Urdu translation of Gates speech reveals deep splits in Nato (June 17, 2011)
ایلن وڈز - ترجمہ: یاسر ارشاد
چنگاری ڈاٹ کام،26.06.2011
ایک دہائی پہلے جارج ڈبلیو بش اور نیو کنزرویٹو دھڑے نے نائن الیون کے واقعات کو جواز بنا کر انتقام کی سلگتی حسرت کو نام نہاد جمہوریت کے فروغ و تحفظ کی بڑھک بازی اور دعووں کا لبادہ اوڑھاتے ہوئے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو وحشیانہ فوجی طاقت کے استعمال کے راستے پر ڈالا تھا ، لیکن عراق اور افغانستان کے تباہ کن نتائج اور 1930ء کے بعد آنے والے پہلے گہرے ترین معاشی زوال کی وجہ سے اب موڈ تبدیل ہو رہا ہے۔
نائن الیون کے دس سال پورے ہونے سے چند ماہ پہلے فنانشل ٹائمز جریدے میں ایک مضمون شائع ہوا جس کی شہ سرخی یہ تھی ’’امریکہ کی عالمی تھانیدار کا کردار ادا کرنے کی بھوک مٹتی جا رہی ہے‘‘ یہ عنوان عالمی سیاست میں امریکہ کی بدلتی ہوئی صورتحال کا خلاصہ ہے۔ یہ اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ دس سال بعد جڑواں عمارتوں پر بمباری کے اثرات زائل ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ شاونزم کی زہریلی دھند چھٹ کر امریکہ کو شدید درد سر میں مبتلا کر چکی ہے۔
اس بدلی ہوئی کیفیت کو لیبیا میں پیدا ہونیوالے بحران کی جانب واشنگٹن کے رویے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطی میں جنم لینے والی عہد ساز تبدیلیوں کی جانب واشنگٹن کے رویے اور رد عمل میں تذبذب امریکی خارجہ پالیسی کے ایک نئے اور تبدیل شدہ دور کے آغاز کی عکاسی ہے۔ عرب انقلاب نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے کو ایک پگھلتے ہوئے لاوے میں بدل دیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے پرانے مضبوط اتحادیوں کے ایوان لرز رہے ہیں جس کی وجہ سے امریکی خارجہ پالیسی انتہائی غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے ، ماضی کا تمام اعتماد تحلیل ہو چکا ہے اور نیو ورلڈ آرڈر کی خوش گمانیوں پر مشتمل تمام دعوے خاک میں مل گئے ہیں۔ امریکی سامراج کو ان واقعات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا، چونکہ نہ تو وہ ان کی قبل از وقت پیشین گوئی کر سکا اور نہ ہی اسے ان واقعات کے رونما ہونے کی کوئی توقع تھی۔ واشنگٹن کے تجزیہ نگاروں اور پالیسی سازوں کو شدید صدمے سے دوچارہونا پڑا جب انہیں یہ احساس ہوا کہ عرب کی گلیوں پر امریکی سامراج کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے اور یہ کہ اس خطے میں دوبارہ امریکی تسلط و اثر رسوخ کو قائم کرنا نہایت مشکل کام ہے جو خطہ سامراج کی عالمی تسلط کی حکمت عملی کے حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے ابھرنے والی انقلابی تحریک کے ساتھ اپنے روایتی خارجہ پالیسی کے مفادات کے حصول کی ساز باز و مفاہمت کے عمل میں سامراج کو سنجیدہ مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی سے ہمیں لیبیا کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بن غازی سے شروع ہونیوالی عوامی سرکشی زوال پذیر ہو کر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسی نے سامراجیوں کو عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں ’’انسانی حقوق کے محافظوں کے بھیس میں‘‘ مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ حکمران طبقات کے انتہائی رجعتی اور سخت گیر دھڑے ماضی کی طاقت کے استعمال کی وحشیانہ پالیسی کے ساتھ چمٹے رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جان میکن اور دیگر سینیٹرز لیبیا میں قذافی کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کے لئے زیادہ وحشیانہ انداز میں فوجی طاقت کے استعمال پر زور دے رہے ہیں۔
