ایک ہفتے کے اندرپورے ایران میں ملک گیر ہڑتال شروع ہو گئی ہے۔ 21 اپریل سے تیل-گیس کے شعبے کی 18 کام کی جگہوں میں شروع ہونے والی ہڑتال اب کان کنی، سٹیل اور تیل-گیس کے شعبوں میں 100 سے زیادہ کام کی جگہوں پر پھیل چکی ہے۔ ہڑتال کا آغاز تیل سے مالا مال صوبہ خوزستان سے ہوا لیکن اب یہ تیزی سے بوشہر، فارس، کرمان، اصفہان اور یزد صوبے تک پھیل چکی ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ابتدائی ہڑتالوں کی کال ’کونسل فار آرگنائزنگ پروٹیسٹس آف آئل کنٹریکٹ ورکرز‘ نے دی تھی، جو کہ مزدوروں کی ایک خود مختار تنظیم ہے جو اس سے قبل 2020ء اور 2021ء میں ملک گیر ہڑتالوں کی قیادت کر چکی ہے۔ یہاں تک کہ اس نے پچھلے سال مظاہروں کے دوران ایک سیاسی عام ہڑتال کی کوشش بھی کی تھی۔ کونسل نے اپنی مہم کے آغاز پر درج ذیل بیان شائع کیا:
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ جب تک ہمارے اجرت اور بیس دن کام اور دس دن آرام، جو کہ ایک جسمانی اور معاشرتی ضرورت ہے، کے مطالبات نہیں مانے جاتے، ہم اپنی ہڑتال جاری رکھیں گے۔ کونسل فارآرگنائزنگ پروٹسٹس آف آئل کنٹریکٹ ورکرز، گیس، آئل اور پیٹرو کیمیکل مراکز میں کام کرنے والے پراجیکٹ کے تمام ساتھیوں سے کہتی ہے کہ وہ ان ہڑتالوں میں شامل ہوں، ہڑتال کا آغاز کرنے والوں کے ساتھ اتحاد اور یکجہتی کے لیے۔“
”ہڑتال کرنے والے اور ریلیوں میں اکھٹے ہونے والے کامریڈز نا صرف ایک دوسرے کی بلکہ تحریک کی بھی طاقت ہیں۔
”ہمیں اوپر سے ہونے والی کوششوں کے خلاف ثابت قدم رہنے کے لیے متحدہ محاذ کو برقرار رکھنا چاہیے، گزشتہ سال کا حفش جان جنرل اسمبلی کا تجربہ ہماری میٹنگوں کی تیاری کے لیے ایک اچھا سبق اور نمونہ ہے اور اس بات پر مستقل اتفاق رائے ہے کہ ہماری ہڑتالیں کیسے جاری رکھی جائیں۔“
ماہانہ 10 دن چھٹی، اجرت میں 79 فیصد اضافہ اور 2 کروڑ تومان کی کم از کم اجرت کے مطالبات نے نہ صرف تیل-گیس کے شعبے میں بلکہ پورے محنت کش طبقے کو متاثر کیا۔ محنت کش طبقہ غصے سے بھڑک رہا ہے، اور پانچ سالوں سے ہم نے بے تحاشہ غربت اور جبر کے خلاف ہڑتالوں اور احتجاجوں کی لہر دیکھی ہے۔
جیسے جیسے ہڑتال کا دائرہ وسیع ہوا ہے، اسی طرح اس کے مطالبات بھی بڑھے ہیں، جن میں اب یہ شامل ہیں: کام کی جگہ پر صحت اور حفاظتی اقدامات میں بہتری؛ ٹرانسپورٹ کے معیار میں بہتری؛ ہاسٹل اور کینٹین؛ کھانے کے معیار میں بہتری؛ ملازمت کے عنوانات کے مطابق انشورنس پریمیم کی ادائیگی؛ روزانہ مزدوری کے اوقات کو 10 سے 8 گھنٹے تک کم کرنا؛ مکمل ملازمت شروع ہونے سے پہلے 15 دن کی بلا معاوضہ آزمائشی مدت کا خاتمہ اور مزدوروں کے معاہدوں سے ان شقوں کو ہٹانا جو انہیں احتجاج کرنے سے روکتے ہیں۔ ابھی سے ملک گیر ہڑتال نے دوسرے شعبوں بشمول نرسوں، ریٹائر افراد اور دیگر کو معاشی مطالبات کے لیے احتجاج کی کال دینے کی ہمت دی ہے۔
خوزستان اور بوشہر میں سرمایہ دار طبقے نے تیل کے شعبے میں محنت کشوں کو نسلی بنیادوں پر اور تارکین وطن بمقابلہ مقامی کی بنیاد پرتقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہی حربے ہیں جو پچھلی ہڑتالوں کو شکست دینے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ آئل کنٹریکٹ ورکرز نے مندرجہ ذیل بیان میں ان کوششوں کا جواب دیا ہے:
