ایلن وڈزکی خصوصی تحریر - ترجمہ :اسدپتافی
چنگاری ڈاٹ کام،29.09.2010
ہم اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں سانس لے رہے ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت نے معجزات کو انسان کیلئے معمول بناکے رکھ دیا ہے۔آج ایک انسان کو چاند پر بھیجا جاسکتا ہے اور انسان کئی سیٹلائٹ خلاء میں بھیج کر کائنات اور ارض وسماء کی ان دیکھی وسعتوں اور ان کے اسرارورموزکو اپنی مٹھی میں لاسکتے ہیں اور لا رہے ہیں۔لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہی وہ وقت یہی2010ء بھی ہے کہ جس میں لاکھوں کروڑوں انسان انتہائی ابتدائی اور قدیم ترین سطح کے معیارزندگی کی طرف کھنچے چلے جارہے ہیں ، یعنی عہدبربریت میں زندہ رہنے پر مجبورکردیئے گئے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں حالیہ ہولناک سیلاب سے پہلے بھی یہی کیفیت تھی۔اب تو سیلاب کے بعد کروڑوں انسان زندگی کی رمق ڈھونڈنے میں ہی سرگرداں ہوچکے ہیں۔اور زندگی ہے کہ اس کا دامن ان کروڑوں محروم ومقہورانسانوں کے ہاتھوں سے چھوٹتاہی چلا جارہاہے۔
اس وقت کہ جب میں یہ سطور لکھ رہاہوں،لگ بھگ دوکروڑ سے زائد انسان قحط کے ہاتھوں دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جانے والے ہیں یا جا سکتے ہیں۔چاولوں کے کھیت تباہ ہوچکے ہیں ۔غذا کمیاب ہو چکی ہے۔دیہاتوں کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں ۔کم از کم 20 لاکھ گھرتباہ ہوچکے ہیں۔1 کروڑ انسانوں کے جینے مرنے کا دارومدار اب اس خوراک پر ہے جو کہ انہیں مہیا کی جائے گی یا کی جا سکے گی۔ غریب لوگ اپنی جمع پونجیاں ،منہ مانگے داموں پر بیچ کر، اپنے لیے کھاناپینا خریدنے پر مجبورکردیے گئے ہیں۔اور وہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا یا کچھ بھی نہیں بچا،قحط اور بھوک کا عفریت ان کیلئے اپنا منہ کھولے ہوئے ہے۔مائیں اپنے نحیف ونزار بچوں کے ڈھانچے اٹھائے کیمپوں کے باہر ہراساں وپریشاں ماری ماری پھرتی نظر آرہی ہیں۔خوراک اور غذاکی محرومی نے ان کے سینے خشک کرڈالے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے قابل نہیں رہیں۔ممتا سے محروم ان بچوں کی اکثریت ملیریا اور اسہال سمیت کئی دوسری جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں اور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ اپنے گھربار اور مال ومتاع لٹواکر،اپنی بستیوں اور قصبوں سے کوسوں دور جاکرہجرت کرنے والے لاکھوں خانماں برباد انسانوں کوکیمپوں اورخیمہ بستیوں میں پناہ لینی پڑی۔ان میں سے کئی لوگوں کو تو کسی بھی خیمہ بستی یا کیمپوں میں سرچھپانے اور پیٹ کا جہنم بھرنے کابھی یارانہیں ہوا۔اس خدشے کا اظہار کیا جارہاہے کہ کم وبیش ایک لاکھ بچے ،آنے والے چھ مہینوں کے دوران موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔اور اسی پر بس کیوں!ہیضے کا موذی مرض بھی اپنی وبائی قہرسامانی سمیت ان برباد ہوچکے انسانوں کی بڑی تعدادکو نگلنے کیلئے ایک سفاک خطرے کے طورپر منڈلارہاہے۔اور پاکستان جیسا ملک اس پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ وہ کسی مہلک وباء کا مقابلہ یاسامنا بھی کرسکے۔اس سیلاب نے کئی ہسپتالوں اور کلینکوں کو بھی تہس نہس کرڈالاہے۔
ان حالات میں فطرت کو بے رحم قرار دینا ،اور یہاں تک بھی کہ اسے قہر خداواندی قراردینا (اور تو اور ، سرکاری اعدادوشمار اورتجزیوں میں بھی ،اور انشورنس رپورٹوں میں بھی انہی دلائل سے استفادہ کیاجاتاہے)۔تاہم ،اس کے باوجود بھی کہ تباہیاں ا وربربادیاں، فطری عوامل کا ہی کارنامہ کیوں نہ ہو، سبھی حکومتوں،پارٹیوں اور ان کی پالیسیوں اور منصوبوں کیلئے امتحان ہواکرتی ہیں اور یہ تباہیاں وبربادیاں ان سب کی اندرونی کمزوریوں اوربانجھ پن کو سب کے سامنے عیاں کر دیا کرتی ہیں۔
سیلابی پانی کی آمد اور اس کی حشرسامانی کا الزام فطرت پر،ماحولیاتی آلودگی یا پھر قہرخداوند کے سرہی کیوں نہ تھوپا جائے،یا اورکوئی تاویل بھی کیوں نہ پیش کی جائے لیکن اب جبکہ پانی اترتا جارہاہے، اب المیے اور محرومیاں ہر طرف اپنے گل کھلارہے ہیں اور زندہ انسانوں کا تمسخر اڑارہے ہیں۔ اب یہ فطرت ،خداوندیا ماحول سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آنے والے دنوں میں اس قسم کی تباہکاری سے اجتناب کریں اور عوام الناس کی بدحالی پر ترس کھائیں۔ اور نہ ہی کسی مستقبل میں ہونے والے کسی عالمی منصوبے اور معاہدے سے فوری توقع کی جاسکتی ہے جو ماحول کو آلودگی سے بچائے گا۔اس وقت انسانوں کو درپیش ضرورتوں کا نہ تو بادلوں سے کوئی سروکارہے نہ ہی کسی مستقبل زدہ خوش گمانی سے۔یہ ضرورتیں ابھی ،اسی وقت اور اسی زمین پر تقاضاکررہی ہیں۔
یہ سبھی انسان کیا چاہتے اور مانگتے ہیں؟ان کا تقاضااور مطالبہ کوئی اورنہیں بس ایک ہی ہے؛سب سے بنیادی انسانی حق ؛یعنی زندہ رہنے کا حق۔انہیں اپنے زندہ رہنے کیلئے سب سے بنیادی ضرورتوں کی ضرورت ہے اور بس۔بلاشبہ سیلاب سے پہلے بھی ان انسانوں کی حالت اور ان کے حالات بدتر ہی تھے۔اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ انسانوں کو درپیش مسائل کی وجہ کسی طور یہ سیلاب نہیں تھا اور نہ ہے بلکہ واحد حقیقت یہ ہے کہ اس کا ذمہ داراور قصوروار سماج کو چلانے والاوہ نظام ہے جو انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کوہی پوراکرسکنے کی اہلیت اور ارادے سے مکمل طورپر قاصر ہے۔اور جو نظام بھی انسانوں کی انتہائی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکنے سے انکاری اور قاصرہوجاتاہے،تاریخ اس نظام کو اکھاڑ کر ماضی کے کوڑے دان میں پھینک دیاکرتی ہے۔
حکمران طبقات کی بوکھلاہٹیں
1947ء کے بعد سے پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے بدترین بحران کی زد میں آچکاہے۔سرمائے کے انتہائی سنجیدہ ماہرین اس صورتحال کی نزاکت اور حساسیت سے باخبر بھی ہیں اور اس سے سہمے ہوئے بھی ہیں ۔ان کے نزدیک پاکستان محض ایک ملک نہیں ہے۔یہ،عالمی سامراج کے مالی و عسکری مفادات کے حوالے سے غیر معمولی ’’قدروقیمت‘‘کا حامل ہے۔ اس کی سرحدیں بھارت ،ایران ،افغانستان اور چین سے ملتی ہیں۔افغان جنگ جیسے معاملے کے حوالے سے تو پاکستان واشنگٹن کیلئے اور بھی غیرمعمولی حیثیت رکھتاہے۔
