Urdu translation of Where is the Venezuelan Revolution going? (October 29, 2010)
ایلن وڈز ترجمہ :اسدپتافی
چنگاری ڈاٹ کام،30.11.2010
ایلن وڈز کے اس مضمون پر وینزویلا سمیت عالمی میڈیا میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔جہاں وینزویلا میںPSUV اور بولیویرین تحریک کے متحرک کارکن اس مضمون کے مارکسی مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں وہاں بورژوا میڈیا میں دائیں بازو کے دانشور اور اصلاح پسند وزیر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وینرویلا مین اپوزیشن کیسب سے بڑے ٹی وی چینل گلوبو ویژن سمیت ایل نیشنل، ایل یونیورسل،التییماس اور دوسرے جریدوں میں اس مضمون کے خلاف پریس کانفرنسیں اور مضامین چھپ رہے ہیں۔ اس کے علاہ عالمی بورژوازی کے سنجید ہ نمائندہ جریدے اکانومسٹ نے بھی ایلن وڈز پر شدید حملہ کیا ہے۔18نومبر کو اکانومسٹ کے ایک مضمون میں لکھا گیا،’’لگتا ہے مسٹر شاویز ایلن وڈز کے مشوروں پر عمل کر رہے ہیں، جو ایک ویلش(ویلز کا رہنے والا) ٹراٹسکائیٹ ہے اور شاویز کا غیر رسمی مشیر بن چکا ہے۔مسٹر وڈز جسے کارڈیف کی نسبت کیراکاس میں زیادہ لوگ جانتے ہیں، نے موجودہ انتخابات میں شاویز کی سیٹوں میں کمی کے بعد اسے کھلے عام مشورہ دیا کہ وہ’’ انقلابی عمل کو تیز کرے‘ اور جاگیروں ، بینکوں اور بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے۔‘‘
وینزویلا میں ستمبرمیں ہونے والے الیکشن کے نتائج نے بولیویرین انقلاب کے سامنے کئی سنجیدہ سوالات لا کھڑے کئے ہیں۔اپوزیشن نے میڈیا میں اپنی فتح کے حوالے سے ایک بھرپور منظم میڈیا کمپئین شروع کر دی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خود ساختہ فاتحین ، الیکشن ہار چکے ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود اس مہم کا مقصد کیاہے؟کوئی بھی اقلیت خود کو کسی طور اکثریت میں نہیں ڈھال سکتی،خواہ وہ اس کے بارے میں جتنا بھی شور اور واویلا کرے۔لیکن پھر اس قسم کی بھرپور مہم کے ذریعے انقلاب دشمن عناصر ،ملک کے اندر اور باہر ایک مخصوص کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ انقلاب دشمن، وینزویلا میں موجود حالات کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈہ پھیلاتے جارہے ہیں اور اس کیلئے انہیں سامراجی آقاؤں اور ان کے گماشتہ ذرائع کا مکمل تعاون حاصل ہے ۔بیرونی دنیا کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ ،اس مہم کا ایک اور ہدف یہ ہے کہ وینزویلا کے اندر ،الیکشن نتائج کی آڑ میں ،رائے عامہ کو متاثر کیا جائے اوریہ کہ یہاں’’ قومی بھائی چارے‘‘کو فروغ دیاجائے اور اس حوالے سے مصالحانہ قانون سازی کرنی چاہیے۔ اپوزیشن نے اس حوالے سے دو قیدیوں بیاگیو پلاری اور مزوکو سانچز کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کردیاہے جوکہ قتل اور بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں تھے اور الیکشن جیت کر اب اسمبلی کے ارکان منتخب ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی پیشین گوئی کر چکے تھے کہ یہ الیکشن ، انقلاب دشمن اپوزیشن کی مضبوطی کا باعث بنیں گے،اور ہمارے اس نقطہ نظرکو ایکواڈور میں ہونے والے واقعات نے اور بھی سچ ثابت کیاہے۔جہاں رافیل کورایا کے خلاف ایک بغاوت منظم کرنے کی کوشش کی گئی۔اور یہ بغاوت صدر شاویزحکومت کیلئے ایک براہ راست انتباہ ہے۔راقم الحروف نے ہمیشہ ہی بولیویرین انقلاب کی کھلی حمایت اور اس کے مخالفوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کا دفاع کیا ہے۔انقلاب کے ساتھ میری وفاداری ،میری ذات کالازمہ و خاصاہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ میں نے جو بھی محسوس کیا، اسے مکمل دیانتداری اور جرات کے ساتھ بیان کرنے سے کبھی بھی نہیں ہچکچایا۔جب بھی جہاں بھی جائز اور مناسب تنقید، جو مجھے کرنی چاہئے تھی،وہ بھی میں نے لکھی اور کہی۔ میری یہ تنقید جس کسی پر بھی گراں گزری ہے ،اس سے میں معذرت طلب کرتاہوں مگراس معذرت کے باوجود، میں کسی طور اپنے بیان کردہ موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹوں گا۔انقلاب کا مقدر ہر سفارتی اخلاقی اور تہذیبی قدرسے کہیں زیادہ محترم اور معتبرہواکرتاہے۔
ہر انقلاب کی طرح ،بولیویرین انقلاب کے بھی کئی دوست ہیں اور بلاشبہ کئی دشمن بھی۔انقلاب کے دوستوں کی اکثریت ،عام مزدوروں،کسانوں،انقلابی نوجوانوں اور ترقی پسند دانشوروں پر مشتمل ہے ۔انقلاب کے یہ دوست سچے بھی ہیں اور وفاداربھی۔لیکن پھر انقلاب کے ایسے دوست بھی ہیں جو کہ نادان ہیں اور نادان بھی ایسے کہ ان کے ہوتے کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں ۔ان دوستوں کو انقلاب سے کوئی حقیقی واسطہ نہیں ،وہ انقلاب کو ایک تماشا سمجھ کر اس پر توجہ کرتے ہیں اور پھر اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں ۔شاویز کی تقریروں کو سنتے ہوئے یہ سر دھنتے دکھائی دیتے ہیں مگر جن کا سوشلزم کے نفاذ میں ذرابرابر بھی حصہ نہیں ہوتا۔اس نوعیت کے خوشامدی احباب وقتی طورپر تو آپ کو بہت ہی بھلے اور اپنے اپنے سے لگتے ہیں‘ مگر جب کڑا وقت آتاہے تو یہ لوگ دور دور تک نظر بھی نہیں آتے۔پچھلے گیارہ سالوں کے دوران کیراکس کے صدارتی محل میں ایسے کئی دوست آئے اور رخصت بھی ہو گئے۔ یہ فصلی بٹیرے اپنے اپنے دانے چگ کر کتنی جلدی ردانقلاب کے کیمپ میں چلے گئے۔وہ کبھی بھی آپ کا سچا دوست نہیں ہوسکتا جو کہ آپ کی ہر ایک بات پر آپ کی تائیدوتوصیف کرتا جائے اور بس یہی کرتا جائے۔ہاں مگر وہی آپ کا سچا دوست ہوسکتا ہے کہ جو آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ سے یہ کہہ سکے ’’ دوست!یہاں آپ غلطی کر رہے ہیں‘‘۔
ستمبر میں ہونے والے حالیہ الیکشن کے نتائج بولیورین انقلاب کے مثبت اور منفی،دونوں پہلوؤں کو ہمارے سامنے اجاگر کر چکے ہیں۔یہ ایک طرف تو وینزویلا کے مزدوروں کسانوں کی اس وابستگی اور جستجو کو عیاں کرتے ہیں جووہ انقلاب کے ساتھ پیوست رکھے چلے آرہے ہیں اور جو ردانقلاب کو شکست دینے کے جذبے اورولولے سے خود کو سرشار رکھے چلے آرہے ہیں۔وینزویلا کے عام لوگوں کا انقلاب کے ساتھ یہ فولادی تعلق ہی انقلاب کی ابتدا سے انقلاب کا جذبہ محرکہ بنا چلا آرہاہے ۔ہر کٹھن اور بدترین مرحلے پر اس جذبے نے انقلاب کو شکست سے محفوظ رکھا ہے۔ اسی جذبے نے ہی 26ستمبر کے الیکشن میں انقلاب کو شکست سے بچایا اور ایک نئی فتح سے ہمکنارکیاہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر انقلاب اس جذبے کو کسی حقیقی انقلاب سے روشناس نہیں کراتا تو یہ جذبہ ،یہ وفاداری، ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔اور یہی انقلاب کے دشمنوں کا مطمع نظر ہے ۔
کیا کھویا ہے ؟کیا پایا ہے؟ الیکشن میں اپنی پارٹیPSUVکے کامیاب ہونے والے ارکان کی میٹنگ سے صدرشاویزنے2اکتوبرکو خطاب کیا ہے۔اس تقریر میں کئی درست نکات بیان کئے گئے ہیں۔ شاویزنے پارٹی کی کامیابی کو ردانقلابی اپوزیشن کے خلاف کامیابی قراردیا’’ہم نے بلاشبہ ردانقلابی قوتوں کو شکست سے دوچار کیاہے ‘‘۔یہ بات ان معنوں میں بجا ہے کہ پارٹی، اسمبلی کے اندر ردانقلابی قوتوں کو واضح برتری حاصل کرنے میں روکنے میں کامیاب رہی ہے ۔جو کہ اپنا سارا زور صرف کررہی تھیں کہ اسمبلی میں،جائز ناجائز ہر صورت میں،اکثریت حاصل کی جائے۔گیارہ سال گزر جانے کے باوجود بھی،الیکشن میں ہونے والی یہ کامیابی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ عوام انقلاب سے اپنی جڑت کو برقراررکھے ہوئے ہیں۔ مگر صرف یہ بات تسلی کیلئے کافی نہیں ہے ۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے اور ناقابل تردید طورپر کہ انقلاب کے دشمنوں نے بھی پیش قدمی کی ہے ۔اور یہ اب پہلے سے کہیں زیادہ خو د کو مضبوط اور تواناکرچکی ہے۔اپنی تقریر میں بھی شاویز نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں توجہ دینی ہوگی کہ کیونکر ہمارے دس لاکھ سے زیادہ ووٹر ہم سے الگ تھلگ یا نالاں ہوچکے ہیں ؟ہمیں اس کی تفتیش اس کا تجزیہ اورا س کا مداواکرناہوگا۔وہ کیا مقامی اور علاقائی مسائل ہیں کہ جن کی وجہ سے ایساہوا؟جب تک ہم ان مسائل کا ادراک اور پھر ان کا مداوانہیں کریں گے، انقلاب کوسنجیدہ خطرات کا سامنا رہے گا۔لازمی ہے کہ ہم الیکشن کی متوازن جائزہ رپورٹ تیار کریں۔جس سے یہ بات عیاں ہوسکے کہ سماج کی مختلف پرتوں کے کیا مسائل اور کیا مزاج ہیں اور کیوں؟ ہم الیکشن کے نتائج سے کیا نتائج اخذکرتے ہیں! اس سوال کے جواب کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ جواب دینے والے کا اپنا سیاسی نقطہ نظرکیاہے!اور یوں اس سے یہ سوال بھی منسلک اور عیاں ہوتا ہے کہ آپ کس طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔بجا طورپر انقلاب کے دشمن ان نتائج پر ہمہ قسم کی جمہوری شعلہ بیانیاں بروئے کار لاتے ہوئے اسے انقلاب کے نام لیواؤں کی کمزوری اور شکست قراردیں گے۔وہ کہیں گے کہ انقلاب کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں اورہم 2012ء کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے انقلابیوں کو نیست ونابود کردیں گے۔وغیرہ وغیرہ۔ بولیویرین انقلاب میں موجود اصلاح پسندعناصر جو کہ تحریک میں سرمایہ دارانہ نظریات کی دلالی اور جگالی کرتے چلے آرہے ہیں،ان نتائج پر یہ کہتے ملتے ہیں کہ دیکھا نا!ہم نہیں کہتے تھے کہ انقلاب کو نیچے عوام میں مطلوبہ تائیدوحمایت میسر نہیں ہے۔ اور اگر ہم نے انقلابی اقدامات اٹھائے اور معیشت کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی تو اس سے مڈل کلاس خفاہوکر ہماری مخالف ہوجائے گی۔ اس لئے لازمی ہے کہ ہمیں دھیرے دھیرے اور پھونک پھونک کر اقدامات کرنے چاہئیں ۔ہمیں انقلاب کے نعرے سے پسپائی کرتے ہوئے،مقامی سرمایہ داروں اور اپوزیشن کے ساتھ معاہدہ و مصالحت کرنا چاہئے اور’’ قومی مفاد‘‘کو اپنا نصب العین مقررکرناچاہئے۔