”تقسیم کے بیج بونے والے ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہیں۔
ہمارے آئل پراجیکٹ ورکرز کی ہڑتال بدستور مضبوط ہے اور خوش قسمتی سے روزانہ زیادہ سے زیادہ ساتھی ہڑتال میں شامل ہو رہے ہیں۔
”لیکن اس دوران، پہلے کی طرح، پسماندہ طریقوں اور رجعتی پراپیگنڈے کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ مظاہروں کے ماحول کو خراب اور ورکرز کی احتجاجی صفوں میں تفرقہ پیدا کیا جا سکے، ورکرز کو ایسی کوششوں کے خلاف چوکنا رہنا چاہیے۔ مثلاً بختیاری ]ایک نسلی گروہ[، بومی ]مقامی[، وغیرہ کے نام پر کچھ علاقوں میں ورکرز کی ہڑتالوں اور دھرنوں کو توڑنا شامل ہے۔
”ملک کے ہر حصے سے ہم تمام ورکرز مشترکہ درد کا شکار ہیں اور ہمارے دشمن بھی مشترکہ ہیں۔ ہم سب غربت، روزمرہ کی زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روز بروز بگڑتے کام اور زندگی کے حالات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ آج جو چیز ہمیں متحد کرتی ہے وہ مشترکہ فوری مطالبات ہیں جیسے کہ اجرت میں 79 فیصد اضافہ، بیس دن کام اور دس دن آرام۔
اس کے ساتھ ساتھ، ہم ٹھیکیداروں کے ظلم اور خصوصی اقتصادی زونز کے غلامانہ قوانین کے سامنے فخر سے کھڑے ہیں، اور ہمارا مقصد ٹھیکیداروں کا خاتمہ اور ان خطوں میں نافذ غلامانہ قوانین سے خود کو آزاد کرنا ہے۔ اگر آج ہم اپنے اتحاد کی طاقت سے اپنے دو فوری مطالبات پورے کروا سکتے ہیں تواگر ہم ٹھیکیداروں کے خاتمے کی جدوجہد جاری رکھنے کا انتخاب کریں تو ہم اور زیادہ طاقتور ہوں گے۔
یہاں ہم ورکرزایک طویل عرصے سے ہڑتال کی تیاری کر رہے ہیں، اور کام اور زندگی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کیے ہوئے ہیں، وہاں ایسی تحریکیں چل رہی ہیں جو ”مہمات“ کے بارے میں بات کر رہی ہیں جو ہمارے احتجاج کو روکنے اور مالکان اور حکومت کے خلاف ہمارے غصے کو دبانے کی کوششیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ”مہم“ کے بعد، حالیہ برسوں میں دیکھی گئی گرمیوں کی مزید ہڑتالیں نہیں ہوں گی۔ یہ واضح ہے کہ اس طرح کے بیانات کے پیچھے مذکورہ بالا قوتوں کا ہاتھ ہے۔ ہم مضبوطی سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم کسی دوسرے کے غلام نہیں رہیں گے جو ہماری آواز بن کر ہماری بات کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
”ہم ان مطالبات کو آگے بڑھاتے ہیں جن کا ہم آج اعلان کرتے ہیں، جبکہ ہمارے دیگر مطالبات کا جواب آنا باقی ہے، لیکن ہم ان پر عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم کسی بھی جارحیت کے خلاف ثابت قدم رہیں گے، کسی بھی مرحلے پر، جہاں بھی یہ ضروری ہو گا۔ ہمارے کامریڈوں کو ہماری تنبیہ ہے کہ اس قسم کی سازش سے ہوشیار رہیں۔“
ہڑتال کے خلاف دباؤ میں مزید شدت آئے گی۔ آئل ورکرز تجربے کی بنیاد پر ہڑتالی کمیٹیوں کی تشکیل اورتیل کے مستقل ورکرز کو سیاسی طور پر جیتنے کی صحیح حکمت عملی تشکیل دے رہے ہیں۔ لیکن یہ صرف پہلا قدم ہے۔ حکومت وہی طریقے استعمال کرے گی جو اس نے پہلے استعمال کیے تھے۔ وہ ہڑتال کو طول دیں گے، محنت کشوں پرمزید معاشی دباؤ ڈالیں گے، اور ورکرز کو نسلی اور ’کنٹریکٹ بمقابلہ مستقل ملازم‘ کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے۔ حکومت شاید ورکرزکے ایک حصے سے کھوکھلے وعدے کرنے پر بھی آمادہ ہو تاکہ انہیں جزوی طور پر فتح حاصل کرنے کا احساس دلایا جائے اوربعد میں لڑاکا اور فعال ورکرز کے خلاف گرفتاریوں کی مہم شروع کی جا سکے۔
