Urdu translation of Revolution and counter-revolution in Thailand (May 19, 2010)
چنگاری ڈاٹ کام،03.06.2010۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ بنکاک شعلوں کی لپیٹ میں آیاہواہے اور ردِانقلابی تشدد ایک خونریز انتہاء کو پہنچاہواہے ۔تھائی فوج ،جوکہ اب تک چپ سادھے ہوئے تھی ،وہ اب کھل کھلاکر اپنی وحشت پر اتر آئی ہے۔اور یہ تب تک اپنا فرض منصبی پورا کرے گی کہ جب تک احتجاج کا آخری شائبہ تک بھی ختم نہیں ہوجاتا۔کوئی بھی نہیں جانتا اور بتا سکتا کہ اس وحشی کھیل میں کتنااور کیا کیا نقصان ہو چکاہے ۔لیکن حتمی اندازہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا جتنا کہ اس وقت انتظامیہ بتا رہی ہے ۔یہ کہا جارہاہے کہ کچھ ریڈ شرٹس والوں نے کچھ بینکوں ،شاپنگ مالزاورکچھ دیگر عمارتوں کو بھی نذر آتش کیا ہے ۔ایسی رپورٹس بھی آرہی ہیں کہ شہرکے دوسرے حصوں میں بھی احتجاج بھڑک اٹھا ہے ۔ راج سپرانگ کے مقام پر جمع ہونے والے مظاہرین ایک گیت گاتے سنے گئے ہیں کہ’’ یہ ایک طبقاتی جنگ ہے جو کہ اشرافیہ کے خلاف لڑی جا رہی ہے ‘‘۔بنکاک کا مرکزی علاقہ کئی مہینوں سے احتجاج کا مرکز بناہوا ہے جو کہ یو ڈی ڈی ،، آمریت کیخلاف یونائیٹڈ فرنٹ،، کے نام سے بناہواہے اور جو ریڈ شرٹس کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہو چکاہے ۔اس بڑی عوامی تحریک کو وہاں کے غریب او رمحروم لوگ چلارہے ہیں ۔عوام کی اس طاقتور تحریک نے اشرافیہ کے اقتدار کے سبھی ڈھانچوں کو کھنگال کر اور دہلا کے رکھ دیا ہے ۔اور اس نے تھائی بادشاہت کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا ہے ۔ان مظاہرین میں سے کئی سابق وزیر اعظم تھاکسن شینا وترا کی اقتدار میں واپسی چاہتے ہیں ۔جسے ایک فوجی بغاوت کے بعد چار سال قبل اقتدار سے محروم کیا گیاتھا ۔ وزیر اعظم ابھیشت وجے جیوا کوشکایت ہے کہ انتشار اور انارکی پھیلی ہوئی ہے ۔لیکن وہ یہ بھول گیا ہے کہ وہ خود بھی ایسے ہی حالات کے نتیجے میں اقتدار پر آیاتھا۔اور وہ خود ایک فوجی سرکشی اوراس کے بعد کی متعدد عدالتی سازشوں کی ہی پیداوارہے ۔ دو ہزار چھ سے دو ہزار آٹھ تک کے دوران ،پیلی شرٹوں والے ٹھگوں نے جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا،نے متوقع الیکشن کا بائیکاٹ کر دیاتھا جس میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ سابق وزیراعظم شیناوتراکو بآسانی کامیابی مل سکتی تھی ۔تب الیکشن کو معطل رکھنے کی کیفیت منظم کی گئی ۔پھر جب شیناوتراکے حمایتیوں کو فوجی جنتا روکنے میں ناکام رہی تو بادشاہت کے پالتوغنڈوں نے حکومتی عمارات کا گھیراؤ کرلیا اورساتھ ہی بنکاک ائر پورٹ کا بھی محاصرہ کر لیا اور یوں ایک فوجی بغاوت کا رستہ ہموارکرلیاگیا۔ابھیشت کا اقتدار پر براجمان ہونا جمہوریت کی سراسر نفی تھی لیکن مغرب نے اس بات کویکسر نظرا ندزاکردیا۔ ایک نئے الیکشن کا مطالبہ ایک حقیقی جمہوری مطالبہ ہے ۔ لیکن تھائی اشرافیہ کیلئے یہ ناقابلِ قبول ہے۔لندن اور واشنگٹن میں براجمان جمہوریت کے نام نہاد نام لیواؤں کو اس آمریت سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے طبقاتی مفادات کیلئے جوسرگرم عمل ہے ۔ابھیشت حکومت تھائی بادشاہت اور فوج کی پالتو اور نمائندہ حکومت ہے۔اور یہ مغرب کو وارے بھی کھاتی ہے ۔کیونکہ یہ اشرافیہ، مغرب کو ان کے اس علاقے میں موجود مفادات کے تحفظ کی پوری ضمانت فراہم کئے ہوئے ہے۔ جو کہ ایشیا کی اہم ترین معیشتوں میں سے ایک ہے ۔وہی منافقین جوکہ یوکرائن میں ’’اورنج انقلاب ‘‘کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ہیں اور جو کہ وینزویلا کی منتخب جمہوری شاویز حکومت کو ’’شخصی حکمرانی ‘‘قراردیتے چلے آرہے ہیں ،مگر اب تھائی لینڈ میں چل رہی جمہوریت کی اس جدوجہد کو وہ دانستہ نظرانداز کررہے ہیں اور اس پر انہوں نے ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرخ شرٹوں والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ریڈ شرٹ حکومت مخالف ایک کمزور سااتحاد ہے جوکہ تھاکسن شینا وتراکو اپنی امیدوں کا مرکز ومحوربنائے ہوئے ہے۔ شیناوتراکروڑپتی کاروباری ہے ۔جو کہ ہجرت کر کے اب مونٹی نیگرو میں مقیم ہے۔وہ اب ایک انقلاب کا قائد تصور کیا جا رہا ہے۔ اس کی حکومت کے ناقدین اس کے عہد میں انسانی حقوق کی شدیدخلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہیں۔لیکن اس نے اپنے عوام کے حق میں بھی بہت سے اقدامات کئے تھے خاص طور پر شمال میں دیہی غریبوں کیلئے ۔ جب بھی جہاں بھی کوئی واضح قیادت ،کوئی حقیقی پروگرام موجود نہیں ہوتا تب وہاں عوام اپنے خوابوں کو کسی نہ کسی فرد کی صورت میں تجسیم کرنا شروع کردیتے ہیں۔تھائی لینڈ کے دیہاتوں میں بسنے والے غریب، شہروں میں بسنے والی امیر اشرافیہ کی لوٹ مار اور استحصال سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ جو وہ نسلوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔تھاکسن کو اپوزیشن والے حکومت کے خلاف جدوجہد کے مرکز ے کے طورپر پیش کررہے ہیں ۔کسان جنہوں نے اس کے دور میں کچھ اچھے دن دیکھے، اس لڑائی میں پیش پیش ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تھاکسن ایک حادثاتی لیڈر ہے ویسے ہی جیسے کہ فادر گبون اور کیرنسکی روس کے انقلاب کے دوران سامنے آئے تھے ۔ درمیانے طبقے کے بیشتر دانشور یہ بات سمجھنے سے یکسر قاصرہیں کہ آخرکیونکر تھائی لینڈ کے غریب عوام ایک کروڑپتی لیڈر کے پیچھے دیوانہ وار سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں ،یہی نہیں بلکہ اپنی جانیں بھی داؤ پرلگائے ہوئے ہیں۔ان میں سے کچھ زیادہ سیانوں نے تو اس تحریک کو ’’ فاشسٹ‘‘ بھی قرار دے دیا ہے۔ کچھ ایسی ہی تصویرکشی ،یہاں لندن میں مقیم اپنے تئیں لیفٹ کے ایک مہان دانشور گائلز جی انگپاکورن نے بھی کی ہے ۔اس نے تحریک کے بارے ایک انتہائی درست اور حقیقت پر مبنی تجزیہ پیش کیا ہے ۔ تھائی لینڈ کی سڑکوں پر نکلے ہوئے لوگ محض ایک امیر سیاستدان کے حق میں اور ایک دوسرے امیر سیاستدان کے خلاف سرگرم عمل نہیں ہیں ہاں مگر یہ سرپھرے لوگ سماج میں ایک حقیقی تبدیلی کیلئے سروں کو ہتھیلیوں پر لئے سڑکوں پر آرہے ہیں۔