آج پوری دنیا میں انقلابی نوجوان، حریت پسند اور محنت کش چے گویرا کی 45ویں برسی منا رہے ہیں۔8اکتوبر1967ء کوCIAکی اطلاع پربولیویا کے 1800سے زائد سپاہیوں نے ’یورو روائن‘کے علاقے میں واقع چے گویرا کے گوریلا کیمپ کا محاصرہ کر لیا۔چے کے بہت سے ساتھی اس لڑائی میں مارے گئے اور وہ خود، دو گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوگیاجس کے بعد اسے گرفتار کر کے ’لا ہیگویرا‘ میں واقع عارضی فوجی چوکی میں لایا گیا۔گرفتاری کے بعد چے نے انٹیلی جنس افسروں کے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔اگلے دن 9اکتوبر کی دوپہر کو بولیویا کے صدر رین بیرینٹوس کے حکم پر، چے کو گولی مار کے قتل کر دیا گیا۔مرنے سے کچھ منٹ پہلے ایک بولیوین سپاہی نے چے سے پوچھا ’’کیا تم اپنی لافانی زندگی کے بارے میں سوچ رہے ہو؟‘‘، چے نے جواب دیا ’’نہیں! میں انقلاب کی لا فانیت کے بارے میں سوچ رہا ہوں‘‘۔چے گویرا کے آخری الفاظ کچھ یوں تھے ’’میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے کے لئے آئے ہو۔ گولی چلاؤ بزدل! تم صرف ایک انسان کی جان لے رہے ہو!‘‘۔
ہر بڑے انقلابی کی طرح چے گویراکی شخصیت، کردار اور زندگی کو بھی مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔حکمران طبقات کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے اصلاح پسند ’’دانشور‘‘ بھی کردار کشی کی ان بھونڈی کوششوں میں برابر کے شریک ہیں۔چے کی برسی پر اس عظیم انقلابی کوخراجِ عقیدت پیش کرنےکا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ ان نظریات کو سمجھا جائے جن کے لئے وہ جیا، لڑا اور اپنی جان قربان کر دی۔اس موقع پر ہم طبقاتی جدوجہدکے قارئین کے لئے چے گویرا کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں 2007ء میں لکھے گئے ایلن ووڈز کے مضامین کا ایک سلسلہ شائع کر رہے ہیں۔
لینن نے ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں لکھاتھا’’تاریخ کے اس سفر میں جو کچھ آج مارکسز م کے ساتھ ہو رہاہے،یہ ہرگز کوئی نئی بات نہیں ہے؛ہر دور کے انقلابی مفکروں کے نظریات اورعوام کی نجات کے آدرش کیلئے لڑنے والوں کے ساتھ یہی بار بار ہوتاچلاآرہاہے۔سبھی انقلابیوں کی زندگیوں میں استحصالی طبقات وحشی کتوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑنے کو دوڑتے ہیں،ان کے نظریات کو انتہائی غلاظت اور گندگی میں لتھاڑکر پیش کیا جاتا ہے،بدترین بہتانوں اورذلت آمیز دشنام طرازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاجاتاہے۔اور جب یہ مرجاتے ہیں تو کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں کہ ان کو ایک بے ضررقسم کا انسان بنا کر پیش کیاجائے،ان کے بارے اور ان کے حوالے سے اس قسم کی داستانیں تخلیق کی جاتی ہیں اور ان کو کیا سے کیا بناکے پیش کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ وہ انسان نہیں کچھ اور شے تھے،اور یوں اس طریقے سے ایسے لوگ سب کچھ قرار پاجاتے ہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنی زندگیاں محروم اور درماندہ انسانوں کی زندگیاں بدلنے کیلئے وقف کر دی ہوئی تھیں۔ مقصد اس قسم کی زیب داستان کا ایک ہی ہوتا ہے کہ استحصال زدگان کو دھوکے فریب اور سحر میں مبتلا کر دیا جائے،اور ان بڑے انسانوں کے انقلابی آدرشوں اور نظریات پر مٹی ڈال دی جائے،ان کے انقلابی تشخص کو بیہودہ طریقے سے بگاڑ دیاجاتا ہے۔‘‘
