[Source]
اس وقت پوری دنیا کو ایک خوفناک تباہی کا سامنا ہے۔ لاکھوں نہیں شاید کروڑوں افراد کی جانیں خطرے کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ امیر ممالک میں بھی، جہاں صحت عامہ کا ایک جدید نظام موجود ہے، صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ لیکن غریب ممالک کو ناقابلِ تصور تباہی کا سامنا ہے۔
نائیجیریا یا ہندوستان کی اکثریت۔۔ یہاں ہم جنگی تباہی کے شکار شام، یمن یاصومالیہ کی بات نہیں کر رہے۔۔ گنجان آباد جھونپڑ پٹیوں میں رہتی ہے، جہاں صاف پانی یا صحت کی سہولیات کا کوئی تصور موجود نہیں۔ ان علاقوں میں ”سماجی تفاصل“ یا ”خود کار تنہائی“ کی بات کرنا ایک غلیظ مذاق ہے۔
اس صورتحال میں بددل اقدامات اور نظام میں بہتری کی کوششیں بیکار ہیں۔ صرف فیصلہ کن اقدامات ہی ممکنہ تباہی سے بچت کا واحد راستہ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کا قاتل بن چکا ہے۔ یہ واضح ہو رہا کہ یہ نظام کس قدر گل سڑ چکا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ عوام اب اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لیں۔
کرونا وبا نے تو بس پہلے سے پنپنے والے معاشی بحران کو ساری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ اب یہ عمل پوری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پوری دنیا کی اسٹاک مارکیٹیں منہدم ہو چکی ہیں۔
کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں جبکہ کروڑوں مزدوروں کی نوکریاں ختم ہو رہی ہیں۔ صرف امریکہ میں ہی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بیروزگاری کی شرح 20فیصد تک جا پہنچے گی۔ ہم کسی گردشی معاشی بحران کی بات نہیں کر رہے بلکہ اس گراوٹ کی بات کر رہے ہیں جیسی 1930ء کی دہائی میں رونما ہوئی تھی۔
ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ 1930ء کی دہائی انقلابات، ردِ انقلابات اور جنگ سے بھرپور تھی۔ آج ہم عسکری حوالے سے تو حالتِ جنگ میں نہیں ہیں لیکن تمام سیاسی پارٹیاں موجودہ صورتحال کو جنگ سے تشبیہ دے رہی ہیں۔ اور اگر یہ حالتِ جنگ ہے تو اس میں محنت کش طبقے کو بھی اسی حوالے سے متحرک ہونا پڑے گا۔
ابتدامیں تمام حکومتوں نے وباء کو اہمیت ہی نہیں دی۔ حکمران طبقے کی پہلی تشویش عوام کی صحت کی بجائے ہر قیمت پر پیداوار کو جاری رکھنا تھا۔ ان کا اولین مقصد جانوں کی بجائے بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کے منافعوں کا تحفظ تھا۔
یہی اور صرف یہی وہ واحد وجہ ہے جو انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کے حوالے سے مجرمانہ غفلت اورناکامی کو بیان کرتی ہے۔ اس نے انتہائی سفاکی سے امیر اور غریب، استحصالی اور استحصال زدہ کے درمیان حائل خلیج کو عیاں کر دیا ہے۔اب وہ بھاگم دوڑ کھوئے وقت کو مٹھی میں قید کرنے کی کوشش کر ہے ہیں۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ وائرس کو جنگل کی آگ بن کر پھیلنے کا موقع دیا جا چکا ہے اور اس کے پوری دنیا میں انسانی جانوں اور معیشتوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
محنت کش طبقے کو خوفناک صورتحال کا سامنا ہے کہ اس بحران میں کس طرح جسمانی اور معاشی طور پر زندہ رہا جائے۔ لاکھوں افراد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جلد ہی یہ تعداد کروڑوں میں ہو گی۔ جن مزدوروں کی اجرتیں ختم ہو گئی ہیں انہوں نے ابھی بھی اپنے خاندانوں کو پالنا ہے، کرایہ یا گھر کا رہن دینا ہے جبکہ ساتھ ہی بیمار نہ ہونے کی جدوجہد بھی جاری ہے۔
ہر ملک میں کروڑوں عوم لوگ، جو عام طور پر سیاست میں دلچسپی نہیں لیتے، شدید اضطراب میں خبریں دیکھ رہے ہیں، حکومت کے ہر قدم کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، ان کے مالکان کیا کر رہے ہیں اور بائیں بازو سے دائیں بازو تک، تمام سیاسی پارٹیاں کیا پروگرام دے رہی ہیں۔ اور بہت تیزی سے واضح ہو رہا ہے کہ کوئی بھی ضروری اقدامات کی بات نہیں کر رہا۔ ان حالات میں شعور بجلی کی تیزی سے تبدیل ہو سکتا ہے۔
یکے بعد دیگرے ممالک مختلف نوعیت کے لاک ڈاؤن میں جا رہے ہیں۔ عوام کو تلقین کی جا رہی ہے کہ غیر ضروری نقل و حرکت سے اجتناب کریں، بھیڑ میں نہ جائیں اور اگر کوئی علامات سامنے آئیں تو اپنے آپ کو تنہا کر لیں۔ لیکن ساتھ ہی کروڑوں مزدوروں کو کام پر جانے کا کہا جا رہا ہے، پرہجوم پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، کندھے سے کندھا ملا کر کام کرتے ہوئے وباء کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھایا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہیں لیکن ساتھ ہی یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ وہ وباء گھر لے جا کر اپنے خاندانوں کو بھی بیمار کر دیں گے اور اس کی صرف ایک ہی وجہ ہو گی۔۔ سرمایہ داروں کا دیو ہیکل منافع۔
اس وجہ سے عوام کا شعور ریڈیکل جست سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مزدور ابھی اور اسی وقت جواب چاہتے ہیں۔ سوال بالکل واضح ہے۔۔ کیا کیا جائے؟
سرمایہ داری صحت کے لیے مضر ہے!
بحران نے واضح کر دیا ہے کہ اربوں انسانوں کی صحت کو سرمایہ داری سے خطرہ ہے۔ ہر جگہ دہائیوں سے لاگو کٹوتیوں نے شعبہ صحت مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ جن ممالک میں سرکاری فنڈنگ پر مبنی صحت عامہ کا ملک گیر نظام موجود تھا، وہاں بھی کئی سالوں سے کٹوتیاں ہو رہی ہیں۔ شعبہ صحت کا بجٹ کم ہوتا ہوتا اتنا ہوگیا کہ وہ ناکارہ ہو کر رہ گیا۔ جبکہ کئی سروسز کو نجکاری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
یہ تمام اقدامات اس لئے اٹھائے گئے کیونکہ سرمایہ داروں کے نزدیک یہ ”غیر ضروری“ اخراجات ہیں۔ ہسپتالوں میں آئی سی یوز سمیت بستر کم کر دیے گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عوام کو نجی متبادل کی تلاش پر مجبور کیا جائے اور نجی میڈیکل کمپنیوں کے لئے انتہائی منافع بخش سرمایہ کاری کا شعبہ کھولا جائے۔
اسی دوران بڑی نجی دوا ساز کمپنیوں کو شعبہ صحت کا خون چوسنے کی اجازت دی گئی جس میں انہوں نے بیماروں، ضعیفوں اور کمزوروں کی لاچارگی سے دیو ہیکل منافعے کمائے۔اب یہ سب کچھ ختم کیا جائے! انسانوں کی صحت کو ذاتی مفادات کے تابع نہیں کیا جاسکتا۔ شعبہ صحت سے منافع کے عنصر اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نجی شعبہِ صحت کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے اور شعبہ صحت کو مکمل طور پر قومیایا جائے!