گزشتہ روز کونسل فار آرگنائزنگ پروٹیسٹس آف آئل کنٹریکٹ ورکرز نے مندرجہ ذیل بیان میں یوم مئی کو ملک گیر احتجاج اور ہڑتال کی کال دی تھی:
”یکم مئی، مزدوروں کا عالمی دن قریب آ رہا ہے۔
یہ یکجہتی اور اتحاد کا دن ہے، اور اس نظام کے خلاف جدوجہد کا دن ہے جو آنکھیں بند کرکے ہمیں بقا کی غیر مساوی جنگ کی طرف لے جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا نظام ہے جس نے کم اجرت، اجرت کی ادائیگی میں تاخیر، کام کرنے کے غیر محفوظ ماحول، ناکافی ہیلتھ انشورنس، عارضی معاہدوں اور دیگر درجنوں غیر انسانی ذرائع سے ہماری اور ہمارے خاندانوں کی زندگیوں اور معاش کو تباہ کر دیا ہے۔
اس سال مزدوروں کا عالمی دن گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ فرق تحریک کے تسلسل اور ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے لیے انقلاب کی وجہ سے ہے۔یہ آزادی کا انقلاب ہے، جس میں ہم محنت کش ایک اہم ستون ہیں۔
ہمارے الفاظ معاشرے کے الفاظ ہیں۔ ہم نے ہمیشہ اپنے مطالبات کی جدوجہد کی ہے۔ ہم نے معاشرے کی خواہشات اور عوام کے درد کو پکارا ہے۔ ہمارا زور بیس تنظیموں کے کم از کم مطالبات کے چارٹر کی اہم شقوں پر رہتا ہے، جس پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک ہم تھے۔
ہم محنت کشوں نے ہمیشہ آزادی اظہاراور احتجاج اور بغیر کسی پابندی کے ہڑتال کے حق پر زور دیا ہے۔ ہم نے خواتین کے خلاف تمام جبر، تذلیل اور امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم نے حجاب کو پورے معاشرے کو دبانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ہم نے سزائے موت کی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ ہم جنس، نسل یا مذہبی عقیدے سے قطع نظر تمام شہریوں کے حقوق کو برابر سمجھتے ہیں۔ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم کسی بھی شکل میں طاقت کے استعمال کے آگے سر تسلیم خم نہیں کریں گے، چاہے وہ کام کی جگہ پر ہو یا زندگی میں اور معاشرے میں۔
اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے، ہم کمیونٹی ایڈمنسٹریشن کی بہترین شکل کونسل ایڈمنسٹریشن اور اجتماعی مرضی کو سمجھتے ہیں۔ یہ سب ہماری ’عورت، زندگی، آزادی‘ تحریک کے ساتھ مشترکات ہیں، جو کسی بھی امتیاز، استحصال، محکومیت یا طبقاتی جبر کے خلاف ہے۔
آئیے ہم مل کر یوم مئی کے موقع پر مزدوروں اور پورے معاشرے کی سو سال سے زائد غلامی اور جبر کے خاتمے کے عزم کا اعلان کریں۔
دوستو! اس وقت ہمارے پراجیکٹ ساتھیوں کا ایک بڑا حصہ ایک طاقتور اور وسیع ہڑتال میں مصروف ہے۔ ہم طاقت کے ساتھ ہڑتال میں داخل ہوں گے۔ اب ہم میں سے ہزاروں لوگ تقریباً 100 مراکز، کمپنیوں، ورکشاپس اور کمپلیکس میں ہڑتال پر ہیں۔ ہم نے اجرت کے لیے ایک بڑی اور وسیع تحریک شروع کی ہے: غربت، امتیازی سلوک اور استحصال جس نے ہمیں انسانی وقار سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہے کے خلاف ایک تحریک۔ اس تحریک کو اسی سطح پر نہیں رہنا چاہیے۔ جو مطالبہ ہم پراجیکٹ ورکرز کے طور پر پیش کررہے ہیں، وہ تمام ورکرز کا مطالبہ ہے۔ تیل اور دیگر صنعتوں کے تمام شعبوں اور تمام مزدوروں سے ہماری اپیل ہے کہ وہ طاقتور ملک گیر احتجاج کے ذریعے اجرتوں کی جدوجہد کی اس بڑی تحریک میں شامل ہوں۔