یہ ہو سکتاہے کہ انہیں اس بات کا واقعی درست ادراک نہ ہو کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟لیکن ایک بات حتمی ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ وہ کیا نہیں چاہتے ہیں ۔وہ غربت ،بھوک اور بیروزگاری نہیں چاہتے ۔وہ ایک بدعنوان اور غاصب اشرافیہ کی حکمرانی نہیں چاہتے اور یہ بھی کہ وہ ابھیشت حکومت کو نہیں چاہتے ۔ ایک نئے الیکشن کا مطالبہ ان کے احتجاج کے ابتداء کیلئے ایک فطری مطالبہ تھا ۔لیکن پھر جب بھی عوام حرکت میں آتے ہیں تو ان کی تحریک پھر نت نئے رخ اور زاویے بناتی اور تراشتی چلی جاتی ہے۔یہاں بھی یہی ہوا۔تحریک میں انقلابی نوجوانوں ،محنت کشوں اور غریب کسانوں کی شراکت بڑھتی چلی گئی ۔یہ شراکت تحریک کو بناتی اور بدلتی چلی گئی۔یہ کسی طور بھی محض گنوار اورپینڈو کسانوں کی تحریک نہیں ہے جیسا کہ بعض دانش زدہ تجزیہ کاروں نے اسے بنانے اوربتانے کی کوشش کی ہے۔پچھلے چند ہفتوں سے تھاکسن شیناوتراکی مقبولیت ہمیں پس منظر میں جاتی محسوس ہوتی ہے ۔محرومیوں کا شکار چلے آرہے محنت کش اور کسان اب اپنے سینوں میں نجانے کب سے دبی محرومیوں اور ضرورتوں کواس تحریک کے ذریعے زبان پر لانا شروع ہو گئے ہیں ۔ اور یہ محرومیاں محض اس حکومت ہی کی مہربانی سے نہیں بلکہ ایک ایسے سماجی نظام کی پیداکردہ ہیں جس کی اپنی بنیادوں میں ہی ناانصافی کا خمیر ہے ۔اور یہی وہ جوش وجذبہ ہے جو کہ عوام کی اس زندگی بخش جرات اور زندگیوں تک کی پرواہ نہ کرنے کی تڑپ کے ساتھ ہر جبر وشددکا مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں موجودہے ۔اور اپنا اظہار بھی کر رہاہے ۔مگر اسی قسم کا جوش اور جذبہ قیادت کی طرف سے کسی طور اورکسی طرف سے بھی سامنے نہیں آرہا ۔قائدین نہ تو غریب محنت کش ہیں نہ مجبور و محروم کسان کہ جن کے پاس کھونے کیلئے جانوں کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں ۔یہ قائدین درمیانے طبقے کے دانشمند اور جمہوریت پسند ہیں جو کہ صرف اعلیٰ قسم کی جمہوریت اور فوج کی جانب سے سیاسی امور میں کم سے کم مداخلت کے خواہشمند ہیں ۔اس کے علاوہ نہ ان کا کوئی مسئلہ ہے نہ مطالبہ نہ ہی آدرش۔وہ تحریک کے کاندھوں پر اس لئے سوار ہیں کہ حکمرانوں سے اپنے لئے چند ایک مراعات منوا سکیں ۔وہ بار بار مذاکرات اور مذاکرات کا مطالبہ کئے چلے جاتے ہیں ۔لیکن شومئی قسمت کہ جس تحریک کو وہ قیادت میسر کر چکے ہیں وہ ان کی قیادت سے کچھ زیادہ تیزرواور تیز گام ثابت ہوتی جارہی ہے ۔تحریک اب اپنے لئے اپنے اندر اپنی ہی زندگی موت کا کھیل بن چکی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کو جلدہی اپنی تحریک کی طاقت کا ادراک ہو گیا تھا۔ہر چند اور اس کے باوجود بھی کہ یہ ایک واضح پروگرام سے محروم ہے ،، یا شاید پھر اسی وجہ سے ہی،، اس تحریک نے تھائی سماج کی ہر مظلوم اور محروم پرت کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ۔احتجاج کرنے والوں کا یقین اور جذبہ بلندی کی طرف بھی رواں ہے اور آگے کی طرف بھی ۔سماج کو بدلنے کی جستجو اور جدوجہد ایک وزیراعظم کو بدلنے کی کم ترجستجواورجدوجہد سے کہیں آگے نکل چکی ہے ۔اب یہ جنگ امیر اور غریب کے مابین جنگ میں بدل چکی ہے ،اب یہ دو طبقوں کی جنگ بن چکی ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمہوریت کیلئے جدوجہد ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ تھائی اشرافیہ یقینی طورپر جمہوریت نوازوں کی جانب سے چلائی جانے والی اس تحریک کے زور پکڑنے سے سہمے ہوئے ہے ۔جس نے تھائی لینڈ کے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں ،کسانوں اور شہروں دیہاتوں کے غریب لوگوں کو اپنی طرف کھینچ چکی ہے ۔مختصراًیہ کہا جاسکتا ہے کہ تھائی سماج کا ہر زندہ حصہ اب اس تحریک کا حصہ بن چکا ہے ۔اور اسی سماج کا ہر ملعون‘ مردود،متروک اور استحصالی اس تحریک کے خلاف ایک مشت ہو چکاہے ۔یہ سب کچھ رکھنے والوں اور کچھ نہ رکھنے والوں کے مابین جنگ بن چکی ہے ۔امیر اور غریب صف آراہو چکے ہیں۔ریڈ شرٹ والوں کو جمہوریت پسند سمجھا جا رہاہے اور ان کے حوالے سے یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے ۔تھائی سماج میں ابھیشت حکومت کے خلاف اور جمہوریت کیلئے ایک شدید طلب اور تڑپ بھی موجود ہے۔لیکن اس جمہوری مطالبے سے ابتداء کرتے ہوئے تحریک کو سیاسی ناانصافی کے ساتھ ساتھ سماجی ناانصافی کا شعور بھی اپنی گرفت میں لیتا چلا جائے گا ۔یہ بات ناقابل تردید ہے کہ محنت کش اور کسان ایک دوسرے سے کبھی نہ جداہونے والے عناصرہواکرتے ہیں۔یہ ہو سکتاہے کہ یہ لڑائی دومتحارب سیاستدانوں کے مابین کشمکش سے شروع ہوئی ہو ۔ مگر اب اس لڑائی نے طبقاتی جدوجہد کاروپ دھارلیا ہے ۔عوام جب ایک بار اپنے قدموں پر کھڑے ہونا سیکھ لیتے اور جان لیتے ہیں تو پھر وہ اپنی ضرورتوں کو بھی سوچنا سمجھنا اور ان کو سامنے لانا شروع کردیاکرتے ہیں ۔کسی بھی انقلاب کیلئے ابتدائی مطالبات جمہوری ہی ہوتے ہیں ،، اور انقلاب کیلئے یہ لازمی بھی ہوتا ہے ،، لیکن پھر جمہوریت کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے تحریک کو تھائی سماج پر حاوی طرز سیاست کو اس کی پراگندگی سمیت اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنا ہو گا۔ عوام کی جمہوریت کیلئے اس جدوجہد کی آنکھوں میں ہم دورگہرائی تک سماجی انصاف ومساوات کی جدوجہد کی تڑپ بھی بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔اس تلخ حقیقت سے نہ صرف رجعتی اور ردِانقلابی بلکہ تحریک کے سب سے متحرک اور باشعور عناصر اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔اور پھر جیسا کہ اس قسم کے گرم ماحول میں ہر جگہ ایسے خیراندیش قسم کے حضرات بھی ہوتے ہیں جو اس توقع اور کوشش میں ہوتے ہیں کہ معاملات کو طول نہ پکڑنے دیا جائے اور کوئی بیچ بچاؤکا راستہ نکالا اور اپنایاجائے ۔مذاکرات اور معاہدوں کیلئے ماحول سازی کی جاتی ہے ،مگر موجودہ کیفیت میں یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے ۔جو صورتحال بن چکی ہے ، اس میں مصالحت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے ۔