اپنی موت کے بعد چے گویرا سوشلسٹ انقلابی تحریکوں کے ہیرو اور جدید پاپ کلچر کے نمائندے کے طورپر ابھرا؛ البرٹو کورڈا کی بنائے ہوئے چے کے فوٹونے بہت شہرت پائی اور دنیا بھر میں ٹی شرٹوں،احتجاجی بینروں پر یہ فوٹو نمایاں ہوتاجارہاہے اور یوں چے گویرا ہمارے عہد کا معتبر و معروف انسان بن چکاہے۔لینن کی موت کے بعد سٹالن اور زینوویف کی قیادت میں لینن کا تشخص ابھارنا شروع کر دیاگیا۔کروپسکایا(لینن کی بیوی) کی خواہش کے برعکس لینن کی میت کو ریڈسکوائر میں سجاکر مرجع خلائق بنانے کیلئے رکھ دیاگیا تاکہ عوام اس کا آخری دیدار کر سکیں۔کروپسکایا نے بعد میں کہاتھا کہ’’ لینن جس شخصیت پرستی کے خلاف عمربھر لڑتا رہا،اسے مرنے کے بعد اسی شخصیت پرستی کی سولی پر لٹکادیاگیا۔‘‘
نومبر2005ء میں جرمنی کے جریدے Der Spiegel میں یورپ کے ’’پرامن انقلابیوں ‘‘پر ایک مضمون شائع ہواتھا جس میں ایسے انقلابیوں کو ’’گاندھی‘‘اور ’’گویرا‘‘ کے وارث قراردیاگیا۔ یہ ایک شعوری بیہودگی ہے۔ہمیں چے گویراکوایسے لوگوں سے بچانے کیلئے ایک سوسائٹی تشکیل دینی ہو گی جن کا مارکسزم سے طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔اور جو چے گویرا کی ایک انتہائی غلط تصویر کشی کر رہے ہیں اور اسے ایک انقلابی صوفی درویش ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اسے ایک رومانس پسند مڈل کلاسیا،ایک انارکسسٹ،گاندھی کا ایک امن پسندپیروکار،اور اسی نوعیت کے دوسرے تشخص فراہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ہمارا اس عظیم اور سچے انقلابی سے وہی رشتہ اور ناطہ ہے جو لینن کا روزالگزمبرگ کے ساتھ تھا۔لینن نے روزا کی مارکسزم بارے غلطیوں پرتنقید میں کبھی کوئی رعایت نہیں کی تھی اور لینن نے ہمیشہ روزا کو ایک سچی انقلابی اور انٹرنیشنلسٹ کے طورپر ہمیشہ عزت واحترام کا درجہ دیا۔ اصلاح پسندوں اور منشویکوں کی طرف سے کئے گئے حملوں کے جواب میں لینن نے روزا کو ان الفاظ میں یادکیا؛
’’ہم یہاں ان لوگوں کو روس کی ایک قدیم کہاوت کے حوالے سے جواب دینا پسند کریں گے جس میں کہاگیا ہے کہ یہ تو ہو سکتاہے کہ بعض اوقات شاہین نیچی پروازکرتے ہوئے مرغیوں کے برابرآجائیں لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ مرغیاں پوری کوشش کر کے بھی شاہین کی بلندیوں کو پہنچنے کا تصور بھی کر سکیں۔ اپنی غلطیوں کے باوجود،روزا،ہمارے لئے شاہین کا درجہ رکھتی تھی،ہے اور رہے گی۔نہ صرف یہ کہ دنیا بھر کے کمیونسٹ ا س کی یاد وں سے اپنے آدرشوں کوہمیشہ منور رکھیں گے بلکہ اس کی سوانح عمری اور اس کا لکھا ہوا ہر لفظ دنیابھر میں کمیونسٹوں کی اگلی نسلوں کی بھرپور رہنمائی کرے گا۔4اگست1914سے جرمن سوشل ڈیموکریسی ایک تعفن زدہ لاش بن چکی ہے۔یہی ایک بیان بھی روزاکوعالمی محنت کش تحریک میں شہرت دینے کیلئے کافی ہوگا۔یقینی طورپر عالمی مزدور تحریک کے پچھواڑے میں واقع ڈربے میں سے پال لیوی،شیڈمین،کاٹسکی اور ان جیسے مرغی نما دانشور اس عظیم انقلابی کی غلطیوں پر کیچڑ اچھالتے رہیں گے۔‘‘ (Lenin Collected Works, Vol. 33, p. 210, Notes of a Publicist, Vol. 33) ابتدائی زندگی
