’’ہر گزرتے دن کے ساتھ میرا یقین اس بات پر پختہ ہو تا جارہا ہے کہ انسانیت کو اب سرمایہ دارانہ سماج سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ طریقوں سے سرمایہ داری کا خاتمہ ممکن نہیں بلکہ ایسا سوشلزم کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے، حقیقی سوشلزم کے ذریعے جو برابری اور انصاف پر مبنی ہو۔ میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ ایسا جمہوری طریقہ کار سے کیا جاسکتا ہے، لیکن وہ جمہوریت نہیں جو واشنگٹن دنیا بھر پہ تھونپتا ہے۔‘‘ (ہوگو شاویز، 31 جنوری 2005)
کینسر کے ساتھ ایک لمبی اور تکلیف دہ جنگ لڑنے کے بعد لاطینی امریکہ میں سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف آواز بلند کرنے والے عوام دوست انقلابی صدر ہوگو شاویز منگل کے روز ونزویلا کے مقامی وقت کے مطابق شام 4 بج کر 25 منٹ پر انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کا اعلان ان کے نائب ماڈورو نے سرکاری ٹی وی پر پر آشوب آنکھوں کے ساتھ کیا۔ انہوں نے ونزویلا کے انقلابی عوام سے اپنے حوصلے بلند رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ’’آج ہمیں متحد رہنے کی جتنی ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔‘‘ انہوں نے اعلان کا خاتمہ ان الفاظ پر کیا ’’ جو لوگ زندگی کے لئے مرتے ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔‘‘ مزید برآں سرکاری طور پر بتایا گہا کہ شاویز کی آخری رسومات کے بارے میں اعلان بعد میں کیا جائے گا، جبکہ نئے الیکشنوں سے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ ونزویلا کے وزیرِ دفاع نے بھی عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔ انہوں نے شاویز کے قریب ترین اور بااعتماد ساتھیوں نکولس ماڈورو اور قومی اسمبلی کے سربراہ ڈیوس ڈیڈو کبیلو پر مکمل اعتماد اور ان کی حمایت کا اعلان کیا۔
پچھلے مہینے کیوبا سے سرجری کرواکر وطن واپس آنے کے بعد سے ہوگو شاویز منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ ہوگو شاویز 2011ء سے کینسر کے ساتھ نبرد آزما تھے۔ 2011ء میں کیوبا میں کیموتھراپی کے بعد فروری 2012ء میں ان کا آپریشن کیا گیا۔ تاہم دسمبر 2012ء میں انہوں نے کہاکہ ان کا ایک اور آپریشن ضروری ہے جو کہ کیوبا میں کیا جائے گا، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’اس طرح کے معاملات میں ہر طرح کے خطرات تو موجود ہوتے ہیں‘‘ اور نکولس ماڈورو کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا اعلان بھی کیا۔ کیوبا جانے کے بعد سے اپنی وفات تک شاویز منظر عام سے غائب رہے، تاہم اس دوران ہسپتال کے بستر پر اخبار پڑھتے ہوئے ان کی چند ایک تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔
ہوگو شاویز کی وفات نہ صرف ونزویلا اور لاطینی امریکہ بلکہ پوری دنیا کے انقلابی محنت کشوں اور نوجوانوں کے بہت بڑا دھچکا ہے۔ ہوگو شاویز ونزویلا کے عوام کی انقلابی خواہشات کے امین بن کر 1998ء میں پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد رفتہ رفتہ سرمایہ دارانہ نظام اور امریکی سامراج کے بارے میں ان کا موقف سخت ہوتا گیا۔ 2002ء میں ایک CIA کی ایماء پر کی جانے والی ایک فوجی بغاوت کے ذریعے شاویز کا تختہ الٹ دیا گیا، جس کے رد عمل میں لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر امڈ آئے تھے۔ 