Urdu translation of China: the anger beneath the surface (June 29, 2011)
تحریر: ایلن وڈز ۔ ترجمہ: یاسر ارشاد
چنگاری ڈاٹ کام،16.07.2011
مصر کے انقلابی واقعات کے دوران چین کے حکمرانوں نے انتہائی بدحواسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلیوں اور چوراہوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کیے رکھی اور انٹرنیٹ پر مصر کے نام پر پابندی لگا دی۔ آخر چین کے حکمران ایک دور دراز کے ملک میں رونما ہونے والے واقعات سے اس قدر خوفزدہ کیوں تھے ؟ ذرائع ابلاغ چین کی معاشی ترقی کی خوشنما رپورٹوں سے بھرے ہوئے ہیں جس کے بارے میں یہ مفروضہ عام ہے کہ چین عالمی معاشی زوال کے تمام اثرات کو اپنے تئیں زائل کرتے ہوئے دس فیصد سالانہ کی اوسط شرح ترقی حاصل کر چکا ہے۔ لیکن یہ اعداد ہمیں یہ بتانے سے مکمل طور پر قاصر ہیں کہ اس معاشی ترقی کے آبادی کی وسیع اکثریت پر کس قسم کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔یہ اعداد ہمیں بے پناہ عدم مساوات اور امیر اور غریب کے درمیان وسیع ہوتی ہوئی خلیج کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ ان اعداد سے یہ بھی وضاحت نہیں ہوتی کہ پندرہ کروڑ بیروزگاروں یاچین کے ان لاکھوں کسانوں کو کن مصائب کا سامنا ہے جو پہلے سے پر ہجوم شہروں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں تا کہ فیکٹریوں میں روزگار تلاش کر کے جسم اور سانسوں کا رشتہ بحال رکھا جا سکے ، جہاں ان کو جس وحشیانہ استحصال اور ذلت ناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ان کا صرف چارلس ڈکنز کے عہد کے صنعتی انگلستان سے موازانہ بنتا ہے۔ روس کے برعکس چین میں سرمایہ دارانہ ردانقلاب کو ایک محتاط اور نپے تلے انداز میں استوار کیا گیاجس پر چین کی بیوروکریسی اور نام نہاد کمیونسٹ پارٹی’’جو نہ صرف اب سرمایہ داروں کو ممبرشپ دینے کے لیے کھلی ہے بلکہ ابھرتے ہوئے نودولتیوں اور موقع پرستوں کے مفادات کی تکمیل کا آلہ بن چکی ہے‘‘ نے اپنی آ ہنی گرفت برقرار رکھی۔ محنت کشوں کو بہت کم حقوق حاصل ہیں جبکہ سرکاری ٹریڈ یو نین محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے پولیس کا کردار ادا کرتی ہے۔ چین ایک دیوہیکل پریشر ککرسے مماثل ہے جس کے تمام حفاظتی ’’بھاپ خارج کرنے والے‘‘ سوراخ بند ہو چکے ہیں۔یہ کسی بھی وقت بغیر پیشگی انتباہ کے پھٹ سکتا۔ حال ہی میں جنوبی چین کے صنعتی صوبے گوانگ ڈانگ کے علاقے ژنگ تانگ میں رونما ہونے والے واقعات اس کا ثبوت ہیں جہاں ناقابل برداشت حالات کے خلاف ہڑتال کے دوران محنت کش تین دن تک پولیس کے وحشیانہ تشدد کے خلاف بر سر پیکار رہے اور پولیس کی کئی گاڑیاں نظر آتش کر دیں۔ ہانگ کانگ کے خبررساں اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
غربت اور امارت
ژنگ تانگ شہر،جنوبی گوانگ ڈانگ صوبے کے دولت مند دارلحکومت گوانگ زو سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہانگ کانگ کی سرحد کے قریب واقع ہے اور ملکی برآمدا ت کا ایک تہائی پیدا کرتا ہے۔