لیکن انہیں امریکہ میں حمایت نہیں مل رہی جہاں عوامی رائے بیرونی فوجی مہموں کے زیادہ سے زیادہ خلاف ہوتی جا رہی ہے۔
یہ انتہائی سنہرا موقع ہے جسے ضائع نہیں کیا جا سکتا، لیکن امریکہ کیلئے مشکل یہ ہے کہ یہ جنگ لڑے گا کون؟ عراق اور افغانستان میں شکست و ریخت کا سامنا کرنے کے بعد امریکی جنرل لیبیا میں فوجی کاروائی کے حوالے سے آغاز سے ہی کھلے عام شکوک و شبہات اور خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ ایسے وقت میں کہ جب امریکی انتہائی بوکھلاہٹ کی نفسیاتی کیفیت میں عراق اور افغانستان سے جلد ا ز جلد نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، شمالی افریقہ میں ایک نئی جنگ کی دلدل میں پھنسنے کا نظریہ امریکہ میں بہت غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
اوبامہ انتظامیہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں رونما ہونیوالے برق رفتار واقعات کی رفتار سے مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف دیکھی جا سکتی ہے۔ واشنگٹن میں اب یہ تنقیدی گفتگو عام ہے کہ وائٹ ہاؤس نے بروقت جمہوریت کے حصول کے لئے ہونیوالے مظاہروں کی حمایت نہیں کی ، تنقید کرنا واقعی آسان ہوتا ہے لیکن اگر اوبامہ پر جو تنقید کی جا رہی ہے اگر اس نے یہ کیا ہوتا تو وہ فوری طور پر مشرق وسطیٰ کے اپنے اہم اتحادیوں اسرائیل، اردن اور سعودی عرب کے ساتھ ٹکراؤ میں چلا جاتا ۔
بیچارا اوباما! اس پریشانی نے یقیناًاس کی نیندیں حرام کر دی ہیں کہ وہ ایک دور دراز کے خطے میں ابھرنے والے سماجی تصادم میں کہیں حمایت کیلئے سماجی گروہ کے انتخاب میں غلطی تو نہیں کر رہا ۔
اسی لئے اوبامہ نے بمباری کی مہم کو نیٹو کے سپرد کر دیا، بالکل اسی طرح جیسے کوئی فرد ایک ابلا ہوا گرم آلو انتہائی ہوشیاری سے قریب کھڑے کسی دوسرے فرد کے ہاتھوں کی طرف اچھال دیتا ہے۔ امریکی یورپ کے پیچھے خود کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں فوراً ایک نئی مشکل نے آگھیرا ہے ، اگرچہ چندیورپی حکومتیں(برطانیہ اور فرانس) لیبیاکیخلاف فوجی کارروائی کے حق میں جارحانہ جوش و خروش کے ساتھ پیش پیش تھے لیکن باقی ممالک نے کافی سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ خاص کر جرمنی اس مہم میں شامل ہونے پر با لکل آما د ہ نہیں تھا لیکن یہ کیفیت صرف جرمنی کی نہیں تھی ، برلسکونی کو قذافی کا پرانا دوست ہونے کے علاوہ خود کوجیل میں جانے سے بچانے کیلئے شدید جدوجہد کا سامنا ہے جس کیو جہ سے وہ اس مشکل جنگ کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔
باقی ممالک جنگ کے اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی شکایت کرتے رہے، (ان ممالک کے حکومتی خساروں کو ذہن میں رکھیے)، نتیجتاً ایک نہا یت غیر مربوط بمبا ری مہم جا ری کی گئی جس کا تما م بو جھ فرانس اور امریکہ کو اٹھانا پڑا ، اس بمباری نے اتنا نقصان ضرور کیا جس کی وجہ سے مغرب کیخلاف نفرت اور حقارت کا ایک نیا جذبہ ابھرا لیکن یہ بمباری باغیوں کو قذافی کی فوج کو شکست دلانے کے قابل نہ بنا سکی۔ اس کا نتیجہ زمین پر ایک پر انتشار جمود کی کیفیت میں برآمد ہوا جس کا کوئی انت دکھائی نہیں دیتا۔یہ حقائق بحرِاوقیانوس کے آس پاس ابھی مکمل طور پر آشکار نہیں ہوئے جہاں ان دنوں ’’ہمارے یورپی اتحادیوں‘‘ کے بارے میں شوروغل مسلسل بلند ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی لیبیا کے بحران کو حل کرنے کیلئے زیادہ طاقتور رد عمل کی گفتگو کر رہے ہیں لیکن پس پردہ پھوٹ اور دراڑیں ابھرنے کی وجہ سے نیٹوکو گہرے بحران کا سامنا ہے۔