48 گھنٹوں میں عوام اور فوج میں شاویز کے وفادار سپاہیوں نے اس رد انقلابی بغاوت کو شکست دے دی اور شاویز کو بطور صدر بحال کروایا۔ 20 ستمبر 2006ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے آغاز میں انہوں نے جارج بش کو شیطان قرار دیاجس سے انہیں دنیا بھر کے مظلوم اور سامراج مخالف عوام میں پذیرائی ملی۔ ہوگو شاویز چوتھی اور آخری بار گزشتہ برس7 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں 55 فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے جبکہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار اینریک کاپریلس کو 44 فیصد ووٹ پڑے۔ 2012ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل اشرافیہ اور عالمی بورژوا میڈیا اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ 1998ء کے انتخابات میں شاویز کی فتح کے چودہ برس بعد اب وہ اسے شکست دے کر ایک بار پھر سے دائیں بازو کی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ تاہم ان انتخابات میں ونزویلا کے عوام نے ہوگو شاویز کو ایک بار پھر صدر منتخب کر کے سامراجیوں اور سرمایہ دار طفیلیوں کے خواب چکنا چور کر دئے اور ثابت کیا کہ ونزویلا کے محنت کش اور انقلابی نوجوان سوشلزم کی حتمی فتح تک لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
ہوگو شاویز نے اپنے 14سالہ دور حکومت میں ونزویلا کے غریب عوام اور محنت کشوں کی حمایت سے بالیوارین انقلاب کو آگے بڑھاتے ہوئے ونزویلا کی معیشت کو سوشلسٹ بنیادوں پر استوار کرنا شروع کیا، اس سلسلے میں تیل کی صنعت، جو کہ ونزویلا کی معیشت کا بنیادی ستون اور قومی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، سمیت بڑے پیمانے پر نیشلائزیشن کا عمل شروع کیا گیا۔ شاویز کی پالیسیوں نے لوٹ مار کرنے والے سامراجی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کاری ضربیں لگائیں۔ قومی تحویل میں لئے جانے والے اداروں کی آمدنی اور منافعوں سے بڑے پیمانے پر عوام کی فلاح و بہود کے منصوبے شروع کئے گئے۔ لاکھوں فلیٹس اور گھر تعمیر کر کے غریب اور بے گھر افراد میں تقسیم کئے گئے۔ صرف پچھلے دو برسوں میں 350,000 نئے گھر تعمیر کر کے مقامی کونسلوں کے ذریعے تقسیم کیے گئے۔ یہ گھر سیلابوں، مٹی کے تودوں اور دیگر قدرتی آفات میں بے گھر ہو جانے والوں کودیے گئے۔ دو کروڑ ستر لاکھ کی آبادی میں سے اس سکیم سے پندرہ لاکھ لوگ فیض یاب ہوئے جن میں جھونپڑ پٹیوں کی تنگ و تاریک کٹیاؤں میں رہنے والے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح 2013ء میں 380,000 مزید گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ علاج اور تعلیم کو مفت قرار دیا گیا اور ونزویلا کے پسماندہ ترین علاقوں میں ڈسپنریاں، ہسپتال اور تعلیمی ادارے تعمیر کئے گئے۔ پچھلے دس سال میں ہر شہری تک اعلیٰ تعلیم کی رسائی کو یقینی بنانے کے لئے 22سرکاری یونیورسٹیاں تعمیر کی گئیں اورشاویز کے دور حکومت میں اساتذہ کی تعداد 65000 سے بڑھ کر 350000 ہو گئی۔ خوراک کی قیمتوں میں کمی اور مناسب خوارک تک ہر شہری کی پہنچ کو یقینی بنانے کے لئے ریاست نے بڑے پیمانے پر سبسڈی دینے کا آغاز کیا۔ بزرگوں، تنہا والدین اور بے روزگاروں کی بھی قابل ذکر مالی معاونت کی گئی۔
