کل مورخہ 28نومبر کو اخوان المسلمون کے خلاف احتجاج کے چھٹے دن، غم و غصے سے بھرے لاکھوں لوگ ایک بار پھر تحریر سکوائر پر جمع تھے۔ نے بڑے بڑے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ’’اخوان المسمون والے جھوٹے ہیں‘‘، ’’اخوان المسلمون نے انقلاب کو چوری کر لیا ہے‘‘ اور اس جیسے دوسرے نعرے درج تھے۔ تمام دن شہر بھر سے جلوسوں اور ریلیوں کے تحریر سکوائر پہنچنے کا سلسلہ جاری رہا۔ تعداد اور جوش و ولولے کے حوالے سے تحریر سکوائر پر ہونے والا یہ مظاہرہ جنوری 2011ء کے مظاہروں کے برابر تھا جنہوں نے حسنی مبارک کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ جیسے جیسے دن گزرتا گیا لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور منتظمین کی امیدوں سے زیادہ لوگوں نے مظاہرے میں حصہ لیا۔ اخوان المسلمون نے خود تین لاکھ لوگوں کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم مصر سے ملنے والی کچھ اطلاعات کے مطابق یہ مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ Twitter پر ایک سیاسی کارکن نے پیغام بھیجا ’’حیران کن بات یہ ہے کہ تحریر سکوائر بھر چکا ہے اور بہت سے جلوس ابھی راستے میں ہیں‘‘۔ پولیس نے مظاہرین کی طرف کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا اور تحریر سکوائر تمام دن آنسو گیس میں ڈوبا رہا۔ یہ گیس خاص طور پر انتہائی زہریلی قسم کی تھی جس سے مظاہرین میں شامل 54سالہ ایک شخص ہلاک بھی ہوا۔
قاہرہ سے باہر بھی بڑے مظاہرے دیکھنے میں ملے۔ سکندریہ، سویز، پورٹ سعید، لگژور، سوہاگ، دامتہ، محلہ، تانتا سمیت تمام تر شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ اگرچہ تحریر سکوائر پر لوگ انقلابی جوش و جذبے سے بھرے ہوئے تھے تاہم مجموعی طور پر ماحول سنجیدہ اور جنگجوانہ تھا۔ یہ ماحول انقلاب کے آغاز کے وقت کے جشن سے کافی مختلف تھا۔ مظاہرین میں نوجوانوں کے علاوہ ہڑتالی محنت کش، ٹریڈ یونینز کے کارکن، گھریلو خواتین، معمر افراداور تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے لوگ موجود تھے۔ Twitter کے ایک پیغام کے مطابق ’’اس بار پورے کے پورے خاندان وہاں موجود تھے، سیاسی طور پر کوئی وابستگی نہ رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ بہت سے والدین ایسے تھے جو پہلی بار شریک ہوئے‘‘۔ اسکندریہ میں لاکھوں افراد سڑکوں پر تھے اور اخوان نے حملوں کے خوف سے اپنے کارکنوں کو دفاتر خالی کرنے کو کہا تھا۔ منصورہ میں اخوان کے دفاتر کو آگ لگا دی گئی۔ محنت کشوں کے شہر محلہ میں مظاہرین نے پتھروں اور پٹرول بموں سے اخوان کے دفاتر پر حملے کئے۔
اخوان المسلمون کی حکومت کے خلاف مظاہرے صدر محمد مورسی کی طرف سے اس صدارتی حکم کے اجرا کے خلاف شروع ہوئے جس کی رو سے ریاست کی تمام تر طاقت اس کے ہاتھوں میں مرکوز ہوجائے گی اور وہ ’’انقلاب کی حفاظت کے لئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے‘‘۔ اس کی نیت درحقیقت بالکل الٹ کرنے کی ہے۔ پہلے پہل یہ مظاہرے اتنے بڑے پیمانے پر نہیں تھے اور ان میں صرف نوجوان ہی شریک تھے لیکن جیسے جیسے مظاہرین پر ریاست کا جبر بڑھتاگیا لوگوں کو صدارتی حکم کے اصل مقاصدکا علم ہوتا گیا۔ انقلاب کو خطرے میں دیکھ کر لوگ سڑکوں پر آتے گئے۔ آج ایک بار پھر تحریر سکوائر پر ’’لوگ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘، ’’حکومت مردہ بار جیسے نعرے سنائی دے رہے تھے۔
