Urdu translation of Nepal: A Maoist heads the government (September 27, 2011)
بریان کونلون/کامریڈ ہلا کی (کھٹمنڈو) ۔ ترجمہ: اسد پتافی
چنگاری ڈات کام،30.09.2011
دو ہزار آٹھ میں نیپال میں آئین ساز اسمبلی کے بعد سے یہ دوسری بار ہواہے کہ ایک ماؤاسٹ ملک کا وزیراعظم بناہے ۔ اس بار ڈاکٹر بابو رام بھٹا چاریہ نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے ۔وہ اس ملک کا35واں وزیر اعظم ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے نیپال کے انقلاب کا کیا بنے گا اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ آئین ساز اسمبلی کے سپیکر سبھاش چندرا نمبانگ نے اسمبلی میں رام چندراپاؤدل کے مقابلے میں،بھٹا چاریہ کی کامیابی کا اعلان کیا جو کہ لبرل بورژواپارٹی کا امیدوار تھا ۔بھٹا چاریہ نیپال کی کمیونسٹ پارٹی UCPNMکا وائس چیئرمین ہے۔جبکہ ماؤسٹوں کی اولین حکومت کے دوران وہ وزیر خارجہ بھی رہاہے ۔جب پارٹی کا چیئرمین پراچنداوزیراعظم تھا۔594کے ایوان میں بھٹا چاریہ کو340ووٹ ملے جبکہ مدمقابل کو 235۔یہ کامیابی کمیونسٹ پارٹی اور مدھیسی پارلیمانی ارکان کے اشتراک سے حاصل ہوئی ۔نیپال کی مڈل کلاس‘ مقامی میڈیا اور کچھ کاروباری حلقے بھٹا چاریہ کو ایک بہتر وزیرخزانہ سمجھتے ہیں کہ جس نے ٹیکسوں کے نظام کو بہتر کیاتھا اور نیپال میں ہونے والی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے میں اہم کام کیا۔ہم نے فروری میں ہی لکھا تھا کہ اگر پرا چندا اپنے وائس چیئرمین کو کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی اجازت دیتاہے تو اس بات کے بہت قوی امکانات ہیں کہ وہ کامیاب ہو جائے گا۔لیکن پھر پارٹی کے اندرونی تنازعات کے پیش نظر شاید ایسا نہ ہو اور پراچندا نہیں چاہے گا کہ پارٹی کی اندرونی کیفیات کے باعث بھٹا چاریہ ملک کی قیادت سنبھالے۔اس کے نتیجے میں پارٹی کے قائد نے جے این کھنال کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیااوراسے کامیاب کیا‘‘۔
چھ ماہ گذرنے کے بعد پارٹی کی اندرونی کشمکش کا فیصلہ اس وقت ہوا کہ جب پارٹی میں طاقت کا توازن بھٹا چاریہ کے حق میں ہوگیااور پراچنداکو بھی اس کے ساتھ ہونا پڑا۔ہم یہاں یہ بتانا چاہیں گے کہ اختیار کی یہ کشمکش پارٹی کی سنٹرل کمیٹی تک میں بھی شدت سے چلتی رہی ہے ۔UCPNM کے
اندر چلنے والی اس شدید کشمکش کے تناظر میں بھٹا چاریہ کے وزیر اعظم بننے کی خبر نے سب کو حیران و پریشان کردیاہے ۔پچھلے پانچ سالوں سے نیپال کی ہر حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ایک ہی چلا آرہا ہے کہ نیپال کے ماؤاسٹ گوریلوں کا کیا کیا جائے !