چین میں تقریباً پندرہ کروڑمحنت کش بہتر معیا ر زندگی کی تلاش میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں۔ دس جون کو شروع ہونے والے تصادم کا آغاز اس وقت ہوا جب پولیس نے گلیوں میں عارضی ریڑھیاں لگانے والوں کے خلاف کاروائی کے دوران ایک حاملہ خاتون ریڑھی بان وینگ لیانمی پر حملہ کیا۔ ریا ستی خبر رساں ایجنسی ژن ہووا(Xinhua)نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کاروائی کے دوران وہ خاتون گر پڑی جبکہ دوسرے تما م ذرائع کے مطابق ،چنگ گوان’’نچلے درجے کے قانون نافذ کرنے والے اہلکار‘‘ نے دھکے سے اسے گرایا۔قطع نظر اس سے کے اصل واقع کیا ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عوام کی اکثریت کس بات پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے صوبے سائی شوان سے ہجرت کر کے آنے والے محنت کش فوراً وہاں جمع ہو گئے۔ چین کی پولیس اپنی بدمعاشی کے باعث خاصی شہرت رکھتی ہے اسی لیے جب پولیس کی مزید گاڑیاں حادثے کے مقام پر پہنچیں تو ہجوم نے ان پر بوتلیں، پتھر اور اینٹیں برسانہ شروع کر دی۔ مظاہرین کی اکثریت پولیس کی جارحیت کا شکار ہو نے والی خاتون کی طرح مہاجر محنت کشوں پر مشتمل تھی۔ مظاہرین نے شہر کے مضافاتی علاقے دادن میں واقع حکومتی دفاترمیں توڑ پھوڑ کی اور چھے گاڑیو ں کو نظر آتش کر دیا۔آ ہنی دروازوں اور حفا ظتی باڑوں کو توڑ دیا، مقامی اہلکاروں اور پولیس پر پتھراو کیا اور اس کے ساتھ ساتھ پولیس چوکیوں اور بینکوں کی خو د کار مشینوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ جیسے ہی یہ افواہ پھیلنا شروع ہوئی کہ پولیس نے وینگ کے خاوند تانگ ژوکئی کو قتل کر دیا اور وینگ بھی شدید زخمی ہے تو ایک اور مجمع اگلے روز احتجاج کرنے آ گیا۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے کہا کہ تانگ نے اتوار کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ’’ وہ اور اس کے بیوی بچے خیریت سے ہیں اور وہ اس معاملے میں انتظامیہ کے رویے سے بہت خوش ہے ‘‘۔ لیکن ان تسلی بخش الفاظ کی تشہیر کے پیچھے چین کے سماج میں سطح کے نیچے دہکتے ،ابلتے غم و غصے کے لاوے کو نہیں چھپا یا جا سکتا۔
مقامی لوگوں کی اکثریت اس واقع کے بارے میں گفتگو کرنے سے خوفزدہ تھی اور جن چند لوگوں نے تفصیلات بتائی وہ بھی ریاستی تشدد کے خوف سے اپنا نام بتانے سے انکاری تھے۔ ’’کپڑے بنانے کی صنعت میں کام کرنے والے ایک بیالیس سالہ محنت کش جس نے اپنا آدھا نام یو بتایا، نے کہا، سا را ماحول تناو کا شکار ہے ،ہم تمام لوگ بہت پریشان ہیں، ہمیں اس معاملے پر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ ایک اور مہاجر محنت کش نے جو فسادات روکنے کے لیے تعینات کی گئی پولیس کی بھاری نفری کی وجہ سے خوفزدہ تھا اپنا نام ظاہر کرنے سے معذرت کرتے ہوئے ریوٹر جریدے کو بتایا’’ ہم بہت غصے اور تکلیف کی کیفیت سے دوچار ہیں،مجھے لگتا ہے کہ یہاں قا نون کی حکمرانی جیسی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ، مقامی سر کاری اہلکار وہ نہیں کر سکتے جو وہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ سوتی کپڑا بیچنے والے ایک ستائیس سالہ دکاندار،چاؤ، نے بنکاک پوسٹ(پندرہ جون) کو بتا یا ’’ یہ بہت خوفزدہ ک دینے والا منظر تھا، میں نے اپنی زندگی میں ایسا دہشت ناک نظارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ چاؤ نے کہا کہ لڑائی کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ چند ہزا ر مظاہرین پولیس کی بھاری تعداد سے لڑ رہے تھے،مظاہرین نے ایک عمارت کو آگ لگا دی اور پھر انہوں نے مل کر پولیس کی گاڑیوں کو الٹا کر ان کو بھی آگ لگا دی۔ کچھ دیر بعد چند سو مزید پولیس والے آئے اور مظاہرین کو لوہے کی لاٹھیوں سے پیٹنا شروع کر دیا‘‘۔