گیٹس کا انتباہ
امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے تنقید کرنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہوئے لیبیا پر نو فلائی زون نافذ کرنے کی مغرب کی پالیسی کو ’’غیر ذمہ دارانہ گفتگو‘‘قرار دیا۔ اس نے بدھ کو کانگریس کے سامنے اپنے حلفیہ بیان میں کانگریس کو یہ یاد دلایا کہ اس قسم کی پالیسی کا آغاز لیبیا کے فضائی دفاع کے ٹھکانوں پر حملوں سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ واضح طور پر یہ تمام ذمہ داری امریکہ کی بجائے یورپ کے سر تھوپنا چاہتا ہے۔ وہ اب مکمل طور پر بوکھلایا ہوا ہے۔ اپنی ملازمت کے آخری دنوں میں امریکی سیکرٹری دفاع نے تسلسل کے ساتھ امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے متعدد اشتعال انگیز پالیسی خطاب کئے جن کے باعث واشنگٹن میں افراتفری پھیل گئی ہے۔
اس نے انتباہ کیا ہے کہ امریکی فوج کا حجم سکڑتا جا رہا ہے اور یہ اب محدود خطروں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ گیٹس نے حال ہی میں ویسٹ پوائنٹ نیو یارک میں واقع امریکی ملٹری اکیڈمی میں جدید دور کے آفیسران کی تربیت کے موضوع پر ایک بے باک تقریر کی ۔ ایک حیران کن اعلانیہ انداز میں اس نے جنرل میکارتھر کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل کا کوئی بھی سیکرٹری دفاع جو امریکی صدر کو ایشیا، مشرق وسطیٰ یا افریقہ میں بھاری زمینی فوج بھیجنے کی تجویز دے تو اس ’’کے دماغ کا معائنہ کرانا چاہیے‘‘
کیڈٹس کے ساتھ اکیڈمی کے اس خطاب کو ذرائع ابلاغ میں بہت معمولی جگہ دی گئی، ملک کی قومی سلامتی کے ادارے کے تجربہ کار ترین بیوروکریٹ کی جانب سے جاری ہونیوالا یہ بیان قابل ذکر اہمیت کا حامل ہے ، خاص کر چونکہ یہ وہی فرد ہے جس نے عراق اور افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت پر سب سے پہلے زور دیا تھا۔ عہدے سے دستبردار ہونے سے قبل اپنے آخری پالیسی خطاب میں گیٹس نے یورپی اتحادیوں کو سختی سے انتباہ کیا ۔
نیٹو کے وزراء دفاع کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر گیٹس نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یورپ کو ’’اجتماعی فوجی طاقت کی حیثیت سے ناکارہ ہونے کے حقیقی امکان‘‘ کا خطرہ لاحق ہے۔ اور اس نے واضح الفاظ میں کہا کہ واشنگٹن اپنی مالی خستہ حالی اور سیاسی عدم رضامندی کے باعث ان کے دماغ کی قیمت نہیں چکا سکتا ۔
اپنے ایک گھنٹے کے طویل خطاب کے دوران گیٹس یورپ کے معززین کے ساتھ بالکل ایسے لہجے میں مخاطب رہا جیسے ایک ہیڈ ماسٹر سکول کے بچوں کو ڈانٹتا اور نصیحتیں کرتا ہے ۔ اس نے کہا کہ اگر نیٹو اتحاد کے یورپی ممبران اپنی حفاظت کا بوجھ خود اٹھانے سے انکاری ہوتے ہیں توامریکہ کی بعداز جنگ کی پالیسی جاری رہنے پر بہت سے اعتراضات اٹھا ئے جائیں گے اس نے لیبیا کی مہم کی موجودہ کیفیت جس نے نیٹو کی کمزوریوں کو عیاں کیا ہے کو ناقابل برداشت قرار دیا۔ واشنگٹن کے نمائندے نے کہا ’’ایک نیم مسلح اور منتشر آبادی والے ملک کے خلاف تاریخ کے سب سے بڑے فوجی اتحاد کی محض گیارہ ہفتوں کی کارروائی کے دوران یہ حالت ہو گئی ہے کہ اکثر اتحادیوں کو اسلحہ کی کمی کا سامنا ہے اور ایک بار پھر کمی دور کرنے کیلئے امریکہ کی ضرورت آن پڑی‘‘ اس نے واضح کہا کہ لیبیا کی مہم میں امریکہ کی جانب سے بڑے حصے کے طور پر نشانہ بازی کے ماہر ہوا باز درکار تھے تا کہ فضائی جنگ جاری رکھی جا سکے۔ ان ہوابازوں کی فراہمی کے باوجود اٹلی میں قائم کردہ کمانڈ سنٹر سے 300فضائی حملے کیے جانے تھے مگر بمشکل 150جنگی جہاز میسر آ سکے ۔
