ترقی نے پورے ملک کو وباؤں کا مسکن بنا دیا ہے۔ راب والیس کی کتاب Big Farms Make Big Flu: Dispatches in Influenza میں چین میں avian flu پر تحقیق کی گئی ہے۔ اس نے بیان کیا ہے کہ کس طرح 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں پورے ملک نے جدیدتقازوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے گوانگڈونگ جیسے صوبوں میں صنعتی زراعت کو ترویج دی جہاں 1997ء میں H5N1 کا پہلا واقعہ رونما ہوا۔ Charoen Pokphand (CP) جیسی غیر ملکی کمپنیوں کو گوانگڈونگ میں عمودی آپریشنز کے ذریعے سیٹ اپ لگانے کی دعوت دی گئی جن میں جانور، ان کی خوارک اور پراسیسنگ ایک ہی زرعی فارم میں ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مرغیوں اور بطخوں کی افزائش میں دیو ہیکل اضافہ ہوا۔ امریکی طریقہ کار سے تیز تر زراعتی تکنیک کے ذریعے (اور بھی زیادہ نرم قوانین کے ساتھ)منڈی کی مانگ اور ہوشرباء منافعوں کو پورا کیا گیا اور بے پناہ مسابقت کی وجہ سے کسانوں کی دیہی زراعت تباہ و برباد ہو گئی جس کے بعد ان صوبوں میں دیو ہیکل اندرونی ہجرت دیکھنے میں آئی۔ یہ ایک قسم کے جانوروں کی زراعت شدید گنجان آبادیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ہوبے چین کا چھٹا سب سے بڑا مرغیاں پیدا کرنے والا صوبہ ہے جس کی آبادی 5 کروڑ 85 لاکھ ہے۔ COVID-19 کا آغاز جیسے بھی ہوا ہو لیکن ہوبے صوبہ پھٹنے کو تیار ایک ٹائم بم تھا۔
CP جیسی کمپنیوں کی دیو ہیکل سرمایہ دارانہ قوت (جو چین میں پیدا ہونے والی سالانہ 2.2 ارب مرغیوں میں سے 60 کروڑ مرغیاں بیچتی ہے)ایشیاء میں بے پناہ سیاسی قوت بن جاتی ہے جسے ان کے ہی اقدامات سے پیدا ہونے والی وباؤں کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلی bird flu وباء میں CP تھائی لینڈ کے ٹیلی کام ٹائیکون وزیرِ اعظم تھاکسن شنا واترا کے بڑے حامیوں میں سے ایک تھی جس نے وعدہ کیا کہ وہ ملک کو ”ایک کاروبار“ کی طرح چلائے گا اور اس کے دور میں مزدوروں کے حقوق پر دیو ہیکل حملوں کے ساتھ تھائی معیشت کی کثیر لبرلائزیشن ہوئی۔ جب تھائی لینڈ میں وباء شرع ہوئی تو شیناواترا نے bird flu کے پھیلاؤ کو روکنے کے خلاف پرزور کاوشیں شروع کر دیں۔ درحقیقت مرغیاں تیار کرنے والے پلانٹس نے پیداوار اور زیادہ بڑھا دی اور ٹریڈ یونینز نے رپورٹ دی کہ مرغیوں میں واضح بیماری موجود ہونے کے باوجود ایک فیکٹری کی روزانہ پیداوار 90 ہزار سے 1 لاکھ 30 ہزار کے درمیان رہی۔ شیناواترا اور اس کے وزیروں نے ٹی وی پر بیٹھ کر مرغیاں کھائیں تاکہ بتا سکیں کہ وہ مرغیوں کی صحت کے حوالے سے کتنے پراعتماد ہیں لیکن پسِ پردہ CP اور دیگر بڑے صنعتی زراعت کے کاروبار حکومت کے ساتھ ملی بھگت کر کے کانٹریکٹ پرکسانوں کو پیسے دے رہے تھے تاکہ وہ بیمار مرغیوں کے حوالے سے خاموش رہیں۔ بدلے میں حکومت نے صنعتی کسانوں کو ویکسین دیں جبکہ غریب کسانوں کو اندھیرے میں رکھا گیا یعنی انہیں اور ان کے جانوروں کو خطرے میں رکھا گیا۔ جب بحران کے دوران جاپان نے چین سے مرغیوں کی درآمد بند کر دی تو CP کی تھائی کمپنیوں نے کمی کو پورا کیا۔ نتیجہ میں اپنی ہی پیدا کردہ تباہی سے کمپنی نے اور بھی دیو ہیکل منافعے کمائے۔