ارنسٹو گویرا ڈی لا سرینا (14جون 1928تا 9 اکتوبر1967ء) نام کا یہ انسان دنیا بھر میں چے گویرا کے نام سے مشہور ومقبول ہے۔وہ ایک ایسامارکسی انقلابی تھا جو پیداتوارجنٹائن میں ہواتھا لیکن اس کے جسم کی رگ رگ اور خون کے ہر ایک ذرے میں بین الاقوامیت رچی بسی ہوئی تھی۔جیسا کہ لاطینی امریکہ میں یہ ایک معمول ہے،اس کے آباؤاجداد مخلوط النسل تھے۔گویرا،باسک گبارا(Basque Gebara)کی ایک ہسپانوی شکل ہے،اس کے خاندانی ناموں میں سے ایک لنچ (lynch)ہے جو کہ آئرش تھا،لنچ خاندان گیلوے کے14قبائل میں سے ایک تھا۔باسق اور آئرش نسلوں کے خون کا یہ اتصال اور ملاپ دھماکہ خیزہوناہی تھا! لاطینی امریکہ کی اکثریت کے برعکس ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیداہونے والے چے گویرا کو غربت اور بھوک جیسی بلاؤں سے توپالانہیں پڑا۔لیکن اس کی صحت البتہ ضرور خراب رہتی تھی۔اس کی فطری مہم جوئی اور باغیانہ سرکشی اس حقیقت سے جڑی ہوئی تھی کہ وہ بچپن سے ہی استھماکے عارضے میں لاحق ہوگیاتھا۔ اس مسئلے کو کنٹرول کرنے کیلئے اس نے اپنی ساری زندگی خودکو محدود رکھنے کی تگ ودومیں صرف کر دی۔مشکلات پر قابو پانے کا اس کا آہنی عزم اسی تگ ودو کا ہی نتیجہ سمجھا جاسکتاہے۔انسان دوستی کی اس کی خصلت پہلے اسے میڈیکل کے شعبے کی طرف لے گئی اوروہ ڈاکٹر بن گیا۔اس نے Dermatologyجلد کے شعبے میں سپیشلائزیشن کی۔جلدی بیماریleprosyکا علاج معالجہ اس کی دلچسپی کا محورتھا۔ان دنوں اس کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو کسی بھی مڈل کلاس نوجوان کی ہوسکتی ہے۔محنت اور لگن سے ڈگری کا حصول،پھر ایک مناسب ملازمت،اور ممکن ہو تو کسی میڈیکل شعبے میں تحقیق،جدید انسانی علوم پر دسترس کے ذریعے کوئی اہم دریافت کرنے کی جستجو؛اپنی زندگی کے اس حصے کے بارے وہ خود لکھتاہے:
’’جب میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہاتھا تو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو آج ایک انقلابی کے طورپر مجھ میں ہے۔ہر ایک کی طرح میرا بھی ایک ہی مقصد ایک ہی جنون تھا ؛کامیابی۔میں خواب دیکھا کرتا تھا کہ میں ایک مشہور محقق بنوں گا۔میں سوچتارہتاتھا کہ میں انتھک محنت کر کے کچھ مختلف کر کے دکھاؤں گاکچھ ایسا کہ جو نوع انسانی کی عظیم خدمت قرار پائے۔لیکن اس وقت میرا یہ آدرش محض ایک ذاتی کامیابی کا آدرش ہی تھا۔ہر ایک کی طرح میں بھی اپنے ماحول کی ہی پیداوار اور اس کا اظہار تھا۔‘‘