تمام نجی شعبہ صحت کے انفراسٹرکچر کو بغیر معاوضے کے قومیایا جائے اور اس انفراسٹرکچر کو قومی شعبہ صحت سے منسلک کیا جائے۔ صحت کے شعبے کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر اضافے کے لیے یہ اولین شرط ہے، تاکہ بحران سے مقابلہ کرنے اور عوام کو جدید ترین اور موثر سہولیات جن میں جدیدی ترین علاج اور دوائیاں سب کے لئے مفت دستیاب ہوں۔
ہسپتالوں میں بستروں کی کمی کو پورا کرنے لئے ہوٹلوں، خالی پر تعیش اپارٹمنٹس اور امراء کے محلوں کو فوری طور پر قومی تحویل میں لیتے ہوئے متاثرہ افراد کے لئے عارضی ہاسٹلوں میں تبدیل کیا جائے (یہ قدم عالمی جنگ میں برطانیہ میں اٹھایا گیا تھا)۔ اس کے ساتھ نئے ہسپتال بنانے اور صلاحیت کی بڑھوتری کا طویل معیاد منصوبہ بھی فوری طور پر مرتب کیا جائے۔اس کے لئے پیسے فوری طور پر دیوہیکل اسلحہ خریدنے کے بجٹ سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
فوری طور پر ایک ایمرجنسی پلان مرتب کیا جائے جس کے تحت ڈاکٹروں، نرسوں، ایمبولینس ڈرائیوروں، پیرامیڈیکل سٹاف اور جراحی، کلینکس اور ہسپتال چلانے کے لئے تمام درکار سٹاف کی بھرتی اور تربیت کی جائے۔ ان کو اچھی تنخواہ اور مناسب اوقات کار فراہم کیے جائیں بجائے موجودہ شرمناک صورتحال کے جہاں میڈیکل سٹاف کو کئی سالوں کی نام نہاد کٹوتیوں کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے سٹاف کی کمی پوری کرنے کے لیے جانوروں کی طرح کام کروایا جا رہا ہے۔
وہ کہیں گے کہ پیسے نہیں ہیں۔ لیکن تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ امراء کی جیبیں ہمیشہ پیسوں سے بھری ہوتی ہیں۔ پچھلی ایک دہائی میں محنت کش طبقے کے لئے کٹوتیاں تھیں لیکن نجی بینکاروں کو دیو ہیکل قومی پیسہ فراہم کیا گیا۔۔ وہی بینکار جن کی وجہ سے 2008ء کا بحران رونما ہوا تھا۔ اس وقت ایک مرتبہ پھر تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ بے پناہ قومی پیسہ بڑی نجی کمپنیوں پر نچھاور کیا جا رہا ہے جبکہ کروڑوں افراد خوف اور غربت میں پِس رہے ہیں۔
دیو ہیکل منافعے کمانے والی دواساز کمپنیوں کو فوراً قومیا کر قومی انفرسٹرکچر میں منسلک کیا جائے۔ ان کی تمام تحقیق کا مقصد و منشا، جس کے ذریعے یہ کمپنیاں دہائیوں سے پیسے بنا رہی ہیں، سماج کی ضروریات کی تکمیل ہونا چاہیے نہ کہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کے منافعے۔
تمام پیٹنٹس کو فوراً سامنے لایا جائے اور ان تک عوامی رسائی ممکن بنائی جائے تاکہ قومی حدود سے بالاتر ان سے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔ اس سے نئی ادویات سازی کی صلاحیت میں معیاری جست آئے گی اور ایک مرتبہ جب یہ دستیاب ہو جائیں تو پھر ان کو تمام قومی صحت کے شعبوں کو پیداواری قیمت پر فراہم کیا جائے نہ کہ ہوشربا قیمتوں پر جن پر آج اہم زندگی بچانے والی دوائیوں کو بیچا جا رہا ہے۔
اگر ہم ابھی سے یہ اقدامات کریں تو موجودہ بحران کے خوفناک ترین نتائج سے بچا جا سکتا ہے اور اس قسم کے ہر بحران سے مستقبل میں تحفظ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
محنت کش طبقے کا کنٹرول!
اگر سماجی تفاصل اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا ایک اوزار ہے تو پھر اس کو تمام شعبہ ہائے زندگی اور خاص طور پر تمام کام کی جگہوں پر لاگو کیا جائے۔ اگر یہ واقعتا ایک ہنگامی اور جنگی صورتحال ہے، جیسا کہ ہر حکومت بتا رہی ہے، تو پھر جنگی اقدامات بھی ضروری ہیں۔
مالکان ثابت کر چکے ہیں کہ وہ کوئی بھی ترقی پسند کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ریاست اور بورژوا سیاست دانوں کی حمایت کے ساتھ وہ محنت کشوں کو بلا تعطل کام پر مجبور کر رہے ہیں، یہاں تک کہ غیر لازمی شعبوں میں بھی۔ لیکن اس وجہ سے وائرس سے لڑنے کی کوششیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ اس لئے ہم پوری دنیا میں ہڑتالیں دیکھ رہے ہیں جن میں مزدور کام کے حالات سے پریشان ہیں کیونکہ یہ ان کے لئے اور ان کے پیاروں کے لئے جان لیوا ہیں۔ ایک سے زیادہ ملکوں میں (اٹلی، اسپین اور امریکہ) مزدوروں نے کامیابی سے کچھ صنعتیں بند کر دی ہیں چاہے وہ قلیل مدت کے لئے ہی ہوں۔
یہ واقعات محنت کش طبقے کی طاقت کو واضح کر رہے ہیں کہ منظم ہونے اور اپنی قوت کا ادراک ہونے کے کیانتائج ہو سکتے ہیں۔ مالکان کے لاپرواہ رویے پر مارکس وادی محنت کش طبقے کے کنٹرول کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ تما ہڑتالی کمیٹیوں کو مستقل فیکٹری کمیٹیوں میں تبدیل کر دینا چاہیے تاکہ مالکان اورمینجمنٹ کے اقدامات کو کنٹرول اور ضرورت پڑنے پر روکا جا سکے۔
تمام غیر اہم پیداوار کو فوری طور پر روکا جائے۔ تمام مزدوروں کو پوری تنخواہ کے ساتھ، جب تک ضرورت ہے، گھر بھیجا جائے۔ اس کا خرچہ مالکان اٹھائیں۔ اگر مالکان کہیں کہ ہم یہ خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تو فوری طور پر ان کے کھاتے کھول کر ٹریڈ یونینز اور مزدوروں کے نمائندوں کے سامنے پیش کیے جائیں۔ درحقیقت، بڑے کاروبار پیسوں کے انبار پر بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں فوری طور پر ان افراد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جن کی محنت کا یہ سب کچھ ثمر ہے۔
اگر پیداوار انتہائی اہم اور ناگزیر ہے تو اس کو اس طرح سے منظم کیا جائے کہ سماجی تفاصل کو یقینی بناتے ہوئے مزدوروں کو درکار حفاظتی سامان جیسے فیس ماسک اور وائزر، دستانے اور ڈانگری، تمام سطحوں اور کام کی جگہوں کی باقاعدہ جراثیم کش سپرے اور تما م مزدوروں کے باقاعدگی سے ٹیسٹ یقینی بنائے جائیں۔ جن مزدوروں کی ضرورت نہ ہو انہیں گھر پر رکھا جائے۔
کمیٹی یہ بھی یقینی بنائے کہ بحران کی آڑ میں کسی مزدور کو نوکری سے برخاست نہ کیا جائے۔ جہاں فیکٹریاں مزدوروں کو نکال رہی ہیں یا مالکان فیکٹری بند کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں وہاں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مزدور ان پر فوری طور پر قبضہ کرتے ہوئے ان پر اپنا کنٹرول اور مینجمنٹ قائم کریں۔