شدید زراعت کا ایک اور نتیجہ (جس پر میں آگے چل کر تفصیلی بات کروں گا)جراثیم کش ادویات کے اثر سے مبراء جرثوموں کی پیدائش ہے۔ جراثیم کش انقلابی میڈیکل سائنس کی دریافت کے بعد یہ پتہ چلا کہ مہنگے مویشی ان ادویات کی وجہ سے زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے جن مویشیوں کو یہ علاج مہیا کیا جاتا ہے اس وجہ سے عالمی طور پر بیکٹیریا پر دگنا دباؤ پڑ جاتا ہے کہ وہ ارتقائی منازل تیزی سے طے کرتے ہوئے مزاحمت پیدا کریں جس وجہ سے پہلے ہی موجود عوامی صحت کا تباہ کن مسئلہ اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے۔
مختصراً جانوروں اور ماحولیات پر پڑنے والے بے پناہ دباؤ کی وجہ سے انتہائی خوفناک صورتحال جنم لے چکی ہے جس میں انسانوں کو منتقل ہونے والے جرثومے تیزی کے ساتھ ارتقاء کرتے ہوئے پھیل رہے ہیں۔ اس سارے معاملے کے مدِ نظر اینگلز کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں جو اس نے ’’فطرت کی جدلیات‘‘ میں لکھے تھے کہ ”ہمیں۔۔ ماحولیات پر انسانی فتوحات کی بناء پر کچھ زیادہ خوش فہم نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہر ایک فتح کے نتیجے میں قدرت ہم سے انتقام لیتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہر فتح سب سے پہلے وہ نتائج سامنے لے کر آتی ہیں جن کی ہمیں توقع تھی لیکن دوسری اور تیسری اثناء میں اس کے بالکل مختلف ان دیکھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو اکثر اوقات پہلے (نتائج) منسوخ کر دیتے ہیں“۔
یہ بات صنعتی زراعت میں جنم لینے والے جرثوموں کے حوالے سے بالکل درست ہے۔ لیکن جن مسائل کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کوئی بھی کھانے کی موثر پیداوار پر صادق نہیں آتی۔ ان سب کا جنم شدید زرعی تکنیک سے ہوتا ہے جس کا مقصد منافعوں کا ہوشرباء حصول ہے جو ان جانوروں کے حوالے سے انتہائی سفاک اور بے رحم ہیں جنہیں ہم کھاتے ہیں اور عوامی صحت کے حوالے سے شدید مضر ہیں۔ جانوروں کی ایک ہی قسم کی شدید افزائش کر کے انہیں جراثیم کش دوائیوں سے بھر کر زرعی فارموں میں ایک ساتھ ٹھونس کر جراثیم کے لئے بہترین سازگار ماحول فراہم کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ ایک منصوبہ بند معیشت میں ان تمام عوامل کو موثر، انسان دوست اور زیادہ سے زیادہ محفوظ اور سرمایہ دارانہ منافعوں کی ہوس سے بالاتر کیا جا سکتا ہے۔
”وباؤں کا پھوٹنا ناگزیر ہے، ان کا پھیلنا اختیاری ہے“