بیشتر نوجوانوں کی طرح سے ارنسٹو کوبھی دنیاگردی کا بہت شوق تھا۔وہ ایک ’’آتش زیرپا‘‘ قسم کی روح تھی،جسے کہیں رکنا ٹھہرنا نصیب ہی نہیں ہوتا۔پڑاؤ اس کے مقدر میں ہی نہیں تھا،جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے۔’’مجھے اب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ میں ایک ناقابل یقین مقدر کی گرفت میں ہوں،اور مسلسل مسافرت میرا نصیب ہو چکی ہے‘‘۔اس کا رستہ کون سا تھا اس کی سمت کون سی ہوگی،اس کا ادراک اس کو خود بھی نہیں تھا۔بلاشبہ وہ ایک فرض شناس فزیشن بن سکتا تھا لیکن اس کی ’’آوارگی‘‘اس پرحاوی ہو گئی اور اسے کھینچ کے کہیں اور ہی لے گئی اسے کچھ اور ہی بنا گئی۔ اس نے سفر اختیارکیا تو پلٹنابھول گیا اور برسوں اپنے ارجنٹائن واپس نہ آسکا۔اس کی مہم جو طبیعت اسے موٹرسائیکل پر سارے جنوبی امریکہ کے سفر کی طرف لے گئی۔اس کی ڈاکٹری اور اس کے انقلابی آدرشوں کے مابین تعلق اس وقت ظاہرہواجب اسے اپنی 24ویں سالگرہ کے موقع پرسان پابلو کے ایک آڈیٹوریم میں ایک تقریب کے دوران تقریر کرنی پڑی جس میں اس نے کہا؛’’اگرچہ ہم ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ اتنے بڑے اور عظیم مقصدپر بات کر سکیں لیکن ہمارا یقین ہے اور میرے اس سفر نے میرے اس یقین کو اور بھی پختہ کردیا ہے کہ امریکہ کی غیر مستحکم اور ناپائیدارقوموں میں تقسیم مکمل طورپر ایک افسانوی بات ہے۔ہم ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے ہیں ہمارے مابین کئی نسلی وجغرافیائی مشابہتیں موجودہیں؛میکسیکو سے میگلن تک ہم میں بہت کچھ سانجھا ہے۔اس تنگ نظر وطنیت سے نجات حاصل کرنے کی ایک خواہش اور کوشش کے طورپر میں پیرواورایک متحدہ امریکہ کے نام ایک جام تجویز کرتا ہوں‘‘۔ (Motorcycle Diaries, p.135) ابتدائی شعور
یہ سفرخودشناسی اورخودآگہی کا ایک طویل عمل تھا جس نے آہستہ آہستہ اس پر اس دنیاکی حالت اور کیفیت عیاں کر دی جس میں وہ جی رہاتھا۔پہلی بار اپنے بر اعظم کے پسماندہ محروم کچلے ہوئے پسے ہوئے عوام کی اصل اور سچی حالت اس نے دیکھی بھی اور محسوس بھی کی۔ اس نے پہلی بار اپنی آنکھوں کے سامنے بدترین حالات میں بسنے والے مردہ زندوں کو دیکھا۔ ایک حسین و جمیل، ایک ذخائر سے مالامال خطے میں اتنابھیانک پن اتنی کراہت اتنی محرومی اتنی غربت۔۔۔اس سوال نے ارنسٹو کی نوجوان روح کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ان تضادات نے اس کی جنونی اور حساس فطرت کوہلا کے رکھ دیا اور اسے ان تضادات کی اصل وجوہات کا کھوج لگانے کی طرف راغب کرلیا۔اس کا دماغ شروع دن سے ہی جستجو اور تحقیق کا رسیاتھا۔وہ جو ایک اعلیٰ ذہا نت میڈیکل سائنس کے مطالعے میں اس کی رغبت کا سبب بنی تھی وہی جستجواور لگن اسے کھینچ کے سماج کے مطالعے کی طرف لے آئی۔اس کی مسافرت کے مشاہدوں اور تجربات نے اس کے شعورکو فیصلہ کن طورپرمرتب کرنا شروع کر دیا۔اس نے اپنی زندگی کیلئے جو خواب اور آدرش سوچے تھے وہ اچانک اس کیلئے کمتر اور غیراہم ہو گئے۔بہر حال ایک ڈاکٹر لازمی اس قابل ہوتاہے کہ مریضوں کا علاج کر سکے۔لیکن غربت‘ جہالت ‘بے گھری اور محرومی جیسی بیماریوں کا علاج کون کرے گا اور یہ علاج کس طرح ممکن ہو سکے گا؟کوئی بھی ڈاکٹر کینسر کا علاج ڈسپرین سے نہیں کر سکتا۔