اس کے برعکس ،انقلاب سے وابستہ چلے آنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن کے یہ نتائج وینزویلا کے سماج میں پھلنے پھولنے والی بے چینی اور اضطراب کا اظہار کرتے ہیں جو کہ انقلاب کی سست روی کے باعث پیداہوچکی ہے ۔وینزویلا کی سرمایہ داری جو کہ ابھی تک یہاں کی معیشت کے مرکزی شعبوں پر حاوی ہے ،ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ پیداوار کو سبوتاژ کیاجائے ۔یہ لوگ نئی سرمایہ کار ی کرنا تو کجا،پہلے موجود کارخانوں کو بھی بند کرتے چلے آرہے ہیں۔انقلاب کے یہ دشمن ،معیشت کو سبوتاژکرکے ،اس کے نتائج وعواقب کو انقلاب کے خلاف استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔انقلاب کو بچانے کیلئے اس کے علاوہ کوئی راستہ ،کوئی طریقہ نہیں ہے کہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے اثاثوں کو انقلاب کے تصرف میں لایاجائے ۔اور یوں ان کے غاصبانہ قبضے اور رویے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جان چھڑوالی جائے ۔
بڑی آسانی سے یہ دیکھاجاسکتاہے کہ ان مذکورہ بالا دونوں رحجانات ایک نکتے پر متفق نظر آتے ہیں۔انقلاب کے دشمن واضح طورپر انقلاب کے ساتھ اپنی مخاصمت اور نفرت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بھی کہ ان سے جو طریقہ ذریعہ اور رستہ ممکن ہوا،وہ انقلاب کو تہس نہس کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔خواہ پارلیمانی ہو ،خواہ ماورائے پارلیمان،قانونی ہو کہ غیر قانونی،پر امن ہو کہ متشدد۔اصلاح پسند حضرات موجودہ سرمایہ دارانہ طرز معیشت و حکومت کو قائم ودائم رکھنا چاہتے ہیں ۔لیکن وہ اپنی اس خواہش اور آدرش کو منافقانہ اصطلاحات کے بہروپ میں پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔دیکھیں ہمیں بہرطور مفاہمت ومصالحت کا دامن نہیں چھوڑناچاہیے‘ ہمیں زیادہ گرم جوشی دکھانے سے اجتناب کرناچاہیے ‘ ہمیں کسی طور درمیانے طبقے کو خود سے الگ اور خفا نہیں کرناچاہیے ‘ہمیں انتہاپسندی سے بچنا چاہئے ۔اور ایسے ہی بے شمار دلفریب دلائل ان کی جانب سے پیش کیے جارہے ہیں۔
نائب صدر ایلیا جوؤا جیسے لوگ بھی ہیں جو کہ ایک’’ وسیع القلب محب الوطن اتحاد‘‘کی وکالت کرتے آرہے ہیں۔اس سے کیا مراد ہے؟انقلاب کی حمایت اور پیروی کرنے والے عناصر اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ان کے نزدیک اس اتحاد سے مرادوینزویلا کے مزدوروں کسانوں انقلابی نوجوانوں اور ترقی پسند دانشوروں کا اتحاد ہے ۔اور یہی وینزویلا کے سماج کی حقیقی زندہ پرتیں بھی ہیں ۔اور ان زندہ پرتوں نے اپنا حقیقی اتحاد بنایابھی ہواہے ۔اب سوال یہ ہے کہ آپ کون سی دوسری قوتوں کو اس مجوزہ اتحاد کا حصہ بناناچاہتے ہیں ؟جواب ملتا ہے اور کیا خوب جواب ملتاہے کہ دیکھیں جی ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن کی ترقی پسند بورژوازی بھی اس کار خیر میں شامل کر لی جائے تو کیا مضائقہ ہے ۔اب واقعہ اور المیہ یہ ہے کہ وطن میں اس نام کی کوئی مخلوق ہی موجود نہیں ہے ۔ یہ دلیل محض ایک خوش گمانی اور دھوکہ ہے جس سے صرف اور صرف آپ انقلاب کو رد انقلاب کے جال میں پھنسانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کہنا اور کرنا چاہ رہے ہیں۔اس کے بعد آپ کا فرمانا ہے کہ ہمیں انقلاب کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے ۔ہمیں اپنے ’’اتحاد‘‘میں شریک سرمایہ دار دوستوں کی بات اور ترجیحات کو بھی ہر حال میں مدنظر اورملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔اور پھر یہ بھی کہ ہمیں مڈل کلاس کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے ۔وغیرہ وغیرہ۔جیسا کہ ہم آگے چل کر ان دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور بتائیں گے کہ یہ سب کس قدر خطرناک ہے اور ہوگا اور یہ کس طرح سے انقلاب کو اس کے حقیقی مقاصد سے کہیں دور لے جائے گا ۔کہ جس نے مزدوروں اور کسانوں کی زندگیوں کے حالات اور معیار کو بہتروبلند کرنے کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔
سرمایہ داروں سے کوئی سمجھوتہ نہیں! نو منتخب ارکان سے اپنے خطاب میں صدر شاویز نے کہا کہ وہ انقلاب کو درپیش خطرے سے بخوبی واقف ہے ۔ اس نے واضح اعلان کیا کہ وہ ردانقلابی اپوزیشن سے کوئی سمجھوتہ کرے گا اور نہ ہی وینزویلاکے سرمایہ داروں کے ساتھ کوئی مصالحت ہوگی۔سوشلزم اور کیپیٹلزم کے مابین کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے والے اصلاح پسندوں کو جواب دیتے ہوئے شاویز نے کہا کہ ’’انقلاب میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہواکرتا ‘‘۔اس نے انتباہ کیا کہ رد انقلابیوں اور سرمایہ داروں کے ساتھ کسی مصالحت کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ہر مخلص انقلابی اس کی مکمل تائید کرے گا۔لیکن اپنی اسی تقریر میں ہی کہیں کہیں شاویز نے( نام لئے بغیر )ان پر بھی تنقید کی جو انقلاب کو اس کی حتمی منزل تک لے جانے کی انتہا کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔’’ایسی بھی باتیں کہی جارہی ہیں کہ جن میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ابھی تک اپنے ہدف کو حاصل نہیں کرپائے۔یا پھر یہ بھی کہا جاتاہے کہ ہم پر اس لئے حملے ہو رہے ہیں کہ انقلاب آگے پیش قدمی نہیں کر رہا۔کیونکہ ہم نے بینکاروں اور کمپنیوں کو بے دخل کرنا ہے اور پتہ نہیں میں نے مزید کیا کیا کرناہے ۔دیکھتے ہیں کیا کرناہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہاں موجود لوگوں میں سے ہر ایک کو ،دیانتداری کے ساتھ،ان خیالات اور تبصروں پر غور وخوص کرناچاہئے۔میں نے بھی آج صبح،اب تک کی اپنی کارکردگی پردیانتداری سے ایک نظرڈالی ہے تاکہ ممکنہ حد تک سچائی کے قریب پہنچ سکوں۔ اور یہ کہ کس طرح ایک یا دوسری انتہا سے بچا جا سکے ‘‘۔
یہ بات اپنے اندرشک وشبہے سے بالاہے کہ انقلاب کو بہر صورت ہر نوعیت کی انتہا پسندی سے بچنا اور گریز کرنا چاہیے انقلاب کو ہر صورت میں درست خطوط پر جاری وساری رکھنا چاہئے ۔تاکہ یہ اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے قابل ہوسکے اور اپنے لازمی اہداف تک رسائی کر سکے۔ جلدبازی اور بے صبری یقینی طورپر ایک غلطی ہوتی ہے ۔جلدی کرنا یا تیزی دکھانا بھی اسی طرح سے غلط ہوتاہے جیسا کہ تاخیرکردینا۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ’’انتہا‘‘ اپنے اندر کیا معانی رکھتی ہے؟جناب صدر کے بقول یہ ایک ایسے رحجان کی نمائندگی کرتی ہے کہ جو سب کچھ اپنے قبضے میں لے لینے کی بات کرتاہے ۔یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے سبھی کاروبار تک بھی ۔یہ ایک الٹرا لیفٹ پالیسی ہو گی کہ جس سے درمیانہ طبقہ ناراض ہو جائے گا۔صدر نے کہا کہ ’’ہمارے یہاں چالیس پچاس لاکھ اشرافیہ تو ہے ہی نہیں!‘‘
یہ بات واقعی درست ہے ۔بے شمار مڈل کلاسیے اور چھوٹے کاروباری اپوزیشن کے زہریلے ،گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں۔اور یہ درست ہے کہ انہیں انقلاب دشمنوں کے چنگل میں جانے سے بچانا چاہئے ۔سوال مگر یہ ہے کہ ایسا کیسے اور کیونکر کیا جاسکتاہے ؟مڈل کلاس کا سوال اور اسے انقلاب کی طرف جیتنا ایک بنیادی ایشو ہے ۔مارکس وادیوں کا کبھی بھی کہیں بھی یہ مطمع نظر نہیں رہا کہ مڈل کلاس کوا س کی جائیدادوں سے بے دخل کیاجائے ۔کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز نے اس کی واضح نشاندہی بھی کر دی ہوئی ہے ۔