گیٹس نے نیٹو کے تاریک مستقبل کی پیشین گوئی کی لیکن ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کیا کہ یورپی حکومتیں صورتحال کو تبدیل کر سکتی ہیں ۔ اس پر اسے خود بھی زیادہ اعتماد نہیں تھا ۔ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے ساتھ امریکی معاشرے میں سے بھی اس بات کی حمایت اور اس کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے کہ قوم کے نام پر بیش بہا قیمتی وسائل اور دولت کا بے پناہ ضیاع جاری رکھا جائے وہ بھی ایسے اتحادیوں کیلئے جو اپنے وسائل کو وقف کرنے اور اچھے اتحادی بننے کیلئے درکار ضروری تبدیلیاں کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ عمل اس براعظم کے پالیسی سازوں سے طاقت کے چھینے جانے کا خطرہ پیدا کر رہی ہے جس کو بحرِ اوقیانوس کی دوسری طرف سے نہ مانگا جا سکتا ہے نہ چھینا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسلط کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لیبیا جیسی جنگیں محض فضائی حملوں سے جیتنا نا ممکن ہے قذافی کو حتمی شکست سے دو چار کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مناسب تعداد میں زمینی فوج بھیجی جائے لیکن اس کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے اور صرف یورپ نہیں بلکہ امریکہ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ امریکی سیکرٹری دفاع کے یورپ کے بارے میں خیالات دھمکی آمیز ہیں اس نے مدلل انداز میں کہا کہ امریکہ کی نئی قیادت کو شاید جلد ہی یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ امریکہ کی بحرِ اوقیانوس کے پار سرمایہ کاری اس کیلئے محض دولت کا ضیاع ہے ۔ نیٹو کے دفاعی اخراجات میں امریکہ کا حصہ گزشتہ 20برس میں 50فیصد سے بڑھ کر 75فیصد سے زائد ہو گیا ہے ۔ صرف دو بڑے یورپی ممالک برطانیہ اور فرانس اپنے جی ڈی پی کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرتے ہیں یونان اور البانیہ کے دفاع پر اخراجات کی شرح بھی دو فیصد ہے لیکن ان کے جی ڈی پی کے چھوٹے حجم کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کوئی بڑی رقم نہیں بنتی ۔
برطانیہ کی حکومت نے اپنے دفاعی اخراجات میں کٹوتی کا ایک منصوبہ متعارف کرایا ہے جبکہ نائن الیون کے بعد یورپ کے دفاعی اخراجات میں مجموعی طور پر پندرہ فیصد کمی ہوئی ہے۔ صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کے طور پر گیٹس نے نیٹو کے یورپی ممبران کو زیادہ بڑا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ نیٹو کے جنرل سیکرٹری اینڈرس فوگ راسموسن نے گزشتہ بدھ کومسٹرگیٹس کے ساتھ یورپ کے دفاعی بجٹ کی گراوٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ اگر ہم نے مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں باقاعدہ سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے ۔ اس نے مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ اسے حاصل کرنے کیلئے یورپی طاقتوں کو بجٹ میں کمی کی بجائے اضافہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