اسی طرح سماج کی بیماریوں کا علاج بھی چھوٹے مصنوعی طریقے سے کرنا ناممکن بات ہوتی ہے۔یوں دھیرے دھیرے اس نوجوان کے دل ودماغ میں انقلابی نظریات نے جنم لینااور پھلناپھولنا شروع کر دیا۔ لیکن وہ اچانک مارکسسٹ نہیں بنا۔یہ سب کیسے ہوا کس نے کیا!اس نے اس بارے بہت زیادہ سوچ بچار کی۔ بہت دلچسپی اورتوجہ کے ساتھ اس نے مطالعہ شروع کیا،وسیع مطالعہ۔اور یہ عادت ایسی شروع ہوئی کہ پھر مرتے دم تک قائم رہی۔اس نے مارکسز م پڑھناشروع کیا۔ بتدریج،غیر محسوس طریقے سے،لیکن ایک آہنی ناگزیریت کے جذبے کے ساتھ۔۔اور پھر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ عوام کو درپیش مسائل اور مصائب کا اور کوئی نہ حل ہے نہ علاج سوائے انقلاب کے۔ گوئٹے مالا
شعوری مارکسزم کی طرف چے کی فیصلہ کن رغبت اس وقت ہوئی جب وہ گوئٹے مالا گیا جہاں وہ صدر جیکبواربینز گزمن کی طرف سے کی جانے والی اصلاحات کودیکھنا چاہتا تھااور ان سے کچھ سیکھنا چاہتاتھا۔وہ دسمبر1953ء میں وہاں پہنچا۔صدر گزمن ایک اصلاح پسند حکومت کا سربراہ تھا اورجو اپنے ملک میں زرعی اصلاحات کرکے وہاں جاگیرداری کا خاتمہ کرنا چاہتاتھا۔گوئٹے مالا پہنچنے سے پہلے ہی چے گویراابتدائی نظریاتی شعور کا حامل ہونے کے باوجود ایک سچا انقلابی بن چکاتھا۔جیسا کہ وہ خود کوسٹاریکا میں10دسمبر1953ء کولکھے گئے اپنے ایک خط میں لکھتا ہے’’گوئٹے مالا جا کر میں نے بہت کچھ سیکھنا اور خودکو ان جذبوں سے بھر دینا ہے جن سے ابھی تک میں خود کو خالی محسوس کرتاہوں اور جو مجھ کوایک حقیقی انقلابی بنائیں گے‘‘
لیکن یونائٹڈ فروٹ کمپنی اور امریکی سی آئی اے نے کچھ اور ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔انہوں نے کارلوس کاسٹیلو آرماس کی قیادت میں امریکی فضائیہ کی مدد سے ایک بغاوت منظم کی۔جس پر گویرا نے کمیونسٹ لیگ کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے ایک مسلح ملیشیا کو جوائن کرلیا۔لیکن گروپ کی بے عملی نے اسے بے چین اور مضطرب کر کے رکھ دیا۔بغاوت کے بعد گرفتاریاں شروع کر دی گئیں،جس پر چے کو ارجنٹائن کے قونصل خانے سے رجوع کرنا پڑگیا اور اسے ایک محفوظ کنڈکٹ پاس ملنے تک وہیں رہناپڑا۔اس کے بعد اس نے میکسیکو کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔صدر اربینزکے خلاف امریکی بغاوت نے اس کے عزم اور آدرش کو مزید پختہ کردیا۔اور اس نے اس واقعے سے کئی اہم نتائج اور اسبا ق اخذ کئے۔اس نے لاطینی امریکہ ملکوں میں امریکہ کی مداخلت اور اثرات کو دیکھا اور اس سامراجی طاقت کا مشاہدہ کیا جو سارے براعظم کے اندر عوام دشمن رجعتی قوتوں کو پال پوس رہی تھی اور انہیں اپنے مفادات کیلئے بروئے کار لا رہی تھی۔ہر وہ حکومت جو عوام کی خدمت کر کے ان کی حالت بدلنے کی کوشش کرتی تھی،اسے امریکہ اور اس کے گماشتوں کی بدترین دشمنی اور مخالفت کا سامناکرناپڑجاتا تھا۔سی آئی اے کی سرپرستی میں ہونے والی بغاوت کی کامیابی کے بعد چے کو میکسیکو کی طرف ہجرت کرنی پڑگئی جہاں اس نے فیڈل کاسترو کی انقلابی 26جولائی موومنٹ کو جوائن کرلیا۔یہ گروپ کیوبا کے اندرقائم جنرل بتیستا کی آمریت کے خلاف ایک متشدد جدوجہد میں مصروف تھا۔ایسالگتا تھا کہ گویرا اور کاسترو کو جیسے ایک دوسرے کی ہی تلاش تھی۔ فیڈل کو ایک بااعتمادساتھی اور گویراکو ایک متحرک تنظیم اور ایک مقصد کی طلب تھی جس کیلئے لڑاجاسکتاہو۔