بلاشبہ اسلام آباد میں قائم زرداری حکومت ایک سو فیصد بھی امریکیوں کیلئے وارے نہیں کھاتی مگر یہ حکومت جس انداز اور شان سے امریکہ کی نیازمندی،فرض شناسی اور وفاداری کے فرائض جس خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے ،وہی اس کے قائم ہونے کی سب سے بڑی وجہ بھی بنی ہوئی ہے۔چنانچہ امریکی سامراج ممکنہ کوشش کرے گا کہ وہ اس کمزور اور نامقبو ل زرداری حکومت کو اپنے مقاصداور مفادات کیلئے قائم ودائم رکھ سکے۔امریکہ بہادر اس قدیم محاورے پر عملدرآمدکرنے میں مگن ہے کہ’’جس شیطان کو آپ جانتے ہیں ،وہ اس شیطان سے بہترہوتاہے جسے آپ نہیں جانتے ‘‘۔تاہم اسلام آباد یا واشنگٹن کے اندر کسی ایرکنڈیشنڈکمرے میں بیٹھ کر طوفانوں اور آفتوں کی تباہکاریوں کے اندازے اور تخمینے لگانا اور چیزہوتی ہے لیکن کسی کیمپ یا خیمے میں اپنا سب کچھ لٹاکر اور گنواکر کسی انسان کے ذہن سے تجزیہ اور اندازہ لگانا قطعی طورپر ایک دوسری بات ہوتی ہے۔ پشاورکے ایک کیمپ کے اندر موجودچالیس سالہ سعیدخان، جوکہ کاشتکارتھا اور جس کاسب کچھ سیلاب بہاکرلے گیا،نے کہا کہ’’ایک کیمپ میں زندگی گزارنے سے ایسا لگتاہے کہ ہم زمانہ قدیم کی طرف لوٹ کرجانے اورجینے لگے ہیں۔ہم ایک ایسی زندگی جی رہے ہیں جس میں زندگی نام کی کوئی چیز موجودنہیں ‘‘۔
اپنی یکم ستمبر کی حالیہ اشاعت میں معروف جریدے ’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے پورے صفحے کا ایک مضمون شائع کیاہے جس میں پاکستان میں سیلاب کی تباہیوں اور اس کے مستقبل میں معاشی مضمرات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔یہ مضمون صورتحال کا بالکل درست تجزیہ بیان کرتاہے۔’’ایک تشویشناک صورتحال میں گھراہواپاکستان‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والے اس آرٹیکل کو جیمزلیمنٹ اور فرحان بخاری نے لکھاہے ۔یہ کچھ اس طرح شروع ہوتاہے ’’مظفرگڑھ سے کچھ ہی دور ،سیلابی پانی میں گھرے باغ میں،آم کے ایک درخت کے نیچے بیٹھاہوا حاجی نیک سائیں اپنے نقصان کا حساب کتاب لگارہاہے اوراس کا حال احوال دیتاہے۔صرف ایک مہینے پہلے،وہ سات ایکڑپر کاشتہ کپاس کی فصل کا مالک تھا ،میں بہت خوش وخرم زندگی گزار رہا تھا اور میں نے اس باراپنی بیٹی کی دھوم دھام سے شادی کرنے کا سوچا رہا تھا۔دوسروں کی طرح میں بھی پراعتمادتھا کہ اس بار بھی فصل شاندارہوگی۔میں نے تہیہ کیاہواتھا کہ اب کی بار میں اپنی بیٹی کیلئے زیورات خریدوں گا! مگر پھر سیلاب آگیا اور سب کچھ بہہ گیا‘‘۔اپنے جیسے دوسرے پرامید کاشتکاروں اور دکانداروں کی طرح حاجی نیک نے بھی اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا سب کچھ بہتے اور ڈوبتے ہوئے دیکھا۔1920ء کے بعد سے یہ سب سے بدترین سیلاب تھا جو ایک تہائی پاکستان کو ڈبولے گیاہے‘‘۔
تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق سیلابی پانی نے اترنا شروع کردیاہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مصیبت اور خطرہ ٹل گیا ہے ۔بے بسی ،بھوک کے عفریت کے چنگل میں آچکے بے چارگان کیلئے تو ابھی ابتداء ہوئی ہے۔عالمی امداددینے والوں نے 800ملین ڈالرز کی مدد فراہم کردی ہے۔لیکن امداد دینے والی ایجنسیوں نے یہ انتباہ کیا ہے کہ جتنا نقصان ہوچکاہے اس کا مداوا لاکھوں نہیں بلکہ اربوں ڈالروں میں ہی ممکن ہوسکے گا۔ یہ محض سیلابی پانی ہی نہیں جوکہ اترنا شروع ہو چکا ہے بلکہ پاکستان پر امریکہ کے اعتمادکی شرح بھی گرنا شروع ہو چکی ہے۔واشنگٹن نے یہ امیدباندھ رکھی تھی کہ پاکستان، دہشت گردی کے خلاف ،اس کی جنگ میں اس کا آسان ’’بیس کیمپ‘‘ ثابت ہوگا۔خاص طور پر جب امریکہ اور اس کے ناٹو اتحادیوں نے افغانستان سے اپنے انخلاء کا اراداہ باندھا،جوکہ جلد یا بدیر انہیں لازمی کرنا ہوگا۔لیکن اب پاکستان بارے امریکہ اور اتحادیوں کا سارا اعتماد اور ہر امید ،مایوسی اور بے یقینی میں بدلنا شروع ہو چکے ہیں۔فنانشل ٹائمز اس حوالے سے لکھتاہے کہ’’واشنگٹن میں موجود ایک مغربی سفارتکار نے قراردیاہے کہ پاکستان کا حالیہ منظرنامہ انتہائی خطرناک صورتحال کا حامل ہوچکاہے۔آپ بآسانی پاکستان کے اردگرد کے ملکوں جیسا کہ افغانستان،پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔پاکستان میں عدم استحکام کی موجودگی میں آپ اردگرد کے ملکوں میں استحکام کو بھول ہی جائیں‘‘۔
ان دنوں یہ بات عام ہوتی جارہی ہے کہ سرمائے کے حکمت سازوں کے تجزیات بھی ویسے ہی نتائج کی نشاندہی کر رہے ہیں جوکہ مارکس وادی بیان کرتے ہیں اور کرتے چلے آرہے ہیں۔ہاں البتہ یہ اتفاق کسی طور بھی مارکسی طبقاتی نقطہ نظر سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ اپنے ہی مفادات کی نمائندگی اور نشاندہی کیلئے ہوتاہے۔معاشی بہتری کیلئے سوچی گئی سبھی امیدیں اب مایوسیوں میں بدلنے لگی ہیں ۔پچھلے پانچ سالوں میں لگاتار سامنے آنے والے معاشی ،سیاسی اور قدرتی آفات کے بحرانوں نے پاکستان کی معیشت ، اس کے سماج،سیاسی زندگی اور ریاست کو ایک مہلک نقاہت سے دوچار کر دیاہے۔ فنانشل ٹائمز کا مذکورہ بالا مضمون کہتاہے کہ’’سیلاب نے 17ملین سے زیادہ انسانوں کو متاثر کیاہے۔سولہ سو سے زائد انسان ہلاک ہوئے ۔اس کے علاوہ زرعی شعبے کی کمرٹوٹ چکی ہے جو کہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے ۔پہلے سے نحیف ونزار انفراسٹرکچر بھی اس سیلاب نے تہہ وبالا کرکے رکھ دیاہے۔ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک کی حکومت کیلئے سماج کو سدھارنے اور معاملات میں بہتری لانے کیلئے درکارحالات مہینوں نہیں بلکہ سالوں پیچھے دھکیلے جا چکے ہیں ‘‘۔’’لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک متوازن کیفیت کے تانے بانے ادھڑ چکے ہیں۔پچھلے تین سالوں کے دوران یہاں کی حکومت اور طاقتور فوج نے باہمی اتصال کو قائم رکھنے کی جدوجہد شروع کی ہوئی تھی،پاکستان کے اندر اور باہر معاملات موزوں جا رہے تھے مگر اب کچھ بھی موزوں اور متوازن نہیں رہا‘‘۔ چہ جائیکہ پاکستان ایک اثرانگیزاستحکام کی طرف پیش قدمی کرتا،اب یہ ایک ایسی عدم استحکامیت کی زد میں آچکاہے کہ جو اپنی ہئیت میں اتنا مکمل ہے کہ اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے سماجی انتشاراس قدر شدیداور اثرانگیز ہیں کہ ایک سماجی انقلاب وقت کا سب سے بڑا تقاضابن کر سامنے آ گیا ہے۔ ’’موڈیز ریٹنگ ایجنسی کے وائس پریذیڈنٹ آنند امترا کے مطابق سیلاب نے بڑے پیمانے پر سپلائی سائیڈ کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے۔اس نے پاکستان کی شرح ترقی کی طرف گامزن کی صلاحیت کوکند کرڈالاہے۔زرعی شعبے کی بربادی نے معاشی بحالی کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ بینکاری کے شعبے کے ساتھ ساتھ، ملک میں کام کرنے والی بڑی کمپنیاں بھی آنے والے مہینوں میں انتہائی دباؤ کی زد میں آجائیں گی۔ اور ابھی تو بدترین نے سامنے آناہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندہ رہنے والوں کی تعداد جو پہلے کل آبادی کا33%تھی ،اب اس کی شرح بڑھ کر40%ہوچکی ہے۔سکھر شہر کے سابق میئراسلام الدین شیخ جو کہ اس وقت پاکستان کی حکمران سیکولرجماعت پی پی پی کا سینیٹربھی ہے ،کے بقول ،خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر ان زبوں حال لوگوں کی فوری واپسی اور بحالی کا کوئی بندوبست نہ کیاگیاتو شہروں کے اندر ان کی لمبے عرصے تک موجودگی بہت بڑے تناؤ اور مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ ہمارے شہر کی آبادی جو کہ پہلے آٹھ لاکھ تھی ،اس وقت اس میں ایک تہائی اضافہ ہوچکاہے اوریہ کیفیت زیادہ عرصہ چلی تواس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا‘‘۔ ’’حفیظ پاشا،سابق کامرس منسٹرہے اور لاہور میں قائم ایک پبلک پالیسی کے ادارے سے وابستہ ہے ،دوسرے ماہرین معیشت کی طرح سے اس نے بھی پیشین گوئی کی ہے کہ آنے والے مہینوں میں معاشی اعشاریے واضح طور پر نیچے کی جانب گامزن رہیں گے۔ اور جس کا نتیجہ پاکستان کیلئے بھیانک ہوگا‘‘۔حفیظ پاشا کی طرف سے دیے جانے والے معاشی انہدام بارے اعداد وشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے فنانشل ٹائمز لکھتاہے ’’اس وقت شرح ترقی جو کہ4فیصدکے لگ بھگ ہے ، وہ صفر تک جا سکتی ہے اور آنے والے سال میں یہ اس سے بھی نیچے چلی جائے گی۔غذائی اشیاء کی کمی کی کیفیت میں افراط زر میں شدیداضافہ ہو سکتاہے جو کہ اس وقت9.5فیصدہے اوریہ بڑھ کر18فیصد سے20 فیصد تک پہنچ سکتاہے۔ مالیاتی خسارہ جو کہ اس وقت جی ڈی پی کا4فیصدہے،پبلک اخراجات میں اضافے کے ساتھ8فیصدتک جاسکتاہے ۔زراعت اور ٹیکسٹائل کی بھاری پیداوار کی حامل ملکی معیشت،پچھلی دو دہائیوں سے زبوں حالی کی حالت میں ہے۔لبرلائزیشن کے باوجود کہ جس کی وجہ سے معیشت کا یہ حاوی شعبہ کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکا،قریبی پڑوسی ملک انڈیا نے1947ء سے1990ء کے دوران اپنی شرح ترقی کو اوسطاً5.5فیصدپر برقرار رکھا جبکہ پاکستان اس حوالے سے بری طرح پیچھے رہ چکاہے‘‘۔ لیکن پھر اس قسم کے سروے ،تجزیے اور اعدادو شمار مرتب کرنااور ان کے گرد معاشی کیفیت کو بیان کرنا ہی کافی نہیں ہواکرتا۔اگرہم کسی تکلیف کے باعث کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور وہ ہمیں ایک فہرست بیان کرنا شروع کر دے کہ آپ کو یہ بیماری ہے ،آپ کو فلاں تکلیف ہے،آپ میں یہ علامات بھی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ اور یہ بھی کہ اوہوآپ تو کافی بیمار ہیں ۔ایسے میں آپ پرکیا گزرے گی۔کیونکہ جو چیز آپ کو درکار تھی وہ ایک دوائی کا نسخہ تھا کہ جس کی مدد سے آپ کی جملہ تکالیف کا علاج ہو سکے۔ چنانچہ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اس قسم کی معاشی بدحالی کیفیت میں کیا کیا ممکنہ تناظر بنتے اور سامنے آتے ہیں۔اور یہ بھی کہ کیا کیا کیا جاسکتاہے یا کیا جاناضروری ہے؟
حکمرانی کو درپیش بحران
جنگوں کی طرح سے زلزلے ،سیلاب اور قحط سارے سماج اور اس پر مسلط ریاست کو ایک امتحان میں ڈال دیاکرتے ہیں ۔آخری تجزیے میں کسی بھی زندہ سماج کے وجود کا سب سے بڑا اظہار اس صلاحیت اور اہلیت سے ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے اندر موجود انسانوں کو زندہ رہنے کیلئے درکار، انتہائی بنیادی ضروریات فراہم کر سکتاہے کہ نہیں۔ اس حقیقت کا واضح اظہار پاکستان کے مزدوروں اور کسانوں کے ایک پرانے نعرے کی شکل میں کیا گیاہے‘روٹی کپڑا اور مکان؛مانگ رہا ہے ہر انسان۔ 1891/92ء میں جب سارے روس کو ایک سیلاب نے تباہ وبرباد کرڈالاتھا ،تب مارکسی استاد پلیخانوف نے ’’روس کی مکمل تباہی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھاتھا۔جس میں زار روس کی بادشاہت کے اس بانجھ پن کو سامنے لایا گیاجو اپنے ملک کے لاکھوں انسانوں کو ،جو بھوک اور قحط کی زد میں آئے ہوئے تھے اور زار شاہی ان کی مدد اور بحالی کا کوئی مداوانہیں کر رہی تھی۔بحران نے سماج کے سبھی طبقات کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔اس کے نتیجے میں نوجوان انقلابیوں کی ایک ایسی نسل پیداہوئی جو مکمل طورپر ریڈیکلائز ہوچکی تھی اور اسی نسل نے ہی روس کے پہلے 1905/06ء کے انقلاب کو ممکن کرنے کی جدوجہداور کاوش کی تھی۔پاکستان کا موجودہ بحران بھی اسی قسم کے اثرات مرتب اور متحرک کرسکتاہے۔
سیلاب کے ایک مہینے کے بعد،ہر قسم کی گفتگواور بحث مباحثے چینلوں اور اخبارات کی زینت بنے ہوئے ہیں لیکن کہیں بھی کروڑوں بھوکے ننگے بیمار بے گھر اور بے یارومدگار انسانوں کیلئے نہ تو روٹی ہے نہ کپڑا نہ ہی مکان ۔اور اب تو پاکستان کو ایک اور سیلاب کا سامنا ہے اور یہ سیلاب مگرمچھوں کے آنسوؤں کاپیداکردہ ہے جوسیاستدانوں اوراین جی اوزکی طرف سے بہائے جارہے ہیں۔ وائے قسمت!کاش کہ کھوکھلی ہمدردیوں سے بھوکے انسانوں کے پیٹ بھرسکتے ہوتے!کاش ایسا ہوسکتا تو پاکستان میں آج کوئی ایک انسان بھی بھوکا ننگا اور محتاج نہیں ہوتا۔اور پاکستان ہی کیوں دنیا بھر سے ہی بھوک ننگ افلاس محرومی اور بیروزگاری سمیت سبھی المیے کب کے ختم ہوچکے ہوتے۔مگر کاش!