ہم مزدوروں کی اجرتوں پر اس رکاوٹ کو ختم کریں گے، جیسا کہ سپریم لیبر کونسل نے منظور کیا ہے۔ اس حقیقت کے علاوہ کہ ہمارے تیسرے فریقین اور کامریڈز کے مطالبات حل نہیں ہوئے، ہمارے مطالبات کی جدوجہد، آئل ورکرز کے لیے ملک گیر ہڑتال میں شامل ہونے کی بنیاد بن سکتی ہے تاکہ ان متکبر ٹھیکیداروں کو ہٹایا جا سکے اور تیل کی بیرکوں کو ختم کیا جا سکے۔آئیے ہم مزید طاقت کے ساتھ چوک پر آئیں اور غربت، غلامی اور عدم تحفظ کے خلاف تمام محنت کشوں اور تمام لوگوں کے لیے احتجاج کی آواز بنیں۔
ہم محنت کش ملک گیر سطح پر درد کا شکار ہیں۔ آئیے ہم اپنی ملک گیر ہڑتالوں کے ذریعے موجودہ جبر کی جڑوں کے خلاف مزید موثر ضرب لگائیں۔ مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر ایک اور اہم نکتہ، آٹھ ماہ کے انقلاب کے دوران گرفتار کیے گئے کارکنوں اور درحقیقت تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کے مطالبات پر زور دینا ہے۔سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبے میں ہمیں ان میں سے ہر ایک کی فوری اور غیر مشروط رہائی پر زور دینا چاہیے۔ یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن، تمام محنت کشوں اور تمام لوگوں کے ملک گیراحتجاج کا دن ہے۔ اس دن کے موقع پر معاشرے کے تمام طبقات پرجوش اجتماعات منعقد کرکے غلامی اور استحصال کے خاتمے کے لیے آواز بلند کریں۔ ہمیں اس عظیم دن کی صبح کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
”یکم مئی (مزدوروں کا عالمی) زندہ باد، آرگنائزنگ پروٹیسٹس آف آئل کنٹریکٹ ورکرز 27 اپریل 1402“
یہ آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ ماضی کی شکستوں کو دہرانے سے بچنے کے لیے ملک گیر ہڑتال کو پورے محنت کش طبقے کے مشترکہ مطالبات کے لیے عام ہڑتال میں تبدیل کرنا ہوگا۔ مقامی ہڑتالی کمیٹیوں کو فوری طور پر ملک گیر سطح پر جڑنا چاہیے اور محنت کش طبقے کی مزید پرتوں کو جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے مہم شروع کرنی چاہیے۔
عام ہڑتال کے لیے ماحول تیار
گزشتہ سال کی نوجوانوں کی تحریک کی شکست کے باوجود حکومت اپنی فتح کا مزہ لینے سے قاصر ہے۔ انقلابی نوجوانوں اور آزاد ٹریڈ یونینوں کے خلاف دہشت گردی کی مہم چلانے کے باوجود یہ معاشرے میں انقلابی رجحان کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ خوف پیدا کرنے کے لیے یونیورسٹیوں اور ہائی سکولوں میں کھانے میں زہر ملانے، مسلسل گرفتاریاں کرنے، اور بغاوت کے بعد پھانسیوں اور تشدد کی مسلسل اطلاعات کے باوجود، محنت کشوں اور نوجوانوں کی لڑاکا پسندی جاری ہے۔