چے اپنی آنکھوں سے اصلاح پسندی کی بھیانک اور مہلک کمزوری کو دیکھ چکاتھا اور اس کا یہ یقین پختہ ہوچکاتھا کہ سوشلزم کو مسلح جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں کیاجاسکتا۔وہ اوائل ستمبر1954 میں میکسیکو سٹی پہنچاجہاں اس کے کیوبا کے ان تارکین الوطن سے رابطے ہوئے جن سے وہ پہلے گوئٹے مالا میں مل چکاتھا۔جون1955میں وہ پہلے راؤل کاسترو سے ملا،پھر اس کی ملاقات فیڈل سے ہوئی۔جسے کیوبا میں قید سے رہائی مل چکی تھی،جہاں اسے مونکاڈا بیرکوں پر ناکام حملوں کے بعد قید کرلیاگیاتھا۔گویرا نے فوری طورپر 26جولائی موومنٹ کو جوائن کرلیا جو صدر بیتیشیاکی آمریت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔پہلے پہل گویرا کو بطور ایک ڈاکٹر ’’ٹیم‘‘میں منتخب کیاگیا۔چونکہ اس مسکین کی طبیعت شروع سے ہی استھما کے ہاتھوں خراب چلی آرہی تھی،چنانچہ یہ مناسب سمجھاگیا کہ اس کو ایک جنگجو کی ڈیوٹی دینا نامناسب ہوگا۔تاہم اس کے باوجود بھی گویرا مسلح تربیت بھی ساتھ ساتھ حاصل کرتارہا اور اس نے جنگجو کے طورپر بھی اپنی صلاحیت منوا لی۔ گرینما
25نومبر 1956ء کوایک کروزگرینما تکسپان کی بندرگاہ پر لنگراندازتھا اور جس نے کیوبا کی طرف عازم سفر ہوناتھا اور جس میں انقلابی گوریلے سوار تھے۔یہ ایک پرانا جہاز تھاجس پر اس کی گنجائش سے کہیں زیادہ افراد’’لوڈ‘‘تھے۔دوران سفر اسے کئی شدید سمندری طوفانوں سے بھی واسطہ پڑا جبکہ کئی شدیدبیمار پڑ جانے والوں کوبھی سمندر کی نذر کرناپڑا۔لیکن یہ تو ابتدا تھی ان مصائب کی جن کا ان گوریلوں کو سامنا کرناتھا۔قافلے کو ابتدا سے ہی تباہ کن حالات سے دوچار ہوناپڑا۔ازاں بدتر یہ ہواکہ جہاز غلط جگہ لنگراندازہوگیا یوں زبوں حالی ان باغیوں کی ہمسفر بنی رہی۔لینڈنگ کے فوری بعد ہی ان پر حکومتی فوج نے حملہ کردیا۔آدھے سے زیادہ یاتو اسی وقت مار دیے گئے یا بعدمیں پکڑے جانے کے بعد ان کو ماردیاگیا۔پندرہ بیس ہی ایسے تھے جو بچ پائے ا ور ان کے ہاتھ نہ لگ سکے۔اس کی وجہ سے سار اگروپ تتر بتر اور منتشرہوگیا۔ بچ جانے والے بچتے بچاتے سیرا میسٹرا کے پہاڑوں میں روپوش اور ازسرنو منظم ہوگئے۔جہاں سے انہوں نے بیتیشیا حکومت کے خلا ف گوریلاکاروائیاں شروع کر دیں۔اتنی بدترین پسپائی نے ان باغیوں کے حوصلے پست کرنے کی بجائے ان کو اور بھی جراتمند بنا دیااور جرات بھی ایسی کہ جس نے لاکھوں لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو گرمانا اور ان کو جوش ولولے سے بھرنا شروع کردیا۔بڑی تعداد میں نئے لوگ ان کے ساتھ بھرتی اور شامل ہونے شروع ہو گئے۔یہ گوریلا جنگ سارے مشرقی کیوبا میں پھیل گئی۔چے گویرا کو ایک معالج کے طورپر شامل کیاگیاتھا لیکن اس جنگ کے عروج کے وقت اس نے یہ سوچا کہ کیا وہ ایک بہترین ڈاکٹر کے طورپر خود کو شامل رکھے یا پھر ایک بہترین لڑاکے کے طورپر ان کا حصہ بن جائے۔اس نے فیصلہ کیا؛