اور تحریک کا ’’مرکز‘‘،جیسا کہ تاریخ میں اکثر ہوتا آیا ہے ،تحریک کے زور پکڑنے کے مرحلے میں ایک ہی طرف اکٹھا ہوتا چلا جائے گا اور طبقاتی جدوجہد کا زوردار دھاراتحریک کو ایک جگہ مرتکز کرتا چلاجائے گا۔تحریک صرف اور صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے اور ہوگی کہ جب اس کی قیادت سب سے پرجوش پرت کے پاس ہو گی۔مردوزن جو تاریخ کے میدان میں قدم رکھ چکے ہیں ؛ آخر تک سفر جاری رکھنے کا عزم لئے ہوئے بہادر اورحوصلہ مند مردوزن جو کہ بنکاک میں اپنی تقدیریں بدلنے اور انہیں اپنے ہاتھوں میں لینے کیلئے لڑائی میں شریک ہو چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ جب عوام ابھرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چودہ مارچ سے ریڈ شرٹ والوں کی فوج ظفر موج بنکاک کی سڑکوں پر نکل آئی تھی اور اب دومہینے ہوچکے ہیں کہ تھائی لینڈ کا دارلحکومت ان کے ہاتھوں مفلوج ہو کے رہ گیا ہے ۔وہ فوجی آشیربادسے مسلط ابھیشت حکومت کے استعفیٰ دینے اور نئے الیکشن کرانے سے انکار پر احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔غیر منتخب شدہ حکومت اپنا اقتدار تو سنبھالے ہوئے ہے لیکن یہ گلی محلوں سڑکوں پر اپناکنٹرول کھو چکی ہے ۔ اپنی سولہ مئی کی اشاعت میں جریدہ ’’اکانومسٹ‘‘ لکھتا ہے کہ ’’ہزاروں کی تعداد میں لوگ جن میں سے زیادہ تر تعداد مضافات سے آئے عام لوگوں کی ہے ،شہر کے بڑے لگژری ہوٹلوں اور شاپنگ پلازوں کے سامنے لیٹے اور سوئے ہوئے ہیں ۔لگ بھگ پچھلے ماہ سے انہوں نے بنکاک کے مرکزی علاقے پر قبضہ کیا ہواہے اور وہ وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کیے ہوئے ہیں ۔یہ کہ اسمبلی کو تحلیل کیا جائے اور نئے الیکشن کرائے جائیں۔حکومت ،تاجر اور بنکاک کے کئی شہری چاہتے ہیں کہ شہر کو ریڈشرٹ والوں سے پاک کیا جائے ۔دھمکیاں اور ایمرجنسی قوانین کارگر نہیں ہورہے ۔مذاکرات جلد ثمریابی کی امید سے کیے جارہے ہیں مگر پکنے سے پہلے ہی پھل درخت سے گرتا جا رہاہے ‘‘۔ تھائی حکمران طبقات بنکاک کی سڑکوں پر عوام کے جمع ہونے کے خطرے کو بھانپ چکے تھے ۔یہ اجتماع بھی بڑھتا جارہاتھا اور حکمرانوں کا خوف بھی۔حکومت کچھ کرنے سے قاصر ہو چکی تھی اور اس کی بے بسی عیاں ہوتی چلی جارہی تھی ۔صورتحال دن چڑھنے کے بعد اور بھی سنجیدہ وتلخ ہونے لگی ۔صورتحال میں دوایسے عوامل موجود تھے جو دہری طاقت کے حامل تھے ۔اپنی جاندار سرکش مزاحمت کے ذریعے عوام حکومت سے پوچھ رہے تھے ’’ہمیں بتاؤ حکمران کون ہے ؟ہم کہ تم ؟‘‘ حکومت نے ابتداء میں کچھ رعایتیں دینے کی پیشکش کرکے صورتحال کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ۔ابھیشت نے معاہدے کا انداز اپناتے ہوئے نومبر میں ابتدائی الیکشن کرانے کی پیشکش کی ۔اس وقت ایسا لگتا تھا کہ تحریک کے کچھ قائدین ان پیشکشوں اور وعدوں کو کافی سمجھ کر واپس گھروں کا رخ کرنے کے موڈ میں ہیں ۔لیکن مظاہرین کی اکثریت کیلئے یہ وعدہ ناکافی بھی تھا اور تاخیرزدگی کا حامل بھی ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسمبلی تحلیل کئے جانے اور الیکشن کرانے کی واضح تاریخ کا اعلان کیا جائے ۔اس کے بغیر وہ اپنا احتجاج جاری رکھنے پر مجبور ہوں گے ۔ادھر حکومت میں شریک سخت گیر عناصر ابھیشت پر دباؤ میں اضافہ کرتے جارہے تھے کہ مظاہرین کی سرکوبی کیلئے سخت اقدامات کئے جائیں ۔جب ریڈ شرٹ والوں نے اپنے مطالبات میں اضافہ کیا تو حکومت نے اپنی پیشکش واپس لینے کا اعلان کردیا ۔ان کیلئے یہ بہت تھا کہ ہم نے الیکشن کا اعلان کردیا ہے اور یہ بھی کوئی کم احسان نہیں ہے جبکہ مظاہرین کیلئے یہ انتہائی کم سطح کا اعلان تھا ۔’’اکانومسٹ‘‘ کے الفاظ میں ’’ عوام نے اس قدر خون خرابے کے بعد بھی ،مذاکرات اور مصالحت کی بات کرنے والی قیادت پر عدم اعتماد کا اعلان کردیا۔انہوں نے کہہ دیا کہ مذاکرات سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنی لڑائی کو جاری رکھیں ۔سخت گیر ریڈشرٹ والے اتنی آسانی سے کوئی بات ماننے کو تیار نہیں نظر آرہے ‘‘۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ردِ انقلاب کی تیاریاں ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ حکومت دیدہ دانستہ ریڈ شرٹ والوں کو اکساتی اور مشتعل کرتی چلی گئی ۔گھریلو ساختہ میزائلوں ،جلتے ہوئے ٹائروں کو بنیاد بناکر وہ ان مظاہرین کو ’’دہشت گرد ‘‘قراردیتی رہی اور یوں ایک مسلح نفرت اور سرکشی کی فضا ہموارکرتی رہی ۔ آرمی کے خفیہ نشانہ بازوں کو استعمال کرتے ہوئے اور مظاہرین کو کچلنے کیلئے عوام کے ’’دہشت گرد ‘‘ہونے کو جواز بنایا گیا۔ طاقت کے استعمال کا پہلا مظاہرہ دس اپریل کو کیا گیا کہ جس میں پچیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ۔اور یہ سب بنکاک کو مظاہرین سے پاک کرنے کے نام پر کیاگیا ۔اس موقع پر کئی فوجی بھی ہلاک شدگان میں شامل تھے ۔جنہیں بظاہر ان ہتھیاروں سے ہلاک کیاگیا تھا جو کہ فوج کی طرف سے جاری کئے ہوئے تھے ۔اور جنہیں سیاہ نقاب پوشوں نے استعمال کیاتھا۔ دس اپریل کا یہ خونریز واقعہ ابھیشت کی عیارانہ منافقت کا پول کھول گیا کہ وہ مذاکرات اور مصالحت کے ذریعے معاملات کا حل چاہتاہے ۔یہ واضح ہوگیاکہ اس کا تھائی لینڈ میں جمہوریت قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ صورتحال کے جو نتیجے ممکن تھے ان میں ایک یہ کہ عوام اس حکومت کو اکھاڑ کے پھینک دیں گے ، رجعتی بادشاہت سمیت جو کہ اس سارے کھلواڑ کے پیچھے موجود ہے ؛یا پھر یہ کہ ایک فوجی ردِانقلاب گولیوں اور بندوقوں کے زورپر نظام کو بچانے کیلئے سامنے آجائے گا ۔ بنکاک کی خوشحال مڈل کلاس اپنی روزمرہ کے ڈسٹرب کئے جانے پر خاصی ڈسٹرب ہے ،وہ اپنی سڑکوں پر اور اپنے بلندوبالا شاپنگ پلازوں کے اردگرد خانہ خرابوں کے دھرنوں اورمظاہروں سے سخت خائف ہے۔بادشاہ سلامت کے وفادار پیلی شرٹوں والے بار بار دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ بھی لنگوٹ کس کر میدان میں آ سکتے ہیں ۔اور یہ کہ ہم بھی سڑکوں پر آکر احتجاج کرسکتے ہیں اور ریڈ شرٹ والوں کو چھٹی کا دودھ یاددلاسکتے ہیں ۔ صورتحال کے مزید بگڑنے اور خونریز ہونے کے خدشات سے ہرکوئی واقف تھا ۔