’’ ہم کمیونسٹوں پر الزام ہے کہ ہم انسان کی انفرادی محنت سے انفرادی ملکیت حاصل کرنے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔حالانکہ کہا جاتا ہے کہ یہی ملکیت ہی تمام شخصی آزادی،سرگرمی اورخودمختاری کی بنیاد ہوتی ہے ۔گاڑھے پسینے کی کمائی ،اپنے دست وبازو سے پیدا کی ہوئی ملکیت!کیا آپ کی مرادچھوٹے دستکاراور چھوٹے کسان کی ملکیت سے ہے جو کہ بورژوا ملکیت سے پہلے ملکیت کی صورت تھی!اسے مٹانے کی کوئی ضرورت نہیں۔صنعت کی ترقی بڑی حد تک اسے مٹا چکی ہے اور آئے دن مٹائے جارہی ہے۔ اور کیا آپ کی مراد جدید بورژوا ذاتی ملکیت ہے ؟
لیکن کیا اجرتی محنت نے ،مزدور کی محنت نے اس کیلئے کوئی ملکیت پیداکی ہے ؟بالکل نہیں۔اس سے تو صرف سرمایہ پیداہوتاہے اور یہ وہ ملکیت ہے جو کہ اجرتی محنت کا استحصال کرتی ہے اور جس کے بڑھنے کی واحد شرط یہی ہوتی ہے کہ مزید استحصال کیلئے برابر اور لگاتار اجرتی محنت میسر ہوتی رہے۔
ملکیت اپنی موجودہ صورت میں سرمایہ اور اجرتی محنت کے تصادم پر مبنی ہے۔آئیے ہم اس تصادم کے دونوں پہلوؤں کاجائزہ لیتے ہیں۔ سرمایہ دار ہونے کا مطلب پیداوار میں صرف ذاتی نہیں بلکہ سماجی حیثیت کا مالک ہونا ہے۔سرمایہ اجتماعی پیداوار ہوتا ہے اور بہت سے انسانوں کی متحدہ کوششوں سے ،بلکہ اگرآخرتک نظر دوڑائی جائے تو یہ سماج کے سبھی ارکان کی متحدہ کوششوں سے ہی اسے حرکت میں لایاجاسکتاہے ۔اس لئے سرمایہ کوئی شخصی یا انفرادی نہیں بلکہ ایک سماجی طاقت ہے ۔لہٰذا سرمایہ کو جب تک مشترکہ ملکیت یعنی سماج کے تمام ارکان کی ملکیت بنایا جاتاہے توا س سے انفرادی ملکیت سماجی ملکیت میں نہیں بدلتی،بلکہ صرف ملکیت کی سماجی حیثیت بدل جاتی ہے۔اور اس کی طبقاتی حیثیت ختم ہوجاتی ہے‘‘۔ مارکس اینگلز کے یہ الفاظ نجی ملکیت بارے مارکس وادیوں کے موقف کوواضح اندازمیں بیان کر تے ہیں۔
مڈل کلاس کو کیسے جیتا جائے! ایک دلیل جو اکثروبیشتر اصلاح پسندوں کی جانب سے پیش کی جاتی ہے کہ مڈل کلاس کو جیتنا ازحد ضروری ہوتاہے اور اس کیلئے لازمی ہے کہ ہم سرمایہ داری کو ختم کرنے میں زیادہ شدت اور عجلت کا مظاہرہ نہ کریں۔اس موقف کا پہلا حصہ تو بالکل درست ہے جبکہ یہ اپنے دوسرے حصے سے بالکل مختلف بھی ہے اور متضاد بھی۔یہ ممکن بھی ہے اور لازمی بھی کہ ہم مڈل کلاس کے بڑے حصے کو جیتیں ۔لیکن اصلاح پسندوں کی طرف سے پیش کی جانے والی پالیسیوں کی بدولت ہم کبھی بھی اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ان کی بدولت ہم پیٹی بورژوازی کے بڑے حصے کو الگ تھلگ ہی نہیں کریں گے بلکہ انہیں ردانقلاب کی طرف بھی دھکیل دیں گے۔اپنی تقریرکے دوران صدرشاویز نے کہا کہ وینزویلا جیسے بٹے ہوئے سماج (انقلاب اور ردانقلاب کے مابین) کے اندریہ بات ملحوظ خاطررکھنا ضرور ی ہے کہ،ہر چند ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے اور اس کے مطابق ہی عمل بھی کرتے ہیں،تاہم کسی طور بھی فرقہ پرستانہ انتہا کا شکار نہیں ہوں گے۔بہت عرصہ پہلے مجھے کسی نے کہا تھا کہ ہماری مڈل کلاس کے بارے میں کوئی پالیسی ہے ہی نہیں۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ہم مڈل کلاس کو اپنے دشمن کی جانب دھکیل رہے ہیں۔اور یہ ایک ایسا ایشوہے جسے ہمیں لازمی سمجھنا ہوگاکہ مڈل کلاس کسی طور انقلاب کی دشمن نہیں ہواکرتی۔’’نہیں ایسا نہیں ہے ،نہ ہی چھوٹے مالکان ہواکرتے ہیں ۔آپ کیوبا میں دیکھ لیجیے۔یہ لازمی ہے کہ ہم اسے دیکھیں کہ جو اس وقت کیوبا میں ہورہاہے۔خاص طورپر اگر ہم کچھ کامریڈوں اور کچھ انقلابی تجزیہ نگاروں کی پوزیشنوں کا جائزہ لیں ،جو اگر کل میں ایک فرمان جاری کردوں کہ سبھی چھوٹے کاروبار اور کارخانے ضبط کر لیے جائیں،تووہ خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے،لیکن یہ محض پاگل پن ہوگا‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹے کاروباروں اور کارخانوں کو ضبط کرنا پاگل پن سے کم نہیں ہوگا۔اور اس قسم کے صلاح مشورے دینے والے کو فوری طور پر قریبی پاگل خانے میں جمع کرادینا چاہئے ۔لیکن مارکس وادیوں نے کبھی بھی اس قسم کی کوئی پوزیشن نہیں لی۔ہاں البتہ ہم نے جس بات کی وکالت کی ہے وہ یہ ہے کہ اشرافیہ کی ملکیتیں ضرور ضبط کی جائیں؛بینکاروں کو بے دخل کیا جائے ؛اجارہ داریوں اور مافیاکا خاتمہ کیا جائے۔نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مڈل کلاس ایک رجعتی پرت ہواکرتی ہے کہ جسے انقلاب کا دشمن قراردے کر مسترد کردیاجائے۔اس کے برعکس ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی پالیسیاں مرتب اور نافذ کی جائیں کہ جن کی مدد سے مڈل کلاس کے اہم حصوں کو جیتا جاسکے اور انہیں اشرافیہ کے چنگل سے چھڑایاجاسکے۔لیکن پھر اس کیفیت تک آنے کیلئے ہمیں لازمی طورپر،ایک سرمایہ دار سماج میں مڈل کلاس(پیٹی بورژوا)کی درست پوزیشن کا تعین اور ادراک کرناہوگا۔
استحصال کرنے والی قوتیں سماج میں ہمیشہ اقلیت میں ہی ہواکرتی ہیں۔اور جب تک کہ انہیں سماج میں دوسرے اور تیسرے درجے کے استحصال کرنے والے عناصر دستیاب نہ ہوں تب تک وہ اپنا استحصال کر ہی نہیں سکتیں۔اپنی معاشی قوت اور اپنے زیر اثرو زیرانتظام ذرائع ابلاغ کی مد دسے ،وینزویلا کی اشرافیہ نے وہاں کی مڈل کلاس کے بڑے حصے کو انقلاب کا دشمن بنادیا ہے۔جمہوریت کے نعرے کو غلط طور استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو سڑکوں پر لایا اور لڑائی جھگڑے کراکے اشتعال پھیلایا جارہاہے۔اس قسم کے شوریدہ سر درحقیقت وہاں کے سیٹھوں اور امراء کے بگڑے ہوئے بچے ہیں۔جنہوں نے عوام کا خون چوس چوس کر اپنی توندیں بڑھائی اور اپنی تجوریاں بھری ہوئی ہیں اور جنہیں عام انسانوں سے ازلی بیر ہے۔ جب بھی کبھی غریبوں کو کچھ مراعات ملنے لگتی ہیں تو پیٹی بورژوا اضطراب بڑھنا شروع ہوجاتاہے اور یہ اس کو اپنے مفادات کے خلاف سازش سمجھ کر شوروغوغا شروع کردیتے ہیں۔جب بھی ان کا دل چاہتاہے یہ آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں لیکن پھر یہ سارا شور کھوکھلا ہوتا ہے اور جونہی عوام کی کوئی تحریک نیچے سے اوپر آتی ہے تو یہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔
تاہم پیٹی بورژوازی اپنے اندر کوئی طبقہ نہیں ہوا کرتی۔ مڈل کلاس آپس میں منقسم ہے اور اس کا اظہار ہمیں اپوزیشن کے اندر موجود ملتاہے۔مڈل کلاس کی بالاپرتیں بہت ہی مراعات یافتہ ہوتی ہیں۔ان میں خوشحال وکلاء، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز،بینک مینیجرزاور سیاستدان شامل ہیں۔یہ لوگ اشرافیہ کے بہت قریب ہوتے اور اس کے فرمانبردارنوکرہوتے ہیں۔جبکہ مڈل کلاس کی نچلی پرتیں چھوٹے دکانداروں، چھوٹے کسانوں ،بینکوں وغیرہ کے کلرکوں پر مبنی ہوتی ہے ۔جن کا محنت کش طبقے سے قریبی تعلق واسطہ ہوتاہے اور جنہیں انقلاب کی جانب جیتا جا سکتاہے ۔ تاہم مڈل کلاس کی نچلی پرتوں کو جیتنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کیلئے مڈل کلاس کی بالاقیادت کو رعایتیں دی جائیں(جوکہ ان کا حقیقی سیاسی استحصال کرنے والے ہوتے ہیں)اس کے برعکس ان استحصالیوں یعنی بڑے بینکاروں اور سرمایہ داروں کے خلاف ٹھوس اور فیصلہ کن اقدامات کئے جانے ضروری ہیں۔
اپوزیشن کے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ انقلاب کے دشمنوں کی دھوکہ دہی کا شکار چلے آرہے ہیں۔انہیں توجہ دے کر انقلاب کی طرف جیتا جا سکتا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں کو بے دخل کرتے ہوئے اورچھوٹے کاروباریوں اوردکانداروں کے مفادات کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے ان کو انقلاب کی طرف لایا جایاسکتاہے ۔انہیں اس بات پر مائل اور قائل کیا جاناچاہئے کہ انقلاب پرکسی طور بھی سمجھوتہ نہیں ہوگااور یہ کہ ان کا مفاد بڑی اجارہ داریوں اور بینکوں کو بے دخل کرنے والی قوتوں کے ساتھ
اتحاداور تعاون سے وابستہ ہے ۔ نام نہاداور خودساختہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ایک عظیم دھوکے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور جو صرف ا ورصرف بڑے مالیاتی سرمائے کے تسلط کی دلالی کے سوا کچھ بھی نہیں ہواکرتی۔مالیاتی سرمائے کے تسلط کا یہ جبر نہ صرف محنت کش طبقے کو اپنے جبڑوں میں لئے رکھتاہے بلکہ یہ مڈل کلاس کو بھی اپنے پنجوں میں دبوچے رکھتاہے ۔اس سرمایہ دارانہ جمہوریت میں حقیقی طاقت بڑی اجارہ داریوں اور بڑے بینکوں کے ہاتھوں میں ہواکرتی ہے ۔ہمیں جو جمہوریت چاہئے وہ ایک حقیقی جمہوریت ہے کہ جس میں صنعت بینک اور زمین اجتماعی ملکیت پر مبنی اور جومحنت کشوں کی جمہوریت ہوگی۔ہمیں یہ واضح کرناہوگا کہ قومیائے جانے کے سبھی اقدامات بڑے سرمایہ داروں، بڑے بینکوں اور بڑے زمینداروں سے متعلق ہوں گے۔ ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ چھوٹے کاروباروں ،کھیتوں اور دکانوں کو نیشنلائز کیاجائے۔کیونکہ ان کا معیشت کو چلانے میں کوئی آزادانہ کردار نہیں ہواکرتا۔بلکہ یہ تو خود بڑے بینکوں اور بڑی سپر مارکیٹوں کے محتاج ہواکرتے ہیں۔ہم سبھی چھوٹے تاجروں سے اپیل کریں گے کہ وہ نیشنلائزیشن کے پروگرام کی حمایت کریں جو کہ ان ہی کے مفاد میں ہوگا۔