پاکستان کے اندر اس وقت صرف معیشت اور حکومت کاہی بحران موجود نہیں بلکہ بحران پا کستان میں حکمرانی کرنے کی بنیادوں کوہی اپنی لپیٹ میں لے چکاہے۔ غم وغصے اور کراہت و حقارت کا احساس ،سماج میں ہر طرف ہر سطح پر اپنا اظہار کرتا نظر�آتاہے۔ حکومت اور ریاست کی بالاپرتوں تک میں اس کے اثرات اپنا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انقلابات ہمیشہ اپنا آغاز بالادست طبقات میں سے کیاکرتے ہیں۔اور اس کا اظہار ان میں پڑنے والی دراڑوں اور خرمستیوں سے ہوتا ہے۔ قیادتیں اپنے پاؤں تلے سے زمین کھسکتی محسوس کرنے لگتی ہیں ۔ خوف اور بے یقینی کا ایک ہالہ ان کے دماغوں کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔فنانشل ٹائمز ایک بے تکلفی کے ساتھ پاکستان کے حکمران طبقات کی خوفزدگی بارے لکھتاہے ’’کچھ لوگ ،پہلے سے ہی موجوداعصاب شکن چیلنجوں کی وجہ سے پیدا ہوچکی صورتحال سے ہراساں تھے،خاص طورپر گنجان آباد شہروں میں موجود مڈل کلاس میں انتہاکو پہنچے اضطراب سے۔اسلام آباد میں متعین ایک مغربی سفارتکارنے واضح کہا ہے کہ اسلام آبادی حکمران اس قدرتی آفت کی تباہکاریوں سے پیداہونے والے عواقب و عوامل سے لرزے اور سہمے ہوئے ہیں۔اس قسم کی خوفزدگی پہلے کبھی بھی پاکستان کے حکمران طبقات کے چہروں مہروں سے عیاں نہیں ہوئی تھی‘‘۔
پاکستانی سماج کی ہر پرت میں پنپتی پھولتی چڑچڑاہٹ کا اظہار پاکستان کے مقبول عام کھیل کرکٹ تک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکاہے ۔جس پریہاں کے لوگ اپنی جان نچھاورکرتے نظرآتے ہیں۔یہاں انگلینڈ میں کرکٹ سیریز میں دوایک میچوں کی جیت نے اگرچہ کسی حدتک اپنے دیوانے پرستاروں کے برانگیختہ جذبات کو کم کیالیکن اس نیم کامیابی سے پہلے سامنے آنے والے میچ فکسنگ کے سکینڈل نے تویارلوگوں کی جیسے روحیں قبض کرلی تھیں۔
ایک ایسے ملک کے اندر کہ جہاں انتہائی منظم طریقے سے الیکشنوں میں دھاندلی کی جاتی ہواور جہاں حکومتی اور ریاستی عہدے انتہائی ڈھٹائی اوربے شرمی سے خریدے اور بیچے جاتے ہیں، وہاں اگر کرکٹ کے ذریعے خریدوفروخت کا عمل دولت کمانے کا وسیلہ بنایا جائے تو یہ معمول کی ہی ایک بات ہے چنانچہ اس پر تعجب کیسا؟لیکن سیلاب اور سیلاب سے قبل کے بحرانوں کی زد میں آئے ہوئے سماج اوریہاں تک کہ حکمران طبقات کو بھی میچ فکسنگ کے سکینڈل نے ہلا کر رکھ دیا ۔’’حکمرانوں کا مورال جو پہلے ہی خستہ تھا،اس سکینڈل کی وجہ سے اور بھی شکستہ ہوچکاہے۔انگلینڈ کے دورے پر آئی کرکٹ ٹیم کے اس سکینڈل نے ایک عالمی بدنامی کو ہوا دی ہے اور پاکستان کی اقدارکو سوالیہ نشان بناکے رکھ دیاہے اور اقوام عالم میں اس کی قدرومنزلت کو ختم کرڈالاہے‘‘۔ایک ایسی کیفیت میں کہ جب ایک ساری قوم مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر چکی ہے،ایسے میں قومی عزت کی اکلوتی طمانیت بھی داؤ پر لگا دی گئی ہے۔اور پاکستان کے عام لوگ یہ سمجھنا شروع ہوچکے ہیں کہ یہاں ہر ایک چیز برائے فروخت ہے۔منافعوں میں خیروبرکت کیلئے تاجربھوک سے نڈھال بچوں کے لیے روٹی کا ایک نوالہ بھی منہ مانگے داموں بیچنے پر تلے ہوئے ہیں ،ایسے میں مہان ہیرو کرکٹرز بھی منڈی میں سب سے بہتر قیمت کے حصول کیلئے اپنی مہارت کو بیچنے کیلئے تیار وبیتاب دکھائی دیتے ہیں اور یہی نہیں یہ سب خریدوفروخت، وہ گھٹیا صحافیوں کے ذریعے کرتے ہیں۔یہی کیفیت سیاستدانوں کی ہے جو اپنی تجوریاں بھرنے اور اپنی مراعات میں اضافے کیلئے اپنی قوم کو ہی بیچتے آرہے ہیں ۔کیا اس بیہودہ بدعنوانی کا کوئی انت بھی ہے کہ جس نے سماج میں ہر طرف اپنے پنجے گاڑ دیے ہوئے ہیں اور جس نے انسانوں کی روحوں کو گھائل کردیاہواہے؟
مکمل تبدیلی کی ضرورت
ایک شدت پکڑ چکی بیماری کیلئے ،شدت کا علاج ہی واحد طریقہ اور رستہ ہوتاہے۔لیکن یہاں پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ متعلقہ اتھارٹی ہی اس قدر بیمار ہوچکی ہے کہ جسے خود کو ہی سخت علاج کی ضرورت درپیش ہے۔استحکام اور نظم وضبط پیداکرنے کی سبھی کوششیں پانی کی طرح ہاتھ سے پھسلتی اور نکلتی جارہی ہیں۔بورژوا معاشی ماہر حفیظ پاشا نے اس حوالے سے ایک سخت تنبیہ جاری کی ہے اور کہاہے کہ’’ پاکستان معاشی تباہی کے دہانے پرپہنچ چکاہے۔ اگر صورتحال سے نمٹنے کیلئے ’’ریڈیکل‘‘ اقدامات نہ کیے گئے توامکان ہے کہ2کروڑانسان شہروں پر دھاوابول دیں گے۔فوری طور پر اس بات کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے کہ اس ڈھانچے کو ازسرنو مرتب کیا جائے جس کے ذریعے پاکستان کو چلایا جارہاہے‘‘۔ ہم جناب حفیظ پاشاکے اس مطالبے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔صورتحال اس قدر گھمبیرہوچکی ہے کہ جس کا حل واقعی ایک ریڈیکل تبدیلی کے بغیر ممکن ہی نہیں رہا ۔لیکن یہاں پھر ایک سوال اور مسئلہ سامنے آرہاہے کہ پاکستان میں آخر وہ کون سی ایسی قوت ہے جو اس درکار ریڈیکل تبدیلی کو ممکن بنا سکتی ہے؟یہ سوال ہم سب کے سامنے ہے کہ کیا ہمیں مملکت خداداد کی سبھی سیاسی پارٹیوں اور قیادتوں میں سے کوئی ایک ایسا نظرآتاہے کہ جو اس درکار ریڈیکل تبدیلی کیلئے دل ودماغ رکھتاہو؟