جن مزدوروں کی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں یا جو دیہاڑی پر کام کر رہے ہیں ان پر بحران کے سب سے شدید اثرات پڑیں گے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں پوری تنخواہ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ہم اس بات کی مخالفت کرتے ہیں کہ بے تحاشا قومی قرضہ بڑھا کر یہ کام کیا جائے کیونکہ اس اقدام کی قیمت باقی محنت کش طبقے کو کٹوتیوں اور ٹیکس میں اضافے کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔ اس کے برعکس ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام خون آشام بینکوں اور سٹہ باز کاروباروں کو قومی تحویل میں لیا جائے۔
اس کے ساتھ پیداوارمیں اس ناگزیر سست روی کے وقت میں روٹیشن پالیسی کو متعارف کروایا جائے جس میں ایک دن چھوڑ کے ایک دن کام تاکہ کام کا ہفتہ مختصر ہوسکے۔ اس سے مزدور زیادہ وقت گھروں میں گزار سکیں گے اور سفری وقت بھی کم سے کم ہو جائے گا۔ اس کو وسعت دیتے ہوئے بتدریج تمام بیروزگاروں کو اس سکیم میں شامل کیا جائے تاکہ بیروزگاری کا خاتمہ ہو اور کام کے اوقات کم سے کم ہوں۔ (ہمارا نعرہ ہے)
جبری بے دخلی نامنظور۔۔ پوری تنخواہ کے ساتھ کم سے کم کام کے اوقات کار! اپنے کھاتے کھولو!
محنت کش طبقے کو اقتدار پر قبضہ کرنا ہوگا
اس وقت یہ مکمل طور پر واضح ہونا چاہیے کہ ہمیں کس صورتحال کا سامنا ہے۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ محنت کش طبقے کی حفاظت، لوگوں کو روزگار اور گھروں کی گارنٹی، مزدوروں کی معقول اجرت کہ وہ اپنے خاندانوں کو پال سکیں، تمام معاملات پر سوال کھڑا ہو چکا ہے۔ اس کے انقلابی مضمرات ہیں اور حکمران طبقہ اس حوالے سے مکمل ادراک رکھتا ہے۔
اس وقت مالکان کو کرونا وائرس سے زیادہ محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک سے خوف ہے۔ وہ پریشان ہیں کہ محنت کش طبقہ معاملات اپنے ہاتھوں میں نہ لینا شروع کر دے۔ ووہان، جہاں چین میں سب سے پہلے یہ وائرس نمودار ہوا تھا، عوام نے محلوں میں سڑکیں بلاک کر دیں اور دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ خود سے چیکنگ شروع کر دی تھی۔ اس وجہ سے ریاست نے کنٹرول کھو جانے کے خوف سے صورتحال میں مداخلت کی۔
اٹلی میں مزدوروں نے ہڑتالیں کر کے مداخلت شروع کر دی کہ پیداوار کیسے کرنی ہے۔ برطانیہ میں حکومت کی مجرمانہ بے عملی کے نتیجے میں محلوں میں خود رو گروہ منظم ہو رہے ہیں جو بحران کی وجہ درپیش مختلف مسائل جیسے اشیاء خوردونوش کی ترسیل اور عمومی حفاظت سے متعلق کام کر رہے ہیں۔ ایران میں ایک موقع پر عوام نے ملا ریاست کی غیر فعالی میں پورے پورے قصبے قرنطینہ کرنے شروع کرد یے۔
درج بالا مثالیں محنت کش طبقے کی طاقت کی نوزائیدہ شکلیں ہیں، جو سرمایہ داری کے بحران کے باعث خودرو طریقے سے ابھر رہی ہیں۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ حکمران طبقہ اس بحران سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ حکمران طبقے کے تذبذب کے باعث، جیسا کہ ہمیں برطانیہ، سویڈن اور امریکہ میں نظر آیا، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ محلہ جاتی اورمزدور کمیٹیاں تشکیل کی جائیں تاکہ بحران کے مختلف پہلوؤں سے نمٹا جا سکے۔
اٹلی اور فرانس میں ریاست اس طرح کے اقدامات تیزی سے لاگو کر رہی ہے۔ ابتداء میں عوام کی اکثریت نے ان اقدامات کو قبول کیا جن میں انتظامیہ انہیں بتا رہی تھی کہ ایک نئے خوفناک اور اچھوت وائرس سے کیسا لڑنا ہے۔ لیکن عام محنت کش کو اچھی طرح ادراک ہے کہ جو لوگ اب شدید سے شدید تر اقدامات کر رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے وباء کے ابتدائی دنوں میں بے تحاشا وقت ضائع کر دیا۔ انہیں حکومت پر کوئی اعتماد نہیں کہ وہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے سنجیدہ ہے۔ اور وہ بالکل درست ہیں۔
طبقہ بالا کو اچھی طرح ادراک ہے کہ انہیں ایمرجنسی اقدامات کر کے صورتحال مستحکم کرنی پڑے گی ورنہ عوام کا غیض و غضب بے قابو ہو جائے گا۔ لیکن یہ ایمرجنسی اقدامات عوام کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ کار بھی ہیں۔ ان میں انتہائی خوفناک غیر جمہوری جراثیم موجود ہیں جن کا مقصد ریاست اور اس کی استحصالی قوتوں کو مضبوط کرنا ہے۔
ہم جانتے ہیں اس صورتحال میں عوام سڑکوں پر مسلح افواج کی موجودگی کی حمایت کیوں کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ان کی سڑکوں پر موجودگی کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کے برعکس سرمائے کا تحفظ ہے۔ یعنی حالات کو مستحکم کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے کہ صورتحال بے قابو نہ ہو جائے۔
اٹلی میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں کہ پولیس احتجاجی مزدوروں کو صرف اس لئے گرفتار کر کے لے گئی کیونکہ وہ زیادہ بہتر حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ واقعات واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ریاستی سیکورٹی فورسز پر اعتماد کرنا ایک دھوکہ ہے۔ ہم محنت کش طبقے کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ صرف اپنی ہی قوتوں پر اعتماد کر سکتے ہیں، نہ کے افواج یا بورژوا ریاست، جنہوں نے بارہا واضح کیا ہے کہ ان کا اولین مسئلہ منافع کے حصول کو قائم رکھنا ہے چاہے موجودہ صورتحال کتنی ہی گھمبیر کیوں نہ ہو جائے۔
اٹلی میں کئی لوگوں کو فکر ہے کے جرائم پیشہ افرد اس بحرانی کیفیت کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ریاستی سیکیورٹی فورسز ہر شخص کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتی۔ اس وجہ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ درکار انفرسٹرکچر تشکیل دیا جائے جیسے ہر محلے میں مقامی کمیٹیاں منتخب کی جائیں جو پورے ایمرجنسی آپریشن کی نگرانی کریں۔ ہر محلے میں عوام کی منتخب کردہ کمیٹی کی زیادہ اتھارٹی ہو گی کہ کون سے اقدامات اہم ہیں اور یقینی بنا سکے کہ سب ان جمہوری فیصلوں کی پاسداری کریں۔