ایک حیران کن قدم
یکم ستمبرکو نئی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کنٹینروں کی چابیاں دے دی جائیں کہ جن میں ماؤاسٹوں نے اپنا اسلحہ رکھوایا تھا۔ اس اچانک حیران کن اقدام کا مقصد سیاسی جمود کا خاتمہ کرنا تھا اورجمہوریہ کیلئے آئین کو ضابطہ تحریر میں لاناتھا جس کیلئے سالوں لڑائی لڑی گئی ۔بھٹا چاریہ نے 19000سابق گوریلا ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یا تو آپ کو نیپالی فوج میں بھرتی ہونا پڑے گا یا پھر سماج کے اندر خود کو سمونا پرونا ہوگا ۔یہ گنجائش اور سہولت ان کیلئے ہے کہ جو ریٹائر ہونے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ۔UCPNM کے سب سے ریڈیکل حصے
نے ابتدائی طورپر دوہری سیکورٹی کے کام کو ترک کردینے پر اتفاق کیا( جس کے تحت وہ رائل آرمی کا بھی حصہ بنے رہتے ، صرف سابقہ گوریلاؤں کو ہی اسلحے کے اس ذخیرے تک رسائی دے سکتے تھے ) ۔ اس کے بعد موہن بیدھیا کی قیادت میں پارٹی کے ایک حصے نے اسلحے تک رسائی کے حوالے سے متضاد پیغامات بھیجنے شروع کر دیے ۔اس کے بعد پارٹی میں دھڑے بندی کی کیفیت سامنے آنے لگی ۔انڈیا کے نکسلائٹ اور ماؤاسٹ بھی اسی قسم کی’’ پیپلز وار‘‘لڑتے چلے آرہے ہیں ۔جیسی کہ نیپال کے ماؤسٹ ایک لمبا عرصہ لڑتے آئے ۔ان لوگوں نے اب اپنی ’’دھوکہ باز ‘‘ قیادت کے بارے اشتعال انگیز و اہانت آمیز مہم شروع کر دی ہوئی تھی ۔ایک مارکسی نقطہ نظر سے بورژوامدھیسی نیشنلسٹ پارٹی کی سپورٹ لینا ایک بڑی غلطی ہے لیکن اس طرح سے ہتھیاروں کو حوالے کر دینے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان خود ساختہ لیننسٹوں مارکسسٹوں کا مارکسزم کیسا اور کس نوعیت کا ہے ۔ان کو ریاستی ڈھانچوں ،مقامی بورژوازی اورنیپال سمیت کہیں بھی سامراجی کردارکی کوئی سمجھ بوجھ ہی نہیں ہے ۔
UCPNMکی قیادت نے دہائیوں پر محیط اپنی جدوجہد کے بعدPLAکے گوریلوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب اپنی توانائیاں امن اور آئین کیلئے بروئے کار لائیں ۔UCPNماؤاسٹ کے ترجمان دینا ناتھ شرما نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی نے ’’ماضی کے معاہدوں پر عملدرآمد کر دیا ہے اور ماؤسٹ لیڈروں کیلئے آج سے دوہری سیکورٹی کا رستہ ختم ہو چکاہے ‘‘ (Himalyan Times)
اب ماؤسٹوں اور مدھیسی پارٹیوں کی مخلوط حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سات ہزار سے زائد گوریلوں کو نیپالی آرمی کا حصہ بنا دیا جائے گا اور وہ بھی ایک الگ حصے اور شعبے کے طور پر اس کے تحت سبھی ماؤسٹ گوریلا گروپوں کو ایک مہینے کے اندر اندر ازسرنو مجتمع و منظم کیا جائے گا ۔اس عمل کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دس ہزار مدھیسی نوجوانوں کو بھی نیپالی فوج میں شامل کیا جائے گا ۔یہ مدھیسی پارٹیوں کی مخلوط حکومت کیلئے سپورٹ کا انعام ہے کیونکہ اس سے قبل رائل آرمی میں ان کی شمولیت انتہائی قلیل تھی ۔UCPNM میں شامل گروپ جو کہ
