یہ عام انتخابات برطانیہ کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہونے جا رہے ہیں۔ ان کے پوری دنیا پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
[Source]
کوربن ملک کے طول و عرض میں اپنی انتخابی مہم کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے جس میں وہ طبقاتی مسائل اجاگر کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو نشانہ بنا رہا ہے، جس سے سیاسی زمین سرکنے لگی ہے۔
سنڈے میگزین کے لیے YouGov کے ایک حالیہ سروے میں یہ دیکھنے میں آیا کہ چند دنوں کی مہم کے بعد ہی لیبر کی مقبولیت میں 6 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جس سے ٹوری پارٹی کی برتری ختم ہو گئی۔ لبرل ڈیموکریٹس کی مقبولیت میں تین پوائنٹس کی کمی آئی، جس سے (سماجی)پولرائزیشن کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور ابھی یہ محض آغاز ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ لوگ الیکشن کو ایٹون سے تعلیم یافتہ ارب پتی بورس جانسن اور انقلابی بائیں بازو کے پروگرام کے حامل جیرمی کوربن کے درمیان ایک مقابلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
عوام بمقابلہ ارب پتی
لیبر نے درست طور پر اپنی مہم کا آغاز بورس جانسن کے NHS کو امریکی فارما سوٹیکل کمپنیوں کے شکنجے میں دینے کے خفیہ منصوبے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کیا ہے۔
کوربن نے امیر ترین افراد کی بے پناہ دولت کی نشاندہی کی کہ 10 فیصد افراد کل دولت کے 44 فیصد کے مالک ہیں۔ بڑی بڑی کارپوریشنز قتل و غارت کر کے بھی بچ نکلتی ہیں اور ایمازون جیسی کمپنیاں 10.9 ارب پاؤنڈ کے منافع پر محض 22 کروڑ پاؤنڈ ٹیکس ادا کرتی ہیں۔
لیبر کی انتخابی مہم کے افتتاح کے موقع پر کوربن نے ارب پتیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وعدہ کیا کہ لیبر حکومت امیر ترین اشرافیہ کو لگام ڈالے کی جو ”غیر منصفانہ نظام“ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔
اس کے بہت بڑے نتائج سامنے آئیں گے۔ برطانیہ میں تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب ارب پتی موجود ہیں، جو پوری آبادی کا 0.0002 فیصد بنتے ہیں، جو اپنی ناجائز دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں، جبکہ 1 کروڑ 40 لاکھ لوگ غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان ارب پتیوں نے اپنی دولت اور طاقت محنت کش طبقے کے خلاف ایک سفاک طبقاتی لڑائی کے نتیجے میں حاصل کی ہے۔
ہمارے پاس برطانیہ کے تیسرے امیر ترین شخص جم ریٹکلف کی مثال موجود ہے جو Ineos کا سربراہ ہونے کے ناطے 18 ارب پاؤنڈ کا مالک ہے، ایک پیٹروکیمیکل گروپ جس میں 17 ہزار لوگ ملازمت کرتے ہیں۔ اس نے اپنے منافع میں اضافے کی خاطر محنت کشوں کی اجرتوں اور چھٹیوں میں کمی اور جائے کار کا معیار گرا دیا۔
یا مائیک ایشلے کو ہی دیکھ لیں، جو سپورٹس ڈائریکٹ کا مالک ہے اور اس کے لیے 30 ہزار افراد کام کرتے ہیں۔ ایشلے کے ملازمین کو وکٹوریائی دور کی سہولیات کے حامل کارخانوں میں کام کرنا پڑتا ہے، اور یہ سب اس لیے تا کہ اس کی بے پناہ دولت میں اضافہ ہو سکے۔
ایک اوسط برطانوی محنت کش اگر اپنی اجرت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرے تو بھی اس کو ارب پتی بننے کے لیے 40 ہزار سال سے زیادہ عرصہ لگے گا۔ یہ برطانیہ میں بنی نوع انسان کے گزارے گئے کل وقت کے برابر ہے۔
بورس جانسن نے ان انتخابات کو ”پارلیمان بمقابلہ عوام“ کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ مگر لیبر نے درست طور پر اس کا جواب دیتے ہوئے ان انتخابات کو ”عوام بمقابلہ ارب پتی اشرافیہ“ قرار دیا ہے۔