1994ء میں Pulitzer جیتنے والی صحافی لاوری گیرٹ نے The Coming Plague: Newly Emerging Diseases in a World Out of Balance کے نام سے ایک کتاب لکھی۔اس کے بعد 2001ء میں Betrayal of Trust: The Collapse of Global Public Health کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ ان دو کتابوں میں اس نے بیان کیا کہ ”عالمی ماحولایت کی انسانی تباہی، ایسے اسلوب جن سے جرثومے انسانوں کے درمیان اور جانوروں سے انسانوں میں پھیلتے ہیں، وباؤں میں عالمی بڑھوتری کو یقینی بناتے ہیں۔۔یہاں تک کہ ایک دیو ہیکل عالمی وباء کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ ان وباؤں کے پھیلاؤ میں نااہل شعبہ صحت، انسانی اسلوب اور پوری دنیا میں ان وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی اور معاشی وسائل کی مکمل عدم موجودگی کا بنیادی کردار ہے“۔ اگرچہ اس نے یہ الفاظ براہِ راست نہیں کہے لیکن یہ کتابیں سرمایہ داری اور اس کے عوامی صحت پر خوفناک اثرات کے حوالے سے خوفناک تنقید ہیں۔ 2018ء میں Global Preparedness Monitoring Board کی ایک رپورٹ میں گیرٹ کی خبرداری کی توسیع ہوئی جس کے مطابق ”ایک تیزمتحرک اور شدید خطرناک سانسوں کے جرثومے کی قاتل وباء کے خطرات حقیقی ہیں جو 5 سے 8 کروڑ افراد کو قتل کرتے ہوئے عالمی معیشت کا 5 فیصد ختم کر سکتی ہے“۔
رپورٹ کے مطابق ”2011ء اور 2018ء کے درمیان WHO نے 172 ممالک میں 1 ہزار 483 وبائیں مانیٹر کیں۔ وبائی بیماریاں جیسے influenza, sever acute respiratory syndrome (SARS)، Middle East respirtory syndrome (MERS)، Ebola، Zika، طاعون، yellow fever اور دیگر ایک نئے دور کی نشاندہی کرتے ہیں جس کا خاصہ ہے کہ یہ بیماریاں شدید اثرات اور تیز تر پھیلاؤ کے امکانات رکھتی ہیں جن کی زیادہ کثرت سے نشاندہی ہوتی ہے اور یہ زیادہ مشکل سے قابو کی جاتی ہیں۔پرائمری شعبہِ صحت، عوامی شعبہِ صحت، صحت کے انفراسٹرکچر اور چھوت کی بیماریوں کی موثر روکھ تھام کے نظام کے بغیر کوئی بھی ملک خوفناک نقصانات کا شکار ہو سکتا ہے جس میں اموات، ہجرتیں اور معاشی تباہی شامل ہیں“۔
دوسرے الفاظ میں موجودہ COVID-19 بحران ایک نئے دور کا آغاز ہے جس میں وبائیں عام ہوں گی اور ان کی وجوہات میں پہلے بتا چکا ہوں۔ دنیا اس صورتحال کے لئے بالکل تیار نہیں اور غریب ترین ممالک میں سب سے زیادہ تباہی مچے گی۔ نئے جرثوموں کی نموداری کے ساتھ اور کئی خطرات افق پر منڈلا رہے ہیں جن میں streptococcus اور staphylococcus کی جراثیم کش ادویات کے خلاف زیادہ شدید مزاحمت بھی شامل ہے۔ یہ مزاحمت ہسپتالوں میں جنم لی ہے کیونکہ عالمی جنگ کے بعد سے جراثیم کش ادویات پر انحصار بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی بیماریاں جیسے ٹی بی ایک بار پھر شدت کے ساتھ نیو یارک شہر میں ہارلیم جیسے غریب علاقوں میں نمودار ہو رہی ہیں اور ان میں جراثیم کش ادوایت کے خلاف مزاحمت بھی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں University of Calafornia نے پیش گوئی کی تھی کہ 2070ء تک دنیا اپنے تمام جراثیم کش اسلحے کو استعمال کر چکی ہو گی کیونکہ وائرس، بیکٹیریا، فنگس اور پیراسائٹ ارتقاء کر کے مکمل طور پر انسانی ادویات کے خلاف مزاحمت حاصل کر لیں گے۔اس قیامت خیز صورتحال سے بچا جا سکتا ہے اگر ویکسین اور علاج کے لئے تحقیق و تکمیل میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔ لیکن جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، یہ راہ بڑی دواساز کمپنیوں کے لئے زیادہ منافع بخش نہیں۔