پراچندا اور بھٹا چاریہ کی جانب سے کئے گئے اس سمجھوتے کو مسترد کر رہاہے ، اس کی قیادت بیدھیا (کرن)کر رہاہے ۔یہ معاملہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اندر بھی اٹھایا جارہاہے ۔اور یوں یہ ہورہاہے کہ ایک بار پھر نیپال کے انقلاب کا مقدرو مستقبل چند مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلا جارہاہے کہ جو نیپالی بورژوازی میں گھر چکے اور جن کا ریاستی ڈھانچوں پر کوئی بھی کنٹرول نہیں ہے ۔
نیپال کی لبرل بورژواکانگریس نے بیدھیا پر الزام عائد کیاہے کہ وہ بدیسی شرانگیز ماؤاسٹوں کے ہاتھوں کھیل رہااور نیپال کے امن کے عمل میں رخنہ ڈال رہاہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت میں شامل ماؤسٹوں نے ابھی تک اپنے ایک بھی ایجنڈے کوہاتھ نہیں لگایاہے جس کیلئے وہ اقتدار میں آئے تھے۔ اس کے برعکس یہ ماؤاسٹ ہر وہ نامناسب کام کر رہے ہیں کہ نیپالی کانگریس والے جن کا تصور بھی نہ کرتے۔ آئین ساز اسمبلی نے ابھی تک آئین تحریر نہیں کیا ہے ۔زرعی اصلاحات کا عمل واپس ہورہاہے ۔اور پارٹی کا مسلح ونگ غیر مسلح کیا جارہاہے کہ جو پارٹی کی واحد مذاکراتی طاقت تھی ۔
UCPNM بالا سطح پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے اور یہ دوسری پارلیمانی قوت بن سکتی ہے ۔جس کے نتیجے میں یونینز، طلبہ اور کسان تنظیموں کا عمل بھی اس انتشار کی زد میں آجائے گا۔
بغیر کسی پالیسی کی حکومت جیسا کہ ہم پہلے اپنی اس ویب سائٹ پر یہ لکھ چکے ہیں کہ نیپال جیسے نیم جاگیردارانہ ملک میں زرعی اصلاحات ایک ضروری عمل ہے ۔پیپلز وار کے دنوں میں ماؤسٹوں نے کئی جاگیرداروں سے زمینیں واگذار کر ائی تھیں ۔اب ایک معاہدہ کر لیاگیا ہے جس کے تحت لڑائی کے سالوں کے دوران لی جانی والی زمینیں واپس مالکان جاگیرداروں کو لوٹا دی جائیں گی ۔چونکہ اکثرمدھیسی پارٹیاں مقامی جاگیرداروں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں ، اس لئے زرعی اصلاحات، مخلوط اتحاد کے ایجنڈے پر ہی نہیں ہے ۔یہ ماؤسٹ فائٹرز کی جدوجہد اور ان کی سماجی بنیادوں سے ایک بھیانک غداری ہے جنہوں نے ماؤسٹوں کا پرچم تھاما ہی اسی لئے تھا کہ انہیں جاگیرداروں کے جبرواستحصال سے نجات مل جائے گی ۔
نیپال میں انقلابی ابھار کے فوراً بعد ہی ہم نے لکھا تھا ’’ایک ایسی کیفیت میں کہ جب جہاں مزدوروں اور کسانوں کی تحریک اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے سکتی ہو ،وہاں ایسی حالت میں تحریک کو بورژوا جمہوریت کی طرف لے جانا ایک سازش اورتحریک کیلئے پست قدمی ثابت ہو گی ۔ ایسے میں تحریک حکمران طبقے کے ہاتھوں کھلونا بن جائے گی ۔جب بھی مزدور اور کسان طاقت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہوتے ہیں ،تو صرف بورژوا انقلاب کے فرائض سے نبرد آزماہونا ہی ہدف نہیں ہواکرتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قومی جمہوری انقلاب کے اہداف ، جیسا کہ زرعی اصلاحات،غیر ملکی انحصار سے نجات ،کا حل بھی صرف اور صرف سوشلسٹ اقدامات سے ہی ممکن العمل ہوتاہے ‘‘۔ ماؤسٹ ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں کہ وہ کسی طور بھی کسی سطح پر بھی امن آور آئین کے رستے میں رکاوٹ نہ بننے پائیں۔اس سلسلے میں انہوں نے خودکو45دنوں تک کی ڈیڈ لائن بھی دے دی ہے اور جس پر بورژواسیاستدان ان پر سخت تنقید بھی کر رہے ہیں تاکہ ان پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے ۔
پہلے کے سبھی مخلوط اتحادوں کی طرح سے اس اتحاد کی عمر بھی اتنی لمبی نہیں ہو گی کیونکہ اس کے اندرونی تضادات بہت شدید اور گہرے ہیں جبکہ آئین سازی اور پر امن معاشی ترقی کا عمل انتہائی بڑا عمل ہے جو کہ چنداںآسان نہیں ہے ۔نیپال کا حکمران طبقہ کسی طور بھی نہیں چاہ رہاہے کہ ماؤاسٹ آئین کی تحریروتشکیل کا کام سرانجام دیں۔حکمران طبقے اور علاقے کی سامراجی قوتوں کا اصل ہدف ہی یہ ہے کہ UCPNM کو تقسیم اور منتشر کیا جائے ۔تاکہ اس کے بعد ایک مستحکم بورژوا حکومت قائم کی جاسکے ۔اور جو کہ اکتوبر2006ء میں شروع ہونے والے عمل کو ہر طرح سے ختم کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ خطرہ یہ لاحق ہے کہ ماؤاسٹوں نے اپنا ایک مسلح انقلابی حصہ غیر مسلح کردیا ہے ۔اور اس سے بورژوازی اور سامراجی قوتوں کو بھرپور موقع مل رہاہے کہ وہ نیپال کی عوامی سرکشی کو کچلنے اور ختم کرنے کی اپنی کوششوں کو اور بھی تیز کردیں۔
عالمی سطح پر پھل پھول رہے معاشی بحران کے اثرات انڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔جلد یابدیر نیپال بھی اس کی زد میں آئے گاجبکہ UCPNM کی قیادت اپنے بار بارجاری کردہ اعلانات کے ذریعے بھارتی سامراج کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں مگن ہے ۔
انتشار کی زد میں آتی جارہی UCPNM کو لامحالہ پارلیمنٹ میں موجودبزنس کلاس پرزیادہ سے زیادہ انحصارپر مجبور ہونا پڑ رہا ہے اور جس کے ساتھ ہی وہ عوام سے زیادہ دورہوتے چلے جارہے ہیں ۔یہ صرف بربادی ہی کا نسخہ اورراستہ ہے ۔
مارکسزم ہی نیپالی ماؤاسٹوں کیلئے کامیابی کا واحد سنجیدہ رستہ اور نسخہ ہے ۔اگر وہ خود کوسرگرم بورژوازی ظاہر کرتے ہوئے انڈیا کے سرمایہ دار طبقات کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ بزنس کیلئے تیار ہیں تو یہ پارٹی کی تباہی کے سواکچھ نہیں ہوگا۔یہ انقلابی تحریک سے روگردانی ہوگی ۔لیکن اگر وہ اپنے اعمال اور پروگرام کو صحیح خطوط پر استوار کرنا اور رکھنا چاہتے ہیں اور جمہوری و سماجی اقدامات اٹھانے میں دلچسپی لیتے ہیں تو وہ دوبارہ عوام کی تائید وحمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ جنہوں نے اپنی دیوہیکل قوت سے بادشاہ کا تخت اکھاڑ کے پھینک دیاتھا ۔