کمیٹیاں چیک پوائنٹس بنا سکتی ہیں اور لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں پر گشت کر سکتی ہیں، تمام گھروں میں راشن کی ترسیل کو یقینی بنا سکتی ہیں تاکہ غیر ضروری سفر سے بچا جا سکے۔۔ خاص طور پر عمر رسیدہ اور دیگر کمزور افراد۔ وہ فعال انداز میں جرائم پیشہ افراد، سٹہ بازی اور اشیائے خوردونوش اور دواؤں کی قیمتوں میں ناجائز اضافے کا مقابلہ کر سکتے ہیں جس کے تاجر مرتکب ہو رہے ہیں۔
ہم نے چلی کی بھی مثال دیکھی ہے جہاں ٹریڈ یونینز نے اعلان کیا ہے کہ جب تک حکومت ایک قومی قرنطینہ کا اعلان نہیں کرتی اس وقت تک وہ خود اہم شعبہ جات کے علاوہ ”انسان دوست ہڑتال“ کرتے ہوئے اس پر عمل کریں گے۔ اس کا سرمائے کے حکمت کاروں نے نوٹس لیا ہے جو موجودہ صورتحال میں سماجی انقلاب کے امکانات کو بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور پوری کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح اس کا ابتداء میں ہی گلا گھونٹ دیا جائے۔
اشیائے خوردونوش کی ترسیل کی گارنٹی
جب کروڑوں افراد کو ادراک ہوا کہ وباء ایک ایمرجنسی صورتحال پیدا کر رہی ہے تو ہمیں مضطرب خریداری اور ذخیرہ اندوزی دیکھنے کو ملی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام صورتحال سے شدید خوفزدہ ہے اور انتظامیہ اور ”منڈی“ پر اعتماد نہیں کرتی کہ وہ ان کے لئے کچھ کریں گے۔
لیکن اس کا بدقسمتی سے نتیجہ یہ نکلا ہے کہ منڈی میں اشیائے خوردونوش کی قلت ہو گئی ہے اور بہت سارے سٹور اہم اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر بے تحاشا منافع کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ محلوں میں جمہوری منتخب کمیٹیوں کے پاس اتھارٹی ہونی چاہیے کہ وہ قیمتوں کو چیک کر سکیں اور ضرورت پڑنے پر قیمتوں پر کنٹرول لگا سکیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ہم دیکھیں گے کہ قلت کے ساتھ سماج کی غریب ترین پرتیں ضروریاتِ زندگی سے ہی محروم ہو جائیں گی۔
ضعیف اور کمزور اس صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ انہیں کہا جا رہا ہے کہ خود کو تنہا کر لیں لیکن انہیں اشیائے خوردونوش کی ترسیل نہیں ہو رہی۔ اس وجہ سے کئی افراد جنہیں باہر جانا پڑتا ہے وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے کہ اشیائے خوردونوش کی تمام گھروں میں ترسیل کو یقینی بنایا جائے تاکہ دکانوں پر جانے کے غیر اہم سفر کو کم سے کم کیا جا سکے۔ محلوں میں خود رو انداز میں ابھرنے والے گروہ، جو ضرورت مندوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی امداد کے لئے منظم ہو رہے ہیں، واضح کرتے ہیں کہ عوام کی اکثریت لالچی نہیں بلکہ ضرورت کے وقت منظم ہو کر ضرورت مندوں کی مدد کرنے کو تیار ہے۔
لیکن ان محلوں میں موجود گروہوں کو بھرپور فعال ہونے کے لئے امداد کی ضرورت ہے۔ انہیں ٹرانسپورٹ، حفاظتی سامان اور ٹریننگ کی ضرورت ہے کہ وہ کمزور افراد جو تنہائی میں ہیں ان تک کیسے رسائی حاصل کی جائے۔
کمیونٹی کچن منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تیار کھانا خاص طور پر ضعیفوں اور اپاہج کو پہنچایا جا سکے۔ ایسے وقت میں جبکہ یکے بعد دیگرے ریستوران اور مئے خانے بند ہو رہے ہیں اور لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تمام کو ضبط کر لیا جائے تاکہ لوگوں کی کی اشیائے خوردونوش کی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے۔ اس طرح ان شعبوں میں ہونے والے بیروزگاروں کے روزگار کو یقینی بنایا جا سکے گا اور ساتھ ہی درکار وسائل بھی حاصل کئے جا سکیں گے۔ ان سب کو محلہ جاتی کمیٹیوں سے جوڑنا لازمی ہے۔
قومی ملکیت میں منظم ٹرانسپورٹ سسٹم
وباء کے پھیلاؤ کا سب سے زیادہ خطرہ پرہجوم بسوں، ٹرینوں اور زیرِ زمین ٹرانسپورٹ میں ہے۔ وباء کے ابتدائی دنوں میں کروڑوں محنت کش شدید بھیڑ میں سفر کرنے پر مجبور تھے جس سے وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات ہزاروں گنا بڑھ گئے۔
ایک مرتبہ جب ادراک ہو گیا کہ اس طرح کی صورتحال انتہائی خوفناک ہے تو کئی لوگوں نے غیر ضروری سفر ملتوی کر دیا۔ جو گھروں سے کام کر سکتے تھے وہ کرنے لگے۔ اس وجہ سے رش کم تو ہوا لیکن ختم نہیں ہوا۔
ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے اس سلسلے میں سروسز کے معمول کو کم کیا ہے، کچھ روٹ بند کر دیے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس وجہ سے ہمیں جس وقت سماجی تفاصل کے لیے ٹرانسپورٹ کی اشد ضرورت ہے، تو اس وقت میں موجودہ سروسز کم کر کے یہ ناقابلِ عمل بنا دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ٹرانسپورٹ تو کم ہو گئی ہے لیکن ہجوم بڑھ گیا ہے۔
ایک مرتبہ پھر یہاں مقصد منافع ہے۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔ ریاست تمام ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو بغیر معاوضے کے ضبط کرتے ہوئے انہیں قومی ٹرانسپورٹ سروس سے منسلک کرے۔ ان میں سے کئی کمپنیاں ماضی میں ریاست اور مقامی کونسلوں کی ملکیت تھیں۔ ان کو واپس قومی تحویل میں لیا جائے اور منافع کے بجائے ضرورت کے تحت استعمال کیا جائے۔ مسافروں کو ان حالات میں زیادہ سے زیادہ جگہ سفر کے لئے درکار ہے۔ سٹاف کو بھی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے اور ہجوم میں کام نہ کرنا ان میں سے ایک ضرورت ہے۔
ٹرانسپورٹ سٹاف کو بھی ضروری حفاظتی سامان، ماسکس، وائزر، دستانے وغیرہ درکار ہیں جبکہ صفائی کے شعبے کو بھی بڑے پیمانے پر توسیع دی جائے تاکہ باقاعدگی سے وائرس کی روک تھام کے لئے اچھی طرح صفائی کی جا سکے۔ صفائی کے شعبے کو واپس ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے مزدوروں کو اچھی اجرت اور مکمل ٹریڈ یونین حقوق دئیے جائیں۔
رہائش کا بحران