غیر ملکی سفارتخانوں نے اپنے دروازے بند کرنے شروع کردیئے اور امریکہ سمیت کئی ملکوں نے اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کا حکم دیتے ہوئے بنکاک نہ آنے کا کہہ دیا ۔محکمہ خارجہ نے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ تھائی لینڈ آمد ورفت کے اپنے ارادوں پر نظرثانی کریں ’’کیونکہ بنکاک اور باقی تھائی لینڈ میں سیاسی تناؤ اور سماجی انتشار دن بدن زورپکڑتا چلا جارہاہے ‘‘۔ اس قسم کے سبھی اعلانات ا ور اقدامات اس بات کا واضح اشارہ دے رہے تھے کہ تھائی فوج کچھ کرنے کی ٹھان چکی ہے ۔اگرچہ حکومت کے بیشتر حصے ابھی تک ایسا کچھ کرنے کیلئے متذبذب تھے ۔فوج نے مظاہرین کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچتے ہوئے یہ تدبیر کی کہ بنکاک کے مرکز میں ریڈ شرٹ والوں کو محصور کردیا جائے ۔فوج نے احتجاجی کیمپ اور اس کی طرف جانے والے سبھی رستوں کو خاردار تاروں سے محصور کردیا ۔اس طرف ہر قسم کی سپلائی کو روک دیاگیا اور انتہائی ضرورت کیلئے کچھ گلیاں چھوڑ دی گئیں ۔فوج نے شہر کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کردیا ۔ایک ڈنگ ڈینگ اور دوسرابون کوئی اور انہیں زندہ فائر زون بھی قرادے دیاگیا۔سینئر جرنیلوں کی طرف سے حکمنامہ جاری کردیا گیا کہ جو کوئی بھی ان علاقوں میں قدم رکھے گا اسے دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی ۔ریڈ شرٹ والوں نے اس اعلان کے جواب میں اپنی ’’حدود‘‘ کو مزید وسعت دینے کا تہیہ کرلیا اور انہوں نے شہر بھر میں اپنے زیر انصرام علاقوں کو ٹائروں اور کاروں کے پارٹس کے ذریعے مخصوص ومحصور کرناشروع کردیا۔انہیں جہاں کہیں بھی خطرہ محسوس ہوتا ،وہ وہاں آگ بھڑکانے لگے ۔اس دوران کئی گھر جلا دیے گئے ۔اور ایسی بھی رپورٹیں ملیں کہ ممنوعہ علاقوں میں کئی کاروبار اور بڑی عمارتوں کوبندکر دیاگیا۔یہ وہ علاقے تھے جہاں ریڈ شرٹ والوں اور تھائی فوج کے مابین لڑائی ہورہی تھی ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ فوج میں تقسیم اور دراڑیں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ تھائی لینڈ میں جاری طبقاتی جنگ اب انتہائی عروج پر پہنچ چکی ہے ۔اگر مناسب قیادت موجودہوتی تو اب تک عوام کی یہ تحریک حکمرانوں کے تخت اچھال بھی چکی ہوتی ۔اور حکومت کو پتہ لگ سکتا تھا کہ پاؤں تلے سے زمین کس طرح نکلا کرتی ہے۔ ایک طرف گزرتے وقت کے ساتھ عوام کی انقلابی تحریک میں جوش وجذبہ بڑھتا چلا جارہاتھا تو دوسری طرف تھائی فوج اور پولیس کے اندر دراڑیں اور تقسیم بھی نمایاں سے نمایاں تر ہوتی چلی جارہی تھی ۔ایسی لاتعداد رپورٹس ملی ہیں کہ جن میں یا تو فوج میں بغاوت پڑ گئی یا پھر مشتعل عوام فوجی بیرکوں کے اندر تک جا پہنچے ۔بدقسمتی سے قیادت پست قدم اور پست حوصلہ رہی اور اس نے ثابت کر دکھایا کہ وہ کامیابی تک رسائی کی صلاحیت اور جرات سے بے بہرہ ہے ۔ اس کمزوری نے ردِانقلابیوں کو مضبوط ہونے کا موقع فراہم کر دیا ۔تھائی آرمی عوام کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنا چاہ رہی تھی ۔آج صبح تک کی صورتحال اس کا واضح ثبوت ہے۔فوج بپھرے ہوئے عوام سے ان کے قبضے سے کوئی ایک علاقہ بھی خالی نہیں کراسکی ۔ اس کی بجائے وہ عوام کے مقبوضہ علاقوں کو ہمہ قسم کی اشیاء کی سپلائی روکنے کے طریقے پر عمل پیرا ہے ۔جن میں کھانا،پانی ،بجلی اور ذرائع مواصلات شامل ہیں ۔لیکن یہ سب بھی احتجاج کو ختم کرنے کیلئے کافی وشافی ثابت نہیں ہوسکا ۔فوج کو جلد یا بدیر ان کو ختم کرنے کیلئے وحشت وبربریت کا راستہ ہی اپنانا پڑے گا۔ لیکن یہاں ہم ایک اور مسئلہ سامنے آتا دیکھتے ہیں۔ عام سادہ فوجی ہمیشہ ہی اپنے ملک کے غیر مسلح عوام پر گولی چلانے میں جھجھک کرتے ہیں ،کسی بھی قسم کی باقاعدہ فوج کے حوالے سے یہ بات سو فیصد درست ہے ۔کیونکہ ان میں سے اکثریت کا اپنا تعلق ہی انہی کسان خاندانوں سے ہواکرتا ہے ۔ اسی وجہ سے فوج کے اعلی ٰ ا فسروں نے منتخب نشانہ باز سپاہیوں کو احتجاج کرنے والوں کا شکار کرنے کا فریضہ سونپا۔ان میں ایک اہم شکار کھاٹیا ساوس دیپول تھا،جو کہ ایک سابق آرمی چیف تھااور جو بعد میں ریڈشرٹ آرمی کا چیف بن گیاتھا۔اس نے ببانگ دہل ’’امن معاہدے ‘‘کی شدید مخالفت کی۔ کہ جس کے نتیجے میں ابھیشت اقتدار پر ہی براجمان رہتا ۔13مئی کی رات کو ایک نشانہ باز کی گولی اس کے جسم کو چیر گئی ۔وہ ہسپتال میں جا کر ہلاک ہوگیا ۔تھائی آرمی نے اس کے قتل میں کسی قسم کی مداخلت سے انکارکر دیا لیکن اس انکار کو سب نے ماننے سے انکار کردیا۔اس وقت بھی اور اس سب کے باوجود بھی ریڈ شرٹ والے انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ اپنے قدموں اور اپنے جذبوں پر قائم ودائم ہیں اور ڈٹے ہوئے ہیں ۔اس کے باوجود بھی کہ اب تھائی فوج ان پر براہ راست فائرنگ کرنا شرو ع کر چکی ہے اور ان گنت افراد کو ہلاک اور زخمی بھی کر چکی ہے ۔کھاٹیا کے بے رحمانہ اور سفاکانہ قتل نے اس کے سپورٹروں کو اور بھی مشتعل کردیااور اس کے بعد ممنوعہ ومقبوضہ علاقوں میں لڑائی کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا ۔اور وہ صرف ان علاقوں تک ہی محدود نہیں رہابلکہ یہ لڑائی ہر طرف پھیلنی شرو ع ہوگئی ۔بنکاک کے سبھی اضلاع میں ہر ایک دروازہ بندہوتا چلاگیا ۔اور یہ تصادم ، یہ تناؤ دارالحکومت سے بھی باہر نکلنا اور پھیلنا شروع ہوگیا ۔ اتوار کے دن پانچ صوبوں میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ۔جو پھر بڑھا کر بائیس صوبوں میں نافذ کر دی گئی ،یعنی ایک تہائی ملک پر۔ انٹرنیٹ پر ایسی تصاویر موجود ہیں کہ جن میں لوگوں نے ایک فوجی ٹرک کو اپنے محاصرے میں لیا ہواہے۔وہاں موجود لوگ ٹرک اور اس میں موجود سامان کو اپنے قبضے میں کر کے نعرے لگارہے ہیں ’’عوام زندہ باد‘‘ ’’آمریت مردہ باد‘‘۔ آٹھائیس اپریل کو جو رپورٹیں سامنے آئیں ، ان میں بتایا گیا کہ ’’ راج پراسنگ کے علاقے میں ریڈ شرٹ والوں نے کچھ فوجیوں کو اس وقت پکڑ لیا کہ جب وہ احتجاج کرنے والوں پر پوزیشنیں تان رہے تھے ۔یہ کہا جارہاہے کہ انہیں ریڈ شرٹ والوں پر گولی چلانے کا حکم ملاتھا ۔لیکن ریڈ شرٹ والے اپنے ان ’’قیدیوں ‘‘کے ساتھ بہت اچھا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں ‘‘۔پھر حکومت نے کرفیو لگانے کا اعلان کیا جس نے مظاہرین کو اور بھی بھڑکا دیا۔