مندرجہ بالا GPMB رپورٹ کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے گیرٹ اس میں دی گئی تجاویز کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں تھی (جن کا متن یہ تھا کہ حکومتوں اور نجی سیکٹر کو قائل کیا جائے کہ وہ تحقیق و تکمیل کی زیادہ فنڈنگ کریں)۔ اس نے لکھا کہ ”GPMB کی کاوشوں کو چھوٹا نہیں کرنا چاہتی لیکن میں انتہائی اداسی کے ساتھ کہتی ہوں کہ اس کا بنیادی پیغام کئی مرتبہ باآوازِ بلند پڑھا جا چکا ہے لیکن اس کے بہرے سیاست دانوں، سرمایہ داروں یا عالمی اداروں پر کچھ اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں کہ اس بار بھی نتیجہ کوئی مختلف ہو گا“۔
درحقیقت سرمایہ دارانہ بنیادوں پر صورتحال میں بہتری کے کوئی امکانات موجود نہیں۔ یہ بیماریاں خود اس نظام کی پیدا کردہ ہیں اور جدید سرمایہ دارانہ سماج میں معمولاتِ زندگی ان کے پھیلاؤ کے لئے بہترین سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ شہری زندگی نے دنیا کی 8 ارب آبادی کی اکثریت شہروں میں گنجان کر دی ہے جہاں بیماریاں معمول ہیں۔ اور عالمی طور پر عوام اور مصنوعات کے تحرک سے (جدید ٹرانسپورٹ کے ذریعے اور جنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے دباؤ میں)جرثومے پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ محض چند دنوں میں COVID-19 پوری دنیا میں پھیل گیا۔ ایسے عالمی مسئلے کا حل بھی عالمی ہے۔ لیکن جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، مختلف سرمایہ دار ممالک کے درمیان تضادات، بڑی دواساز کمپنیوں کے نجی سند حقِ تحفظ اور منافعوں کی بنیاد پر پیداوار وباؤں کے خلاف لڑنے کے لئے درکار منظم جواب دینے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری میں اٹھان کے دور میں عوامی صحت کے حوالے سے بہت زیادہ امیدیں تھیں۔ بہتر ہوتی رہائش اور نظامِ نکاس، جراثیم کش ادویات کی دریافت وغیرہ کا مطلب یہ تھا کہ عمروں میں حیران کن اضافہ ہو سکتا ہے۔ برطانیہ میں محنت کش طبقہ ایک جنگ جیت کر واپس آیا اور اس نے مطالبہ کیا کہ اصلاحات کی جائیں جن میں ایک National health Service کا قیام بھی تھی۔۔ پیچیدہ میڈیکل سہولیات کی مفت فراہمی۔ ڈاکٹر جوناس سالک کی پولیو ویکسین نے متاثرین کی شرح مغربی یورپ اور امریکہ میں 1955ء میں 76 ہزار سے کم کر کے1967ء میں 1 ہزار کر دی۔ 1978ء میں WHO نے 130 سے زیادہ ممالک کے وزرائے صحت کو سوویت یونین کے شہر الما آتا میں اکٹھا کر کے ایک دستاویز شائع کی (الما آتا اعلامیہ)جس میں اعادہ کیا گیا کہ ”پوری دنیا کے افرادسال 2000ء تک صحت کی اس سطح کو پہنچ جائیں گے کہ وہ ایک بہترین سماجی اور معاشی زندگی گزاریں گے“۔صحت کی تشریح کی گئی کہ یہ ”ایسی کیفیت جس میں مکمل جسمانی، نفسیاتی اور سماجی بہتری ہو، صرف بیماری یا کمزوری کی عدم موجودگی نہ ہو“ اور ”ایک بنیادی انسانی حق“ ہے۔