بلیئرازم کا بھوت
ٹونی بلئیر نے حال ہی میں ”مفاہمتی پالیسی“ کے خاتمے کا رونا روتے ہوئے سوچ سمجھ کر ووٹ دینے کا مشورہ دیا (یعنی لیبر کو ووٹ نہ دینے کا کہا)۔ جب وہ کہتا ہے کہ ”کنزرویٹو انڈیپینڈنٹس(بورس جانسن مخالف کنزرویٹو ممبر پارلیمان) کے بنا پارلیمان بدتر ہو گا“ تو وہ اپنا اصل ٹوری رنگ دکھا رہا ہوتا ہے۔
بلیئر مزید کہتا ہے کہ لیبر پارٹی کی جانب سے بیچارے بوڑھے ”دھوکے باز لینڈ لارڈز“، ”ارب پتیوں“ اور ”بدعنوان نظام“ پر حملے ”کتابی مقبولیت پسندی“ ہے۔ اس آستین کے سانپ نے مزید کہا، ”یہ باتیں خود کو بائیاں بازو کہنے والے لوگوں کے منہ سے بھی اسی طرح ناقابل قبول ہیں جس طرح دائیں بازو کے ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ سے۔“
یہ ایک کروڑ پتی، جنگی جنونی اور امریکی سامراج کے پٹھو کے منہ سے اشرافیہ کی ترجمانی ہو رہی ہے۔
لیبر صرف انقلابی سیاست کے ذریعے یہ الیکشن جیت سکتی ہے، ان کے خلاف جنہیں بلیئر مذموم انداز میں ”سرمایہ داری کے بدمعاش بہروپیے“ کہتا ہے۔
ٹوری مہم۔۔۔ زبوں حال
مزے کی بات یہ ہے کہ نائجل فراج اور بریگزٹ پارٹی کے ہر سیٹ سے الیکشن لڑنے کے فیصلے سے یہ سب آسان ہو گیا ہے۔ اس سے لیبر سے زیادہ ٹوری پارٹی کے ووٹ ٹوٹیں گے، جس سے لیبر مزید کئی سیٹوں پر باآسانی کامیاب ہو جائے گی۔ لیبر کے اندازے کے مطابق اس سے انہیں 40 اضافی سیٹیں مل سکتی ہیں۔ اس سے جانسن کے ٹولے میں دہشت پھیل گئی ہے۔
بریگزٹ پارٹی کے میدان میں آنے سے بورس جانسن کے لیے وزیر اعظم ہاؤس کا راستہ لمحہ بہ لمحہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ 10 سالہ ٹوری کٹوتیوں کے بعد، جانسن کی بڑھکوں کے باوجود، لوگ کنزرویٹیو کو ووٹ دیتے ہوئے ہچکچائیں گے۔
اس سے ٹوری کا شمال، وسط اور ویلز میں لیبر کی سیٹیں جیتنے کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ اب وہ جتنے مرضی اخراجات میں اضافہ کرنے کے وعدے کریں، یہ سب 10 سال پر محیط ٹوری کٹوتیوں کے بعد کھوکھلے معلوم ہوتے ہیں۔
ٹوری منصوبہ ساز دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا ”پارلیمان بمقابلہ عوام“ کا ہتھکنڈہ پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے۔ ”بریگزٹ کرو“ کا نعرہ بھی اب ماند پڑتا جا رہا ہے۔
انہی وجوہات کی بنا پر امکان ہے کہ ڈاؤننگ سٹریٹ میں جانسن کا قیام تاریخ میں سب سے کم مدتی ہو گا۔
اقتدار کی تیاری
ہم 2017ء کے انتخابی حالات دہرائے جانے کی امید کر سکتے ہیں۔ دو سال پہلے اسی موقع پر لیبر پارٹی ٹوری سے 24 پوائنٹ پیچھے تھی، لیکن پولنگ کے دن پر لیبر نے 30 اضافی سیٹیں جیتیں، اور وہ تقریباً 10 ڈاؤننگ سٹریٹ(وزیر اعظم ہاؤس) تک پہنچ ہی گئے تھے۔
اس بار لیبر پہلے سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ لاکھوں لوگوں نے ووٹ کا اندراج کیا ہے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ امید ہے کہ کوربن ایک بار پھر نوجوانوں کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اس صورتحال کے پیش نظر کوربن با آسانی اقتدار حاصل کرسکتا ہے۔ اگر لیبر اکثریت حاصل نہیں بھی کرتی تو بھی یہ پارلیمان کی سب سے بڑی پارٹی بن سکتی ہے۔ ایس این پی، جو سکاٹ لینڈ میں بڑی تعداد میں سیٹیں جیت سکتی ہے، باہر سے لیبر حکومت کی حمایت کرے گی اور سوئینسن، جو کوربن سے نفرت کرتی ہے، کے لیے جانسن کی ٹوری حکومت کی حمایت کافی مشکل ہو گی۔ لہٰذا کوربن پھر بھی وزیراعظم بن سکتا ہے۔