لیکن پھر تھائی فوج کے سربراہ نے اپنا یہ اعلان واپس لینے کا اعلان کردیا ۔اور کہا کہ یہ ’’غیر ضروری‘‘ اقدام تھا ۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ حکومت اور فوج دونوں بادل نخواستہ احتجاج کرنے والوں پر قیامت ڈھانے میں ہچکچاہٹ اوربے یقینی کا شکار ہوچکے ہیں ۔اور ہم یہ بات بھی بخوبی سمجھتے اور جانتے ہیں کہ یہ ساری ہچکچاہٹ قطعی طور پر کسی انسانی یا جذباتی کیفیت کے نتیجے میں نہیں بلکہ صرف اور صرف ان کے خوف کا اظہارہے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ردِانقلاب کی جارحیت ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جسے برقرار نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ایک طرف حکومت سڑکوں پر اپنا کنٹرول گنوا چکی تھی اور اپنے اعصاب بھی ہارتی جا رہی تھی۔دوسری جانب تحریک کی قیادت کسی طرح بھی معاملات کو سمجھنے اور انہیں زیادہ سیاسی انداز میں آگے بڑھانے میں ناکا م رہی ۔وہ ایک عام ہڑتال کی کال دینے اور اقتدارپر قبضے کی ہمت سے محروم رہی احتجاج کرنے والوں کی قیادت کی فیصلے کرنے کی کمزوری ابھیشت کو اپنے اعصاب بحال کرنے کا موقع دے گئی ۔جس کا انجام یہ نکلا کہ رجعتیوں کی حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ۔ ابھیشت نے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ احتجاج کو ختم کرکے رہے گا اور یہ بھی کہا کہ جو نقصان کیا جا چکا ہے اس کی بھی وصولی کی جائے گی۔اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ فوج کی طرف سے کریک ڈاؤن کرنے کا گرین سگنل دیا جا چکاہے ۔چاہے اس کے نتیجے میں کتناہی جانی نقصان کیوں نہ ہو جائے ۔فوج نے اس جگہ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا ۔مظاہرین کو کہا جارہاتھاکہ وہ علاقہ خالی کر دیں ۔خاص طورپر خواتین کو بچوں کو اوربوڑھوں کو جگہ خالی کردینے کی ہدایت کی جارہی تھی۔جو لوگ جگہ نہیں چھوڑیں گے وہ اپنے انجام کے خو دہی ذمہ دار ہوں گے ۔ احتجاج کرنے والوں کی تو جان پر بن آئی ہوئی تھی۔خوراک اور پانی وغیرہ کی فراہمی میں کمی بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔اس کے ساتھ ساتھ ریڈ شرٹ والوں کے ساتھ شریک ہونے کیلئے آنے والوں کو بھی زبردستی روکا جارہاتھا ۔فوج کو جدید ہتھیاروں کی سہولت اور برتری حاصل تھی اور یہ بھی کہ وہ منظم بھی تھی جبکہ عوام کے پاس اس کے مقابلے میں جو ہتھیار تھا وہ ہر دوسرے ہتھیار سے زیادہ سنجیدہ اور کارگر تھا ؛اور یہ تھا ان کا اپنی جانوں تک کو داؤ پر لگا دینے کا جذبہ۔اس فولادی جذبے نے تھائی فوج کے عام سپاہیوں کو بھی دہلا کے رکھ دیااور وہ ششدر ہو کے رہ گئے اور اس وجہ سے عوام سے بھڑ جانے کے معاملے میں تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے چلے گئے ۔ تیرہ مئی کو حکومت نے ریڈ شرٹ والے احتجاجیوں کے خلاف قوت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔پہلے پہل تو حکمران اپنے فوجیوں اور سپاہیوں کے مورال اور ان کی خود کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے بے یقینی کا شکارتھے ۔کہ وہ عوام پر ٹوٹ پڑنے کے احکامات کو تسلیم بھی کریں گے یا نہیں ؟مغربی صحافیوں نے لکھاہے کہ فوج اورسپاہی اس حوالے سے متذبذب ہی نہیں تھے بلکہ خوفزدہ بھی تھے ۔انہوں نے فائرنگ کی مگر ہوا میں البتہ وہ آنسوگیس کے شیل عوام پر گراتے رہے ۔ریڈ شرٹ والے اس صورتحال سے ذرا بھی نہیں ڈرے بلکہ وہ زیادہ جذبے کے ساتھ مقابلہ کرنے کو تیار بیٹھے تھے ۔انہوں نے اپنے ارد گرد محاصرے تعمیرکرنے شروع کر دیے اور ساتھ ہی پتھروں ، کنکروں اور گھریلو ساختہ میزائلوں کے ساتھ ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے رہے۔ سب سے بڑاسوال یہ تھا کہ اگر اس طرح کھلا تصادم ہوتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا۔ایک عسکری نقطہ نظر سے یہ سوال اپنا جواب خودہی ہے۔یہ تو سوال ہی پیدانہیں ہوسکتا تھا کہ جتنی بڑی رکاوٹیں یا جتنے ہی گھریلو ساختہ ہتھیار مظاہرین کے پا س ہوں،وہ ایک مسلح اور منظم فوج یا سپاہ کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں۔ایسا ناممکن تھا ۔لیکن پھر یہ محض ایک خالص عسکری مسئلہ نہیں ہے ۔سب سے پہلے تو یہ کہ ہر توپ ہر بندوق اورہر ہتھیار کے پیچھے بھی ایک نہ ایک انسان ہوتا ہے ۔جس نے اسے چلانا ہوتا ہے ،اور ایسے انسان لامحالہ اپنے سامنے موجود دوسرے انسانوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ کون ہیں اور کیونکر ان کے سامنے صف آرا ہیں۔یہ مشاہدہ انہیں بہت متاثر بھی کیا کرتا ہے۔خود فوج کے اپنے اند جو ایکتا ہوتی ہے وہ بھی کسی طور خداواسطے کی کوئی شے نہیں ہواکرتی۔ایک انٹرنیٹ رپورٹ میں مندرجہ ذیل بتایا گیا ہے ’’بنکاک اور دیگر علاقوں میں تصادم پھوٹ رہے ہیں ۔حکومت ہر ممکن زور لگا رہی ہے کہ مظاہرین کو سختی سے کچلتے ہوئے اپنی حکمرانی کو قائم رکھ سکے ۔ایسی کئی اطلاعات ہیں کہ آگے بڑھ کر احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کرنے والے پولیس یا فوج والوں پر پیچھے سے ان کے اپنے ہی ساتھیوں نے فائرنگ شروع کردی ۔یہ واقعات فوج اور پولیس میں تقسیم اور دراڑوں کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔یہ بجا طور پر خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے ۔اور حکومت اس کیفیت کو کنٹرول کرنے کی امید سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کیا بیچ بچاؤ ممکن ہے ؟ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ تحریک کی قیادت کرنے والوں کے پاس کوئی واضح تناظر موجود نہیں ۔وہ اقوام متحدہ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بیچ میں پڑے اور معاملات کو درست کروائے ۔حکومت نے کسی بھی سطح پر مذاکرات کرنے سے صاف انکار کر دیاہے اور کہا ہے کہ جب تک احتجاج کرنے والے بنکاک میں اپنے پڑاؤ کو ختم نہیں کرتے ،ان کی کسی بات کو نہیں سنا جائے گا۔پچھلے اتوار کو تھائی حکومت نے ریڈشرٹ والوں کی جانب سے جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی معاملہ فہمی کے مطالبے کو یکسر مسترد کردیا۔ابھی تک اس حوالے سے اقوام متحدہ نے اپنی کوئی پوزیشن ظاہر نہیں کی ۔