بینکوں کی نیشنلائزیشن کے بعد حکومت اس پوزیشن میںآجائے گی کہ وہ چھوٹے کاروباروں کیلئے سستے اورآسان قرضے فراہم کر سکے ۔بڑی کھاد فیکٹریوں کو قومیائے جانے کے بعدکسانوں کو سستی کھادوں کی فراہمی بہت ہی سہل ہو جائے گی۔درمیان کے دلالوں کو ختم کرنے ،ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسپورٹ سمیت بڑی سپر مارکیٹوں کو اجتماعی ملکیت میں لیے جانے کے بعدہم کسانوں کو اس بات کی ضمانت دے سکیں گے کہ ان کی فصلوں کی صحیح اور بروقت ادائیگی ممکن ہوجائے گی۔یہی نہیں بلکہ صارفین کو بھی کم اور سستے داموں پر اشیاء کی فراہمی معمول ہو جائے گا۔
معیشت کے بڑے اور مرکزی شعبوں کو اجتماعی ملکیت میں لیاجانا،نہ تو کسی انتقام کا اظہارہوگی نہ ہی یہ جارحیت کاکوئی قدم ہوگا۔بلکہ اس کے بالکل برعکس یہ انقلاب کو محفوظ اور مضبوط بنانے کا لازمی اقدام ہوگا۔ایک انقلابی حکومت کی طرف سے نیشنلائزیشن کا مقصد اور ہدف کسی طور یہ نہیں ہوگا اور نہ ہے کہ وہ مزدوروں کسانوں اور چھوٹے تاجروں کی ملکیتوں کو چھیڑے جو کہ سماج کی بھاری اکثریت 9/10ہوتے ہیں البتہ اس کا ہدف سماج کی وہ اقلیت ہوتی ہے جو کہ1/10ہوتی ہے لیکن جو سماج میں سب سے بڑی ملکیت کی حامل ہواکرتی ہے۔
کیوبا نو منتخب ارکان اسمبلی سے اپنے خطاب میں صدرشاویز نے کئی بار کیوبا کے حوالے دیئے ۔ایک مقام پر شاویز نے کہا ’’وہاں کیوبا کے اندر انہوں نے خود تنقیدی و خود شناسی کا ایک اہتمام کیاہواہے اور وہ اس حوالے سے کئی جراتمندانہ فیصلے بھی کررہے ہیں۔اس قسم کی کئی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ وہاں سامراج منڈلا رہاہے اور جن افواہوں کی وجہ سے فیڈل ازحد خفابھی ہے ۔یہ بھی کہا جارہاہے کہ فیڈل اور راؤل کے مابین اختلافات ہیں۔یہ بات سراسر غلط ہے ۔ میں انہیں اچھی طرح جانتاہوں اور یہ بھی کہ وہ ایک دوسرے کو کس طرح سے مکمل اور مسلسل رکھے ہوئے ہیں‘‘۔راؤل کاستروکی جانب سے کی جانے والی حالیہ اصلاحات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاویز نے کہا’’کیوبا حکومت کو اس کا اختیار حاصل ہے ، اور یہ اصلاحات کسی طور پیچھے کی طرف قدم نہیں ہیں۔بلکہ یہ راؤل کے اپنے الفاظ میں سوشلزم کی نئی کیفیت ہے۔میں سمجھتاہوں کہ انہوں نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے کہ جس کی بدولت ڈیڑھ سو خود کفیل کاروبار پیداہوسکیں گے۔پچھلے سارے عرصے میں کیوبا میںآئس کریم شاپس، باربرشاپس،ہیر ڈریسرزاور کارپینٹرز ریاست ہی کی ملکیت چلے آرہے تھے ۔اب یہ اوپن کردیے گئے ہیں اور ایک نئے انداز میں سامنے آرہے ہیں۔وہاں کچھ بھی قابل تشویش نہیں ہورہا۔اس کے باوجود بھی ہم خود کو گناہ اور ندامت کے ایک احساس میں مبتلاکرنا شروع ہوگئے ہیں۔ہم ایسی تقریریں اور باتیں شروع کردیتے ہیں کہ جن کا حقائق سے دوردور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔کیا کوئی بھی یہ تصور بھی کرسکتاہے کہ بولیویرین انقلاب گوشت، سبزیوں، کریانے کی دکانوں کو بھی قومی تحویل میں لے لے گا؟ کیا ہم کیراکس میں کپڑے اور جوتے بیچنے والی دکانوں کو بھی نیشنلائزکرلیں گے؟بعض اوقات ہم خودہی اس قسم کے جھوٹ کو سچ سمجھنا شروع کردیتے ہیں ؛اور یہی وہ کیفیت اور حالت ہوتی ہے جس پر ہمارادشمن ،اپنی انقلاب دشمن مہم کی بنیاد رکھتاہے اوروہ یہ کہ انقلاب تو ہم سے سب کچھ چھیننے پراتراہواہے‘‘۔ کیوبا کے اندر جو کچھ ہورہاہے اس کا گہرائی سے جائزہ لیناضروری ہے کیونکہ وہاں جو ہورہاہے وہ وینزویلاکے اندر کھلے بندوں ڈسکس کیاجارہاہے۔لیکن یہاں زیاد ہ تفصیلات میں بھی جانے کا ابھی مقام نہیں ہے۔پہلے پہل تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیوبا کے اندر جو اقدامات کئے جارہے ہیں ان کی وجہ سے وہاں لوگوں کی اکثریت کوتشویش لاحق ہے اور وہ کیوبا میں سرمایہ دارانہ ردانقلاب کے خطرے کو محسوس کررہے ہیں۔اور دوسری بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ ابھی وینزویلا میں بڑی اجارہ داریوں اور بینکوں کو نیشنلائز نہیں کیا گیا جوکہ کیوبا میں کئی دہائیوں پہلے کرلیاگیاتھااور اس نیشنلائزیشن کے بعد ہی انقلاب اس قابل ہوسکاتھا کہ وہ سرمایہ داری سے جان چھڑا گیااور کئی بیش قیمت حاصلات بھی ممکن کرسکا۔یہ بات بالکل درست ہے کہ ایک منصوبہ بند معیشت ،قطعی طور پر سب کچھ تحویل میں لے لئے جانے کی حامل نہیں ہواکرتی ۔حتی کہ ایک حجام کی دوکان کو بھی۔لیکن سٹالنزم کے تحت یہی انتظام وانصرام ہی نافذ بلکہ مسلط کیاگیا۔1968ء میں،کیوبامیں بھی سبھی چھوٹے چھوٹے کاروباروں کو ’’انقلابی اقدام‘‘کے تحت ’’قومی ملکیت ‘‘میں لے لیاگیا ۔ ان میں58000دکانیں یاکاروبار شامل تھے جو کہ زیادہ تر بڑے شہروں میں تھے۔ان میں آئس کریم کے ٹھیلے ،باربرشاپس،جوتے گانٹھنے والے کھوکھے وغیرہ سب کے سب ’’نیشنلائز‘‘کرلئے گئے۔یہ مکمل طورپر غلط اور ناروا اقدام تھا ، جس نے خواہ مخواہ افسرشاہی کی ایک پرت کو متعارف اور مسلط کیا۔ کہ جس کو ان چھوٹے موٹے کاموں اور کاروباروں کی نگرانی کا فریضہ سونپ دیاگیا۔سوشلزم کی طرف عبور کے مرحلے میں ،یہ ایک ناگزیر عمل ہوگا کہ سرمایہ داری کے عناصر وعوامل ، سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے۔ ان میں بے شمار چھوٹے کاروبار،دکانیں اور چھوٹے کسان شامل ہوں گے۔ اپنے اندر اور اپنے تئیں، اس سے سوشلزم کو کوئی خطرہ نہیں ہوناچاہیے کہ جب تک بھی معیشت کے بڑے شعبے ریاست کے کنٹرول میں جبکہ ریاست اور صنعت کا کنٹرول ورکنگ کلاس کے ہاتھوں میں ہوگا۔اسی صورت میں اور صرف اسی ایک صورت میں ہی ایک چھوٹے پرائیویٹ سیکٹرکو کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور دی جائے گی۔اوریہ تب تک رہے گی یا رہ سکتی ہے کہ جب تک معیشت کے حاوی حصوں پر ریاست کا کنٹرول جاری رہتاہے ۔ تاہم وینزویلا اور کیوباکی معیشتوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔کیوبا میں انقلاب نے شروع ہی میں بینکوں اورمعیشت کے حاوی حصوں کو نیشنلائز کر لیاتھا۔جبکہ وینزویلا میں انقلاب کو گیارہ سال ہوجانے کے باوجودبولیویرین حکومت نے تاحال یہ فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا جس کے نتیجے میں کئی منفی اور تخریبی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔وینزویلا میں چھوٹے کاروباروں کو نیشنلائز کرنے کے لئے کوئی
بھی دلیل جائز نہیں ہے ۔صرف وینزویلاہی نہیں کیوبا میں بھی اور کہیں بھی۔ لیکن اسی طرح سے بڑے بینکوں اوراجارہ داریوں کو ختم نہ کرنے کے حق میں بھی کوئی دلیل جائز نہیں ہوسکتی۔یہ پالیسی یعنی سوشلزم کی پالیسی نہ تو انتہاپسندی کی ،نہ ہی خیال پرستی کی حامل ہے ۔بلکہ یہ پالیسی بینکوں ا ور اجارہ داریوں کی طرف سے معیشت کو دانستہ اور بتدریج منظم طریقے سے زبوں حال کرنے اور کرتے رہنے سے بچانے کا واحدراستہ اور طریقہ ہے ۔اور یہی وہ اشرافیائی عناصر ہیں کہ جو انقلاب کوہر ممکنہ طریقے اور ذریعے سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔
وینزویلا ئی معیشت کی ہئیت پچھلے گیارہ سالوں کے دوران بولیویرین انقلاب نے کئی حوالوں سے پیش رفت کی ہے ۔لیکن ہم یہاں یہ کہنے اور پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ آیا انقلاب نے اپنے بنیادی اہداف حاصل کر لئے ہیں؟نہیں ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے ہیں۔ اور یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف صدر شاویز نے PSUVکی تاریخی
کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کیا بھی ہے۔ سرمایہ داری کے نمائندہ ایک مالیاتی میگزین Reporte Diario de la Econom237aنے اپنی پانچ فروری2010ء کو سامنے آنے والی رپورٹ میں بتایاہے کہ وینزویلا میں بینکوں نے سال2009ء میں 2615بلین امریکی ڈالر کا منافع کمایا جس کا83 فیصدصرف فیسوں کی مد پر مبنی تھا۔جریدےEl Universalنے اپنی جولائی2010ء کی اشاعت میں لکھاہے کہ ’’ایسوسی ایٹڈپریس نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق شاویز کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد2003ء سے 2006ء کے معاشی عروج کے دوران پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کے مابین فرق بہت نمایاں ہو چکاہے اور پرائیویٹ شعبے نے پبلک سیکٹرکے مقابلے میں زیادہ کمائی کی ہے‘‘۔ ’’یہ بھی کہا گیاہے کہ ریاستی اداروں کا معیشت کے توازن میں حصہ کافی نرم ہے۔پچھلے سال ہی پرائیویٹ سیکٹر کا مجموعی قومی آمدنی میں حصہ 70 فیصدتھا،اس میں پیداوارپر ٹیکسوں کا11 فیصدبھی شامل ہے۔یہ تخمینہ سٹیٹ بینک آف وینزویلا کا ہے ۔جبکہ پبلک سیکٹر کا حصہ30 فیصدرہا جوکہ شاویزکے 2008ء میں صدر منتخب ہونے سے پہلے سے قدرے کم شرح ہے‘‘۔