محنت کش طبقے نے تحریک میں بڑے پیمانے پر حصہ نہیں لیا کیونکہ اسے حکومت کا کوئی واضح متبادل نظر نہیں آرہا تھا بلکہ صرف منافقانہ لبرل بادشاہت پسند اپوزیشن تھی جس نے بیرون ملک سے ایران میں اپنے پیغام کو تمام حکومت سے غیر وابستہ میڈیا پر نشر کیا۔ درحقیقت، چند ایک کے علاوہ، تحریک کے دوران ہڑتالوں کا سلسلہ رک گیا تھا۔ لیکن اب محنت کش اپنے مطالبات ایک بار پھر سنا رہے ہیں۔
معاشی بحران میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ عالمی سطح پر مہنگائی کے بحران نے ایران کی پہلے سے بحران زدہ معیشت پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔ غیر ملکی سود کی بلند شرح اور ڈالر کی مضبوطی نے حکومت کے محدود کرنسی کے ذخائر کو مزید کم کر دیا ہے۔ تومان ایک سال میں اپنی آدھی قدر کھو چکا ہے۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایران دنیا میں گیس کے دوسرے بڑے ذخائر ہونے کے باوجود قدرتی گیس اور توانائی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ حکمران طبقے کے طفیلی پن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ایرانی محنت کش طبقے کے اندر بہت سی پرتوں کے لیے، جو پہلے ہی بھڑکنے کے قریب تھیں، نئے سال ]20 مارچ[ کے لیے حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت میں 27 فیصد کا قابل رحم اضافہ نقطہ اُبال بنا۔ ایرانی سال کے آغاز سے لے کر اب تک 130 سے زائد متواتر ہڑتالیں ہو چکی ہیں، جنہوں نے موجودہ ملک گیر ہڑتال کی لہر کے لیے راستہ تیارکیا ہے۔ پہلے ہی، ہڑتالی کاروائیاں تیل-گیس کے شعبے سے آگے بڑھ چکی ہیں، اور حکومت کے خلاف بے مثال غصے میں اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
مزدور اور نوجوان متحد!
انقلابی نوجوانوں کی تنظیموں نے تحریک کو زندہ کرنے کے لیے پچھلے مہینوں میں ہرظلم کے خلاف احتجاج کی کال دینے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے بے نتیجہ نتائج برآمد ہوئے۔ اب اس ہڑتال کے بعد نوجوان یکجہتی کے بیانات اور کارروائی کے مطالبات کے ساتھ محنت کش طبقے کی طرف رُخ کر رہے ہیں۔ 32 سے زائد شہروں کے انقلابی نوجوانوں کے گروپوں نے درج ذیل بیان پر دستخط کیے ہیں:
”ہمیں تیل اور پیٹرو کیمیکل کے ورکرز کی قیادت میں مزدوروں کی ہڑتال کی مکمل حمایت کرنی چاہیے!
ہم طلبہ، خواتین اور نوجوانوں کے گروپ اور تنظیمیں ہیں جو تیل، پیٹرو کیمیکل اور سٹیل ورکرز کے ساتھ ہڑتال پر ہیں۔
ہم بحیثیت طلبہ تنظیمیں اور نوجوانوں اور خواتین کے جدوجہد کرنے والے گروپ، جو سڑکوں، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں دن رات اسلامی جمہوریہ کے خلاف لڑ رہے ہیں، اور ہمارے انقلاب کو آگے بڑھا رہے ہیں، تیل، پیٹرو کیمیکل، سٹیل اور دیگر ہڑتالوں میں آپ ورکرز کے ساتھ ہیں۔ ہم اپنی مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
ہم اعلان کرتے ہیں کہ طلبہ تحریک کا ایک بہت بڑا حصہ، خواتین اور نوجوانوں کی طاقتور تحریک، آپ کے ساتھ کھڑی ہے، اور خود کو آپ کا اتحادی سمجھتی ہے۔
ہمارے استحصال، جبر اور محرومی کے شکار عوام کی آزادی کا واحد حل اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کے لیے تیز تر، زیادہ موثر، ملک گیر اقدامات کرنا ہے۔
ان اقدامات میں غیر معینہ مدت کے لیے متحدہ ملک گیر احتجاج اور ملک گیر ہڑتال، اور پورے معاشرے میں عام ہڑتال ہونی چاہیے۔
انقلابی محنت کش زندہ باد!