گیٹس نے واضح کیا کہ تا ہم امریکیوں نے بار ہا نیٹو کے یورپی اتحادیوں سے استدعا کی ہے کہ وہ دفاعی اخراجات کیلئے اتحاد کی طے کردہ رقوم مہیا کریں اور ان کے بہانہ بازی پر مبنی جوابات پر ناراضگی کا بھی اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ نیٹو اتحاد سکڑ کر محض امریکہ اور یورپی ممالک کے چھوٹے سے گروپ تک محدود ہو کر رہ جائیگا جن کو تمام مشکل فرائض پورے کرنے ہونگے جبکہ باقی ممالک نیٹو کے تحفظ کے سائے میں کوئی بھی قیمت ادا کیے بغیر یا خطرہ مول لیے بغیر صرف مفادات حاصل کرتے رہیں گے ۔یہ کوئی مفروضے پر مبنی پریشانی نہیں ہے بلکہ ہم آج اس کیفیت سے دو چار ہیں اور یہ نا قابل برداشت ہے ۔ گیٹس نے واضح کیا ۔
بدلتا ہوا موڈ
1945ء میں امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک متحرک صنعتی بنیاد اور دنیا کے دو تہائی سونے کی فورٹ ناکس کی تجوریوں میں موجودگی کے بل بوتے پر ایک طاقت کے طور پر ابھرا تھا ۔
دنیا کا سب سے بڑا قرضہ دینے والا ملک امریکہ نصف صدی بعد دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے ۔ بے پناہ فوجی اخراجات کا بوجھ دبوہیکل قومی قرضوں میں بے پناہ اضافے کا باعث بن رہا ہے ۔
برطانیہ نے تقریباً دو صدیوں تک آدھی دنیا پر حکمرانی کی اور سامراجی سلطنت کے پھیلاؤ کے عمل میں بے پناہ اضافی دولت مجتمع کی ۔ لیکن وہ سب کچھ سرمایہ داری کے عروج کے دور میں ہوا تھا ۔ اب امریکی سامراجی کو ورثے میں عالمی تھانیدار کا کردار سرمایہ داری کے نامیاتی زوال کے عہد میں ملا ۔ اس لیے سامراجی مہمات بے پناہ منافع بخش ہونے کی بجائے اس کے وسائل کو بڑے پیمانے پر نچوڑنے کا باعث بن رہی ہیں ۔
گیٹس کا حالیہ خطاب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یورپ کی عسکری ناکامیاں واشنگٹن کیلئے کتنی تشویش کا باعث ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ یہ امریکی عوام کے بدلتے ہوئے موڈ کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک خاص عرصے کیلئے نائن الیون کے واقعات کے بعد صدمے کی کیفیت کواستعمال کر کے حکمران طبقات ایک جارحانہ خارجہ پالیسی ( بش کا نظریہ ) کے حق میں عوامی رائے کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ۔ بش انتظامیہ جس حب الوطنی کی دھند کے ذریعے امریکی عوام کے ذہنوں کو پرا گندہ کرنے میں کامیاب ہوئی تھی وہ دھند اب چھٹ رہی ہے اور اپنے پیچھے کچھ ایسے اثرات چھوڑ رہی ہے جن کی مماثلت کسی رنگین محفل میں شریک زیادہ شراب پی جانے والوں کی اگلے روز درد سر کے ساتھ جاگنے سے ہے ۔
بن لادن کے قتل نے اوبامہ کی گرتی ہوئی حمایت کو دوبارہ بڑھایا ہے لیکن یہ اتنی زیادہ نہیں ہوئی کہ لیبیا پر قبضے کی حمایت حاصل کی جا سکے ۔ اور یہ ایسی چیز ہے جس کوبرداشت کرنے کی صلاحیت کسی بھی صورت میں اس وقت وائٹ ہاؤس میں براجمان لوگوں میں نہیں ہے، دائیں بازو کے ریپبلکن جو قومی سلامتی کے مسائل پر واشنگٹن کی پالیسیوں کو متعین کرتے تھے، اب عوامی رائے ان کے مخالف ہو چکی ہے۔