(Sector privado a250n controla dos tercios de la econom237a en Venezuela)
یہ کیفیت اور مسئلہ کسی حجام کی دوکان یا کسی چھوٹے کاروبار کو نیشنلائزکرنے کا نہیں ہے بلکہ یہ سوال وینزویلائی معیشت کے بڑے اور حاوی حصوں کا ہے ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ انقلاب کے گیارہ سالوں بعد بھی وینزویلائی معیشت کے بڑے حصے پر ابھی تک اشرافیہ کا کنٹرول ہے ۔ اور جب تک یہ اور ایسی کیفیت برقراررہتی ہے تب تک کسی بھی منصوبہ بند معیشت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔نہ ہی وہاں سوشلزم ہوسکتاہے ۔ اس کیفیت کے نتیجے بھی نکلا کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وینزویلا اس وقت سارے لاطینی امریکی ملکوں میں سب سے زیادہ نابرابری والے ملکوں میں چوتھے نمبر پر ہے ۔اور اس کے10 فیصدامیرترین افرادکے پاس ملکی دولت کا36.8فیصدہے جبکہ اس کے امیر ترین 30 فیصدلوگوں کا ملکی وسائل کے 65.1 فیصدپر تصرف ہے۔جبکہ غریب ترین لوگوں کو قومی دولت کے صرف0.9 فیصدپرہی زندہ رہنے کا موقع میسر ہے۔
(Fuerte concentraci243n de la riqueza en Colombia y Am233rica Latina, advierte la ONU)
اگر ہم میں سے کوئی بھی یہ سمجھنے کی خواہش رکھتا ہے کہ کیونکر انقلاب کی حمایت کرنے والوں کی بڑی تعداد نے حالیہ الیکشن میں چپ سادھنے اور گھروں میں ہی بیٹھے رہنے کو ترجیح دی؟اور یہ سوال محض الیکشن تک ہی نہیں بلکہ انقلاب کے حوالے سے بھی سنجیدہ توجہ کا طالب ہے ۔ہمیں یہیں سے ابتدا کرنی چاہیے ۔جب بھی کوئی بھی ایک بولیورین ورکر مہینے کے آخری دنوں میں یہ دیکھتاہے کہ اس کی تنخواہ اس کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہوجاتی ہے اور یہ کہ اشیاء کی قیمتیں آئے روز بڑھتی چلی جارہی ہیں اور یہ کہ امیر دن بدن امیرتر ہوتے جارہے ہیں تو انقلاب پر اس کا اعتماد کمزورہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی سوال ہے جسے سمجھنے اور جس سے نمٹنے کی فوری ضرورت ہے۔
ایک منصوبہ بند معیشت کی دیوہیکل کامیابیوں کا بھرپور تاریخی اظہارہمیںیوایس ایس آرمیں ملتاہے۔ یہ سبھی حاصلات بعد میں سٹالنزم سے جنم لینے والی تباہکاریوں کی بھینٹ چڑھنا شروع ہوگئیں۔بدعنوانی ،لوٹ ماراور بدانتظامی ،ہمیشہ ہی ایک افسرشاہانہ طرزحکمرانی کا خاصا رہی ہیں۔ان عوامل کے طویل عرصے تک کے غلبے نے منصوبہ بند معیشت کی حاصلات کو نہ صرف دبائے رکھا بلکہ ان کا گلا گھونٹ دیا۔اور یہی ایک واحد وجہ تھی جو یو ایس ایس آرکے انہدام کا باعث بنی۔خرابی منصوبہ بند معیشت میں نہیں،اس کے انتظام وانصرام میں تھی۔یہ طفیلی اشرافیہ کا ناسور ہی تھا کہ جس کے باعث انقلاب ایک پسماندہ ملک میں تنہائی کا شکار ہوتاچلاگیا۔نتیجتاً سرمایہ دارانہ ردانقلاب نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایک بہت بڑی اور شدید تباہی اس ملک کا مقدر بن کے رہ گئی۔معیشت کی افسرشاہانہ منصوبہ بندی پیداوار کے ضیاع،بدعنوانی اوربدانتظامی کو جنم اور فروغ دیتی رہی۔آخرکار افسرشاہی نے خود ہی ذرائع پیداوار کا مالک ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ایک حقیقی ورکرزکنٹرول کی غیرموجودگی ،کہ جو ریاست معیشت میں عام محنت کشوں کی براہ راست مداخلت وشرکت کو یقینی بنائے رکھتی ہوتی ہے،انقلاب کے ردانقلاب میں بدلنے کے خطرے کو کسی وقت بھی ممکن بنا سکتی ہے ۔یہی ایک کمی بیزاری،بے بسی،بے یقینی کو عمومی رویہ بنانا شروع کردیتی ہے ،امیدیں آرزوئیں حوصلے مضمحل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور انقلاب ایک المیہ ایک روگ بن کے رہ جایا کرتاہے ۔اور اس کیفیت میں جب یہ کیفیت بھی شامل ہو کہ عام لوگ اپنی روزمرہ اشیاء تک رسائی ہی سے دور ہوتے چلے جائیں،قوت خرید کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہو،جب کرپشن ہر ایک انسان کو اپنے سامنے دکھائی دے رہی ہواور جب یہ صاف نظر آرہاہو کہ حکومت کی بالاپرتیں سب کچھ چوری کرکے اپنے پیٹ اپنی تجوریاں بھرتے چلے جارہے ہیں،ایسے میں ردانقلاب اپنے خونی جبڑوں سمیت سامنے آن کھڑاہوجاتاہے۔
زراعت :بھوک اگاتے کھیت سب سے ناکام ترین شعبہ زراعت کا ہے کیونکہ یہی وہ شعبہ ہے جو عام لوگوں کی بنیادی ضرورتوں سے فوری اور براہ راست جڑا ہواہے جن میں روٹی اور کپڑا شامل ہیں۔اگرچہ وینزویلامیں زرعی پیداوارمیں بے پناہ صلاحیت موجودہے لیکن یہ صلاحیت طفیلی اشرافیہ کی بے توجہی اور ہوس کی بھینٹ چڑھی آرہی ہے ۔وہ اس پر توجہ کی بجائے تیل کے شعبے پر زیادہ توجہ دیتے رہے ۔اور اس طرح اپنی زراعت پر توجہ کی بجائے تیل برآمداورغذائی ضروریات درآمد کر کے معاملات چلائے جاتے رہے ۔یہی اشرافیہ تھی جس نے 2002ء میں معاشی سبوتاژکی بھرپور کوشش کی تھی اور اب یہی ایک بار پھر غذائی شعبے کو تباہ حال کرنے پر تلی ہوئی ہے تاکہ انقلاب کو ناکام ونامراد کیا جا سکے۔ عالمی منڈیوں میں غذائی اشیا کی قیمتوں کے حالیہ رحجان کی وجہ سے وینزویلا میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ ہوچکاہے۔حکومت نے چندایک بینکوں اور بیکار پڑی زمینوں کو اپنے تصرف میں لینے کے اہم اقدام کئے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی ریاستی فارموں اور کوآپریٹو فارمنگ کیلئے مالی امداد بھی فراہم کی گئی ہے ۔علاوہ ازیں ریاستی فوڈ مارکیٹوں اورڈسٹری بیوٹرزکا ایک نیٹ ورک بھی قائم کیا ہے۔ یہ درست سمت میں اٹھائے گئے قدم ہیں۔لیکن یہ وینزویلا کی غذائی ضروریات کیلئے موجودہ درکار صورتحال سے نمٹنے کے ضمن میں انتہائی ناکافی ہیں۔ وینزویلاکی سب سے بڑی غذائی اور بیوریج کی کمپنیEmpresas Polar اس وقت چالیس سے زائد کمپنیوں کی سلطنت کی مالک ہے ۔جبکہ اس کے پاس 17000ملازمین کام کرتے ہیں اور یہ کمپنی پستہ ، چاول،آئل کارن ،آئس کریم،وائن ،منرل واٹر،سوڈا، کینڈی اورہمہ قسم کے سنیکس بناتی اور بیچتی ہے۔یہ بڑی کمپنی اکیلی ، (تیل سے ہٹ کر)وینزویلا کی مجموعی قومی آمدنی کا 4 فیصد پیداکرتی ہے۔کمپنی کا چیف ایگزیکٹو لورینزو مینڈوزا کافی عرصے سے اپنے عہدے پر براجمان چلا آرہاہے،اس کے ذاتی اثاثے اس وقت 4.56 ارب ڈالرزتک پہنچ چکے ہوئے ہیں۔جب تک بھی خوراک اور غذا جیسی ضرورتیں اور ان کی فراہمی ورسائی مینڈوزا جیسے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہوگی تب تک غریب کا پیٹ کیسے اور کیونکر بھر سکے گا؟ان مقامی سرمایہ داروں کے خوراک اور پانی کی بدیسی اجارہ اداریوں کے ساتھ مراسم اور مفادات وابستہ ہیں۔ان جیسی کمپنیوں کو اپنے تصرف میں لے لینا کسی طور بھی مڈل کلاس کے خلاف قدم قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔یہ کمپنیاں اس مڈل کلاس کا بھی بے رحمی سے استحصال کرتی چلی آرہی ہیں۔Agroisle241a نامی کمپنی جو کہ ایک ایگریکلچرل سپلائز کمپنی ہے اور وینزویلا کی زرعی پیداوار کی70 فیصدسے زائد کا سامان بہم پہنچاتی ہے،کا قومی تحویل میں لیاجاناایک اور احسن قدم ہے جو کہ حکومت نے لیاہے۔اب اس کمپنی کا نام Agropatria رکھاگیاہے اور اس کی نیشنلائزیشن کے بعد سے صدر شاویز اس قابل ہوسکا ہے کہ وہ فوری طورپر اس قومیائی گئی کمپنی کی پیداوار کی قیمتیں کم کر سکے ۔ان میں12مختلف کھادوں کی قیمتوں میں 49.3 فیصدکمی،260ایگروکیمیکلز کی قیمتوں میں43فیصدکمی،اسی طرح چاول ،کارن اور دیگر بیجوں کی قیمتوں میں41.7فیصدکمی کر دی گئی ہے۔شاویز نے بجا طورپر کہاہے کہ ’’پیداوارکرنے والے ادارے کی جانب سے یہ کمی بالآخر نیچے عام صارف تک اپنے مثبت اثرات مرتب کرے گی۔ہم منافع خوری کے گھن چکر اور سرمایہ دارانہ ڈکیتی کے اس عمل کو جڑ سے ہی اکھاڑنے کی طرف جارہے ہیں‘‘۔اس نے واضح کیا کہ یہ کمی کسی طور ریاستی سب سڈی میں اضافے کااظہار نہیں بلکہ یہ پیداواری لاگت سے کچھ ہی زیادہ قیمت ہے۔صدر شاویز نے کمپنی سے وابستہ سبھی پیداوار کرنے والوں کو مسلسل فراہمی کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ کمپنی کے ساتھ پرانے سبھی لین دین نبھائے جائیں گے۔البتہ اب اس پر شرح سود 8 فیصد ہو گی۔ اس سلسلے میں شاویز نے565ملین بولیوار (132000ڈالرز) اس مقصد کیلئے فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ جس کی نگرانی ریاستی ادارے