”عورت، زندگی، آزادی“ انقلاب زندہ باد!
اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ!
استحصال، غربت اور جبر کا خاتمہ!
عورت، زندگی، آزادی انقلاب زندہ باد!
آزادی اور برابری، شورائی (سوویت) کی حکمرانی!“
نوجوانوں کی سب سے ہراول پرتیں – سوشلسٹ اور کمیونسٹ – اس سے بھی آگے جا چکے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں کمیونسٹ پوسٹر چسپاں کیے جا رہے ہیں، ایسے ہی ایک پوسٹر میں درج ذیل لکھا گیا ہے: ”سوشلزم ہمیشہ کے لیے“؛ ”روٹی، کام، آزادی – شوریٰ ]سوویت[ حکمرانی“؛ اور، ”واحد نجات ایرانی عوام کی مسلح بغاوت ہے“۔ کچھ نے تو ہڑتال کی حمایت میں پرچے تقسیم کرنا بھی شروع کر دیے ہیں۔
ایسا ہی ایک گروہ، پیکر ]اسی نام کی پرانی تنظیم کے نام پر[، صحیح طور پر معاشی جدوجہد کو حکومت کے خلاف جدوجہد سے جوڑتا ہے:
”آئیے یکم مئی کا استقبال کنٹریکٹ آئل اور پیٹرو کیمیکل ورکرز کی ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے کریں!
مزدوروں کا عالمی دن آرہا ہے جو استحصال کے خلاف عالمی پرولتاریہ کے اتحاد اور تاریخی طبقاتی جدوجہد کی یاد ہے۔ لیکن اس سال یہ ایسی صورت حال میں آیا ہے جب ہم ایرانی محنت کش ’غیرسرکاری‘ طور پر طبقاتی جنگ کی حالت میں ہیں! بے تحاشہ مہنگائی کے باوجود حکومت نے کم از کم اجرت میں اضافے کے بل (جس میں اگلے سال کی تنخواہوں میں اضافہ کا فیصلہ نہیں کیا گیا) کی منظوری دے کر خود کو سرمایہ داروں کے مفادات کی ضامن اور فطری نمائندہ قرار دے دیا! قومی فنڈز اور خدمات کی نجکاری، بین الاقوامی تجارتی معاہدوں اور غیر ملکی کرنسی کے انجیکشن کے مقصد سے ’پیداواری‘ منصوبے کی منظوری کا سرمایہ داروں کو مزید امیر اورہمیں مزید غریب بنانے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
مزید برآں، ’لبرلائزیشن‘ کے نام پرایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور اس سے آنے والی ناگزیر مہنگائی، حالاتِ زندگی کو ناقابلِ برداشت حد تک لے جائے گی۔ محنت کش طبقے کے طور پراب ہماری جدوجہد بنیادی حقوق اور استحصال پر مبنی اس سماجی نظام کے تحت ’باوقار زندگی‘ کی لڑائی تک محدود نہیں رہی!