’’میری زندگی میں پہلی بار یہ وقت آیا تھا کہ میں اپنے جنون اپنے پیشے اور ایک انقلابی سپاہی کے طورپر ایک تذبذب کا شکار ہو چکا تھا۔میں بیٹھا سوچ رہاتھا،میرے پاؤں کے ایک طرف دوائیاں تو دوسری طرف اسلحہ بارود موجود تھا۔دونوں کو ایک ساتھ اٹھانا خاصا بوجھل کام تھا۔میں نے اسلحے والا تھیلا اٹھایا اور چل پڑا۔۔۔پھر دوائیاں ہمیشہ کیلئے پیچھے ہی رہ گئیں۔‘‘
ان باغیوں کی سب سے بڑی طاقت حکومت وقت کی کمزوری تھی۔جو بدعنوانی اور زوال پذیری کی وجہ سے اندر سے کھوکھلی ہوچکی تھی۔بلاشبہ ان کو امریکی سامراج کی طرف سے اسلحے اور سرمائے سمیت ہر قسم کی مکمل امداد مل رہی تھی لیکن پھر بھی بیتیشیا حکومت انقلاب کے بڑھتے ہوئے قدموں کی دھمک سننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی تھی۔کیوبا حکومت کے فوجی ایک گلی سڑی حکومت کے تحفظ کیلئے اپنی جان گنوانے سے گریز اختیار کر رہے تھے۔سیرا میسترا کی پہاڑیوں سے اترکرگوئسا اور کاٹو کے میدانوں میں کی جانے والی پرجوش گوریلاکاروائیوں سے پے درپے شکستوں نے فوج کے حوصلے مزید پست کر دئے۔اور جب ان گوریلوں نے آخری فیصلہ کن وار کیا تو فوج مکمل طورپر حوصلہ ہار چکی تھی۔اس مہم کے دوران گویرا ایک کمانڈر کے طورپر ابھر کر سامنے آیا۔اس کی دلیری،جراتمندی اورعسکری صلاحیت نے اس کا تشخص بدل دیااوراسے ایک وقارعطا کر دیا۔وہ فیڈل کاسترو کے بعد دوسرے نمبر پر آچکاتھا۔دسمبر1958ء کے آخری دنوں میں کمانڈر گویرا اور اس کے جانبازوں نے مغرب کی طرف پیش قدمی کی اور دارالحکومت ہوانا پر فیصلہ کن حملہ کیا۔سنتاکلارا میں ہونے والی اس خونی اور خطرناک لڑائی میں کمانڈر گویرا اور اس کے ساتھیوں نے انتہائی مشکل اہداف کوحاصل کیا۔27دسمبر1983ء کو فیڈل کاسترو نے اس معرکے کو یادکرتے ہوئے اس کی اہمیت کو اس طرح سے بیان کیا؛
’’ہم نے دریائے کاٹیلو پر اپنی دفاعی لائن قائم کی ہوئی تھی؛ہم ماپوس کا محاصرہ کر چکے تھے جہاں کم وبیش دشمن کے تین سو فوجی موجود تھے۔ہم پالما میں سے ملنے والے اسلحے کو پانے کے بارے میں فکر مند تھے کیونکہ جب ہم نے سیرا میسٹرا میں واقع لا پلاٹا کوہم پر ہونے والے حملے کے بعد چھوڑا تھا تو اس وقت ہم پچیس مسلح اور ایک ہزار غیر تربیت یافتہ ساتھی تھے۔ہم نے راستے میں ہی ان ساتھیوں کو مسلح کیا،ہم نے لڑائی کے دوران اپنے ان ساتھیوں کو اسلحے اور حوصلے سے لیس کیا لیکن سب سے بھرپور طور پر ہم ان کو پالما کی لڑائی میں ہی مسلح کر سکے تھے‘‘۔
یکم جنوری1959ء کے دن پالما میں موجود باغی سپاہیوں کو حتمی لڑائی کا حکم دیاگیا۔لیکن اس جنگ کا فیصلہ لڑائی نے نہیں بلکہ ہوانا کے محنت کشوں کی طرف سے کی جانے والی عام ہڑتال نے کیا۔اسی ہڑتال نے ہی آمریت کے تابوت میں آخری اور فیصلہ کن کیل ٹھونکی۔آمریت کاسارا رعب دبدبہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔بیتیشیا کے فوجی جرنیل باغیوں کے ساتھ الگ اور اپنے طورپرمذاکرات کے ترلوں اور ہتھکنڈوں پر اترآئے۔ جب بیتیشیا کو اس بات کا علم ہوا تو وہ سمجھ گیا کہ قصہ تمام ہو چکا ہے چنانچہ وہ جمہوریہ ڈومینیکن کی طرف کوچ کر گیا اور وہیں سال نو منایا۔ باغیوں کی حکمرانی