Banco Agricola, Fondo de Desarrollo Agrario Socialista (FONDAS), and Fondo Bicentenario
کریں گے۔شاویز حکومت کی طرف سے غذائی پیداوار کے شعبے میں مالیاتی توجہ کے بڑھنے سے غذائی پیداوار میں اضافہ ہونا شروع ہوگیاہے۔1998ء میںیہ نصف بلین بولیوار تھی جو کہ 2009ء میں بڑھ کر20بلین بولیوارتک پہنچ گئی ہے۔تاہم ابھی تک اس شعبے میں بہتری اور بڑھوتری کی ضرورت ہے کیونکہ غذائی ضروریات ابھی پیداوار سے زیادہ ہے۔
شاویز نے خوراک کے معاملے میں عالمی اجارہ داریوں سے مستفید ہونے اور ان پر انحصار کرنے اور عالمی غذائی بحران سے بچنے کی ضرورت پرزور دیاہے لیکن اس مقصد کیلئے وینزویلا میں زرعی انقلاب برپا کیاجاناضروری ہے۔اس سلسلے میں جاگیرداری کا خاتمہ کیا جانا اور پھر بتدریج ریاستی ملکیتی غذائی پیداوارکرنے والوں اور پرائیویٹ غذائی اجارہ داریوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ زراعت کی ترویج کرنااور اس کے ساتھ ساتھ خوراک کی فراہمی اور ترسیل کیلئے ریاستی ملکیتی شعبے اور غذائی مارکیٹ کا قیام کیا جاناضروری ہے۔تاکہ خوراک سے منسلک اشیاء کی مقررہ قیمتوں پر فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ شاویز نے بجا قراردیاہے کہ ہم ’’خوراک کو کسی طور بھی سرمایہ دارانہ مفاد اور منافع کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔اب ہمیں لامحالہ تقسیم اور ترسیل کے نظام کوسوشلسٹ بنیادوں پر استوار کرناہوگا۔ہمیں رفتار کو بڑھاناہوگا کیونکہ اسی پر ہی وینزویلا کے مستقبل کا دارومدار ہے ۔ہمیں وینزویلا کو ایک زرعی-صنعتی مرکز بناناہوگا‘‘۔
شاویزنے زرعی اصلاحات کے عمل میں پیش رفت کرتے ہوئے مزید495000ایکڑ زرعی زمین کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا ہے جو کہCompa241237a Inglesaکی ملکیت تھی ۔زراعت اور زمین کے وزیر جوآن کارلوس نے اکتوبر اور نومبر کے مہینے کے دوران 618000ایکڑزرعی زمین کو نیشنلائز کرنے کی تصدیق کی ہے۔شاویزنے اعلان کیا کہ’’ بڑی جاگیروں سے اپنی تعیشات کرنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب ان کی رعونت اور تمکنت کے دن گنے جاچکے ہیں،زرعی انقلاب نے اپنا آغازکردیاہے اور یہ تیزی سے آگے بڑھ رہاہے‘‘۔ بجاطورپر ردانقلابی اور رجعتی اپوزیشن نے اس حالیہ نیشنلائزیشن کے خلاف ہذیان بکنا شروع کردیاہے ۔ان کا فرمانا ہے کہ یہ اقدامات معیشت کی سست روی میں اور بھی اضافہ کریں گے جو کہ پچھلی چھ سہ مائیوں سے بحران کا شکارچلی آرہی ہے۔نوئیل الوریز صدر قومی چیمبرآف کامرس نے کہاہے کہ ’’حکومت کا ارادہ یہ نظر آتا ہے کہ وہ پیداواری سیکٹر کو سکیڑکے رکھ دینا چاہتی ہے۔زراعت تو اس سے بیٹھ ہی جائے گی اور پیداوارانتہائی کم ہو جائے گی‘‘۔لیکن پھر یہ بات کیسے کی جاسکتی ہے کہ نجی زراعت یا صنعت ،ریاست کے تصرف میں آجانے کے بعداس سے کہیں مزید بدتر ہوجائے گی جو کہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تصرف کے دوران ہوتی تھی!ہر کس وناکس یہ بات جانتاہے کہ وینزویلا کے سرمایہ دار بارباراپیلوں کے باوجود وینزویلامیں سرمایہ لگانے سے گریزکرتے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے سرمائے کی ہڑتال کر رکھی ہوئی ہے اور اسے گم کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وینزویلائی معیشت بحران کی زدمیں ہے ۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ اب سرمائے پر ریاست کے تصرف کے بغیر وینزویلائی معیشت کے بحران سے نکلنے اور سدھرنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوسکتا۔ ’’نجی ملکیت کا حق‘‘
ہر کوئی بخوبی جانتا ہے کہ اپریل 2002ء کی بغاوت میں Fedec225marasکمپنی کا کتنا گہرا تعلق تھا اور اسی کمپنی کا سربراہ کارمونا ہی اس بغاوت کے بعد وینزویلا کا صدر بھی بن بیٹھا تھا ۔سرمائے کے مالک اور دلال ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ ہر جگہ انقلاب کے جانی دشمن ہواکرتے ہیں۔اور یہی لوگ موقع ملتے ہی آمریت کادم چھلہ بننے میں لمحہ بھر تاخیر بھی نہیں کیاکرتے۔اور سچ بھی یہی ہے کہ ان لوگوں نے وینزویلا میں ہمیشہ ہی اپنی آمریت قائم رکھی ہے۔اس سے ہٹ کر کہ کیراکس کے صدارتی محل میں یہ شخص تھا یا وہ شخص مگر آخری تجزیے میں مالیاتی سرمائے کی آمریت ہی قائم رہی۔ الواریزنے اعلان کیا ہے کہ Fedec225maras ملک کی سپریم کورٹ میں ایک رٹ دائرکرنے جارہی ہے کہ جس میں وہ حکومت کے خلاف نجی ملکیت کے حق کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ضروری کاروائی کرنے کی اپیل کرے گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مٹھی بھر امیرترین اشرافیہ کا ملکیت کا حق وینزویلا کے کروڑوں انسانوں کے روزی روٹی کرنے اور اپنے اہل خانہ کو پالنے کے حق سے زیادہ قیمتی اور مقدس ہے؟ہرگز نہیں۔
وقت آگیاہے کہ مالیاتی سرمائے کی آمریت کو سرے سے اکھاڑ پھینک دیا جائے۔اس سے پہلے کہ یہ انقلاب کو ہی ختم کرڈالے۔امیرلوگ اس پر چیخ وپکار اور احتجاج کرتے رہیں گے کہ یہ تو ملکیت کے حق کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔لیکن یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔ہمارے لئے وینزویلا کے 98 فیصد عام انسانوں کی ملکیت کو چھونا بھی ناممکن ہے لیکن اشرافیہ کی جائیدادیں نہیں کہ جو وینزویلا کے عام لوگوں کی نسلوں کی رگوں سے خون نچوڑ نچوڑ کے بنائی گئی ہیں اورجن کی وجہ سے کروڑوں انسان زندگی کے بغیر زندہ رہتے چلے آرہے ہیں ۔آئیے ہم یہاں نجی مالکیت کی ایک اورتابندہ مثال دیکھتے ہیں ۔یہ صاحب گستاوو سیزنوروس رینڈلزہیں جو کہ وینزویلا کے میڈیاکے فرمانروا ہیں۔فوربس میگزین کے مطابق اس کا شمار دنیا کے امیرترین افراد میں ہوتاہے ۔اس کے مطابق امریکہ میں اس کی جائیداد کا تخمینہ10.7ارب ڈالرز ہے ۔اور اگر اتنی بڑی جائیداد کسی کے پاس ہوتو وہ یقینی طورپر اتنی بڑی طاقت اور رعونت بھی اپنے جلو میں رکھتی ہوتی ہے ۔نیویارک ٹائمزلکھتا ہے کہ آنجناب لاطینی امریکہ کے موثر ترین فرد ہیں۔یہی نہیں بلکہ موصوف اپنی زوجہ محترمہ پیٹریشیا فیلپس سمیت لاطینی امریکہ کا سب سے زیادہ طاقتور جوڑا سمجھا جاتاہے جو تجارت اور سماجیات میں سب سے زیادہ اثر کا حامل ہے ۔ سیزنوروس کی ساری دولت،میڈیا ،انٹرٹینمنٹ،ٹیلی کمیونیکیشنز اورکنزیومر پروڈکشن کمپنیوں سے کمائی گئی ہے ۔ سیزنوروس گروپ آف کمپنیز لاطینی امریکہ میں ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا نجی ادارہ ہے ۔وہ سارے براعظم میں میڈیا کا شہنشاہ قرار دیاجاتاہے ۔وہ بولیویرین انقلاب اور صدرشاویز کا کھلا دشمن ہے ،2002ء کی بغاوت کے پیچھے اس کا بھی سرگرم کردار تھا۔اور وہ انقلابیوں کو احمق اور بندر قراردیتاہے۔عظیم محب الوطن سیزنوروس صرف وینزویلا کا ہی معزز شہری نہیں بلکہ وہ سپین کا بھی معزز شہری ہے۔اور یہ اعزاز بھی جناب کو سپین کے بادشاہ جوآن کارلوس کی ذاتی درخواست پر دیاگیاتھا۔نیویارک میں جناب امریکی شہری ہیں جبکہ میامی میں کیوبن،اور ڈومینیکن ریپبلک میں ایک ڈومینیکن ہیں اوریہی جناب کی اصولی اور اصلی بنیادبھی ہے۔ Venezuelanalysis نے بجاطورپر تجزیہ پیش کیاہے کہ ’’امریکہ سے باہر وہ امریکی سرمایہ داری کو ایک مقامی کے طورپر پیش کرنے والاشخص ہے اس کو دیکھ کر کوئی بھی بخوبی یہ اندازہ لگا سکتاہے کہ کیونکر وینزویلا میں کوئی مقامی قومی بورژواموجودنہیں ہے ۔وہ اپنے سامراجی آقا کا ہاتھ پاؤں بندھا غلام ہے اور جو اپنے آقا سے اپنی خوب قیمت بھی وصول کرتاہے ‘‘۔(Venezuela s Murdoch)
اس کھرب پتی شخص کی وینزویلاکے باہر بھی بڑی مالیاتی سلطنتیں قائم ہیں،چلی کا ٹیلیویژن نیٹ ورک،کولمبیا کا کیراکول ٹی وی؛لاطینی امریکہ کے DirecTVمیں اس کے بھاری حصص ہیں جس کی نشریات لاطینی امریکہ کے بیس ملکوں میں اپنی بیہودگی پھیلاتی ہیں۔امریکہ کے اندر ہسپانوی زبان کے سب سے بڑے چینل Univisionکے بیچے جانے تک وہ اس کا سب سے بڑاحصص کا مالک تھا۔وہ ایک اور چینل Venevision Internationalکا بھی مالک ہے جو کہ دنیا بھر میں میڈیااور انٹرٹینمنٹ پیداکرتا اور پھر انہیں بیچتاہے ۔جبکہ وینزویلا کا کمرشل ٹی وی چینل Venevisi243nبھی اس کی ہی ملکیت ہے ۔اس کا گروپ1980ء کے بعدسے ’’مس وینزویلا‘‘ کے مقابلے منعقدکرانے کی ملکیت بھی رکھے ہوئے ہے۔کیراکس کی بیس بال ٹیم Leon233s delبھی اسی کی ہی ملکیت میں ہے۔ان سب کے علاوہ
AOL Latin America،Galavisi243nاورPlay Boy Latin Americaبھی جناب کے گروپ ہی کی ملکیت میں ہیں