بدقسمتی سے یہ سوال اپنا جواب بھی خود ہی دیتاہے۔ کوئی ایک پارٹی اور کوئی ایک مہان لیڈر بھی اس قسم کی حقیقی تبدیلی کا اراداہ نہیں رکھتا۔اگر کوئی تبدیلی ان کا مطمع نظر یاان کے پیش نظر ہے بھی تو وہ صرف اور صرف ایک ہی تبدیلی ہے وزارت کی تبدیلی‘وزارت عظمی‘ کی تبدیلی اور بس ۔ان سب خواتین و حضرات کا ایک ہی سیاسی تناظر ہے کہ خود کو اقتدار کے ایوانوں میں لایاجائے ۔ان کے سیاسی قواعد اصول وضوابط اور اخلاقیات و معیار ایک ہی نکتے کی حامل ہیں کہ اپنے مخالف کو حکومت سے نکال باہر کیا جائے اور اس یا ان کی جگہ خو دکو لایاجائے۔اللہ اللہ خیر سلا۔ویسے بھی اقتدار کی برکتوں سے زیادہ دیر محرومی ان سب کی طبع ناز ک پر بہت گراں گزرتی ہے۔
سیلاب کے بعدتوزرداری حکومت کے خاتمے کی افواہیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہیں۔ سیلاب کے آغازو عروج کے دنوں میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے غیر ملکی دورے نے تو طعن وتشنیع کے دروازے کھول دیئے ۔ لندن اورپیرس میں وہاں کی قیادتوں سے ملاقاتوں کیلئے کیا جانے والا ،جس کے دوران صدر نے اپنے بچوں کے ہمراہ فرانس میں اپنی املاک کا بھی دورہ اور معائنہ کیا،ان کروڑوں انسانوں کی سراسر توہین تھا جو سرچھپانے کیلئے ایک گوشے اور پیٹ بھرنے کیلئے ایک نوالے کیلئے ترس اور تڑپ رہے تھے ۔ بلاشبہ پیپلز پارٹی کے قائدین اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی توصیف یا تعریف کا سوچابھی جائے لیکن اس کے یہ بھی معنی نہیں نکلتے کہ مسلم لیگ والے ان سے کچھ یا قطعی بہتر ہیں۔ پاکستان کے محنت کش اور کسان اچھی طرح سے اپنی قیادتوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کو دیکھ رہے ہیں اور اپنی ان ذلت بھری محرومیوں اور بے چارگیوں کو بھی کہ جن پریہ قیادتیں اٹھتے بیٹھتے ٹسوے بہاتی چلی آرہی ہیں۔مزدور اور کسان یہ جاننا سمجھنا شروع کرچکے ہیں کہ قیادتوں کے یہ ٹھاٹ باٹ ہی درحقیقت ان کی ذلتوں اور محرومیوں کی وجہ ہیں۔
چلیں اگر یہ مہان سیاسی قائدین، درکار ریڈیکل تبدیلی کے لائق اور قابل نہیں تو اور کون سی قوت باقی بچتی ہے؟کیا خیال ہے اگر پاک فوج اقتدار میں آجائے تو؟ اگر بدعنوان سیاستدانوں کی جگہ بدعنوان جرنیل آجائیں تو کیا اس سے ملک سدھرنا شروع ہوجائے گا؟نیم فاشسٹ ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین نے ’’محب وطن جرنیلوں‘‘سے مطالبہ کر دیا ہے کہ’’ خدار!ا بدعنوان سیاستدانوں کا تختہ الٹتے ہوئے اقتدارپر قبضہ کرلیجئے‘‘ ۔دوسرے الفاظ میں مارشل لاء لگا دیا جائے۔ جبکہ ایم کیو ایم کے قائد نے تو موجود آرمی چیف جنرل کیانی کو مشورہ دیاہے کہ وہ ’’فرانس کے جنرل ڈیگال کے نقش قدم پر چل نکلے تاکہ پاکستان میں سے ایک نیا پاکستان نکالا جا سکے۔ اور 1947ء سے جاری عدم استحکام کا خاتمہ ممکن ہوسکے‘‘۔
یہ رجعتی قائدین فوجی آمریت کے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔جس کے بعد ان کا خیال ہے ،فوجی جنتا خوش ہوکر انہیں اپنے پہلو میں بٹھالے گی اور یوں ان پر پھر اقتدارکی دیوی مہربان ہوجائے گی۔لیکن وائے قسمت !ایم کیوایم کی یہ خواہش موجودہ حالات میں پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ پاک فوج کیلئے اقتدارپر قبضہ کرنا اور جمانا اتنا آسان نہیں رہا۔فوج اس وقت منقسم ومضطرب حالت میں ہے۔مختلف دھڑے فوج کو مختلف سمتوں میں کھینچنے اور دھکیلنے میں مصروف ہیں۔ایک دھڑا خودکو امریکی سامراج کے سامنے تابع فرمانی کو برقراررکھنے کے درپے ہے تو دوسرا دھڑا سرگرمی اور جوش وجذبے کے ساتھ افغانستان میں طالبان کی مدداورمعاونت کر رہاہے۔سبھی بدعنوان ہیں اور کسی طوربھی ہلکا سا ارادہ نہیں رکھتے کہ کس طرح سے اپنے ملک کو اس کے معاشی وسماجی بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔جو کہ لمحہ بہ لمحہ بپھرتا اور بگڑتا چلا جارہاہے ۔چنانچہ اس کیفیت میں فوجی اقتدار کو دعوت دینا قرین قیاس نہیں نظر آتا جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہاہے۔
اپنے قیام کے شروع سے ہی پاکستان کا اقتدار سازشوں اور چیرہ دستیوں کا ایک گھناؤنا کھیل چلا آرہاہے جس میں کبھی آمریت آمریت تو کبھی جمہوریت جمہوریت کھیلا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس سارے کھلواڑ میں عوام کو نہ کسی نے پوچھا نہ کسی نے سوچا۔بس وزیروں کے دن بدلتے ہیں ،فقیروں کے حالات وہی تھے اور وہیں ہیں ۔ 1968/69ء کا بھوت
