Urdu transaltion of Nepalese Maoists call for indefinite General Strike (May 6, 2010)
چنگاری ڈاٹ کام،23.05.2010۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیپالی ماؤسٹوں کی جانب سے ایک غیر معینہ عام ہڑتال کی کال موجودہ صورتحال میں ایک انتہائی اہم موڑ ہے۔ ماؤسٹ قیادت اس وقت محنت کشوں کو منظم اور سرگرم کرنے کا کلاسیکل طریقہ بروئے کار لا رہی ہے۔ اور یہ عمل ایک آئین ساز اسمبلی کے قیام کے مطالبے سے کہیں آگے جا سکتاہے۔ اور اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ محنت کش طبقہ ، کسانوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے سکتاہے۔ نیپال کا اانقلاب دو ہزار چھ میں بادشاہت کو اکھاڑپھینکتے ہوئے منظر عام پر آیاتھا ۔ اور یہ ابھی تک ختم نہیں ہواہے۔ چار سال پہلے جب عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے تو ہمالیہ میں پہلی بار ایک جمہوریہ کاقیام ممکن ہواتھا۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک نیپال سیاسی جدوجہد کی کیفیت میں موجود ہے جہاں ایک طرف مقامی بورژوازی اور ان کے عالمی آقاؤں کے مفادات ہیں تو دوسری طرف مزدوروں کسانوں ، طالبعلموں اور دیگر محروم پرتوں کے مفادات آپس میں باہم متصادم ہیں۔ ایک سال قبل ہی ماؤسٹوں کو ،جو کہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی قوت تھے ، کو اقتدار سے باہر نکال دیاگیاجس میں وہ سانجھے دار بنے تھے ۔ لیکن انہوں نے الٹی میٹم دیاتھا کہ اگر ، مئی دو ہزار دس تک ایک نیا آئین نافذ نہیں کیاگیا تو سی پی این ، یو ایم ایل اور نیپالی کانگریس کی حکومت کو اکھاڑ کر پھینک دیں گے۔ یو سی پی این ۔ ایم(ماؤسٹ)ایک ایسی قومی حکومت کا قیام چاہتے ہیں جو کہ ایک نیا آئین مرتب کر سکے ۔ دو ہزار آٹھ میں ماؤسٹوں نے سات جماعتی اتحاد کی مخلوط حکومت کی قیادت میں اقتدار سنبھال لیاتھا ۔ لیکن پھر حکومتی اتحاد کے باہمی اندرونی تضادات کی وجہ سے وہ اقتدار سے الگ ہو گئے ۔ نیپال کے انقلاب کی ابتدا سے ہی،گذشتہ سالوں کی اس پارلیمانی جدوجہد سے ایک ہی سبق ہمارے سامنے آتاہے کہ جب بھی نیپالی عوام متحرک ہوتے ہیں تو ایسے میں ماؤسٹ اور دیگر لیفٹسٹ، قیادت بن کر سامنے آجاتے ہیں اورپھر ہر قسم کے جمہوری و آئینی مسائل تحریک کے سامنے رکاوٹ بن کر سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ یوں تحریک کا عمل رکنا شروع ہوجاتاہے۔ نیپال کی اسمبلی کہ جس کے ذمے نئے آئین کو مرتب کرناتھا، کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ اور یہ نظر آرہاہے کہ یہ مئی دو ہزار دس تک کی دی گئی ڈیڈ لائن تک اپنا ہدف پورا نہیں کر پائے گی۔ چنانچہ ماؤسٹوں نے آئین کی تشکیل کیلئے عوام کو ازسرنو متحرک کرنا شروع دیاہے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بحران اور تضادات کی زد میں آیاہوانیپال ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پچھلے دسمبر میں نیپال کے مغرب بعید کے علاقے میں ، ماؤسٹوں کی زیر قیادت ہزاروں ورکروں نے زمین پر قبضے کی کوشش کی اور اس دوران ہی ان کی نیپالی مسلح فورسز کے ساتھ شدید تصادم ہوا۔ جس کے دوران ایک پولیس والے سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس واقعے کی ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں بہت تشہیر ہوئی ۔ لیکن پھریہ کوئی تنہاواقعہ نہیں ہے، یہاں نیپال میں کسانوں کے سابقہ ریاستی ڈھانچے کی فورسز کے ساتھ، محنت کشوں کے اپنے مالکان کے ساتھ ،، جن میں سیاحت کی صنعت اور نجی اساتذہ بھی شامل ہیں،، تصادم روزمرہ کا معمول بنے ہوئے ہیں ۔ نیپال کسی طور بھی موجود ہ عالمی بحران سے الگ تھلگ نہیں ہے۔ اس کے تارک الوطن شہریوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم میں بے انتہاکمی واقع ہو چکی ہے۔ جبکہ سیاحت کی صنعت بھی ابھرنہیں رہی ہے۔ چنانچہ یہاں سماج میں تضادات پنپ بھی رہے ہیں اور پھٹ بھی رہے ہیں ۔ اس وقت جب ہم یہ مضمون لکھ رہے ہیں ، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ عوام متحرک ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنی باگ ڈور ماؤسٹوں کو دی ہوئی ہے لیکن وقت انتہائی تیزی کے ساتھ ان سب کے ہاتھ سے نکلا جارہاہے۔ ماؤسٹ اس عام ہڑتال کے ذریعے لاکھوں نیپالی عوام کو ایک نئے سماج کی تشکیل کے نعرے تلے منظم اور متحرک کر رہے ہیں ۔،، مقامی زبان میں اس عمل کو’’ بندہ‘‘ کہا جاتاہے کہ جس کا مطلب مکمل بندش ہوتاہے،، ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے وہ جو راستہ اور منزل متعین کئے ہوئے ہیں، وہ صرف قانونی اور آئینی نوعیت کے ہیں ۔ عوام کی اس قدر شاندار اور جاندار تحریک کو محض اور محض ایک آئین کے حصول تک محدودرکھنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس ساری تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام ہی کی حدود میں پابند رکھنا ہے۔ اور جس کے نتیجے میں عوام کے حقیقی مسائل کا کوئی حل بھی نہیں ہونا ۔ دو مئی کو ایک غیر معینہ عام ہڑتال کے اعلان کے ذریعے ماؤسٹ قیادت اپنے علاوہ سبھی حکمران جماعتوں پر یہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ان کے مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کر لیں اور وہ یہ کہ ایک قومی حکومت تشکیل دے کر ایک عوامی آئین تشکیل دیاجائے۔ اگر ماؤسٹ قیادت اس تحریک کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل بھی کر لیتی ہے تو ، اسے ایک تو بھارتی حکمران طبقات کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرناپڑے گا دوسرا سب سے بڑھ کر اسے عالمی بحران کے شدیداور بھیانک اثرات کا بھی سامنا کرناپڑے گا۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ یوم مئی اور عام ہڑتال ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ یہ تحریک اس وقت شروع ہوئی جب یوم مئی کے موقع پرہزاروں مزدوروں نے ایک شاندار ریلی نکالی اور جس میں انہوں نے نیپال حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ۔ ماؤسٹوں نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر جو پروگرام منعقد کئے ، ان میں پانچ لاکھ سے زئد افراد شریک ہوئے ۔ ماؤسٹ پارٹی ، اپنے تئیں جو کچھ کرنے جارہی ہے ، وہ ایک غیر معینہ عام ہڑتال ہے،، بی بی سی کے مطابق ، یہ ہڑتال حکومت کو ختم کرنے کے ارادے سے کی جارہی ہے ۔ دومئی ،، اپنے مطالبے کو منوانے کیلئے ماؤسٹوں کی طرف سے عوام کو متحرک کرنے والا یہ درست طریقہ سارے جنوب مشرقی ایشیا میں ایک مثبت پیغام ثابت ہوگا۔ جس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد میں کتنی طاقت ہوا کرتی ہے۔ لیکن اس مثبت پیغام کے ساتھ ہی یہ کامیابی اسلام آباد، دہلی و ممبئی اور ڈھاکہ کے ایوانوں کی گھنٹیاں بھی بجا دے گی۔ بی بی سی کی اسی مذکورہ بالا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماؤسٹ لیڈر پشپا کمال دہل نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ’’نیپال میں انقلاب سمیت سبھی تبدیلیاں عوام کی طاقت کے بل بوتے پر رونما ہورہی ہیں ‘‘۔ جب کبھی بھی عوام کی منظم طاقت سرگرم ہوتی ہے اور اپنا اظہار کرتی ہے تو لازم ہوجاتاہے کہ اسے سماج میں بنیادی تبدیلی کیلئے بروئے کار لایا جائے۔ اور سماجی طاقتوں کے مابین عدم توازن کوختم کرنے کا ذریعہ بنایا جانا چاہئے ۔ نیپال میں ماؤسٹ عوام کی اس طاقت کو پانی کی ایک ٹونٹی کی طرح سے استعمال کرتے آرہے ہیں کہ جب مرضی آئی اسے کھولا اور جب مرضی آئی اسے بند بھی کردیا ۔ بادشاہت کے خاتمے کے بعد اور ایک جمہوریہ کے قیام کے بعد کے چار سالوں سے تحریک سے یہی ایک سبق سامنے آرہاہے ۔ ایک ایسی جمہوریہ قائم ہوکر سامنے آچکی ہے جو کسی بھی طور اپنے عوام کا کوئی ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں کر سکی ہے۔ نہ تو زرعی اصلاحات کی گئیں، نہ ہی معیشت کے حاوی حصے کو نیشنلائز کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر پھیلی غربت کے خاتمے کا کوئی ارادہ سامنے آیا ہے ۔ نہ ہی انڈسٹریلائزیشن کا کوئی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ نہ ہی قدیمی طرز کے ریاستی ڈھانچے کو نئے خطوط پر استوار کیا گیا ہے اور نہ ہی تعلیم عامہ اور دوسرے عوامی فلاح کے منصوبے سوچے گئے ہیں۔ ماؤسٹ قائدپراچندا نے قرار دیاہے کہ ’’پچھلے واقعات اور موجودہ سیاسی منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری پارٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک وسیع دباؤ اورعوام کی مداخلت ہی ’’ہماری قومی آزادی‘‘، ’’ہمارے عوام کی برتری‘‘، ’’امن‘‘ اور ’’ نئے آئین کی تیاری ‘‘ کا واحد محفوظ راستہ ہے‘‘۔ ایک بار جب عوام کی تحریک کا دباؤ صورتحال پر حاوی آتا ہے توایسے میں عوام کو ایک ایسی شکتی کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی تقدیروں کو اپنے ہی ہاتھوں میں لینے کے قابل ہو سکیں ۔ ایسے میں ماؤسٹوں کو جو بات سمجھنے کی سخت ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تقدیریں بدلنے کا یہ آدرش، حکمران طبقات کے ساتھ اتحادوں ، سرمایہ داری کے ساتھ معاہدوں اور نیپال کے شاہی محل میں براجمان سامراجی ایجنٹوں کے ساتھ معاملت کے ذریعے نہ حاصل ہواہے نہ ہی ہو سکے گا۔ نیپال کے ماؤسٹ قائدین اپنی تحریک کے مقاصد سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ ماؤسٹ پارٹی کے وائس چیرمین ڈاکٹر بابورام بھٹاچاریہ ،، جس نے یہ پوزیشن لی تھی کہ ہمیں ایک بین البرالاعظمی انقلاب کی طرف بڑھنا ہوگا، اور یہ پوزیشن نظریہ مسلسل انقلاب کی پوزیشن کے قریب تھی،، ۔ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا ہے کہ ہم ایک عوام دوست آئین اور امن کیلئے غیر معینہ ہڑتال کریں۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی پارٹی طرف سے ملک گیر تحریک فیصلہ کن ثابت ہو گی اور جو اس حکومت کو ختم کرکے اس کی جگہ قومی حکومت قائم کر دے گی۔ ڈاکٹر بابورام نے تاہم یہ بھی کہا کہ ان مطالبات کے حل کیلئے مذاکرات کے دروازے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ نیپال نیوز کام ۔ مذاکرات کے نئے دورکے ساتھ ہی ہڑتال یا تحریک کا اعلان کرنا ، ایک بھیانک غلطی ہوگی جویہ ماؤسٹ قیادت کرنے جارہی ہے۔ یہ بڑی تحریک اور اس کی کامیابی نیپال سمیت سارے جنوب ایشیا کی تاریخ کو بدل کے رکھ سکتی ہے۔ ایک عام ہڑتال کے ذریعے عوام کو منظم و متحرک کرنا ایک بہت بڑا قدم ہے۔ یہ نہ صرف موجودہ حکومت کا تختہ گول کر سکتی ہے بلکہ یہ خود نیپالی سماج کو اندر سے بدل کے رکھ دے گی۔ مسلسل انقلاب کا نظریہ واضح کرتا ہے کہ جب بھی جہاں بھی عوام متحرک ہوتے ہیں تو وہ محض جمہوری مطالبات تک ہی خود کو محدودوپابند نہیں رکھتے ۔ یعنی اس ’’مرحلے ‘‘پرکہ جہاں ’’ترقی پسند بورژوازی‘‘ کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے ۔ نیپال جیسے ملک میں تو ’’اس قسم کی ’’ترقی پسندجمہوریت نواز بورژوازی‘‘ کا نام ونشان تک نہیں ہے ۔ اگر اس دلیل کی روشنی میں نیپال کے عوام کو پسپائی پر مجبور کردیاجاتا ہے تو ردانقلابی ورجعتی نیپالی اشرافیہ آسانی کے ساتھ انقلاب کا قلع قمع کردے گی ۔ اس عام ہڑتال کے اندر جو طاقت ہے وہ اس کے منظم کرنے والوں کی سوچ اور توقع سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔ ماؤسٹ قیادت کو اسی طاقت کواپنے تناظر کاحصہ بنانا چاہئے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیپال کی عام ہڑتال زندہ باد ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ سرمایہ داری اور حکمران طبقات سے کوئی مذاکرات یا سمجھوتہ نہ کیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئے آئین میں اجارہ داریوں کی نیشنلائزیشن ، صنعت و معیشت پر عوامی ملکیت اورجاگیرداری نظام کے خاتمے کو یقینی بنایاجائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
Source: Chingaree