یقیناً لیبر اتنی سیٹیں جیت سکتی ہے کہ اسے دوسری پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ یہ سب سے بہتر رہے گا۔ جو بھی نتیجہ نکلے لیبر کو اتحاد اور معاہدوں میں نہیں پڑنا چاہیے، اس کی بجائے اسے اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور دوسری پارٹیوں کو للکارنا چاہیے کہ وہ انقلابی اور مقبول مطالبات کے خلاف ووٹ دے کر دکھائیں۔
ہم معاملات کو اتنا آسان نہیں لے سکتے۔ ابھی بھی انتخابات میں کئی ہفتے باقی ہیں۔ سیاسی حالات کافی غیر یقینی ہیں۔ ہمیں ابھی بھی ایک ایک ووٹ کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنا ہو گی۔
سرمایہ داروں کی سازشیں
کوربن کی حکومت کو بہت ساری رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جن میں پارلیمانی لیبر پارٹی میں موجود سازشی اور غدار بلیئرائٹس بھی شامل ہیں۔ یہ ٹوری بہروپیے کسی بھی قسم کی انقلابی پالیسیوں کو سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
ٹونی بلیئر کے الفاظ میں، ”اچھے لیبر اراکین پارلیمان کا ایک گروہ موجود ہے جنہیں ایسی پالیسی کو ووٹ دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جسے وہ ٹھیک نہیں سمجھتے۔“ وہ بڑے سرمایہ داروں کے قابل اعتماد نمائندوں کا کردار ادا کریں گے۔ وقت آنے پر وہ کوربن کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں گے۔
مالکان اور بینکار ہر ممکن طریقے سے کوربن حکومت کو کمزور کرنے کی کوششیں کریں گے۔وہ ناصرف کوربن بلکہ اس کے پیچھے کھڑے لاکھوں محنت کشوں سے بھی خوفزدہ ہیں جو کہ حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ لیبر حکومت اپنے وعدوں سے بھی آگے دھکیلی جائے گی۔
”میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں“، جان میکڈونل نے پچھلے سال لیبر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”کہ ہمیں ورثے میں جتنا گند ملے گا ہمیں اتنا ہی انقلابی ہونا پڑے گا۔“
برطانیہ پچھلی ایک دہائی سے سرمایہ دارانہ بحران اور ٹوری کٹوتیوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ چھوٹی موٹی تبدیلیوں سے یہ سب ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ سوشلسٹ پالیسیوں پر مبنی ایک بے باک پروگرام ہی اس گند سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔
سوشلسٹ لیبر حکومت کی جانب بڑھو!
اس کے علاوہ برطانیہ سمیت پوری عالمی معیشت ایک نئے بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بینک آف انگلینڈ کے سابق سربراہ مروین کنگ نے آئی ایم ایف کی ایک حالیہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم“آنکھیں بند کر کے نیند میں ایک نئے بحران کی جانب چل رہے ہیں۔“
کنگ نے تنبیہ کی کہ ہم ایک نئے ”معاشی تباہی“ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور اسے یہ علم ہونا بھی چاہیے کیونکہ وہ تب آگے آگے چل رہا تھا جب بینکار ”نیند میں چلتے ہوئے“ 2008ء کے بحران سے جا ٹکرائے تھے۔
ایسی تباہی کے ساتھ صرف سوشلسٹ اقدامات کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ لیبر کو ارب پتیوں کے ہاتھوں سے معیشت کا کنٹرول چھیننا ہو گا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ معیشت کے بنیادی ستونوں، یعنی بینکوں، مالیاتی اداروں، زمینوں اور بڑی بڑی اجارہ داریوں کو محنت کشوں کے زیر انتظام لے کر آنا ہو گا۔
کوربن کی حکومت کو سرمایہ داروں کی سازشوں کے جواب میں محنت کش طبقے کو متحرک کرنا ہو گا تا کہ سماج کی سوشلسٹ تبدیلی عمل میں لائی جا سکے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا واحد حل ہے۔
صرف اسی طریقے سے لیبر اپنے پروگرام پر عمل کر سکتی ہے اور برطانیہ کے عوام کی اکثریت کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے۔ ہمیں اسی کے لیے لڑنا ہو گا۔