۔ اس قسم اور اس نوعیت کے اجارہ دارانہ میڈیا کوہی مغرب کی دنیا میں’’فریڈم آف پریس‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی اجارہ داری عام لوگوں کو یہ باور کرانے کا فریضہ سرانجام دیاکرتی ہے کہ انہوں نے کیا کیااور کیسا کیسا سوچنا ہے اور انہوں نے کسے ووٹ دینا اور کس کس کو نہیں دینا ہے۔اس قسم کی اجارہ داری نہ صرف انقلاب بلکہ جمہوریت کیلئے بھی ایک براہ راست خطرہ ہے ۔وینزویلاکے انقلاب اور اس کے عام لوگوں کے جمہوری حقوق کے دفاع کیلئے لازمی بلکہ ناگزیر ہے کہ سیزنوروس اور اس کے خاندان کی جائیدادوں اور ملکیت کو فوری طورپر قومی تحویل میں لے لیاجائے ۔ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح 2002ء میں یہ مٹھی بھر اشرافیہ انقلاب کا خون کرنے پر اتر آئی تھی۔اس وقت سیزنوروس اور اس کے ہمنواؤں نے اپنے تئیں بھرپور زورلگایاتھا کہ بغاوت ممکن بھی ہوجائے اور پھل پھول بھی جائے ۔ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کے میڈیا گروپ نے اس بارے کیاکیا اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے تھے۔11اپریل کو جب شاویز کو بندوق کی نالی کے زور پر صدارتی محل سے نکال لے جایا گیاتھا تو سبھی انقلاب دشمن سیزنوروس کے چینل Venevisi243nپر ہرزہ سرائیوں میں مشغول تھے۔کارمونا نے تب سپریم کورٹ اورکانگریس کو معطل کرنے کا حکم جاری کردیاتھا۔یہی نہیں بلکہ آئین بھی معطل کردیاگیاتھا۔تب جناب سیزنوروس صدارتی محل گئے اور پیشکش کی کہ میڈیا کا سارا انتظام وانصرام میرے حوالے کردیاجائے۔میں جانوں اور میرے احباب جانیں۔اور صدر کارمونانے اس کی یہ پیشکش ،شکریے کے ساتھ ،قبول بھی فرمالی تھی۔
سیزنوروس نے فوری طورپر سبھی چینلوں کو حکم جاری کیا کہ کسی طور بھی یہ خبر نشر نہ کی جائے کہ ملک میں شاویز کے خلاف کوئی بغاوت ہوئی ہے۔اور یہ کہ اگر کوئی عوامی مظاہرے پھربھی شروع ہوجائیں تو ہرگزہرگز ان کی کوریج نہ کی جائے ۔اس دوران ٹی وی چینلوں پر پرانی فلمیں اور کارٹون چلانے شروع کردیے گئے ۔مگر جب عوام کے تاریخی احتجاجی مظاہروں کے بعد شاویز منصب صدارت پر واپس آیا تو سیزنوروس نے دیگر اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ مل کر تیل کی پیداوار کو سبوتاژ کرنے کی سازش منظم کی جس میں ناکامی کے بعد انہوں نے 2004ء میں ری کال ریفرنڈم کی چال چلی ۔یہ سبھی کوششیں اور سازشیں صرف اور صرف ایک منتخب جمہوری حکومت کو ہر غیرجمہوری طریقے سے گرانے کیلئے کی گئیں۔اور اب بھی جونہی اور جیسے بھی موقع میسر آئے گا وہ ایساپھر کرنے کی کوشش اور سازش کریں گے۔اگر2002ء کی بغاوت کامیاب ہوجاتی تو اس سے وینزویلاکی جمہوریت کو بھی شدید نقصان پہنچتا۔سیزنوروس ہی اس بغاوت کے مرکزی معماروں میں سے ایک تھا۔صدر شاویز نے مئی2004ء میں ریفرنڈم مہم کے دوران کہا تھاکہ ’’وہ دن آئے گاکہ جب ہمارے پاس بے خوف ججوں کی ایک ٹیم ہوگی، جو آئین کی رکھوالی کرے گی اور سیزنوروس جیسے مافیائی ڈانوں کو کیفرکردار تک پہنچائے گی‘‘۔المیہ یہ ہے کہ اس جیسے سبھی مافیائی ڈان ابھی تک آزاد ہیں۔اور یہ آزادی انقلاب اور جمہوریت کیلئے ایک خطرہ ہے ۔ اب وقت آگیاہے کہ ایسے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچاہی دیاجائے! بینک
وینزویلا کی معیشت پر بڑے بینکوں نے ابھی تک اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں ۔اور اس کی وجہ سے وہ مسلسل بھاری بھرکم منافع کمائے چلے جارہے ہیں۔ا س سال کے نویں مہینے کے دوران ہی بینکوں نے جو مجموعی منافع کمایا، اس کا 91.2فیصدوینزویلاکے ٹاپ10بینکوں کے حصے میں آیاہے۔cosumid.orgکے بقول ’’1999ء سے لے کر اب تک بینکوں کے کاروبار نے جس شرح سے منافع کمایاہے وہ اتنا حیران کن ہے کہ خود ان کے مالکوں نے بھی اس کا تصورتک نہیں کیاہواتھا۔کمائیوں کی برکت میں بڑھوتری نے افراط زر کو بڑھانے میں عمل انگیز کا کام کیاہے ۔1999ء سے اس سال ستمبر تک کمرشل اور یونیورسل بینکوں نے جو کل منافع کمایاوہ28.3ٹریلین بولیوارہے۔تاہم یہاں ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ ان دس بڑے بینکوں کے علاوہ باقی تقریباًسبھی بینکوں نے اس سال کوئی خاص کمائی نہیں کی ہے۔پچھلے سال کی نسبت اس ستمبر میں ان کی کمائیوں میں54.2فیصدکمی واقع ہوئی ہے ۔جبکہ دس بڑے بینکوں میں سے بھی تین کی کمائی اس سال کم ہوئی۔جی ڈی پی میں گراوٹ نے بھی بینکوں کی کمائی کوگرایاہے‘‘۔
(Qui233n es quien en la banca venezolana ). یہ سچ ہے کہ حکومت نے کچھ اقدامات کئے ہیں
۔ بینک آف وینزویلا جو کہ سپین کے گروپ Santander سے وابستہ ہوتاتھا،اسے حکومت نے حال ہی میں اپنی تحویل میں لیاہے۔منافع میں اس کا حصہ14.5 فیصدہے۔اس تحویل کی وجہ سے حکومت کی بینکنگ کے شعبے میں پوزیشن مضبوط ہو گئی ہے۔یہ ایک بڑا قدم تھا لیکن ابھی بھی بہت بڑا حصہ ابھی تک نجی ملکیت میں جکڑاہواہے ۔اور یہ معاملہ کسی طور چھوٹے مالکان کا نہیں ہے بلکہ معیشت کے ایک مرکزی مرکز کاہے۔آئیے ایک نظر دیکھتے ہیں کہ یہ کون سے اور کیسے بینک ہیں ! Provincialکو ہی دیکھتے ہیں جس کے اکثریتی حصص ایک ہسپانوی گروپBBVAکی ملکیت ہیں۔انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ وینزویلا میں کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ستمبر کے مذکورہ منافعوں میں ان کا حصہ 22.8%ہے۔اسی طرح Mercantilہے جس کے حصص کے مالک وینزویلا کے اشرافیائی صاحبان ہیں۔ Marturets and the Vollmersکے ساتھ ساتھCaprilesگروپ بھی اس کے مالکان میں سے ہیں اور ستمبر منافعوں میں ان کا حصہ10.7فیصدہے۔ایک اورBanesco ہے کہ جو کئی انضماموں کے نتیجے میں قائم ہواتھااور جو آج ایک اہم ترین بینک بن چکاہے ۔منافعوں میں اس کا حصہ9.8 فیصدہے۔یہ ان بینکوں میں سے ہے کہ جہاں سب سے زیادہ قومی سرمایہ ہے۔ یہ1977ء میں
Banco Agroindustrial Venezolano
کے نام سے قائم ہواتھا۔1987ء میں اس کا نامBanco Financieroمیں بدل دیاگیاتھا۔1997ء میں یہ ایک یونیورسل بینک بن گیا۔پھر ایک اور Occidental de Descuento (BOD)ہے جس نے منافعوں میں 9.6 فیصدحصہ کمایا۔Exterior کا شمار ملک کے طاقتور ترین بینکوں میں ہوتاہے جس کے زیادہ ترحصص ہسپانوی گروپ کے پاس ہیں اور جس نے6.1 فیصدمنافع کمایا۔جبکہ Venezolano de Cr233ditoنے 4.9 فیصدکمائی کی ہے۔دیگر بینکوں کے علاوہ آخر میں Citibankکا نام آتا ہے جو کہ امریکی Citibankگروپ کا حصہ ہے جس نے 3.9 فیصدمنافع خوری کی ہے۔
جب تک بھی بینکوں کے سرمائے کے بھاری حصے پر پرائیویٹ افراد کا غلبہ قائم ودائم ہے ،تب تک ان کے پیداواری سرمایہ کاری ،چھوٹے کسانوں اور دیگر تجارت کو درکار قرضوں کے حوالے سے سبھی پالیسیاں اور فیصلے بھی انہی کے اختیار میں رہیں گے جو انقلاب کے حقیقی دشمن ہیں۔وینزویلا کی پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لانے ،روزگار فراہم کرنے اور اشیاء کی پیداوار ،ترسیل و رسائی کے حقیقی سوشلسٹ منصوبے پر عملدرآمد ناممکن رہے گا۔جب تک بینکوں پر انقلاب دشمنوں کے غلبے کو ختم نہیں کیا جاتا۔ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کیلئے سب سے پہلی شرط اور اولین ضرورت ہی بینکوں کی نیشنلائزیشن ہے۔وہ بھی یوں کہ سبھی بینکوں کو ایک سٹیٹ بینک میں مدغم کردیاجائے ۔اور یہ ایک ایسا قدم ہے جو کسی طور کسی مڈل کلاس کے خلاف نہیں ہے بلکہ جو صرف اور صرف اشرافیہ کے ہی خلاف ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ یہ قدم مڈل کلاس کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوگااسے اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو اس کی وجہ سے سستے اور فوری قرضوں کی فراہمی ممکن اور یقینی ہوجائے گی۔اگراس حقیقت کو درست طورپر وضاحت سے پیش کیا جائے تو یقینی طور پر مڈل کلاس انقلاب سے دور بھاگنے کی بجائے اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائے گی۔ اصلاح پسندوں کی حقیقت پسندیاں