معمول کا ایک عام سا تصادم
فطری طور پر مقامی انتظامیہ نے اس واقعے کی اہمیت کو کم تر کر کے پیش کرنے کی پوری کوشش کی۔ مقامی مئیر نیوپنگ نے کہا’’ یہ گلیوں میں پھیری لگانے والوں اور مقامی حفاظتی دستے کے اہلکاروں کے مابین ہونے والا ایک معمولی سا تصادم تھا مگر مٹھی بھرلوگوں نے اس کو استعمال کیا جوانتشار پھیلانا چاہتے تھے۔مئیر نے لوگوں کو اس واقع کی مبالغہ آمیز افواہیں پھیلانے سے باز رہنے کی تاکید کی۔ مئیر کے الفاظ دلچسپی سے بھرپور ہیں اور وہ اپنے ارادے سے کچھ زیادہ کہہ گیا ہے۔اس کے مطابق’’ یہ پھیری والوں اورمقامی حفاظتی دستے کے مابین ہونے والا معمول کا تصادم ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی منفرد واقع نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات ایک باقاعدہ تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ اب کی بار صرف یہ ہوا کہ لوگوں کا مجتمع شدہ غم و غصہ ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑا۔ اس واقعے کی اس دھماکے سے زبردست مماثلت ہے جس نے تیونس کو ہلا کر رکھ دیا ،جس کا فوری سبب بھی پولیس کے ظالمانہ سلوک سے تنگ آ کر ایک ریڑھی بان نوجوان کی خودکشی کا واقعہ تھا۔ نزدیک واقع کپڑے بنانے والی فنگائی نامی فیکٹری کے ایک مزدور نے بتایا ’’ گزشتہ شب لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر تھی جو نعرے لگا تے رہے اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے رہے۔ بعض نے پولیس کی گاڑیو ں کی توڑپھوڑکی۔اس نے مزید کہا کہ فیکٹری مالکان نے مزدوروں کو فیکٹری سے باہر نکلنے سے روک دیا اسی طرح قریب ہی واقع ایک ہوٹل کے ملازم نے بتایا کہ پولیس نے انہیں باہر نکلنے سے منع کر دیا تھا۔
فیکٹری مالکان کی جانب سے مزدوروں کو فیکٹری کے اندر ہی روکے رکھنے کی رپورٹ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس خوف میں مبتلا تھے کہ ان کے مزدور بھی اس احتجاج میں شریک ہو جائیں گے۔ ریاستی خبر رسا ں ادارے زن ہووا نے پیر کو یہ خبر شائع کی کہ سرکا ر نے دیہاتوں، فیکٹریوں اور رہائشی علاقوں میں چھان بین اور تحقیقا ت کے لیے ایک وفد بھیج دیا ہے۔ جبکہ گارڈین اخبار (تیرہ جون) کے مطابق گوانگ دانگ صوبے کے پولیس ہیڈکوارٹرنے کوئی بھی بیان جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