لیکن آج ایک بنیادی انسانی حق ہونے کے بجائے معقول صحت کی سہولیات کروڑوں عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ اس دوران کئی سالوں کی گرتی سرمایہ کاری اور نجکاری نے میڈیکل تحقیق کو تقریباً ختم کر دیا ہے اور عالمی جنگ کے بعد جیتے گئے جمہوری حقوق صلب ہو چکے ہیں۔ حکمران طبقہ اس بحران سے انتہائی سفاکانہ مالتھوسیئن انداز میں نبرد آزما ہے جس میں انہوں نے کھلم کھلا سماج کی ”غیر پیداواری“ پرتوں کے COVID-19 کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے نتیجے میں ”مثبت معاشی اثرات“ پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
2008ء کے بعد لاگو ہونے والی جبری کٹوتیوں نے عوامی شعبہِ صحت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے جن کو کورونا وائرس نے انتہائی سفاکی سے بے نقاب کر دیا ہے۔ ہر جگہ ٹیسٹنگ کٹس (نجی پیداوار) کی کمی نے کورونا وائرس وباء کے پھیلاؤ کا احاطہ کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ مریضوں کے بستروں کی شدید کمی ہے۔ ریٹائر ہوئے شعبہِ صحت کے افراد کو واپس بلایا جا رہا ہے۔ برطانیہ جیسے ممالک نے آغاز میں وائرس کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے اور بعد میں یو ٹرن لے کر لاک ڈاؤن لاگو کر دیا۔ شروع میں روک تھا م کے بجائے ”تخفیف“ اور ”خطِ منحنی کو سیدھا“ کرنے کی باتیں کچھ تو کاروباروں کو بچانے کے لئے تھیں لیکن اس میں ایک عنصر یہ بھی تھا کہ شعبہِ صحت ایسی وباء کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا جو کچھ اندازوں کے مطابق آئیندہ سال بھی جاری رہے گی اور 80 لاکھ افراد کوہسپتال کی ضرورت ہو گی۔ اس دوران اطالوی شعبہِ صحت کی مرکزیت کے خاتمے اور پچھلے 30 سالوں کی کٹوتیوں نے نہ صرف ونٹی لیٹرز اور بستروں میں شدید کمی کی ہے بلکہ متاثر ترین ملک میں فیس ماسک اور سینیٹائزر بھی عدم دستیاب ہیں۔ شدید دباؤ کا شکار ہسپتالوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ زندگی اور موت کا فیصلہ عمر کی بنیاد پر کریں۔ شعبہِ صحت کے مزدور شدید دباؤ کا شکار ہیں اور اطالوی نرسوں کی بے ہوش تصاویر پوری دنیا میں گردش کر رہی ہیں۔ پھر یکے بعد دیگرے ہر ملک میں مالکان نے درکار حفاظتی اقدامات کرنے یا پیداوار روکنے سے صاف انکار کر دیا اور ہڑتالوں کے شدید دباؤ میں ہی انہوں نے کوئی اقدامات کئے۔ اور جہاں بھی سرمایہ دارحکومتوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے ے لئے مزدوروں کی تنخواہوں کے لئے پیسے دیے ہیں یا کچھ سیکٹر بچانے کے لئے ان کی ملکیت لے لی ہے وہاں پر بالآخر یہ مزدور طبقہ ہی ہی گا جو وقت آنے پر اس کی قیمت ادا کرے گا۔ سرمایہ داری نہ صرف نئی وباؤں کو یقینی بنائے گی بلکہ اس نے عوامی صحتِ عامہ کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں یہ کسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔
جیسا کہ چیچک کے خلاف جدوجہد کرنے ایک ماہرِ امراض لیری بریلینٹ نے کہا تھا کہ ”وباؤں کا پھوٹنا ناگزیر ہے، ان کا پھیلنا اختیاری ہے“۔ ضروری نہیں کہ یہ سب کچھ ہو۔ ایک منصوبہ بند معیشت میں انسانیت کی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سب سے خطرناک بیماریوں کے خلاف ویکسین بنائی جا سکتی ہے۔ پوری دنیا کے ہر ملک میں مفت عوامی ویکسین پروگراموں کے ذریعے Ebola کا اسی طرح خاتمہ کر دیا جائے گا جیسے چیچک کا کیا گیا تھا۔ ماحولیات کے بحران اور شدید زرعی تکنیک جن کی وجہ سے یہ جرثومے پروان چڑھتے ہیں انہیں ماحولایت کے ساتھ ہم آہنگ پیداوار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس میں انسانی اور مویشی فلاح کو منافعوں پر ترجیح دی جائے گی۔ کسی بھی نئے وائرس وباء سے مقابلہ کرنے کے لئے عالمی پیمانے پر لڑا جائے گا تاکہ وباء عالمگیر سطح تک نہ پہنچے۔ چھوت کی بیماریوں کے سدِ باب کے لئے تمام تحقیق اور وسائل کو بانٹا جائے گا اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے گا۔ نجی دواساز کمپنیوں کو ہوشرباء پیسے دینے کے بجائے ان کے دیو ہیکل آپریشنز کو ضبط کر کے جمہوری طریقہ کار سے ضرورت کے مطابق ویکسین بنائی جائیں گی۔مریضوں کے بستر حاصل کرنے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کے بجائے انہیں ضبط کر لیا جائے گا۔ ٹیسٹ اور قرنطینہ کے لئے سہولیات بنائی جائیں گی تاکہ ایمرجنسی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اور سرمایہ دارانہ مسابقت میں وسائل کی ذخیرہ اندوزی کے بجائے۔۔ اور عوامی صحت کی قیمت پر کاروباروں کو منافع بخش رکھنے کے بجائے۔۔ سوشلسٹ ممالک کی فیڈریشن وباؤں کے خلاف متحد جدوجہد کریں گی۔ غیر اہم پیداوار کو روک دیا جائے گا اور سماجی تفاصل کو جہاں ضروری ہوا لاگو کیا جائے گا۔ اور لاجسٹکس کو اس طرح پلان کیا جائے گا کہ شیلف بھرے ہوں، بنیادی اشیاءِ ضرورت کا وافر پھیلاؤ ہو اور کسی کو ذخیرہ اندوزی کی ضرورت نہ پڑے۔
جدید میڈیسن انسانی سماج کی قدرت پر شاندار فتح ہے۔ کم ازکم ترقی یافتہ ممالک میں ہماری طبعی عمر دگنی اور معیارِ زندگی میں دیو ہیکل بہتری ہوئی ہے۔ کوئی بھی ایسا جدید سماج جو عوام کی اچھی صحت اور وباؤں سے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتا تہذیب یافتہ نہیں۔ جہاں سرمایہ دار اور ان کے ٹوڈی عوامی صحت کے حوالے سے ایمرجنسی کے وقت محض کندھے اچکا کر کہہ دیتے ہیں کہ ”تمہارے پیارے مارے جائیں گے“ وہاں ایک سوشلسٹ سماج انسانیت کو اس اسلحے سے مسلح کرے گا جس کے ذریعے بیماریوں کے خلاف جنگ کی جا سکے گی۔ COVID-19 وباء کے خلاف سرمایہ دار ممالک کے سفاک نااہل ردِ عمل اور اس کے سماجی نتائج سے عوامی شعور میں معیاری تبدیلیاں آئیں گی۔ ابھی سے اٹلی، اسپین، پرتگال، فرانس، امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں بے ساختہ ہڑتالیں ہو رہی ہیں جہاں مالکان مزدوروں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ بیماری یا بیروزگاری میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ یہ محض آنے والے دنوں کی نوید ہے۔ ہم ایک دائمی بیمارنظام کے خلاف دیو ہیکل جدوجہد کے عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