تھائی لینڈ کے ٹی وی چینلز پردکھائے گئے ،اپنے ایک خطاب میں وزیراعظم ابھیشت نے یہ کہا ہے کہ ‘‘ جب تک بھی یہ ریڈشرٹوں والے اسی طرح اپنا احتجاج جاری رکھیں گے تب تک مسلح دہشت گردوں کو عوام اور انتظامیہ دونوں پر حملہ آورہونے کا موقع ملتارہے گا۔خطرات اور تشدداسی طرح بڑھتے چلے جائیں گے،میں پھر زوردے کر یہ بات کروں گاکہ احتجاج کو ختم کرنا ہی نقصان سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔ہم کسی طور پر بھی قانون شکن عناصرکو بنکاک کا محاصرہ کیے رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ہم کسی طرح بھی مظاہرین کوحکومت کے ساتھ ٹکرانے ،اور انتظامیہ کو کوئی نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ہم قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن طریقہ استعمال کریں گے ۔جو نقصان ہو چکاہے اس کا کفارہ اداکرناہوگا اور صرف یہی ایک درست راستہ ہے‘‘۔ حکومتی ردِانقلابی تشددکا شکارہونے والے غیر مسلح عوام ہیں جو اپنے حقوق اور مطالبات کیلئے احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں ۔افسران کا کہنا ہے کہ سپاہ کو اپنے دفاع کیلئے گولی چلانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔لیکن واقعات کے چشم دید گواہان کا کہنا ہے کہ احتجاج پر فائرنگ کرنے والے یا تو گھروں اوردیگر عمارتوں کی چھتوں سے فائرنگ کرنے والے ماہر نشانہ باز ہیں یا بلااشتعال گولیاں چلانے والے۔ابھیشت نے فوجی ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’حکومت کوہر حالت میں پیش قدمی کرنی چاہیے ،ہمیں پسپائی زیب نہیں دیتی کیونکہ ہم جو بھی کچھ کر رہے ہیں وہ سارے ملک کی سلامتی ہی کیلئے کیا جارہاہے۔اگر ہم مزید جانوں کے نقصان سے واقعی بچنا چاہتے ہیں تو اس کاواحد طریقہ اور راستہ یہی ہے کہ احتجاج کرنے والے اپنا احتجاج ختم کردیں‘‘۔ حکومت بار بار احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مکرو فریب کرتی چلی آرہی ہے۔وہ ایک طرف سے زبان سے رعایتیں دینے کا اعلان کرتی ہے تو دوسری طرف وہ ان پر خونریزجبروتشددبھی کیے جارہی ہے۔اپنے مکروفریب سے لوگوں اور دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے ابھیشت نئے الیکشن کرانے کی پیشکش کراتا چلاآرہاہے ۔اوروہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ یہ نومبر میں ہوں گے اور وہ بھی اگرعوام نے احتجاج ختم کیاتو۔ اگر نومبرمیں الیکشن ہوتے ہیں تو بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بادشاہ اور اس کے وفادارالیکشن پر اثراندازہونے اور ان کے نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟اور یہ کہ وہ پیلی شرٹوں والوں کی غنڈہ گردی اور شاہ کے دفادار ججوں کے ذریعے من پسند صورتحال پیدا نہیں کریں گے؟ جال میں پھنسائے جانے کی اس کیفیت کو بھانپتے ہوئے ریڈشرٹ قیادت چوکنی ہوگئی ،جس کے فور ی بعدوزیراعظم کو اعلان کرناپڑگیا کہ وہ اپنی پیشکش واپس لے رہاہے ۔کیونکہ اسے مستردکردیاگیا ہے ۔ا س نے آرمی کو طلب کرلیااورکہا کہ اب جو کرے گی فوج کرے گی۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ احتجاج کرنے والوں کی روح پرور استقامت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ بنکاک میں گزشتہ روزمظاہرین اور سرکاری اداروں کے مابین ہونے والی خونریز لڑائی نے یہ ثابت کردیاہے کہ عوام کے جذبوں میں قطعی کوئی کمی یا کمزوری نہیں آئی ۔اس کے برعکس یہ لڑائی بنکاک کے دوسرے علاقوں میں پھیلتی چلی گئی ۔اورصرف بنکا ک ہی نہیں ،دوسرے شہروں اور علاقوں میں بھی عوام سرکار کے مدمقابل آتے چلے گئے ۔اور اب کے بار اس لڑائی میں فائرنگ یکطرفہ نہیں ہو رہی تھی ۔رپورٹروں نے لکھاہے کہ نقاب پہنے نوجوانوں کے جتھے فوج پرجوابی فائرنگ کرتے رہے ۔کچھ اور رپورٹوں میں ،جو کہ غیر مصدقہ ہیں،یہ تک بتایا گیا ہے کہ فوج اورپولیس کے کئی سپاہیوں نے خوداپنے ہی سپاہیوں پر فائرنگ کردی۔سڈنی مارننگ ہیرالڈجریدے نے اس حوالے سے حسب ذیل لکھا ہے ’’یہاں بنکاک کی سڑکوں پر آپ کو ایک عجیب قسم کا خوف سنسناتاہواملے گا مگر یہ خوف ریڈشرٹس کے گارڈزکی آنکھوں میں بھی دکھائی پڑتا ہے لیکن جو اعصاب شکن خوف ان کے کیمپوں پر حملہ آور ہونے والوں کی آنکھوں میں صاف جھلکتا ہے ،وہ ناقابل بیان ہے ۔عنان نامی ایک ریڈشرٹ والا جو کہ بہادری اور جذبے سے سرشار ہے ،اپنی پشت اور سینے پر ربڑ باندھ ہوئے ہے اور وہ کسی چھت پرموجود ایک نشانہ بازکو قابوکرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہے ،اس نے اپنے پاؤں پر ایک پوٹلی باندھی ہوئی ہے کہ جس میں چھوٹے پتھر اور کنکریاں جمع کی ہوئی ہیں تاکہ وہ کسی حملے کی صورت میں جوابی حملہ کر سکے ۔اس کی پینٹ کی پچھلی والی جیب میں ایک گھریلو ساختہ میزائل بھی ٹھنساہواہے ،جو کہ کسی سکریپ زدہ موادسے بناہوا ہے ۔اوریہ میزائل وہ فوجیوں اورپولیس ہیلی کاپٹروں پر پھینکتا ہے ۔ان میزائلوں سے آتش بازی کی سی کیفیت پیداہوجاتی ہے ۔چند میٹر کے فاصلے پر موجودریزروائروں اور ریت کے تھیلوں کے پیچھے نشانہ باندھے فوجیوں کی رائفلوں اور ایم سولہ گنوں کے مقابلے میں یہ ہتھیار محض نمائشی حیثیت رکھتاہے ۔عنان جس قلعے میں موجود ہے ،وہ ہفتوں پر محیط احتجاج کے دوران تعمیر کیا گیاہے ،یہ ٹائروں اوردیگر قسم کے مواد سے تعمیرکی جانے والی ضخیم وبلند دیوار ہے ،اس کے اندر وافر پٹرول موجود ہے ،جو یہ ارادہ باندھے ہوئے ہیں کہ اگر کسی بھی وقت فوج ان پر اچانک ٹوٹ پڑتی ہے تووہ اس پٹرول سے اس شہر احتجاج کو آگ لگا دیں گے لیکن کسی طور ان کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے ‘‘۔ ’’ہمیں پتہ ہے کہ ہمیں موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے ،ہمیں پتہ ہے کہ موت ہمارا مقدرہے لیکن ہم پھر بھی اپنے قدموں اپنے جذبوں پر قائم ودائم ہیں ‘‘۔ ’’لیکن موت کاخوف تو ریڈ شرٹ والوں کے بسائے ہوئے اس شہر احتجاج کے جنوب میں واقع شاہراہ، راما آئی وی ،پر مورچہ بندہوئے فوجیوں کے چہروں سے بھی چھلک رہاہے ۔لاؤڈ سپیکروں پر احتجاجیوں سے اپیلیں کی جارہی ہیں کہ امن کا راستہ اختیار کیا جائے؛ہم عوام کی فوج ہیں؛ہم صرف قوم کیلئے اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں ؛بہنو اور بھائیو!