موجود ہ حکومت کے دن یقینی طورپر گنے جاچکے ہیں ۔ لیکن مسئلہ دن گنے جانے کا پھر نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ کون اس کی جگہ حکومت میں آئے گا اور کیا کرلے گا؟یہاں تک کہ اگر فوج بھی آتی ہے (اور یہ امکان موجودہے)توجرنیل کیا کریں گے اور کیسے؟ان کی نااہلی،بانجھ پن اور بے بسی وقت سے پہلے ہی سب پر عیاں ہو جائے گی ۔ایک انتہاؤں کو چھوتی بدتری اور ابتری کی کیفیت میں فوج زیادہ لمبے عرصے کیلئے اقتدار کے سنگھاسن پر نہیں بیٹھ سکے گی۔ایک فوجی اقتدار سماج میں موجودہ جھلستے اور جھلساتے مسائل سے نہیں نمٹ سکے گا۔بے روزگاری کو قید نہیں کیا جاسکتا اور مہنگائی کو بندوقوں اور توپوں سے نہیں مارا جا سکتا۔ نپولین نے ایک بار کہاتھا کہ آپ سنگینوں سے ہر قسم کا کام لے سکتے ہیں لیکن ان پر بیٹھ نہیں سکتے۔ایک سماجی بنیاد سے محرومی کی حالت میں فوجی اقتدار زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔جیسا کہ1968ء میں جنرل ایوب کے ساتھ ہواتھا ،ایک سماجی دھماکہ اس فوجی اقتدار کو اپنا نشانہ بنا سکتاہے ۔یہ حقیقت ہے کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں جوکوئی بھی براجمان رہا،اصلی حکمرانی ،مٹھی بھر دولتمند اشرافیہ کے ہی ہاتھوں میں مرتکزرہی۔ان میں جاگیردار،بینکاراور سرمایہ دار سب شامل ہیں۔اور ان سب نے آپس میں مل بیٹھ کر ایک مضبوط اتحاد تشکیل دیاہواہے کہ جس نے یہ قسم اٹھارکھی ہے کہ سماج میں کسی قسم کی عمومی خوشحالی اور ترقی نہیں آنے دینی ،ہاں مگر صرف وہی ترقی اور خوشحالی جو کہ ان کیلئے ہی ہو۔چنانچہ جب تک اس اقلیتی استحصالی اشرافیہ کو تہس نہس نہیں کیاجاتا،پاکستان میں کسی بھی نوعیت کی تبدیلی کا سوال اور امکان ہی پیدانہیں ہوسکتا۔
پاکستان کی63سالہ زندگی میں صرف ایک بار ،پہلی بار اور ایک ہی بار ایسا وقت آیا تھا کہ جب تاریخ تبدیل کرنے کا موقع پیداہوچلاتھا۔اور یہ وقت1968/69ء میں سامنے آیا تھا جب پاکستان کا مزدوراور کسان انقلاب کے راستے پر چل نکلا تھا ۔تب طاقت کا مرکز مزدوروں میں منتقل ہوچکاتھا۔صرف اور صرف ایک ہی کمی اور کمزوری اس انقلاب کی شکست کا سبب بنی تھی اور وہ ایک انقلابی تنظیم کی غیرموجودگی تھی۔بالشویک پارٹی کی طرح کی ایک ایسی انقلابی تنظیم کہ جس نے1917ء میں لینن اورٹراٹسکی کی قیادت میں انقلاب کو حقیقت بناڈالاتھا۔
اب ہمیں ہر بورژوا ماہر اور لیڈر سماج کی ریڈیکل تبدیلی کا واویلا کرتا نظرآرہاہے ۔اس کیلئے جو الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں وہ ’’فنڈامنٹل ری سٹرکچرنگ‘‘ ہیں جن کا سادہ انگریزی زبان میں ترجمہ کیاجائے تو وہ ایک ہی بنتا ہے ’’انقلاب‘‘۔اور یہ بات ہر کس وناکس جانتا سمجھتا ہے کہ انقلاب کوبپااور برپاکرنے کیلئے کرہ ارض پر ایک ہی طاقت ہواکرتی ہے ۔مزدوراورکسان۔پاکستان میں بھی یہی وہ لوگ یہی وہ طاقت ہے جو انقلاب کرسکتے ہیں ۔اور یہی وہ لوگ ہیں جو کہ17کروڑکی آبادی کا سب سے اکثریتی حصہ بھی ہیں۔ جب اور جس وقت بھی یہ بے پناہ طاقت مرتکز اور منظم ہوگی،تب کوئی ریاست کوئی فوج اس کا رستہ روکنے کی جسارت نہیں کرسکے گی۔یہی1968/69ء کا بنیادی سبق ہے۔
اتفاق سے پاکستان کے حکمران طبقات اور ان کے سامراجی آقا ان دنوں 1968/69ء کے بھوت سے ڈرے اور سہمے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔’’فنانشل ٹائمز ‘‘ان سب کے خوف کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’خطرات کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان کے سیاسی میدان میں،ایک فوجی آمریت سمیت ایک خونی انقلاب کے خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوچکی ہیں۔اور صورتحال ہے کہ کنٹرول سے باہر ہوتی چلی جارہی ہے۔پاکستان میں متعین سفارتکارایک بڑے اور شدید عوامی ابھار اور انتہاپسند شدت پسندی کے پھوٹنے سے ڈرے ہوئے ہیں۔ان میںیہ خوف جڑ پکڑ چکاہے کہ دیہاتوں میں موجود المیہ طویل ہواتوآبادی کا رخ شہروں کی جانب ہوجائے گا جو کہ اسلام آباد کی سویلین حکومت کیلئے خطرے کا باعث بن سکتاہے‘‘۔ یہ الفاظ اسلام آباد اور وہاں سے دور بیٹھے حکمران طبقات کی سوچوں میں پیداہوچکی کھلبلی کی نشاندہی کررہے ہیں۔وہ محسوس کرچکے ہیں کہ صورتحال قابو سے باہر ہونا شروع ہوچکی ہے ۔عالمی اور مقامی حکمران طبقہ یہ جان چکاہے کہ حکومت، عوام الناس کا ستیا ناس کردینے والے مسائل سے نمٹنے میں نااہل اور ناکام ہوچکی ہے۔وہ ڈرے ہوئے ہیں کہ ان مسائل سے تنگ آچکے لوگ کہیں سرکشی پر اتر آئے تو سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ویسے ہی جیسے سیلاب عوام کا سب کچھ بہا لے گیا ہے۔اور یہی وہ اندیشہ ہے جو ان کو لاحق ہوچکاہے کہ ایسا ہوا تو ’’اسلام آباد کی سویلین حکومت خطرے میں آسکتی ہے‘‘۔ حکمران طبقہ جس حقیقی خطرے سے حقیقت میں سہم رہاہے وہ ’’انقلاب ‘‘ ہے۔
آئیے !جناب حفیظ پاشا کے الفاظ پر نگاہ دوڑاتے ہیں۔’’موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اگر ریڈیکل اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں،تو دوکروڑ انسان ،مایوسی اور غصے کی کیفیت میں،شہروں پر دھاوا بول سکتے ہیں‘‘۔یہ الفاظ دراصل پاکستان کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے اس خوف کی عکاسی کرتے ہیں،جو چالیس سال کے بعد ایک بار پھر ان کے دماغوں پر ایک بھوت کی طرح سوار ہوچکاہے اور ان کی نیندیں حرام کررہاہے ۔
ضرورت کیا تقاضاکررہی ہے؟
