Urdu translation of Democracy and dictatorship (January 31, 2012)
تحریر : لال خان:-
گزشتہ چند دنوں سے سویلین حکومت اور نام نہاد فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک اور تنازعہ چل رہا ہے۔ معاشرے اور سیاسی حلقوں میں ایک اور فوجی بغاوت کی افواہیں شدت سے گردش کر رہی ہیں۔ پچھلی فوجی بغاوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے حالات موجود ہیں جہاں فوج اقتدار پر قبضہ کر سکتی ہے لیکن ابھی تک فوج نے ایسا نہیں کیا، معاشرے کے پسماندہ اور قدامت پسند حلقے ایسے اقدام کے حق میں ہیں۔ فوجی افسروں کے بعض حلقے اس غلط تصور پر اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے بے چین ہیں کہ اس سے ملک میں جابرانہ حکومت کرپشن ،جرائم اور دوسری بیماریوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس تنازعے میں سویلین حکومت کی جانب سے اعلیٰ فوجی قیادت کے خلاف غیر معمولی بیان بازی اعلیٰ فوجی قیادت کو اکسا رہی ہے ۔اس سے فوج کے اندر بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے موجودہ حکومت کے لئے سامراجی قوتوں کے رجحان نے فوج میں غم و غصے کو مزید بڑھا دیا ہے میمو گیٹ سکینڈل در اصل اسی معاملے کا شاخسانہ ہے۔ ان سب باتوں نے اعلیٰ فوجی کمان پر دباؤ بڑھادیا ہے کہ وہ ایک بھر پور انتقامی کاروائی کردے لیکن فوج کے اعلیٰ افسران ابھی ایسا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں لیکن اس کی وجہ جمہوریت یا انسانی ہمدردی کے مقاصد سے محبت نہیں بلکہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ جرنیلوں نے ملک میں براہ راست فوجی حکومت قائم کرنے کیلئے اخلاقی ساکھ کھودی ہے۔اس کی پہلی اور بنیادی وجہ فوجی نظم وضبط وکمان میں ٹوٹ پھوٹ ہے جس کی وجہ سے بڑی مقدار میں سرمائے (خصوصاًکالے سرمائے)کی آمدہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پُرانتشارسماجی اور تباہ کن معاشی صورتحال کی بابت ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں جہاں ملک میں آرام سے فوجی حکمرانی قائم کرنا اور ریاست کے اثرورسوخ کو معاشرے کے اندرگہرائی تک لے جانا تقریباًنا ممکن ہو چکا ہے ۔سوئم یہ کہ اس دوران عالمی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں رونماہورہی ہیں اورآمریتوں کا فیشن نہیں رہا۔ سامراجی قوتیں، جنہوں نے آمرانہ حکومتوں کے ذریعے نام نہاد تیسری دنیا میں کنٹرول کر رکھا تھا، اب جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر لوٹ مار اور استحصالی عمل جاری رکھے ہو ئے ہیں۔ سامراجی قوتوں کے لئے اس قسم کی کٹھ پتلی جمہوریت سستی پڑتی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں فوجی آمریت کے جبر کے خلاف نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی عوامی بغاوت اٹھنے کا امکان ہوتا ہے۔
جبکہ دوسری جانب سامراج کے موجودہ دورکے لبرل اور جمہوری چمچے نظام کو بچانے کا رونا رورہے ہیں۔ اس قسم کی جمہوریت جو دراصل امیروں کے لئے ہوتی ہے۔ اس سے صرف حکمران طبقات ہی مستفید ہوتے ہیں جبکہ عوام شدید غربت،بڑھتی ہوئی قیمتوں،بے روزگاری ،بیماریوں اور مصائب کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ پاکستان میں ہر روز 38000 لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گِرجاتے ہیں لیکن سب سے اہم بات جو میڈیا چھپا رہا ہے وہ حقیقت فوجی حکمرانوں اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کی سماجی اور معاشی پالیسیوں کا یکساں ہوناہے۔ موجودہ حکومت نے آمریت دور کے اہم وزرا کے چہروں تک کو تبدیل نہیں کیا۔ حکومت کی سیاسی نوعیت چاہے کیسی بھی ہوسرمائے کی آمریت اس وقت تک موجود رہتی ہے جب تک معاشرے کو بیمار سرمایہ دارانہ نظام جکڑے رکھتا ہے۔ لیکن اس سے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اگر جمہوریت کے لبادے میں سامراجیت ایک ایسے بحران کو جنم دیتی ہے جس سے معاشی نظام کے تہہ وبالا ہونے کا خطرہ پیدا ہونا ہو تو سامراجی حکمران فوجی آمریت کو دوبارہ لانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ان کا آخری تجزیہ لوٹ مار کو برقرار رکھنا ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک میں کس قسم کی حکومت ہونی چاہیے اور سرمایہ داری کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے ۔ ٹیڈ گرانٹ اپنی عظیم تصنیف ’’ان ٹوٹ دھارا‘‘میں لکھتے ہیں ’’معاشرے کی تاریخ میں طبقاتی حکمرانی کے لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں یہ بات خصوصاًسرمایہ دارانہ معاشرے پر صادق آتی ہے جن کی مخصوص اور مختلف شکلیں ہوتی ہیں جن میں جمہوریہ، بادشاہت، فسطائیت، جمہوریت ، آمریت، بوناپارٹزم،ٹیکنوکریسی،وفاقی نظام وغیرہ شامل ہیں‘‘۔
پاکستان کی تاریخ میں نصف حصہ فوج براہ راست حکومت کرتی رہی ہے ۔جس کی بڑی وجہ حکمران طبقات کا بورژوا انقلاب کرنے میں ناکامی تھی۔ ایک ایسا طبقہ جو لوٹ کھسوٹ اور عوام کے استحصال کے ذریعے دولت جمع کرتا رہا اس طبقے نے فوج کی ہمیشہ حمایت کی کہ وہ ضرورت پڑنے پر سرمایہ داری نظام کو گرنے سے بچانے کے لئے مداخلت کر سکتا ہے۔ طویل مدت تک آمرانہ دور کے دوران فوج لوٹ مار کرنے والی اشرافیہ کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کے لئے پاکستان کی معیشت کے دو تہائی بلیک مارکیٹ میں اپنے حصے کو چھوڑدینانا ممکن ہو گیا ہے۔ فوج پاکستان کی معیشت میں سب سے بڑا کاروباری ادارہ ہے جس کے صنعت،زراعت اور سروسز میں اثاثوں کی مالیت 27 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے ۔فوج کی مالیاتی حیثیت ہی اس کی اشرافیہ کے مفادات کی اہم بنیاد ہے جس کے لئے ملکی وسائل کا ایک بڑا حصہ دفاع کے نام پر فوج کو چلانے اور دفاعی سودوں پر کمیشن میں اضافے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نام نہادجمہوری دور میں فوج پر اخراجات فوجی دور حکومت کے مقابلے میں زیادہ بڑھ جاتے ہیں جس سے پاکستان کے سویلین حکمران طبقے کے قابل رحم کردار کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
اس وقت معاشی بحران اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے کہ اس کی باز گشت سے حکمران اشرافیہ اور اداروں کے اندرونی تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ دایاں بازو کبھی بھی اتنا کمزور نہیں ہوا ۔ ریاستی ادارے اندرونی طور پر زوال کا شکار ہیں عدلیہ اور فوج کی جانب سے مایوسی میں اٹھائے جانے والے اقدامات سے جس کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر سامراجی قوتیں کوئی صلح صفائی کرانے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ بہت مختصر عرصے کے لئے ہو گا اگرچہ اس کا امکان کم ہے۔ گو فوجی بغاوت ہونے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر بغاوت فوج کی نچلی سطحوں سے برپا کی جاتی ہے تو اس سے شدید خونریزی اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس سے پہلے سے تباہ شدہ معاشرہ مسخ ہو کر رہ جائے گا ۔ایک فوجی آمریت عوام کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہو گی۔ اس سے عوامی شعور مزید پیچھے چلاجائے گا اور عوام میں ایک بار پھر بور ژوا جمہوریت میں امید پیدا ہونا شروع ہو جائے گی اور وہ سرمایہ دارانہ نظام کے مختلف طریقوں کے بے رحم چکر میں پھنسے رہیں گے۔ لیکن موجودہ خوفناک سماجی اور معاشی صورتحال عوام میں ایک ایسی بغاوت برپا کر سکتے ہیں، جو کسی بھی بورژواجمہوری حالت پر نہ رک سکے گی۔ محنت کش طبقے کی حقیقی جمہوریت میں پیداوار، معیشت اور ملک کے تمام وسائل پر اختیار ات محنت کشوں کے ہاتھوں میں ہونا ضروری ہے۔ صرف یہ انقلابی تبدیلی ہی معاشرے کو سالوں سے جاری استحصال اور مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے۔
Source: The Struggle (Pakistan)