کئی مزدور اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور خاص طور پر نئی نسل بھی، جن کے ذمے مکانوں کے بھاری بھر کم رہن یا ہوشربا کرائے واجب الادا ہیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو کئی افراد کو گھر وں سے بے دخلی کا سامنا ہو گا۔ کئی ممالک میں حکومتیں بینکوں کو حکم صادر کر چکی ہیں کہ صارفین کو ”رہن کی چھٹی“ دی جائے، یعنی کئی مہینوں کے لئے ادائیگی سے چھوٹ دی جائے۔ بدقسمتی سے کرائے کے حوالے سے ایسا ہونا لازمی نہیں جنہیں بحران کے دنوں میں روک دینا چاہیے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ”رہن چھٹی“ اس لئے متعارف کرائی گئی ہے تاکہ بینکوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے کیونکہ اگر ماہانہ رہن کی ادائیگی میں بہت بڑی کمی واقع ہوتی ہے تو اس وجہ سے بینک دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے۔ہمیشہ کی ہر وہ قدم جو مزدوروں کی بہتری کے لئے ہوتا نظر آتا ہے، درحقیقت سرمایہ داری میں اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔
بہرحال رہن کی ادائیگی میں التواء سے کچھ تو فائدہ ہو گا۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسے ادا ہی نہیں کرنا۔ جلد یا بدیر یہ ادائیگیاں کرنی پڑیں گی۔ وہ مزدور جنہیں بحران کے اختتام پر نوکریاں ملیں گی انہیں پتہ چلے گا کہ پہلے سے بھی زیادہ بھاری ادائیگیاں کرنی پڑ رہی ہیں۔ لیکن اس بحران کے دور رس معاشی اثرات مرتب ہوں گے اور کٹوتیاں، گرتا معیارِ زندگی، وسیع تر بیروزگاری اور غربت ہی بحران کے اختتام پر مقدر ہے۔
اس لئے بجائے اس کے کہ مزدور خاندانوں کی اکثریت کو رہائش سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بینک رہن کا ایک حصہ منسوخ کریں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کا یہی ٹھوس قدم ہے۔ دس سال پہلے بینکوں کو عوام کے پیسوں سے دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا تھا اور پچھلے عرصے میں انہوں نے دیو ہیکل منافع کمایا ہے۔ اگر یہ درست ہے کہ ہم ایک ہی کشتی میں سوار ہیں تو پھر بینک بھی اپنا کردار ادا کریں۔ دیگر مزدور کرائے کی رہائش میں رہتے ہیں اور کرائیوں کی عدم ادائیگی میں انہیں بے دخلیوں کا خطرہ ہے۔ کچھ ممالک میں بے دخلیوں پر عارضی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اگرچہ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن عوام کی فلاح و بہبود کے لئے یہ کافی نہیں۔ گھر مالکان کے پاس کرائے داروں پر دباؤ ڈالنے کے اور بہت طریقے ہیں۔
ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ کرایہ اتنا بڑھا دیا جائے کہ اس کی ادائیگی ہی ناممکن ہو جائے۔ اس لئے کرائیوں کو بھی ملتوی کر دینا چاہیے اور بحران کے اختتام تک کرایہ ادائیگی کی چھٹی بھی فوری طور پر لاگو کر دینی چاہیے۔محلہ کمیٹیوں کو یہاں بھی سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے کرائیوں میں اضافے یا بے دخلی کے خلاف متحرک ہونا چاہیے۔
یہ صورتحال ایک اور لمبے عرصے سے چلے آرہے مسئلے کو اجاگر کرتی ہے۔ نجی مالکان یہ سب کچھ اس لئے کر سکتے ہیں کیونکہ رہائش کی دائمی قلت موجود ہے۔ ماضی میں قومی ملکیت میں میونسپل رہائش کا نجی رہائش کے مقابلے میں تناسب بہت زیادہ تھا۔ مزدور خاندانوں کو سستے گھر دستیاب تھے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے زیادہ تر ممالک میں قومی ملکیتی رہائش کو بیچنے، نجکاری کرنے اور صارفین کو ملکیت حاصل کرنے پر مجبور کرنے کی پالیسی رہی ہے۔
اس وقت ہنگامی بنیادوں پر سماجی رہائش کی تعمیر اشد ضرورت بن چکی ہے تاکہ سستی رہائش فراہم کی جا سکے۔ پھر اس وقت کئی گھر اور اپارٹمنٹس سٹہ بازی کی نظر ہوئے خالی پڑے ہیں۔ان حالات میں ان پراپرٹیوں کو فوری طور پر ضبط کر کے قومی رہائش کا حصہ بنا دینا چاہیے۔ ایک مرتبہ یہ پروگرام شروع ہو جائے تو موجودہ رہائش کی دائمی کمی اور بے تحاشہ کرائیوں کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
جمہوری حقوق
ہر جگہ حکومتیں بحران سے نمٹنے کے لئے ہنگامی قانون سازی کر رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ ہم نجی ملکیت، ہسپتالوں اور حفاظتی سازوسامان کی پیداوار کے لئے ضبطگی سے متعلق ہنگامی اقدامات کے زبردست حامی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دار حکومتیں اس وقت صحت کے بحران کو استعمال کرتے ہوئے جمہوری حقوق کو صلب کر رہی ہیں جیسے ہڑتال کا حق یا سیاسی آزادی اور حقِ رائے دہی کی سلبی جس کا طریقہ کار فوج کو سڑکوں پر لا کر اپنایا گیا ہے۔
یہ اقدامات معمولی طور پر بھی وباء پر اثر انداز نہیں ہوتے اور انہیں فوری طور پر ختم کی جائے۔ مزدوروں کو ہڑتال کا حق اپنے آپ کو منافع کی ہوس میں ہلکان ہوئے جا رہے مالکان سے تحفظ کے لئے چاہیے جو ہماری زندگیوں اور تحفظ کو خطرے میں ڈالنے کو ہر لمحہ تیار بیٹھے ہیں۔ ہمیں حقِ رائے دہی چاہیے تاکہ ہم سرمایہ دار حکومتوں کی انسان دشمن سفاکی کو بے نقاب کر سکیں۔
اس لئے اگرچہ وباء کی روک تھام کے حوالے سے تمام موثر اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں لیکن ہم سرمایہ دار طبقے کو اجازت نہیں دے سکتے کہ اس ایمرجنسی کو استعمال کرتے ہوئے وہ ان جمہوری حقوق کو سلب کرنے کی کوششیں کریں جنہیں مزدور جدوجہد نے نسلوں میں جیتا ہے۔
نیشنلائزیشن
کئی سالوں سے بورژوازی کا تکیہ کلام نجکاری ہے۔ ریاست کی جانب سے بنائی گئیں بڑی کارپوریشنز کو ٹکڑوں میں بانٹ کر سرمایہ داروں کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا۔ قومیانے کے خیال کو ہی تمسخر بنا دیا گیا کہ یہ دقیانوسی سوچ بیتے ماضی کا حصہ ہے۔ لیکن اب اچانک ہی ان کا راگ تبدیل ہو گیا ہے۔