زنگ تانگ میں حالات خراب ہونے کے بعد ایک ہزار پولیس آفیسر مزید بھیجے گئے۔ اے ایف پی کے رپورٹر کے مطابق بدھ کو ایک غیر آرامدہ امن بحال کر دیا گیا لیکن اکثر دکانیں اور ریستوران بند رہے جبکہ بھاری تعداد میں مسلح پولیس خوف و ہراس پھیلانے کے لیے اسلحہ بردار گاڑیوں پرمسلسل گشت کرتی رہی اس کے باوجود ایک ہزار افراد نے احتجاج کیا۔ ایک انسٹھ سالہ موٹر سائیکل ٹیکسی ڈرائیور چن نے بنکاک پوسٹ کو بتایا ’’ گاؤں میں ہر طرف آپ آگ کی وجہ سے جلنے کے نشان دیکھ سکتے ہیں،مجھے پانچ بار روک کر پوچھ گچھ کی گئی کہ میں ادھر کیا کر رہا ہوں۔اس نے مزید بتایا کہ ہنگامے کے پہلے روز لڑائی دن گیارہ بجے شروع ہو کر اگلے روز صبح چھے بجے تک جاری رہی، یہ بہت خوفناک تھا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج حا لات کافی پرسکون ہیں پھر بھی ریاستی ادارے اپنی پوری طاقت کے ساتھ سڑکوں پر موجود ہیں۔
دھماکہ خیز صورتحال
ان واقعات نے یقیناًحکمرانوں کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔یہ واقعات چین کے سماج میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی عکاسی کرتے ہیں۔حالیہ واقعات کا تسلسل چین کی معاشی ترقی کی ظاہری سطح کے نیچے موجود دھماکہ خیز صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔
ظاہری طور پر احتجاج کے ہر واقع کی مختلف وجہ ہونے کے باوجوداس تمام بے چینی کی بنیادی اور اصل وجوہات ایک ہی ہیں اور وہ ہیں : وحشیانہ استحصال، کم اجرتیں ، بے انتہا عدم مساوات ، بنیادی حقوق سے مکمل محرومی اور پولیس کا وحشیانہ جبر۔
زنگ تانگ میں جو کچھ ہوا وہ اس نوعیت کا محض ایک واقعہ نہیں ہے۔ جون کے پہلے ہفتے میں گوانگ دانگ میں سینکڑوں محنت کشوں کا غیر ادا شدہ اجرت کے حصول کے تنازعہ پر پولیس سے تصادم ہوا۔ لی چوان، ہوبی میں دو ہزار مظاہرین نے حکومت کے مقامی ہیڈکواٹر پر اس وقت حملہ کیا جب ایک مقامی سیاستدان ،جس نے سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی کی شکائیت کی تھی ، کی پولیس حراست میں مرنے کی خبر منظرعام پر آئی۔ حالیہ چند ہفتوں میں جنوبی چین میں کئی ایک تصادم ہوئے جن میں شاؤ زو کا واقعہ بھی شامل ہے جہاں سرامکس کی ایک فیکٹری کے مزدوروں نے اجرتوں کے حصول کے مطالبے کو لے کر سرکاری عمارتوں پر دھاوا بول دیا اور کئی گاڑیوں کو نظر آتش کر دیا۔مرکزی چین کے علاقے میں ایک مقامی قانون ساز کی پولیس حراست میں موت کے واقعہ پر پندرہ سو لوگوں کے دنگے روکنے والی خصوصی پولیس کے دستوں کے ساتھ تصادم کے واقعات کے بعد دو اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا۔
احتجاجوں کی حالیہ لہر کے پیش نظر ریاست کے ایک تجزیہ نگار نے انتباہ کیا ہے کہ چین کے کروڑوں محنت کش جو دیہاتوں سے شہروں کی جانب ہجرت کرتے ہیں اگر ان کے ساتھ زیادہ بہتر اور انصاف پر مبنی سلوک نہ کیا گیا تو یہ چین کے استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ یہ چین کے کم ترین اجرتوں پر کام کرنے والے وہ محنت کش ہیں جو کروڑوں کی تعداد میں روزگار کی تلاش میں ان صنعتی مراکز کی طرف ہجرت کرکے آتے ہیں۔اس خطرے کو کم کرنے کے لئے اجرتوں میں اضافہ کیاگیا ہے لیکن امیر اور غریب کے درمیان خلیج بہت وسیع ہے ۔ مقامی باشندوں اور مہاجر محنت کشوں کو حاصل حقوق میں بھی اتنی بڑی تفریق ہے کہ مہاجر محنت کشوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف غم و غصے کا ایک لاوا ابل رہا ہے۔ ہانگ کانگ کے چین لیبر بلیٹن کے نمائندے جیف کروتھل کے مطابق ’’ گوانگ دانگ میں کئی ایسے قصبے ہیں جہاں ابھی تک مقامی اور غیر مقامی کے مابین تقسیم بہت گہری ہے۔ مہاجر محنت کش کم ترین اجرتوں پر گھٹیا نوکریاں کرتے ہیں اور ہر دن امتیازی سلوک کی ذلت کا سامنا کرتے ہیں اور غم و غصے کے مسلسل بڑھنے کی یہی بنیادی وجوہات ہیں۔ لیکن بے چینی اور غصے کی ایک شدت اختیار کرتی ہوئی لہر مہاجر محنت کشوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں بھی سرائیت کر چکی ہے ‘‘۔ اگرچہ ابھی تک بہت زیادہ خبریں اور مواد منظر عام پر نہیں آتا لیکن سماجی بے چینی کے واقعات چین میں ایک ایسا معمول بنتا جا رہا ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال چین میں ہڑتالوں ، کسانوں کے مظاہروں اور دیگر سماجی بدامنی کے ہزاروں واقعات کے رونما ہونے کی رپورٹیں آرہی ہیں جن کی وجوہات میں سرکاری اہلکاروں کی بد عنوانی ،تضحیک آمیز رویہ اور ترقیاتی کاموں کے لیے زمینوں پر غیرقانونی قبضے شامل ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے ایسے واقعات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ شمالی چین میں اندرون منگولیا کے علاقے میں بیس سال کے عرصے کا سب سے بڑا احتجاج اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک چرواہا کوئلے کے ٹرک کو چرا گاہ میں بیجا طور پر داخل ہونے سے روکنے کی کوشش میں مارا گیا ۔ منگول کئی روز تک کانکنی کے لئے چراگاہوں پر قبضے کے خلاف احتجاج کرتے رہے ۔ مئی کے آخر میں ملک کے جنوب میں زمین چھینے جانے کی وجہ سے انتقاماً ایک شخص نے اپنے سمیت چار لوگوں کو مار دیا ۔ چین کی سماجی سائنس کی اکیڈمی کے اندازے کے مطابق 2006ء میں عوامی احتجاجوں کے نوے ہزار واقعات ہوئے اور اگلے دو سالوں کے دوران ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ۔ حکومت کا بوکھلائی ہوئی دہشت پر مبنی ردعمل اس بات کا ثبوت ہے کہ حکمرانوں کو اس خطرے کا شدت سے احساس ہے کہ یہ وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بے چینی ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ کر تیونس اور مصر کی طرح ان کی حاکمیتوں کا خاتمہ کر سکتی ہے ۔ حکمران حلقے 1989 ء میں تا ئنا من چوک میں کیے جانے والے قتل عام کے بعد پہلی باراتنے زیادہ بوکھلائے ہوئے ہیں ۔ وہ سماجی بے چینی کو روکنے کی بڑے پیمانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ چین کا اس سال اندرونی تحفظ کا بجٹ 13 فیصد اضافے کے ساتھ 624.4 ارب یوآن ہو گیا ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی بار اب چین دفاع سے زیادہ بڑی رقم اندرونی تحفظ پر خرچ کرے گا ۔ چین کی تیز رفتار معاشی ترقی اور صنعتکاری کے عمل نے محنت کش طبقے کو بہت زیادہ طاقتور کر دیا ہے جو اب کم اجرتیں اور فیکٹریوں میں غلاموں جیسے حالات کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ سماجی دھماکوں کے حالات تیار ہو رہے ہیں جو اچانک اور ایسے وقتوں میں ہو سکتے ہیں جب کسی کو بھی ان کے ہونے کی توقع نہ ہو ۔ نپولین کے الفاظ کی یہ تشریح کی جا سکتی ہے ’’ چین کا محنت کش طبقہ ایک سویا ہوا دیو ہے ، جب یہ جاگے گا تو دنیا کو ہلا کے رکھ دے گا ‘‘ ۔
Translation: Chingaree.com