ماؤاسٹوں نے اپنے ہی گلے پر ایک تیزدھار تلوار لگائی ہوئی ہے ۔اگر امن کا مجوزہ پروگرام ناکام ہوتا ہے تو وہ 1990ء کی دہائی کی طرح کی کیفیت میں پہنچ جائیں گے کہ جب پارٹی کے ایک حصے نے ہتھیار اٹھالئے تھے جبکہ باقیوں نے CPN-UMLبنا لی تھی جو اب بھی موجود ہے۔ جاگیردار،حکمران طبقہ اور سامراجی قوتیں ہر ممکن کوشش کریں گی کہ انقلابیوں کو کچل دیاجائے ۔یہ وہ خطرہ ہے جو اس وقت نیپال کے انقلاب کو درپیش ہے ۔
ہم کئی بار یہ کہہ اور لکھ چکے ہیں کہ جب بھی نیپال جیسے نیم جاگیردار ملکوں میں عوام حکومت اکھاڑ پھینکتے ہیں ،تب وہ خود کو بورژوا جمہوریت تک محدود نہیں رکھ سکتے ۔مزدوروں‘ کسانوں کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے انتہائی بنیادی نوعیت کے جمہوری اقدامات بھی خود ہی کرنے ہوتے ہیں ۔اگر نیپالی ماؤسٹوں کی انقلابی اور بین الاقوامی سوچ ہوتی تو وہ نیپال کے انقلابی ابھار کو بروئے کار لاتے ہوئے انڈیا کے انقلاب کا نکتہ آغاز بناسکتے تھے ۔تیونس کا حالیہ تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے۔
اس حوالے سے ماؤاسٹ خاص طور پر پراچنداکے دھڑے پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فوری طور پر پارٹی کی کانگریس بلائے۔ تاکہ کسی نئی حکمت عملی پر غوروفکر کیاجائے اور جس میں نئی قیادت سامنے لانے کا بھی اہتمام کیا جائے اور یہ بھی کہ پارٹی کو کسی تباہ کن پھوٹ سے بھی بچایا جاسکے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ مقامی سطح پر کیڈر آپس میں تقسیم کا شکار ہیں اور یہ پارٹی کے اندر شدید ٹوٹ پھوٹ کی نشاندہی کرتی ہے ۔ کھلے دل و دماغ اور صاف گوئی سے کی جانے والی بحث کامریڈوں کو مزید افراتفری و انتشار سے محفوظ رکھ سکے گی ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر پارٹی میں سپلٹ ہوتی ہے تو پارٹی کا ایک حصہ ممکنہ طورپر پارلیمانی بیہودگی کی دلدل میں دھنس جائے گا جبکہ دوسرا پیپلز وار کی غیر موثر کاوش میں لگ جائے گا۔انقلابی کمیونزم اور بالشویک انقلاب کے حقیقی نظریات کی طرف واپسی وقت اور مستقبل کا اہم تقاضاہے ۔جس کی ابتدا پارٹی کی کانگریس بلا کے کی جاسکتی ہے ۔جس میں مزدور اور کسان اپنی اس پارٹی کو بولتا دیکھ سکیں اور جس کاایک ایسے مارکسی پروگرام پر اختتام ہو کہ جو انقلاب کو آگے لے جانے کا باعث بن سکے ۔
ماؤاسٹ اس وقت ایک دوراہے پر ہیں ۔ایسی کیفیت انہیں پہلے کبھی پیش نہیں آئی تھی ۔چند مہینے پہلے ہم نے انہیں تجویز دیتے ہوئے کہاتھا کہ وقت ہاتھوں سے پھسلتا جارہاہے اور یہ بھی کہ کوئی بھی ٹوٹ پھوٹ سرمایہ داروں کیلئے زندگی بخش ثابت ہوگی ۔یہ لوگ عوام کو غیر متحرک اور بے زاروبے عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔اس وقت کرہ ارض پر انقلابات کی لہر جاری و ساری ہے،ماؤاسٹ لیڈروں کی طرف سے موجودہ پالیسی پر عمل پیرا رہنا مجرمانہ عمل ہوگا ۔ان کی یہ روش حکمران طبقے اور سامراجیوں کیلئے تحفہ ثابت ہوگی ۔
ہتھیاروں سے دستبرداری سے انکار کیا جائے ۔
بورژوا فوج پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے ۔
پارٹی کانگریس بلا کر ماؤسٹ پالیسی کو ازسرنو مرتب کیا جائے ۔
Translation: Chingaree.com