آئیے مل بیٹھ کر بات کرتے ہیں ؛ممکن ہے کہ کوئی رستہ نکل آئے‘‘۔ اس ساری صورتحال کو ذہن میں رکھ کر سوچیں اور دیکھیں تو ہم پر یہ راز کھلتا چلاجاتاہے کہ ان عام مردوزن کا ولولہ ، ان کا جذبہ کتنا مثالی کتنا قابلِ تحسین ہے ۔یہ کون لوگ ہیں ؟ کسانوں کے نوجوان بچے،دکانوں پر دہاڑی پر کام کرنے والے ،ترکھان،راج ،دہاڑی دار مزدور اور کام کرنے والی عام اور معمولی عورتیں ۔اور یہ سب کاندھے سے کاندھا ملا کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گولیوں اور اسلحے سے بھرے ٹرکوں اور بکتربندگاڑیوں کے سامنے سینہ سپرہوکرکھڑے اور ڈٹے ہوئے ہیں ۔اور یہ ان سبھی تشکیک زدگان ،بزدل اورغداردانشوروں اور سیاستدانوں کی اس بودی دلیل کا منہ توڑ جواب ہے جو کہ یہ سمجھتے اور کہتے نہیں تھکتے کہ محنت کش طبقہ تو سماج کو بدلنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا ۔ تمام تر مہلک اور سفاک خطرات کی موجودگی میں ریڈشرٹوں والے جس طرح ثابت قدمی سے ڈٹے اور جمے ہوئے ہیں اور جس طرح سے وہ سامنے کھڑی ہوئی غراتی ہوئی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ یہاں لندن میں مقیم ایک تھائی تارک الوطن نے ایک انٹرنیٹ رپورٹ میں لکھا ہے کہ بنکاک کی میٹرو پولیٹن الیکٹرسٹی ورکرزیونین کا ڈپٹی چیرمین اپنے ساتھ کئی ورکروں کو لے کر ریڈشرٹوں والوں کے ساتھ آملا ہے تاکہ ان کے احتجاج میں شامل ہوسکے ۔اس موقع پر ریڈشرٹوں کے لیڈر نے اعلان کیا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ ہم سب سپارٹیکس بنتے جارہے ہیں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ قیادت کی کمزوری ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چاردن تک ہونے والی لڑائی کے دوران ستاسٹھ ہلاکتیں ہوئیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے ۔اس دوران فوج نے مطالبہ کیا کہ عورتیں اور بچے وہاں سے نکل جائیں لیکن کل ہی چندایک معمرخواتین اور کچھ بچوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو جو وہاں موجودتھے ،نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا۔ احتجاج کرنے والوں نے اعلان کیا کہ وہ آخری دم تک لڑیں گیا۔ راجپرسونگ پرموجود سبھی احتجاجی ایک ہی گیت گارہے ہیں ’’یہ ایک طبقاتی جنگ ہے اوریہ اشرافیہ کو ختم کرنے تک جاری رہے گی‘‘۔ بدقسمتی سے قیادت میں نہ تو یہ شکتی ہے نہ ہی ایسی استقامت۔ سرخ شرٹ والوں کی قیادت میں سے چند ایک نے کہا کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے تیارہیں۔لیکن اگر فوج واپس چلی جائے اور اقوام متحدہ بیچ بچاؤ کیلئے بیچ میں آتی ہے تو۔’’ہم اقوام متحدہ کے علاوہ کسی پر بھی اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔تھائی لینڈ میں ایسا کوئی گروپ نہیں ہے جو غیر جانبدار ہو‘‘۔یہ بیان احتجاج کرنے والوں کے ایک مرکزی لیڈر نتاوت سائکوانے دیاہے اور یہ ایک انتہائی نامناسب بیان تھا ۔ تھائی لینڈ کی صورتحال یقینی طور پر قانونی اور پارلیمانی حدودوقیود سے کہیں باہر نکل چکی ہے ۔اور جو کہ صرف اسی صورت میں فیصلہ کن اثرات اور نتائج کی حامل ہو سکتی ہے کہ اگر تھائی سماج کی فیصلہ کن اکثریت اپنی اہمیت کا واضح ادراک کرلیتی ہے ۔لیکن آخری تجزیے میں ،سبھی بنیادی سوالات کا جواب پارلیمنٹ سے باہرہوگا ؛یعنی سڑکوں پر ،گلیوں محلوں میں ،کارخانوں ،کھیتوں کھلیانوں میں اور چھاؤنیوں میں ہی ہوگا۔آسٹریلیاکے تجزیہ نگاروں والکر اینڈفیری لی نے لکھا ہے ’’تھائی لینڈ کی مہلک صورتحال یہ واضح کر رہی ہے کہ الیکشن کا عمل بے معنی اور بے وقعت ہوچکاہے۔اعتمادکا یہ زوال سخت گیر عناصر کو متشدد کاروائیوں پر اکسارہاہے ۔یہ تشدد جس جانب سے بھی ہو قابل افسوس اور قابل مذمت ہے لیکن یہ بات ان سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ جو ریڈ شرٹوں والوں کی مذمت کرتے نہیں تھک رہے ،کہ ان کی طرف سے اشتعال انگیزی اس وقت سامنے آئی جب ان کے الیکشن کے مطالبے کو مسلسل نظرانداز کیا جاتارہاہے‘‘۔حکومت نے مظاہرین کی جانب سے اقوام متحدہ کی مداخلت کے مطالبے کو بھی حقارت سے نظرانداز کیا ہے اور کہا جارہاہے کہ اگر یہ لوگ واقعی مذاکرات کیلئے مخلص اور سنجیدہ ہیں تو یہ کسی بھی قسم کی شرائط نہ رکھیں ،جیسا کہ یہ مطالبہ کیا جارہاہے کہ فوج کو ہٹالیا جائے ۔یہ بات وزیر اعظم کے سیکرٹری جنرل کورباک سبھاواسو نے کہی ہے ۔تھائی لینڈ میں مذاکرات کی کوئی حقیقی کیفیت موجود نہیں تھی ۔قوت اور خواہش کی آزمائش کی اس گھڑی میں ،ہردوجانب سے اپنے اپنے مقاصد کیلئے ایک تصادم کی کیفیت موجودہے۔حکومت اپنی جگہ اس عزم پر ڈٹی ہوئی ہے کہ وہ بہرصورت مظاہرین کو ہٹاکر دم لے گی جبکہ مظاہرین اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے اور اپنے مؤقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ ابھیشت یہ کہہ چکاہے کہ حکومت مظاہرین کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی اور فوج مظاہرین کو کچل کے رکھ دے گی ۔تھائی وزیر خارجہ کاست پرومیا نے غیر ملکی سفیروں پر الزام عائدکیاہے کہ وہ ریڈ شرٹ والوں سے رابطے کر رہے ہیں۔یہ ’’دہشت گردوں‘‘کی کھلم کھلا حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔اور یہی تھائی حکمران طبقے کا حقیقی نقطہ نظر ہے جو وہ بیان کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو حکمران طبقہ بلنداور بیان کرتا آرہاہے اور جو کہ اپنے طبقاتی مفادکے دفاع کیلئے آخری حدوں تک جانے کیلئے تیار بیٹھاہے ۔ لیکن سوال پھر یہ سامنے آتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی قیادت کیا کر رہی ہے اور کیا کہہ رہی ہے ؟شروع دن سے ہی کہ جب احتجاج کا آغاز کیا گیا ،یہ قیادت حکومت سے مذاکرات کا مطالبہ کیے چلی آرہی ہے ،اور جسے ہر بار حکومت حقارت سے ٹھکراتی چلی آرہی ہے ۔حکومت اور حکمران طبقات اچھی طرح سے اس بات کو سمجھ رہے ہیں جو کہ احتجاج کرنے والوں کی قیادت کو سمجھ نہیں آرہی ہے ۔یہ تحریک حکمران طبقات کی حکمرانی کو ایک سنجیدہ خطرے کا اعلان کرتی محسوس ہورہی ہے اور اس خطرے سے صرف طاقت کے استعمال سے ہی نمٹاجاسکتا ہے۔