ہم یونین کے مظاہروں پر گولیاں، فیکٹریوں میں اپنے کامریڈوں پر کوڑے مارے جانے اور مزدور کارکنوں کی کئی دہائیوں کی قید اور تشدد کو نہیں بھولے۔ اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ استحصال کی مشین صرف دو ہی راستے دکھاتی ہے: یا تو ہمیں غلام بن کر آگے بڑھنا چاہیے اور استحصال کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے صرف منافع کمانے پر توجہ دینی چاہیے، یا پھر ہمیں گولیوں اور گرفتاریوں کا جواب احتجاج اور ہڑتالوں سے دینا چاہیے۔
گزشتہ مہینوں کی ملک گیر تحریک اور عوام کی بے لوث جدوجہد نے صاف ظاہر کر دیا کہ ظلم اور نابرابری کے بغیر باعزت زندگی جبرکی مختلف پرتوں کے خلاف جدوجہد کو جوڑ کر ہی ممکن ہے۔ اگر ہم ایک دن اس بتدریج موت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کارخانوں اور گلیوں میں جدوجہد جاری رکھنا ہوگی اور اجتماعی خوشی کے لیے ایک نئی راہ کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ یہ راستہ محنت کشوں اور محنت کشوں کی بے شمار صفوں کے اتحاد، پیداوار کے پہیوں کو روک کر،خواتین اور مظلوم قوموں کی بے لوث جدوجہد میں شامل ہو کر، عدم مساوات، ذلت اور استحصال سے نجات اور آزاد اور مساوی زندگی کے لیے جدوجہد سے شروع ہوتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اپنے مشترکہ مفادات اور اس خیال پر قائم رکھتے ہیں کہ اس سرزمین کے انسانوں کو فلاح و بہبود، فیصلہ سازی، انسانی وقار، اپنی منزل اور زندگی کا تعین کرنے کا حق ہے۔
ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد – صنعتی علاقوں میں، چھوٹے اور بڑے کارخانوں اور ورکشاپوں میں، کام کی جگہ پر کمیٹیاں اور کونسلیں بنا کر، اور ہڑتالیں منظم کرکے – اس راستے پر ایک بنیادی قدم ہے۔ ہماری جدوجہد جو بھی شکل اختیار کرتی ہے – چاہے وہ سکولوں میں ہو جہاں ہم آنے والی نسلوں کے مساوی حقوق کے لیے لڑتے ہوں، یا کام کی جگہوں پر مہذب حالات زندگی کے لیے ہڑتالیں ہوں – یہ ایک ہی جدوجہد ہے۔ چاہے بات اپنے پامال کیے گئے حقوق کی بازیابی کی ہو، یا حکومت کو ایک سیاسی انتباہ ہو، فروردین ]21 اپریل[ کے پہلے دن سے تیل اور پیٹرو کیمیکل کنٹریکٹ ورکرز کی طرف سے بڑے پیمانے پر ہڑتالوں کی توسیع اور پھیلاؤ سرمایہ داروں اور ان کی حکومت کے بے لگام حملوں کے خلاف مزدوروں کی منظم جدوجہد کا ایک اہم موڑ ہے۔ محنت کشوں کی جانب سے وسیع تر اور ملک گیر حمایت کی صورت میں یہ ہماری جدوجہد میں ایک اور تاریخی تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ہڑتال زندہ باد، انقلاب زندہ باد!
یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن زندہ باد!“
یہ طریقے انقلابی تحریک کے آگے بڑھنے کا راستہ ہیں: محنت کش طبقے کی معاشی جدوجہد کو حکومت کے خاتمے سے جوڑنا۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انقلابی نوجوان ملک گیر ہڑتال کو پورے محنت کش طبقے کی انقلابی عوامی تحریک میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ! انقلابی قیادت کی جانب بڑھو!
پانچ سال کی ملک بھر کی ہڑتالوں اور متعدد تحریکوں کے بعد حالات نہ صرف ملک گیر ہڑتال کے لیے تیار ہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا راستہ ہموار کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ایرانی عوام پر یہ بات تیزی سے واضح ہو رہی ہے کہ حکومت کے پاس غربت اور دہشت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے کوئی بھی رعایت عارضی ہو گی اور اسے انقلابی کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے صرف وقت خریدنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
انقلابی تحریک کو روکنے والی سب سے اہم چیز ایک ایسے پروگرام کے ساتھ واضح انقلابی قیادت کی عدم موجودگی ہے جو عوام کو متحد کر سکے، معاشی اور سیاسی مطالبات کو جوڑ سکے اور خود کو حکومت کے ساتھ ساتھ رجعت پسند، مغربی حمایت یافتہ اپوزیشن کے سامنے محنت کش طبقے کے واضح متبادل کے طور پر پیش کر سکے۔ پہلے ہی، ملک گیر ہڑتال نے بہت سے معاشی مطالبات کو آگے بڑھانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔
اس طرح کے پروگرام کو عوام کی حمایت ملے گی اور ملک گیر ہڑتال عام ہڑتال میں تبدیل ہو جائے گی۔ لیکن ان مطالبات کے ادراک کے لیے اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا سوال اٹھانا بھی ضروری ہے۔ ایک عوامی تحریک جو محنت کش طبقے اور مظلوموں کی وسیع پرتوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے، ایران میں سوشلسٹ انقلاب کی طرف پہلا قدم ہو گی، جو سب کے لیے ایک باوقار زندگی کی واحد ضمانت اور ساری دنیا کے محنت کشوں کے لیے مینار ہے۔