اخوان المسلمون نے اپنے سیاسی اتحادی سلفی نور پارٹی کے ساتھ مل کر تحریر سکوائر پر جوابی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن لوگوں کے غم و غصے کو دیکھ کر انہیں یہ مظاہرہ کینسل کرنا پڑا۔ اگر یہ مظاہرہ کینسل نہ کیا جاتا تو مصر کے عوام مولویوں کی درگت بنا کے رکھ دیتے اور آج صبح تک شاید مورسی صدر نہ رہتا۔
انہیں امید تھی کہ باقی شہروں میں وہ بڑے جوابی مظاہرے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ریاست کے تمام تر وسائل پر قبضے کے باوجود مورسی کے حق میں ایک بھی مظاہرہ نہ ہو سکا۔ سکندریہ میں، جسے اخوان اور سلفیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، مولویوں نے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں اکٹھے ہونے کی کوشش کی لیکن مظاہرین نے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا اور اخوان کے مرکزی دفتر کو آگ لگانے کی بھی کوشش کی۔ مولویوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ نور پارٹی کے سربراہ اور مورسی کے مشیر عماد عبدالغفور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بڑی بے شرمی سے اپنی کمزوری کو چھپاتے ہوئے کہا ’’مورسی نے صدارتی فرمان جاری کرنے سے پہلے مجھ سے مشورہ نہیں کیا تھا‘‘۔
تحریر سکوائر پر ہونے والے کل کے مظاہروں میں عوام جہاں ایک طرف اخوان کی حکومت کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں حسنی مبارک کی باقیات کو بھی مسترد کر ہے ہیں۔ اخوان کی حکومت کو عمومی طور پر پرانی حکومت کی باقیات کے ساتھ کام کرنے میں کوئی اعتراض نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے انہیں حسنی مبارک کی باقیات پر کچھ حملے کرنے ہوں گے۔ ان حالات میں مورسی کی جانب سے معزول کئے گئے جج اپنے آپ کو عوام اور جمہوریت کا خیر خواہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کریں گے۔ آج یہ افراد انقلاب کی لہر پر سواری کرنے کے لئے تحریر سکوائر پر موجود بھی تھے لیکن عوام ان کی چالوں کو بھانپتے ہیں اور ان کے کردار سے بخوبی واقف ہیں۔ تمام دن یہ جج حضرات ایک چھوٹے سے مجمع کی شکل میں الگ تھلگ کھڑے نظر آئے اور کوئی پذیرائی حاصل نہ کر سکے۔ لوگ حسنی مبارک کی حکومت میں اسی عدلیہ کے عوام پر ڈھائے گئے مظالم بھولے نہیں۔
مصر کے عوام جمہوریت چاہتے ہیں اور ہم ان کے اس مطالبے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ بورژوا جمہوریت کے زیرِاثر موجودہ حالات سے بڑھ کر کوئی بہتری نہیں ہو سکتی۔ فی الوقت مصر میں کسی انقلابی مارکسی قوت کی غیر موجودگی میں یہ سبق بھی لوگوں کو تکلیف دہ تجربوں کے ذریعے سیکھنا پڑے گا۔ بورژوا ’’ماہرین‘‘ اور نام نہاد بائیں بازو کی شک پرستانہ بکواس کے بر عکس عرب عوام مذہبی بنیاد پرستی سے نفرت کرتے ہیں اور اخوان کی حکومت کو مسترد کر چکے ہیں۔ مصری اور عرب محنت کشوں کی اصل روایات سوشلسٹ اور بائیں بازو کی ہیں۔
صرف سائنسی سوشلزم اور مارکسزم کے نظریات عرب انقلاب کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ لہٰذا وقت کی سب سے اہم ضرورت مصر کی مزدور تحریک میں ان نظریات کی بنیاد پر ایک سیاسی قوت کی تعمیر ہے۔ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے نوجوانوں اور مزدوروں کے سامنے صبر آزما وضاحت سے ہمارے نظریات کی گونج انقلاب میں سنائی دے سکتی ہے جس کے بعد ایک حقیقی سوشلسٹ انقلاب کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ ایک سوشلسٹ انقلاب اس نظام کو ہی اکھاڑ پھینکے گا جس کے خدمت گار مورسی اور اخوان المسلمون ہیں۔