کچھ حکومتیں کھلم کھلا اعتراف کرتے ہوئے کہ سرمایہ داری موجودہ بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی نجی ہسپتالوں کو ایمرجنسی اقدامات کے تحت ضبط کر رہے ہیں تاکہ وباء کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس دوران کئی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی بڑی کارپوریشن کو قومیانے کی طرف جائیں گے اگر آنے والے عرصے میں دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس کی ایک مثال فرانسیسی وزیر برونو لی میئر ہے جس کے مطابق ”میں بڑی فرانسیسی کمپنیوں کے تحفظ کے لئے کوئی بھی اقدامات کرنے سے نہیں ہچکچاؤں گا۔ اس کے لئے سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے، حصص خریدے جا سکتے ہیں، میں قومیانے کا لفظ بھی استعمال کر سکتا ہوں اگر یہ ضروری ہو“۔
دائیں بازو کے اصلاح پسند جو ابھی تک قومیانے کے خلاف ایک دوسرے پر سبقت لینے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اب اپنا راگ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ وہ جس قومیانے کی بات کر رہے ہیں وہ، در حقیقت ایک بیل آؤٹ ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سرمایہ دار مالک کو اس کا باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا ہے اور اس لئے یہ محض ریاستی فنڈ سے نجی جیبیں بھرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ اور ایک مرتبہ جب یہ کمپنیاں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاتی ہیں تو پھر انہیں واپس سرمایہ داروں کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا جاتا ہے۔یہ ایک اور طریقہئ واردات ہے جس کے ذریعے محنت کش طبقہ مالکان کے بحران کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
محنت کش طبقہ اس قسم کی قومی پالیسی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ محنت کش کسی صورت سرمایہ داروں کے پیدا کردہ بحران کی قیمت ادا نہیں کریں گے۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ مالکان کو بغیرکسی معاوضے کی ادائیگی کے ضبطگیاں کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہین کہ ان کمپنیوں کی طفیلیہ انتظامیہ کو ختم کیا جائے اور ان کی جگہ مزدوروں کا جمہوری کنٹرول اور مینجمنٹ لائی جائے۔
مزدور تحریک کا کردار
محنت کش طبقے کی قیادت اس صورتحال کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنے کے لئے نااہل ثابت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی میں ٹریڈ یونین قیادت نے مکمل طور پر حکومت اور مالکان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اصرار کیا کہ پیداوار جاری رکھی جائے۔ ان کا اولین مقصد محنت کشوں کی حفاظت نہیں بلکہ معاشی بحران کے خوف سے پیداوار کو جاری رکھنا تھا۔
اطالوی مزدوروں کے ذہن میں اور خیالات جاری تھے۔ ان کے لئے زندگیاں سب سے اہم ہیں۔ انہوں نے مالکان کو فیکٹریاں بند کرنے پر قائل کرنے میں ناکامی کے بعد ہڑتالیں کر دیں تاکہ کام کو زیادہ بہتر حفاظتی اقدامات کے ساتھ منظم کیاجا سکے۔ جب مزدوروں نے یہ قدم اٹھا لیا تو اس کے بعد ہی ٹریڈ یونین اشرافیہ نے اپنی پوزیشن تبدیل کی۔ قیادت کرنے کے بجائے وہ مزدوروں کے پیچھے چل رہے ہیں۔
برطانیہ میں لیبر پارٹی نے اپنی تمام سرگرمیوں کو بند کر دیا ہے، اگرچہ ٹیکنالوجی کے ذریعے اس وباء میں بھی کام جاری ہے۔ ہر جگہ مزدور اشرافیہ نے کھلم کھلا یا درپردہ حکمران طبقے کے عیب زدہ پیداواری لائحہ عمل کی حمایت کی ہے۔ اس وقت ضرورت اس لائحہ عمل کی ہے کہ محنت کشوں کو متحرک کرنے کے لئے کیا پروگرام تشکیل دیا جائے۔ محلوں اور فیکٹریوں میں محنت کشوں کو متحرک کر کے یہ قائدین بہت تیزی سے واقعات کا دھارا تبدیل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے کوئی بھی اقدامات نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر سرمایہ دار طبقے کے آگے سر نگوں ہو چکے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے خوفناک ترین بحران میں داخل ہو رہا ہے۔
موجودہ محنت کش تنظیموں کی از سرِ نو ریڈیکل تنظیم کاری کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹریڈ یونینز کا کنٹرول براہِ راست ممبران کے پاس موجود ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قیادت موجود ہو جس کی اجرتیں کمپنی ڈائریکٹرز کے بجائے ان کے عام مزدوروں کے برابر ہوں جن کی نمائندگی کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور انہیں واپس بلانے کا حق حاصل ہو اگر وہ ممبران کے جمہوری فیصلوں پر عمل نہیں کرتے۔
اس کا اطلاق ان سیاسی پارٹیوں پر بھی ہوتا ہے جنہیں مزدوروں نے تعمیر کیا تھا تاکہ وہ سماج میں ان کی آواز بنیں۔ انہیں اب از سرِ نو تعمیر کرنا ہو گا اور سب سے پہلے قائدین کے انتخاب کو مکمل طور پر جمہوری بنانا ہو گا۔ جن ممالک میں مزدور پارٹیاں موجود نہیں ہیں، جیسے امریکہ، وہاں منظم مزدور تحریک کی ذمہ داری ہے کہ انہیں تعمیر کیا جائے۔
ان سب اقدامات کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟
عوام کی اکثریت اقرار کرے گی کہ مندرجہ بالا مطالبات معقول ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب کی قیمت کون ادا کرے گا؟ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ان تمام اقدامات کے لئے درکار پیسے موجود نہیں۔ لیکن، درحقیقت یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔
سب سے پہلے امریکی فیڈرل ریزرو اور یورپی سینٹرل بینک دونوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اربوں ڈالر اور یورو معیشت میں انڈیل رہے ہیں۔ برطانیہ میں حکومت نے 350 ارب پاؤنڈ کے پیکج کا اعلان کیا ہے جو جی ڈی پی کا 15فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح، اٹلی، فرانس، اسپین، جرمنی وغیرہ تمام ممالک نے دیو ہیکل پیکج کا اعلان کیا ہے۔
جب معاشی قیامت ان کے سر نازل ہوتی ہے تو فوری طور پر ان کے پاس وسائل آ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس پیسے کا بڑا حصہ عوامی صحت یا محنت کش طبقے کی فلاح کے بجائے سرمایہ داروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ پھر یہ پہلے سے بے قابو قومی قرضے میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔ مستقبل میں یہ محنت کش طبقہ ہو گا جس سے اس قرضے کو کم کرنے کے لئے مزید قربانیاں مانگی جائیں گی۔