صدر شاویز نے قرار دیاہے کہ انقلاب ہر گزرتے دن گہرے سے گہراہوتاچلاجائے گا۔اور انقلاب کو اس وقت اسی کی ہی ضرورت ہے۔لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ شاویز کی اس خواہش اور کاوش کو اصلاح پسندوں اور افسرشاہی کی جانب سے ہمہ قسم مخالفت اور مزاحمت درپیش ہوگی۔ایک ماہر معیشت وکٹر الواریزجو کہ شاویز کابینہ میں کان کنی کا وزیر بھی رہ چکاہے ،نے جریدےEl Universalسے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہماراکسی طور یہ ارادہ نہیں ہے کہ حکومت ، معیشت کے بڑے حصے کو اپنے تصرف میں لے آئے‘‘ ۔اگر یہ ارادہ نہیں ہے توپھر کیا ارادہ ہے؟کیا اشرافیہ کوہی معیشت پر غلبہ رکھنے کی اجازت دینے کا ارادہ ہے؟ایساہے تو پھر سوشلزم ہمارا نصب العین ہے کا کیا مطلب ہے؟ اسی طرح وینزویلا کے نائب صدرایلس جاؤانے Contragolpeکو انٹرویودیتے ہوئے کہا ہے کہ’’نجی ملکیت کے حق کا دفاع ہی بولیویرین انقلاب کا بنیادی اصول ہے۔اور جو بے دخلیاں کی بھی گئی ہیں ان کا تعلق صرف اجارہ داریوں اور اشرافیہ سے ہی تھا ‘‘۔واہ واہ۔۔کیا کہنے جناب کے!ہم آپ کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔مگر جناب نائب صدر پھر اسی انٹرویو میں ہی چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کو بھی درمیان میں کھینچ کر بات کو کنفیوژن میں ڈالتے ہیں۔یہ تو ایک الف ب پڑھنے والے بچے کو بھی پتہ ہے کہ چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کا معیشت میں کوئی آزادانہ کردار نہیں ہواکرتا۔ سبھی بڑے اور اہم ترین فیصلے اجارہ داریوں اور بینکوں کے بورڈآف گورنرز ہی کرتے چلے آرہے ہیں۔اس وجہ سے چھوٹے کاروباروں کو نیشنلائز کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ہاں البتہ بڑے بینکوں اور کاروباروں کو نیشنلائز کرنا منطقی بھی ہے اور جائز بھی۔اپنے اسی پروگرام میں جناب کامریڈ ایلس جاؤا نے ’’Polar‘‘ کو نیشنلائز نہ کرنے کی بات کہی ہے ۔اگر Polarان کے نزدیک اجارہ داری نہیں ہے تو پھر مجھے بتایا اور سمجھایا جائے کہ اجارہ داری کیا اور کیسی ہوتی ہے اس انٹرویو سے صاف جھلک رہاتھا کہ نائب صدر نیشنلائزیشن کے چکر میں ہی نہیں پڑناچاہتے ہیں۔ہاں البتہ وہ ’’ذرائع پیداوار کی جمہوریت سازی‘‘جیسی مبہم اصطلاحات استعمال کرکے ٹائم پاس کرنے کے موڈ میں نظر آیا۔اب پیداواری ڈھانچوں کی ’’ڈیموکریٹائزیشن ‘‘کے لغت میں کیا معنی ہیں ،یہ ایلس ہی جان اور سمجھ سکتاہے۔اس کا فرمانا ہے کہ ’’ہم پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مسلسل مذاکرات کی حالت میں ہیں‘‘۔جی ہاں ہمیں بھی معلوم ہے کہ یہ مذاکرات ایک طویل عرصے سے ہورہے ہیں اور اس کے نتائج بھی ہم دیکھتے آرہے ہیں ۔ملک کا صدر بار بار سرمائے کے مالکان سے ملاقات کرنے اور ملک میں سرمایہ لگانے کی اپیلیں کرتا آرہاہے ۔ نتیجہ؟عوامی شعبے میں سرمایہ کاری مسلسل گراوٹ کی زدمیں!وینزویلا کے سرمایہ داروینزویلا میں نہیں بلکہ وینزویلا سے باہر سرمایہ لگانے اور لے جانے میں مصروف ہوچکے ہوئے ہیں۔سرمائے نے ہڑتال کی ہوئی ہے ۔وہ احتجاج پر اترا ہواہے ۔سب اس بات کو جانتے ہیں۔مگر اصلاح پسندوں نے ریت میں گردن دبائی ہوئی ہے اور نیچے ریت میں سے ڈائیلاگ ڈائیلاگ کا شور مچایاہواہے کہ ایک محب الوطن اتحاد تشکیل دیاجائے۔اور سرمایہ دار ہیں کہ وہ ان کی ہر بات کو ہنسی میں ہی ٹالے چلے جارہے ہیں۔جو بات اس ضمن میں انتہائی غیر معمولی ہے وہ ان اصلاح پسندوں کی مبینہ حقیقت پسندی ہے ۔میں کئی بار اس حقیقت پسندی کی حقیقت بیان کرچکاہوں کہ یہ ایک شیر کو دیاجانے والا مشورہ ہے کہ جناب آپ گوشت نہیں گھاس کھا کے زندہ رہنا شروع کردیں ۔ اس حقیقت پسندانہ ڈائیلاگ بازی کا نتیجہ اب تک تو یہی ہے کہ شیر ابھی تک گوشت ہی کھارہاہے اور وہ سبزی خوری کے نیک مشورے کو گھاس ڈالنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔ عظیم چیلنج
انقلاب کو کس رفتار کس شرح سے آگے کو پیش قدمی کرنی چاہئے ؟بدقسمتی سے ایسی کوئی کتاب دستیاب نہیں ہے جو کہ اس سوال کا درست جواب دے سکے کہ انقلاب کی ہنڈیا کیسے اور کیونکر پک سکے گی؟شاویز نے قراردیاہے کہ وہ پوری دیانتداری اور طاقت سے کوشش کررہاہے اور کرے گا کہ سوشلزم کو زیادہ سے زیادہ وسعت ملے اور سرمایہ داری کو زیادہ سے زیادہ ختم کیا جاسکے!لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ ہمارے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے ۔وقت اب شاید ہمارااب زیادہ ساتھ نہ دے پائے!جب تک بینکاروں ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں معیشت کا تسلط وتصرف رہے گا ،وہ اسے ہر سطح پر ہر حالت میں اور ہر قیمت پر انقلاب کو کچلنے کیلئے کام میں لائیں گے ۔اس لئے ہمیں اب بہت کچھ کر گزرنے کی جستجو اور جرات کرنی پڑے گی ۔ایک بڑا چیلنج 2012ء میں سامنے آئے گا کہ جب صدارت کے ساتھ ساتھ گورنروں اور مئیروں کے الیکشن ہوں گے ۔شاویز نے خود بھی کہا ہے کہ ’’ہمیں ایک بہت بڑے چیلنج کا سامناہے ۔ہمیں لازمی دیکھنا سمجھنا ہوگا کہ ہم نے کہاں اور کیا غلطیاں کی ہیں ! ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی!ہم انقلاب کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں جو کہ2009ء سے 2020ء تک محیط ہوگا؛ ہمارا نعرہ ہے ؛غور کرو؛حرکت کرو؛عمل کرو‘‘۔
شاویزنے انقلاب دشمنوں کو واضح کہا کہ اگلے الیکشن انہیں بہت بھاری پڑیں گے ۔یہ اعلان اصلاح پسندوں کو کھلاجواب ہے جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انقلاب بہت تیز جارہاہے اسے آہستہ کرنے کی ضرورت ہے ۔اور لازمی ہے کہ اپوزیشن کو رعایتیں دی جائیں ۔اس قسم کی دلیل بازی اور حیلہ سازی محض انقلاب دشمنی ہے ۔آپ ایک رعایت دیں گے تو وہ مزید دس کا واویلا کرنے لگیں گے۔آخری تجزیے میں ایک کی ہار ہی دوسرے کی جیت ہواکرتی ہے ۔درمیانی راستہ کہیں بھی کبھی نہیں ہواکرتا۔صدر نے کہا ہے کہ 4جنوری تک قومی اسمبلی میں سے نئے قوانین لانے پڑیں گے ۔اور یہ قوانین اب تک کے سبھی قوانین سے کہیں بڑھ کرانقلابی ہوں گے ۔اس تقریر کے فوری بعد ہی شاویزنے Agroisle241aکو نیشنلائز کرنے کااعلان کردیا۔جس کے قبضے میں زمین کی بھاری مقدار تھی اور جو ایک کثیرالقومی اجارہ داری VESTEY groupکا حصہ تھی۔ اس کی نیشنلائزیشن کے اعلامیے پر شاویز نے اپنی مذکورہ تقریر کے دوسرے دن دستخط کئے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سرمایہ داروں اور اصلاح پسندوں کے دباؤ کا مقابلہ کررہاہے ۔اس کے بعد بھی ایک کیمیکل کمپنی Venoco،اور ایک کھاد فیکٹری Fertinitroکو بھی نیشنلائز کرلیاگیاہے ۔یہ دونوں کمپنیاں قیمتوں میں ناجائز منافعوں میں ملوث چلی آرہی تھیں ۔پہلی کمپنی ریاستی ادارے سے سرکاری قیمت پر مال خرید کے اسے 50%زائدمنافع پر بیچتی آرہی تھی۔نیشنلائزیشن کے ہر ایک عمل کا مقصد عوام کو خوراک کی یقینی فراہمی کو ممکن بنانا،غذائی درآمدات پر انحصار کو کم سے کم کرنا اور قیمتوں کو کم کرنااوررکھناہے۔’’اب لوگوں کو Venocoکمپنی کی جانب سے معقول قیمتوں پر اشیاء ہی دستیاب نہیں ہوں گی بلکہ اس سے غذائی پیداوار بھی ترقی کرے گی ‘‘۔یہ بات PDVSAکے نائب صدر اسدروبل شاویزنے کہی ہے ۔ بالکل درست کہا گیاہے لیکن یہی درست پوزیشن دوسری اجاراہ دارکمپنیوں اور بڑے بینکوں کے حوالے سے بھی بنتی ہے ۔یہ نئی مالیاتی بے دخلیاں بالکل بجا اور بروقت اقدام ہیں ۔مزدوروں اور کسانوں کی بھاری اکثریت نے انتہائی جوش وجذبے سے ان کا خیر مقدم بھی کیاہے ۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ ان اقدامات نے انقلاب میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔اور انقلاب دشمنوں کو بھی بہت جھٹکادیاہے۔سب سے بڑھ کر اور سب سے اہم یہ بات ہے کہ یہی ایک معاشی سبوتاژاور سماجی انتشار سے بچنے کا واحد راستہ بھی ہیں ۔وینزویلائی معیشت کی حقیقی پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی کی ابتداسے وینزویلا کے پیداوار کرنے والوں کی اکثریت کا مفاد وابستہ ہے نہ کہ ایک چھوٹی اقلیتی طفیلی اشرافیہ کا۔اجارہ داریوں سے چھٹکارا PSUVکے پروگرام کا ہی ایک حصہ ہے لیکن پھر ہر پروگرام محض الفاظ نہیں ہواکرتا بلکہ عمل بھی ہوتاہے۔ مجھے پورا اندازہ ہے کہ کیراکس کے صدارتی محل میں کچھ لوگ شاویز کو یہ باورکرانے کی کوشش کریں گے کہ یہ تو جی انتہا پسندی ہے ،یہ تو جناب پاگل پن ہے !اور یہ ان ناعاقبت اندیش بدخواہوں کی باتیں ہیں جو صرف مسائل کے سوا کچھ پیدا نہیں کرنے چاہتے ہیں۔اس قسم کے دلائل سے میرے ذہن میں جو منظرنامہ بنتاہے وہ کچھ یوں ہے۔ایک چھوٹا سا بچہ ٹائی ٹینک جہاز کے عرشے پر اچانک آجاتاہے اوراندھیرے میں برف کے ایک بڑے تودے کو دیکھتا ہے تو شور مچانا شروع کردیتاہے ۔ایسے میں اسے پیچھے سے آوازیں آنی شروع ہوجاتی ہیں کہ تم خواہ مخواہ شور مچارہے ہو اور تم غلط کہہ رہے ہو۔تم ہم سب مسافروں کے آرام میں خلل ڈال رہے ہو۔اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ کون وفاداراور کون بدخواہ ہے ؟وہ لڑکا کہ جو جہاز کے کپتان کو ممکنہ خطرے سے آگاہ کرنا چاہتاہے تاکہ وہ جہاز کا رخ موڑکے جہاز اور اس میں سوار سبھی مسافروں کو بچا سکے ۔یا پھروہ جو اپنی آنکھیں موندے رکھنا ،خطرے سے بے نیاز رہنااور جہاز کو ڈبونا چاہتے ہیں؟
عالمی مارکسی رحجان ہر قیمت پر ہرحالت میں بولیویرین انقلاب کے خلاف سامراج اور اشرافیہ کے ہر حملے کا دفاع کرتا چلا آرہاہے اورکرتا رہے گا۔اشرافیہ کی بیخ کنی کی جو بھی جتنی بھی کوشش کی جائے گی ،ہم اس کی ولولے اور جذبے کے ساتھ تائید وحمایت کرتے رہیں گے ۔ ہر وہ حملہ جو رد انقلاب کو کمزور اور پسپا کرے گا ہم اس کیلئے
Translation: Chingaree