امریکہ آج ایک مختلف ملک ہے اس سے کہ جو عالمی تجارتی مرکز کی تباہی کے بھیانک مناظر کے خوف سے سہما ہوا تھا۔بظاہر نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دس سالوں نے جو بے پناہ خون اور دولت کے ضیاع کی علامت ہیں، ایک کبھی نہ دیکھا جانیوالا معاشی زوال اور اس کے ساتھ دیوہیکل خساروں کو پورا کرنے کی مسلسل جدوجہد اورمستقبل میں بچتوں اور کٹوتیوں کی پالیسیوں کے نفاذ کے خوف نے امریکی عوام کی نفسیات میں ایک بڑی تبدیلی کو جنم دیا ہے ۔ جارحانہ مداخلت کی پالیسی سے اچانک نسبتاً کنارہ کشی کی پالیسی کا اپنایا جانا اسی تبدیلی کی عکاسی ہے ۔ خارجہ تعلقات کے تجزیہ نگاروں (تھنک ٹینک ) کی کونسل کے صدر رچرڈ ہاس کے الفاظ میں امریکی عوام ’’مداخلت کی بیگارمشقت ‘‘کا ستم برداشت کرتے کرتے تنگ آچکے ہیں، اس پس منظر میں رابرٹ گیٹس کا امریکی بری فوج کے سمندر پار بھیجنے کو پاگل پن قرار دینے کا بیان بالکل عام فہم لگتا ہے ۔ جیسا کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سابقہ اہلکار ارون ڈیوڈ ملر نے کہا تھا ’’یہ مکمل سچائی ہے جس کا بہت کم اعتراف کیا جاتا ہے، خاص کر اتنے اعلیٰ اہلکار کی جانب سے اس قسم کی سچائی کا یوں واضح اعتراف ایک غیر معمولی واقع ہے‘‘ موڈ کی یہی تبدیلی اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ ریبلیکن قیادت کے کچھ حصوں نے ( جو دوبارہ وائٹ ہاؤس میں آنا چاہتے ہیں ) کیوں جنگ کا ڈھول بجانا بند کر دیا ہے ۔ مکمل طور پر موقع پرستی کی بنیادوں پر وہ بن غازی اور لیبیا کے باغیوں کی بجائے میڈیسن ، وسکانسن میں کٹوتیوں کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر بیان بازی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ اپنی تمام توجہ بجٹ خساروں پر مرکوز کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں کہ معیشت کی ناکامی جس غیر مقبولیت کا باعث بن رہی ہے وہ تمام بوجھ اوباما کے کاندھوں پر لاد دیا جائے ۔ اس لیے انہوں نے اپنی تمام توانائی خارجی کی بجائے داخلی مسائل کی جانب منتقل کر دی ہے ۔
سیاست کے میدان میں یہ اچھا ہنر نہیں ہوتا کہ آپ وہ بول دیں جو آپ حقیقتاً محسوس کرتے ہیں ۔ غالباً رابرٹ گیٹس کے بے باک بیانات کی وضاحت اس کی فوری ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کی جا سکتی ہے ۔ ویسٹ پوائنٹ میں اس کی تقریر کے فوری بعد گیٹس اور اس کے معذرت خواہ جلد بازی میں یہ صفائی پیش کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لیجاتے رہے کہ سیکرٹری دفاع کے اس خطاب کا اصل مقصد یہ تھا کہ فوج کو اپنی تمام توجہ اس سوال پر مرکوز کرنی چاہیے کہ یہ نئی قسم کی جنگیں کیسے لڑی جائیں۔
جو پیغام بھی وہ دینا چاہتا تھا یہ درست ہے کہ گیٹس کو غالباً کسی بھی دوسرے فرد سے زیادہ مسائل سے آگاہی ہے ۔ امریکی عوام کی ہر گز یہ خواہش نہیں ہے کہ عالمی تھانیدار جس کو نیو ورلڈ آرڈر کا غلط نام دیا گیا ہے ، کا کردار ادا کیا جائے ۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ نئی عسکری مہمات نہیں ہوں گی ۔ عالمی صورتحال زیادہ سے زیادہ دھماکہ خیز ہوتی جا رہی ہے اور سامراجیوں کو مسلسل نئے تصادموں میں الجھنا پڑے گا ۔
تا ہم امریکہ میں بھی اور عالمی سطح پر جو سب سے اہم جنگ لڑی جائے گی وہ امیر اور غریب کے درمیان ہو گی ۔ ہم اس جنگ کے ابتدائی معرکے تیونس ، قاہرہ ، میڈیسن ، میڈرڈ اور لندن کی گلیوں میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں ۔اس دنیا سے جنگوں کا خاتمہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جنگ کی وجوہات کا خاتمہ کیا جائے یعنی بینکوں اور اجارہ داریوں کو اکھاڑ پھینکا جائے جن کے مفادات کیلئے یہ جنگیں کی جاتی ہیں نسل انسانی کی بقاکیلئے جو جنگ لڑنا اور جیتنا ضروری ہے وہ جنگ طبقاتی جنگ ہے ۔
Translation: Chingaree.com