لیکن بے پناہ دولت کا ایک اور وسیلہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر 2019ء میں امریکہ میں اشرافیہ کے سب سے اوپری 1 فیصد۔۔ تقریباً 12 لاکھ خاندان۔۔ کی کل مجموعی دولت 35 ٹریلین ڈالر تھی۔ 2017ء میں Institute of Chartered Accountants in England and Wales (ICAEW) کی ایک تحقیق کے مطابق ”ایک ایسے وقت میں جب کئی لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال تھا کہ پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے گا، برطانیہ کے دو تہائی کاروباروں کے پاس اضافی پیسہ موجود تھا۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ اس وقت سے اب تک برطانوی کمپنیوں کے پاس ذخیرہ پیسوں میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے! 2018ء میں کیش ڈیپازٹ میں 8 فیصد اضافہ ہوا اور پچھلے پانچ سالوں میں ان میں 51 فیصد کا دیو ہیکل اضافہ ہوا ہے“۔ Credit Suisse کے مطابق پوری دنیا کا اوپری 1 فیصد تقریباً 50 فیصد عالمی دولت کی مالک ہے جبکہ نچلی 50 فیصد عوام کی کل دولت 1 فیصد سے بھی کم ہے۔
کروڑوں مزدوروں کی محنت سے پیدا کردہ یہ دولت بحران کے دور میں کرونا وائرس وباء سے مقابلہ کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات کی فنانسنگ کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے اور ایسا انفراسٹرکچر اور وسائل تخلیق کئے جا سکتے ہیں کہ مستقبل میں سماج کسی اس طرح کی خوفناک وباء سے مقابلے کے لئے تیار ہو۔
یہ کوئی غیر معقول بات تو نہیں کہ اس بے پناہ دولت پر 10-20 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے۔ اور اگر کوئی بھی کمپنی یا سرمایہ دار ایسا کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس کی تمام ملکیت کو ضبط کرتے ہوئے تمام وسائل ریاست کے استعمال کے لئے وقف کر دئیے جائیں۔ پھر جن بینکوں کو دیو ہیکل ریاستی بیل آؤٹ کے ذریعے بچایا گیا انہیں فوری طور پر بغیر معاوضے کے قومیایا جائے اور انہیں ایک مرکزی ریاستی بینک میں ضم کر دیا جائے۔ یہی سب کچھ انشورنس کمپنیوں کے ساتھ کیا جائے۔
اگر پوری دنیا کی حکومتیں یہ اقدامات کریں تو قومی قرضہ بڑھانے اور مستقبل میں سماجی کٹوتیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ ہسپتالوں کی تعمیر، دواسازی کی تحقیق میں سرمایہ کاری، نئے مکانوں کی تعمیر وغیرہ کے لئے نہ تو وسائل کی کوئی کمی ہو گی اور نہ ہی بیروزگار مزدوروں کو اجرت دینے میں کوئی مسئلہ ہو گا۔
مزدور حکومت کی طرف بڑھو!
برطانیہ میں تو یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ یہ ٹوری حکومت لازمی اقدامات اور وسائل کو متحرک کرنے کے برعکس لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے لئے تیار تھی۔ امریکہ میں ٹرمپ کا بھی یہی رویہ تھا۔ یہاں تک کہ اٹلی میں بھی جب وائرس پہلی مرتبہ یورپ میں تیزی سے پھیلا تو حکومتوں کا سب سے پہلا ردِ عمل منافعوں کا تحفظ تھا۔
ان لوگوں پر کروڑوں محنت کش عوام کی زندگیوں کے تحفظ کے لئے اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ وقت سیاسی اختلافات کا نہیں بلکہ متحد ہونے کا ہے۔ قوم پرستی اور حب الوطنی کا ہر طرف پرچار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہم ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ لیکن یہ سب جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ جس عوام سے اس بحران کی قیمت ادا کرنے کا کہا جا رہا ہے وہ تو اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتی۔۔ مزدور، نوجوان اور عمر رسیدہ۔
ہمیں ایسی حکومتیں چاہئیں جو پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی نمائندگی کریں۔ ہم نے درج بالا سطروں میں جو پروگرام پیش کیا ہے اس پر صرف وہی سیاسی پارٹیاں اور سیاسی قائدین عمل کر سکتے ہیں جو محنت کش طبقے اور اس کے مفادات کے نمائندہ ہوں۔ تمام ممالک میں مزدور حکومتوں کو اقتدار میں لا کر ہی ہم پوری دنیا کے دیو ہیکل وسائل کو استعمال کرتے ہوئے موجودہ عالمی بحران کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
عالمگیریت اور محنت کشوں کا اتحاد
21 ویں صدی میں، سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے پیداواری قوتوں میں بڑھوتری کی راہ میں دو بنیادی رکاوٹیں ہیں، ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور قومی ریاست۔ موجودہ بحران نے ان رکاوٹوں کو مزید واضح کر دیا ہے۔
منڈی کی معیشت بری طرح فیل ہو چکی ہے۔ منافع کی ہوس کروڑوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس پورے گھناؤنے کھیل کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اس کی جگہ ہمیں ایک عوامی ملکیت میں منصوبہ بند معیشت درکار ہے۔ مزدوروں کے جمہوری کنٹرول اور انتظام کے طریقہ کار سے پیداواری عمل کی نگرانی کی جائے۔
ایسی معیشت میں وسائل کو تیزی کے ساتھ موجودہ وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔ پیداوار کو فوری طور پر مالکان کے منافعوں میں نقصان کا سوچے بغیر روکا جا سکے گا۔ گھروں میں بیٹھے مزدوروں کو ایک مستقل اجرت فراہم کی جا سکے گی۔ کسی کو نجی مالکان کے ہاتھوں بے دخلی کا خوف نہیں ہو گا۔ اگر بات مختصر کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلزم کو عالمی طور پر متعارف کرایا جائے۔ تمام حالات اس کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے پک کر تیار ہو چکے ہیں۔
بورس جانسن اور دیگر بورژوا سیاست دان موجودہ بحران کو ایک جنگ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ لیکن دوسری عالمی جنگ میں حکومت نے کی کیا واردات کی تھی؟ کیا انہوں نے کہا کہ منڈی کو فیصلہ کرنے دو! ریاست کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے! نہیں ایسا ہر گز نہیں تھا۔ انہوں نے ریاست کو استعمال کرتے ہوئے پیداوار کو مرکزیت فراہم کی، جنگی صنعتوں کو قومیایا اور مرکزی منصوبہ بندی کے لئے اقدامات کئے۔