1968/69ء کی انقلابی تحریک اس قدر جاندار تھی کہ بآسانی اقتدارپر قبضہ اور انقلاب ممکن کیا جاسکتاتھا مگر ایک حقیقی انقلابی قیادت کی غیرموجودگی کے باعث ایسا نہیں ہوسکاتھا ۔مزدوروں نے اپنی دیوہیکل طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے تخت کوبھی اکھاڑ پھینکا تھا اور سرمایہ دارانہ نظام کو بھی۔لیکن بدقسمتی سے تب طبقہ طاقت سے لیس توتھا لیکن مربوط حکمت عملی اور پروگرام سے محروم تھا ۔ہمیں یہ سمجھنا اور ممکن بنانا ہوگا کہ ہم تاریخ کو دہرانے کے مرتکب نہ ہوپائیں ،چنانچہ ہمیں لازمی طورپر ایک ایساپروگرام اور ایسی پالیسی تشکیل وترتیب دینی ہو گی کہ جو وقت آنے پراپنے اہداف طے اور حاصل کرسکے۔
کیا ضرورت ہے ؟ کیا درکار ہے؟پاکستان کو درپیش سبھی مسائل کا یقینی اور حتمی حل ایک ہی تھا اور ہے؛جاگیرداری اور سرمایہ داری کو مکمل اکھاڑ کر پھینکا جائے ۔اس کیلئے سب سے اولین اور اہم ترین قدم زمین کی نیشنلائزیشن اور اس کے ذریعے بڑے جاگیرداروں کی مکمل بے دخلی ہے ،اور اسی کے ساتھ ہی سبھی بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کی نیشنلائزیشن ہے اور بڑے بڑے کارخانوں کی بھی کہ جنہیں بعد میں مزدوروں کے جمہوری انتظام وانصرام میں دیاجائے گا۔اور ایسا کوئی بھی پروگرام ایک ایسی حکومت ہی ممکن العمل کرسکے گی جومزدوروں اور کسانوں کی حکومت ہوگی۔ایسی حکومت کے قیام کی جدوجہد کے دوران، ہمیں جمہوری مطالبات کا حامل ایک عبوری پروگرام ترتیب وتشکیل دینا ہے جو عام لوگوں کی فوری ضرورتوں کی تکمیل کا آئینہ دار ہو۔اور جس میں اس بات کا اعلان واظہار لازمی کیا جائے کہ حتمی مسائل کا حل مزدوراقتدار کے بغیر ناممکن ہے اور رہے گا۔
ریاست کا موجودہ انتظام وانصرام سب پر واضح کرچکاہے کہ یہ کچھ بھی کرسکنے یا کردکھانے کی اہلیت سے قطعی قاصر ہے۔ریاستی افسرشاہی اتنی بدعنوان اتنی فرسودہ اور ناکارہ ہوچکی ہے کہ باہر سے ملنے والی امداد مستحقین تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔بے گھر اور بے کار ہوجانے والوں کیلئے ملنے والی رقوم ضرورتمندوں کی بجائے بدعنوان افسروں اور سیاستدانوں کے بینک اکاؤنٹوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔اس بدعنوان اور کھوکھلے ریاستی ڈھانچے پر کسی قسم کاا عتماد کیاہی نہیں جا سکتا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کو اپنی ہی جمہوری تنظیمیں تشکیل دینالازمی ہے تاکہ وہ سماج کو چلانے کاتاریخی فریضہ خود اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔
تباہی وبربادی کے مروجہ رجعتی افسرشاہانہ طورطریقوں کے مقابلے میں ،کہ جو محض جھوٹی موٹی اصلاحات کے سواکوئی معنی اور حیثیت نہیں رکھتیں،ہمیں انقلابی جمہوری طریق کار تخلیق و تشکیل دینا چاہئے جو کہ لوگوں کی ضرورتوں سے وابستہ اور منسلک ہو۔ہمیں ہر فیکٹری ہر دیہات ہرگلی محلے اور ہر دوسری ممکنہ جگہ پرایکشن کمیٹیاں قائم کرنی چاہئیں۔یہ عوامی کمیٹیاں بہر صورت بدعنوان افسرشاہی ،چوروں اور جواریوں کو بے رحمی سے نکال باہر کریں۔ فوری طور پر بھوکوں تک خوراک فراہمی کو یقینی بناناچاہئے اور اس کے ساتھ ان سبھی تماشائیوں کو سزا دینی چاہئے کہ جو عوام کیلئے ملنے والی مدد عوام کو دینے کی بجائے اپنی جیبوں اور تجوریوں اور کھاتوں میں ٹھونس رہے ہیں۔ فوری طور پر زندگی کی سبھی بنیادی ضروریات کی قیمتوں کو منجمد کیا جائے ۔عوامی ٹریبونل قائم کیے جائیں جوکہ بدعنوان افسروں ،عوام کے حقوق چوری کرنے والوں اور منافع خوروں کو گرفتار کرکے ان کو قرارواقعی سزائیں دیں۔تاکہ انہیں پتہ لگ جائے کہ عوام کے ساتھ زیادتیوں کا کیا انجام ہوتاہے ۔
جمہوری کشادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کاروبار کے سبھی خودساختہ اسرارورموز کو ہر عام انسان کیلئے کھولا جائے اور انہیں عوام کے سامنے لایا اور رکھا جائے ۔ہر بڑے کاروبار اور ہر بڑے بینک کو اپنی وہ دستاویزات عوام کے سامنے لانی چاہئیں کہ جن سے پتہ چل سکے کہ انہوں نے کب کیسے اور کتنا کتنا منافع کمایا؟پاکستان کے ہر ایک باشندے کو یہ جاننے کا حق اور موقع ملنا چاہئے کہ کس طرح سے مٹھی بھر امیروں کا طبقہ ان کے خون پسینے کو ڈکارتا اور اس کے بل بوتے پر اپنی مراعات کو قائم ہی نہیں رکھے ہوئے ہے ، بلکہ ان میں اضافہ کرتا چلا آرہاہے ۔ ہر عام انسان کو یہ پتہ چلنا چاہیے کہ ان کی زبوں حالی اور محرومیوں پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے یہ سبھی بدعنوان سیاستدان اور امیر طبقات،کس طرح انہی عوام کی ہی پیدا کردہ دولت کو لوٹ کھسوٹ کرکے خود کو مراعات یافتہ کئے اور عوام کو ذلت یافتہ رکھے ہوئے ہیں۔
ان نام نہاد تجارتی اور کاروباری رازوں کا قانونی تحفظ درحقیقت،ایک مٹھی بھر اقلیت کو ایک بھاری اکثریت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ہمیں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ،ایسے ہر نام نہاد اور فریبی تقدس کا پردہ چاک کرناچاہیے‘تاکہ انہیں حقیقی سچ کا خود ادراک اور اندازہ ہوجائے ۔کہ ان کے نام پر مٹھی بھر امیر طبقہ کس طرح اپنا اقتدار قائم رکھے ہوئے ہے اور کس طرح ساری آمدنی خود ہڑپ کئے جارہاہے!