تحریک کے کارکن اور شرکا اس لڑائی کو بھی لڑنے کیلئے تیار ہیں لیکن یو ڈی ڈی کی قیادت نے سٹیج پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردیا کہ وہ پولیس کے سامنے شکست تسلیم کرنے جارہے ہیں اور یہ کہ ان سے اب مزیدلاشیں نہیں دیکھی جا تیں ۔اس بزدلانہ کمزوری نے فوج کو یہ سمجھنے میں آسانی فراہم کردی کہ وہ اب حملہ کر سکتی ہے اور یہ بھی کہ اسے اب اتنی مزاحمت کا سامنا نہیں کرناہوگا۔ اس کیفیت کے عوام کی تحریک پر بہت بھیانک اثرات مرتب ہوں گے اب تک قیادت لوگوں سے آخری دم تک لڑتے رہنے کا کہتی چلی آرہی تھی اور اب وہی کہہ رہی ہے کہ سرنڈر کیا جائے ۔بنکاک سے آنے والی رپورٹوں میں یہ بتایا جارہاہے کہ احتجاج کرنے والے اپنی قیادت کی اس پوزیشن سے سخت نالاں ہیں اور یہ کسی طور حیران کن نہیں ہے ۔طبقاتی جدوجہد کی ساری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اگر آپ نے ہارنا ہی ہے تو پھر گھٹنے ٹیک کرنہیں ہاراجائے گا بلکہ پوری طرح لڑ کر ہی ہاراجائے گا۔ٹوٹ کر مرنے سے لڑ کرمرنا زیادہ پرشکوہ ہوتاہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ جمہوریت کیلئے جدوجہد ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ حقیقی جمہوریت کاحصول اشرافیہ کو اکھاڑپھینکے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔لیکن پھر اشرافیہ کو اکھاڑنا تھائی بادشاہت کو اکھاڑے بغیر ناممکن ہے ۔بادشاہ سلامت بھومیبولادل یادیج ، خیر سے باسی سال کا ہوچکا ہے اور اس کے قویٰ جواب دے چکے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ سبھی ردانقلابی قوتوں کا مرکز و محور بناہواہے۔ عالمی مارکسی رحجان IMTتھائی لینڈ کی جراتمند عوامی انقلابی تحریک کے ساتھ اپنی بھرپور یکجہتی کا اعلان کرتی ہے اور ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ہم ان کے اس مطالبے کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ ابھیشت حکومت کو فی الفور استعفیٰ دے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طورپر آزادانہ اور جمہوری الیکشن کرائے جائیں ۔ہم سبھی جمہوری حقوق کا دفاع کرنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں ؛اور سب سے بڑھ کر ہم اس کی مکمل تائیدوحمایت کرتے ہیں کہ عوام کو منظم ہونے ،احتجاج کرنے اور ہڑتال کرنے کا مکمل حق ہے،اور ان سبھی حقوق کی ضمانت کیلئے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک ایسی آئین ساز اسمبلی منتخب کی جائے جو کہ ایک سچا جمہوری آئین مرتب کرے اور جس کا سب سے پہلا فریضہ بادشاہت کا خاتمہ ہوناچاہیے۔ یہ کہا جاتاہے کہ تھائی بادشاہت ایک مستحکم ادارہ ہے ، جسے وہاں کے مذہب کی مکمل پشت پناہی اور ایک انتہائی قدیم روایت کی آشیرباد حاصل ہے ۔لیکن پھر اسی قسم کی تاریخی سند تو روس میں زار شاہی کے رومانوف کے بارے میں بھی پیش کی جاتی تھی ۔لیکن اس تاریخی تقدس کونو جنوری 1905ء کے دن ہونے والے خونی تصادم نے یکسر روسی عوام کے ذہنوں سے ختم کرکے رکھ دیاتھا۔بنکاک کی سڑکوں پر ہونے والے خونی واقعات کا جو بھی فوری نتیجہ نکلے ،لیکن اس کے اثرات کچھ اسی قسم کے مرتب ہوں گے۔امیروں کی حکمرانی کے خلاف عوامی نفرت ہر قسم کی مراعات یافتگی کو اپنی لپیٹ میں لے گی ،ان میں بادشاہت بھی شامل ہے ۔ایک جمہوریہ کا مطالبہ دن بدن تقویت پکڑے گااور عوام اس کے گرد جمع ہوتے چلے جائیں گے ۔عوام کا آگے بڑھنے والاہر ایک قدم ان پریہ واضح کرتا چلا جائے گاکہ مزدوروں اور غریب کسانوں کی حکومت ہی مسائل کے خاتمے کاواحد راستہ ہے۔ ہر ایک ملک کی طرح تھائی لینڈ میں بھی بادشاہت کا بظاہر رنگین نظر آنے والا ادارہ سیاحوں کیلئے تو کوئی معنی رکھتاہوگا لیکن یہ ایک بے معنی انارکزم کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔یہ رجعتیت کا محور،جائیداد،نجی ملکیت ،دولت اور شان و شوکت کا نمائندہ اور سبھی ردِانقلابی قوتوں کا مرکزہے۔اور اس مرکز کا خاتمہ انقلاب کی پیش قدمی کی جانب کا لازمی تقاضا ہے۔جس وقت ہم یہ مضمون تحریر کررہے ہیں ،بنکاک میں چل رہی تحریک کا مقدر طے ہو چکاہے ۔تحریک کی قیادت کی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں ا سے شکست کا سامنا ہے ۔لیکن پھر طبقاتی جدوجہد کا یہ دھماکہ اپنے گہرے اثرات مرتب کرے گا ۔تھائی لینڈ اب پہلے والا تھائی لینڈ نہیں رہے گا۔نہ ہی رہ سکے گا۔اس پر انتشار کیفیت میں سے جو بھی جیسی حکومت بھی سامنے آتی ہے وہ اپنی ہئیت اور کیفیت میں انتہائی کمزور اور غیر مستحکم ہو گی ۔موجودہ کیفیت میں رہتے ہوئے کوئی پائیدار حل ممکن ہی نہیں ۔نئی شورشیں اور سرکشیاں ناگزیر طورپر سامنے آئیں گی ۔جمہوریت کیلئے شروع ہونے والی جدوجہد ایک طبقاتی مزاج سے روشناس اور لبالب ہوچکی ہے۔یہ یقینی طورپر اپنی قیادت کی طرف سے طے کردہ حدودوقیودسے باہر نکلے گی۔تھائی محنت کشوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ ایڈوانس جمہوری مطالبات کیلئے لڑے ۔قدیم جاگیردارانہ بیہودہ باقیات کا خاتمہ اور صفایاکرنے سے محنت کش طبقاتی جدوجہد کو تیز اور مہمیز کر سکیں گے۔لیکن پھر محنت کش ، جمہوریت کیلئے جدوجہد کو اپنے ہی نعروں اور مطالبات کے ساتھ لڑیں گے اور اس لڑائی کو اپنے طبقاتی شعور کے ہتھیار سے منظم اور لیس کریں گے۔ضروری ہے کہ موجودہ حکمرانی کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے ایک عام ہڑتال کی جائے ۔محنت کشوں کی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے کی جانے والی یہ عام ہڑتال ہی ردِانقلابی قوتوں کو غیر منظم کرنے ،ان کے حوصلے پست کرنے کا باعث بنے گی۔اس کے علاوہ کوئی رستہ نہیں ۔یہی نہیں بلکہ یہ عام ہڑتال عوام کو انقلابی شعور کے ساتھ منظم و متحرک کرنے کا بھی فریضہ سرانجام دے گی۔جمہوریت کے قیام کی کامیابی اوپر سے نیچے تک ایک نئے تھائی سماج کی تعمیروتشکیل کا تقاضاکرے گی۔اور یہ مرحلہ تبھی بخیروخوبی سرانجام پاسکے گا جب محنت کش طبقہ خود کو سماج کی قیادت کیلئے سامنے لائے گا اور جو سماج کو اشرافیہ کے خلاف نفرت کے جذبے کو فتح سے ہمکنار کرائے گا،اور یہ ویسے ہی ہوگا جیسا کہ روس میں انیس سو سترہ میں مزدوروں اور کسانوں نے کر کے دکھادیاتھا۔
Source: Chingaree.com