ظاہر ہے ان سب اقدامات سے برطانیہ ایک سوشلسٹ ملک نہیں بن گیا۔ سارا کنٹرول مضبوطی سے سرمایہ داروں اور بینکاروں کے پاس ہی رہا۔ لیکن انہیں مجبوراً کچھ مرکزی منصوبہ بندی اور قومی ملکیتی اقدامات اٹھانے پڑے صرف اس وجہ سے کہ ان اقدامات کے نتائج بہتر تھے۔ یعنی عمل میں سوشلسٹ منصوبہ بندی کی منڈی کے انتشار پر فوقیت کو ان لوگوں نے بھی تسلیم کیا جو سوشلزم کے شدید ترین دشمن تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا چین ایک سرمایہ دار ملک ہے۔ لیکن یہ سرمایہ داری کی ایک مخصوص شکل ہے جس میں ابھی بھی مرکزی منصوبہ بندی کے کچھ خدوخال موجود ہیں اور ماضی کی ریاستی صنعتیں آج بھی قائم و دائم ہیں۔ یہی وہ بنیادی اجزاء ہیں جن کے ذریعے چین نے دیو ہیکل اقدامات کرتے ہوئے موجودہ وباء کا مقابلہ کیا اور شاندار نتائج حاصل کئے۔ اس حوالے سے ان لوگوں نے بھی تجزیہ کیا ہے جو عام طور پر سوشلزم کے حوالے سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔
ووہان میں پھوٹنے والی وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے چین کو یہ سبقت حاصل تھی کہ اس نے 5 کروڑ عوام کے علاقے کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر دیا جبکہ باقی پورے ملک کے وسائل لاک ڈاؤن میں محصور عوام کی امداد کے لئے استعمال کئے جا سکتے تھے۔ وہ پورے ملک سے ڈاکٹر، نرسیں اور وسائل متحرک کر کے بھیج سکتے تھے۔
اٹلی میں صورتحال بالکل مختلف تھی۔ اٹلی کی مدد کے لئے یورپ میں سے کوئی نہیں آیا۔ درحقیقت، جرمنی جیسے ممالک نے تنگ نظر قومی مفادات کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیس ماسکوں کی برآمدات روک دیں۔ اگر ایک عالمگیر آپریشن منظم کیا جاتا تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔
یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ اٹلی میں موجود چینی ڈاکٹر جو تجاویز پیش کر رہے ہیں ان پر غور نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے ملک میں صورتحال کا جائزہ لیا ہے اور ووہان میں وباء کا مقابلہ کرنے کے تجربات کی روشنی میں ان کا کہنا ہے کہ ابھی بھی سڑکوں پر عوام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ اس بات کی تائید کرتا جو ہم اس وباء کے پھوٹتے ہی پہلے دن سے کہہ رہے ہیں، تمام غیر اہم پیداوار کو فوری طور پر روکا جائے۔
اٹلی کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر کے پورے یورپ سے مادی اور انسانی وسائل وباء کے ابتدائی پھیلاؤ کو روکنے کے لئے استعمال کئے جا سکتے تھے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو لاک ڈاؤن کا دورانیہ مختصر اور موثر ہو سکتا تھا۔ اس کے برعکس یورپی یونین کا ہر ممبر ملک مختلف طریقوں اور زاویوں سے عمل کرتا رہا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وائرس تیزی کے ساتھ اٹلی میں پھیلا اور پورے یورپ میں پھیلاؤ میں اٹلی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس وقت پورا یورپ اس صورتحال سے دوچار ہے جس کا سامنا اٹلی کر رہا ہے اور اس وقت ایمرجنسی شدید خوفناک ہو چکی ہے جس کے امکانات کو قطعی طور پر محدود کیا جا سکتا تھا۔
اس حوالے سے خود یورپی یونین ایک ایسے اتحاد کے طور پر برہنہ ہو چکا ہے جس کا مقصد صرف بڑی سرمایہ دارکارپوریشنوں کا تحفظ ہے۔ جب اٹلی یا یونان پر خوفناک جبری کٹوتیاں مسلط کرنے کا سوال ہوتا ہے تو یہ ادارہ فوری طور پر اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عمل کرتا ہے۔ لیکن جب سوال کروڑوں افراد کی جانوں کا ہوتا ہے تو یہ اتحاد نہ صرف ناکارہ ثابت ہوتا ہے بلکہ صورتحال کو زیادہ تباہ کن بنانے کا ایک کلیدی ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ یہ اتحاد واضح طور پر ثابت کر چکا ہے کہ سرمایہ داری مکمل طور پر فیل ہو چکی ہے۔
کچھ سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ تباہی و بربادی ان کے نظام کا مقدر بن چکی ہے۔ ایک مثال دی آسٹریلین میگزین ہے جس کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق ”میک کویری ویلتھ مینجمنٹ جو آسٹریلوی سرمایہ داری کے دھڑکتے دل میک کوئری گروپ کا سٹاک بروکر حصہ ہے، نے خبردار کیا ہے کہ ’روایتی سرمایہ داری دم توڑ رہی ہے‘ اور پوری دنیا ’ایک ایسے (نظام) کی جانب بڑھ رہی ہے جو کمیونزم سے قریب کوئی شکل ہو گی“‘۔
یہ الفاظ کتنے درست ہیں۔ اس وقت انسانیت کو درپیش خطرے کا مقابلہ صرف ایک عالمی کوشش کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک ہر چیز کا فیصلہ اس بات پر ہو کہ ذرائع پیداوار کے مالکان کے منافعے کا حصول اولین مقصد ہے۔ اس وقت پیداوار برائے ضرورت کی اشد ضرورت ہے۔
کئی افراد کو اب ادراک ہو رہا ہے کہ نام نہاد منڈی کی معیشت موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے مکمل طور پر نا اہل ہے۔ انہیں یہ بھی ادراک ہو رہا ہے کہ عالمی سطح پر منظم پیداوار کی دلیل ٹھوس اور مدلل ہے۔
سوشلزم اب ایجنڈے پر ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہاں ہم یہ بالکل واضح کر دیں کہ جب ہم سوشلزم کی بات کر رہے ہیں تو ہماری مراد سویت یونین یا ماؤ اسٹ چین والی آمرانہ افسر شاہی نہیں ہے۔
حقیقی سوشلزم جمہوری ہے یا پھر کچھ نہیں۔ حقیقی سوشلزم صرف ایک جمہوری مزدور حکومت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جس میں ایک قومی منصوبہ بند معیشت مزدوروں کے براہِ راست کنٹرول اور انتظام میں ہو۔
یہی وہ نظام ہے جس کی جدوجہد عالمی مارکسی رجحان ان ممالک میں کر رہا ہے جہاں ہم موجو د ہیں۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو وہ پالیسیاں اور پروگرام فراہم کرنے کی جدوجہد میں شامل ہوں جس کے ذریعے انسانیت کو اس دلدل سے نکالا جا سکے جس میں سرمایہ داری ہمیں گھسیٹ لائی ہے۔ ورنہ متبادل یہی ہے کہ سماج بربریت کی ایسی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے جس کے سامنے 1930ء کی دہائی ماند پڑ جائے گی۔ آئیں اس جدوجہد کا حصہ بنیں۔