حکمرانی کا پچھلا ڈھانچہ مکمل طورپر زمین بوس ہو چکا تھا۔اور اس کی جگہ ایک نئی طرزحکمرانی قائم کر دی گئی۔ گوریلا فوج نے کمزور جگہوں کا کنٹرول سنبھال کر ان کو بہتر کر نا شروع کردیا۔طاقت اب گوریلا فوج کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکی تھی۔ دنیا بھر میں مارکسسٹوں نے کیوبا انقلاب کا بھرپور خیر مقدم کیا اور جشن منایا۔یہ سامراج،سرمایہ داری اور جاگیردار ی کیلئے حقیقتاًایک بہت بڑا جھٹکا تھااورپھر سامراج کویہ شکست انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سامراجی طاقت امریکہ کے عین ناک کے نیچے واقع ایک ملک میں ہوئی تھی۔اس انقلاب نے دنیا بھر میں ہر جگہ محروموں مظلوموں کی آنکھیں ایک بار پھر امید سے روشن کر دیں۔ہر چند اس انقلاب کا طریقہ 1917ء کے بالشویک انقلاب سے مختلف تھا،تاہم اس انقلاب کوپھر حتمی فیصلہ کن کامیابی محنت کشوں کی عام ہڑتال نے بخشی تھی۔لیکن وہاں روس کی طرح نہ سوویتیں تھیں نہ ہی محنت کش طبقہ۔عام ہڑتال کی فیصلہ کن حمایت کے باوجود اس انقلاب کی قیادت محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں نہیں تھی۔
بہت سے احباب فرماتے ہیں کہ یہ ہرگز اتنی اہم بات نہیں ہے،یہ کہ ہر انقلاب انقلاب ہوتا ہے،یہ کہ کوئی ایسا ماڈل نہیں طے کیاجاسکتا کہ جس پر پورا اتر کے ہی انقلاب کا عمل سرانجام دیاجانا لازمی ہو،وغیرہ وغیرہ۔یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ہر ایک انقلاب کے اپنے ہی ٹھوس عوامل ہواکرتے ہیں۔اس کے اپنے مخصوص مادی حالات کی وجہ سے اس کی خصوصیات بھی اپنی ہواکرتی ہیں۔اس کے اندر طاقتوں کا اپنا طبقاتی توازن ہوتا ہے۔اسی طرح سے ہر ملک کی اپنی تاریخ اپنی روایات ہواکرتی ہیں۔لیکن یہ سبھی درست وضاحتیں مل کر بھی اس سوال کی اہمیت کو نہ تو رد کرسکتی ہیں نہ ہی نظرانداز۔ پرولتاریہ کی آمریت
مارکس نے کھل کے اس امر کی وضاحت کر دی تھی کہ محنت کش طبقہ کبھی بھی پرانے ریاستی ڈھانچے کو برقرار اور بروئے کار لا کر سماج کی تبدیلی کے مرحلے کو انجام نہیں دے سکتا۔ میں اس نے مزدور حکومت کے نظریاتی خدوخال مرتب کئے تھے۔اس نظریے کا نچوڑ کیا ہے؟مارکس نے صراحت سے اس پر گفتگوکی ہے کہ کس طرح پرانے ریاستی ڈھانچے کو سماج کو بدلنے کے آلے کے طورپر استعمال میں نہیں لایا جاسکتا۔سماج کو بدلنے اور اس میں بہتری لانے کیلئے اس پرانے ڈھانچے کو اکھاڑ پھینکنااور تباہ وبربادکرناہوگااور اس کی جگہ طاقت کا ایک نیا مرکز قائم کرناہوگا؛ مزدوروں کی طاقت کا مرکز۔یہ نیا مرکز پرانی ریاستی مشینری ’’ایک مسلح فوج، پولیس، افسر شاہی،عدلیہ اوراشرافیہ پرمرتکز ریاستی طاقت‘‘ سے مکمل طورپر مختلف اور منفرد ہو گی۔یہ ایک نیم ریاست ہو گی جو مارکس کے الفاظ میں ایک ہی فریضہ سرانجام دے گی؛اپنی تحلیل کا فریضہ۔ جاری ہے۔ ۔ ۔
Translation: The Struggle (Pakistan)