میڈیا پاکستان میں خوراک اور دوسری اشیائے ضرورت کی قلت کا واویلا کر رہاہے اور لوگوں کی بھوک ننگ کو سامنے لارہاہے ،لیکن ہر کوئی جانتا ہے اور دیکھ بھی رہاہے کہ جہاں ایک طرف کروڑوں انسان زندہ رہنے کے لوازمات سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں ،وہیں دوسری طرف ،ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو عیش کی زندگی جی رہے ہیں۔ایک ایسی کیفیت میں کہ قحط، منہ کھولے انسانوں کو نگلنے کے درپے سب کے سامنے موجودہے،وہیں اسلام آباد،لاہوراور کراچی کے شہروں میں اعلیٰ ریستوران ایسے امیر گاہکوں سے بھرے نظر آتے ہیں جو اپنی خوش خوراکی اور خوش ذائقیت پرکسی قیمت کوئی آنچ نہیںآنے دے رہے ہیں۔اور جنہیں نہ تو کوئی چنتا ہے نہ ہی پرواہ کہ انہی کے ہی ملک کے اندر قحط اور وباؤں کا عفریت انسانوں کو کھانا شروع کرچکاہے ۔اٹھتے بیٹھتے ’’قومی یکجہتی‘‘ قومی ہم آہنگی‘‘قومی مصالحت‘‘کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی ریاست اور اس کے عملدار،امیروں کی ان عیاشیوں کی طرف ایک انگلی کا اشارہ بھی کرنے کی روادار نہیں ہے کیونکہ یہ قانون کی بالادستی کے ہی نہیں بلکہ تہذیب کے بھی منافی اقدام ہوگا۔اس مجبوری کے پیش نظر ہی ،آخر کار بے چاری ریاست اپنی ہر مشکل کا بوجھ ان امیروں کی بجائے غریب عوام پر ہی ڈالنا مناسب سمجھتی ہے۔ جنگ کی حالت میں اشیاء کی راشن بندی کر دی جاتی ہے۔لیکن موجودہ ہنگامی صورتحال بھی جنگ ہی کی طرح ایک سنجیدہ معاملہ اور مسئلہ ہے۔چنانچہ لازمی ہے کہ خوراک سمیت سبھی اشیائے ضرورت کو لوگوں کی دسترس میں لانے اور رکھنے کیلئے ان کی فوری راشن بندی کی جائے۔ان سبھی اشیاء کی موجودگی اورہر ایک ضرورت مند کی ان تک رسائی اور فراہمی آج کا سب سے اہم ترین تقاضااور مطالبہ بنتاہے۔چاول ،آٹا سمیت ہر بنیادی انسانی ضرورت پر منافع کمانے پر پابندی عائد کردی جائے۔ٹریڈ یونینوں اور دوسری مقبول عوامی تنظیموں کی معاونت سے ان ایکشن کمیٹیوں کو راشن کارڈز جاری کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہرکسی کو کھانا ملے لیکن کوئی بھی بھوکا نہ رہ جائے ۔اخباروں ٹی وی چینلوں اور لاؤڈ سپیکروں پر ’’عوام کی بحالی وخوشحالی کیلئے ہر قربانی دینے ‘‘ کے خالی کھوکھلے اور منافقانہ اعلانات وبیانات اور وعدے کرنے والوں کے برعکس، ہمیں یہ مطالبہ رکھنا چاہیے کہ لوگوں کے فوری مسائل کو فوری طورپر حل کیاجائے۔اس تباہی کے دوران منافع کمانے والوں ور تجوریاں بھرنے والوں کے خلاف ان ایکشن کمیٹیوں کو ایکشن لیتے ہوئے پرائس کمیٹیاں قائم کرنی چاہئیں ۔جو سختی سے قیمتوں کو طے اور برقرار رکھیں ۔جہاں تک بے گھروں کی بے گھری کا مسئلہ ہے اس کیلئے ان ایکشن کمیٹیوں کو فوری طورپر وہ تمام جگہیں اور عمارتیں ڈھونڈنی چاہئیں جو خالی پڑی ہوئی ہیں۔ان میں امیروں کے بڑے بڑے گھر اور ان کے محلات بھی شامل ہوں۔اور ان سب جگہوں کو سب بے گھروں کی رہائش کیلئے کام میں لایا جاسکتاہے ۔ جب ایکشن کمیٹیاں یہ ایکشن لینا شروع کریں گے تو ہر طرف سے آوازیں آنا شروع ہوجائیں گی’’ افوہ۱ یہ تو بہت ہی غلط بہت ہی نامناسب عمل ہے ،یہ تو سراسر کمیونزم ہے ‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ہاں ہمیں امیروں اور اسمبلیوں میں موجود لوگوں کی یہ چیخیں سننی ہیں۔ایسی بیہودہ بکواس کرنے والوں کیلئے ہم سپین کے سوشلسٹ رہنمالارگو کبالرو کا وہ قول دہرائیں گے کہ ’’کینسر کا علاج ڈسپرین سے نہیں کیا جاتا‘‘۔اس قسم کے انقلابی اقدام کے بغیرکوئی بحالی اور ترقی ممکن ہی نہیں ،الٹا بربادی اور بدحالی اور انتشار پھیلے گا ۔اور تباہی ایک آدم خوردیو کی طرح انسانوں کو نگلنے کیلئے سب کے سامنے آچکی ہے۔اور کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ دیو کتنے انسانوں کو نگلنے والاہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا مقصدہی مزدوروں اور کسانوں کے مفادات کا تحفظ کرناتھا ۔لیکن زرداری اور اس کے ہمنوا،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کے نگہبان بنے ہوئے ہیں۔لوگوں نے پیپلز پارٹی کو اس لئے ووٹ دے کر کامیاب کیا تھا کہ اس کے بعد ان کے دن بدلنا شروع ہو جائیں گے۔لیکن موجودہ حکومت زرداری جیسے دائیں بازوکے رجعتی قائدکے چنگل میں ہے جو کہ پاکستان کا امیرترین شخص بھی ہے۔زرداری حکمرانی ،انہی کی نمائندگی کر رہی ہے جن کی وہ آلہ کار ہے۔سرمایہ داروں کو خوش کرنے اور رکھنے کیلئے پیپلز پارٹی کی دائیں بازوکی قیادت ،مراعات یافتگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکی ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کا حکمران دایاں بازو کسی طرح بھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات خلاف کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ انہی کی مدد اور محتاجی کی بدولت ہی تو یہ اپنا اقتدار قائم رکھے ہوئے ہے۔یہ رجعتی قیادت اس سوشلسٹ پروگرام سے قطعی طورپر لا تعلق ہو چکی ہے کہ جس پروگرام کی بنیاد پر ہی پارٹی قائم کی گئی تھی۔یہ نااہل قیادت سوشلزم تو کجا ،انقلابی جمہوری پروگرام تک کو بھی اپنانے سے گریزاں ہے۔
پاکستان پر مسلط ہوچکی تباہی اور قحط سے نمٹنے کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آبادی کی اکثریت کو ،مزدوروں اور کسانوں سمیت سبھی محروم طبقات کو اور سب سے بڑھ کر مفلوک الحال کسانوں کو عمل میں آناہوگا۔اور یہی وہ واحد حقیقی رستہ اور طریقہ ہے جو اس خونخوار تباہی اورانسانوں کو نگلنے والے قحط کو روک سکتاہے۔
Source: Chingaree