لیکن ان تمام تر جرات مندانہ اقدامات کے باوجود بولیویرین حکومت کے اقتدار میں آنے کے کئی برس بعد بھی ایک انقلابی پارٹی کی غیر موجودگی کی وجہ سے انقلاب مکمل نہیں ہو سکا اور وینزویلا میں ابھی تک سرمایہ داری ہی مروجہ معاشی نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ رشتوں کی موجودگی کی میں کی جانے والی بڑی اصلاحات کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کا کردار ناہموار ہے، جس کی وجہ سے نئے تضادات جنم لے رہے ہیں۔ اس وجہ سے بے پناہ افراطِ زر اور شکستہ انفرا سٹرکچر کی وجہ سے بجلی کی طویل بندش جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو جرائم اور عدم تحفظ میں اضافے کا موجب بنے ہیں۔ ایک طرف عوام کے میعار زندگی میں قابل ذکر بہتری آئی ہے، جبکہ دوسری طرف پیداواری انفرا سٹرکچر میں بہت کم سرمایہ کاری کی گئی ہے اور سرمایہ دار کئی طریقوں سے معیشت کو سبوتاڑ کرنے کی کوششوں میں تا حال مصروف ہیں ہے جن میں پیسے کی بیرونِ ملک منتقلی اور بنیادی غذائی ضروریات کی زخیرہ اندوزی وغیرہ شامل ہیں۔ الیکشن کے برس کیے جانے بڑے پیمانے کے اخرجات سے معیشت کی حالت پہلے ہی بہت نازک ہے۔ تیل کی آمدنی عالمی منڈی سے کی جانے والی درآمدات کے اخراجات کو پورا نہیں کر رہی۔ بولیوار کرنسی کی زیادہ قدر سے تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بجٹ کا حقیقی خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے بیس فیصد کے قریب جا پہنچا ہے۔ حکمران بیو روکریسی کی کرپشن، نالائقی اور نا اہلی کی وجہ سے محنت کشوں اور نوجوانوں کی باشعور پرتوں میں جھنجلاہٹ بڑھ رہی ہے۔
شاویز کی موت پر وینزویلا کی اشرافیہ اور عالمی سرمایہ داری کے منصوبہ ساز خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ انہیں وہ کچھ ملتا ہوا نظر آرہا ہے جسے وہ پچھلے ڈیڑھ دہائی میں تمام تر سازشوں اور زہریلے پراپیگنڈے سے بھی حاصل نہیں کر پائے۔ دوسری طرف عوام بخوبی جانتے ہیں کہ رد اانقلابی قوتوں کے بر سرِ اقتدار آنے پر ان تمام حاصلات اور سہولیات کا خاتمہ ہو جائے گاجو پچھلے لمبے عرصے میں انہوں نے رد انقلاب کے خلاف مسلسل لڑائی کرتے ہوئے شاویز کو بار بار صدر منتخب کر کے حاصل کی ہیں۔
رد انقلاب نے ماضی میں شاویز کی قیادت میں جاری سرمایہ دارانہ مخالف اقدامات کو روکنے اور واپس لے جانے کہ بہت کوششیں کی ہیں۔ انقلابِ وینزویلا قدرت کی قوانین کے بر خلاف دس سال سے زیادہ عرصے سے حرکت میں ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک غیر معمولی انقلابی عمل ہے جہاں ا تنے طویل دورانیے کے بعد بھی حتمی مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ اگرچہ شاویز عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ایک غریب دوست انقلابی رہنما کی حثییت سے یاد کئے جائیں گے لیکن عوام سرکاری بیورو کریسی سے سخت متنفر ہیں۔ 16 دسمبر کو ہونے والے علاقائی انتخابات میں شاویز (جو اس وقت علاج کے لئے کیوبا جارہے تھے) کے امید واروں کو ہمدردی کا ووٹ ملا۔ پی ایس یو وی کے امید وار گورنروں کی تےئس میں سے بیس نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ اس طرح سے جب دائیں بازو نے شاویز کی بیماری کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کی تو عوام نے شاویز کی حمایت میں بہت بڑی ریلی نکال کر اپوزیشن کو منہ توڑ جواب دیا۔
شاویز کے جانے سے بیورو کریسی کے مختلف دھڑوں کے درمیان طاقت کے حصول کی شدید لڑائی شروع ہو جائے گی۔ اگرچہ اس وقت دایاں بازو اور اور ردِ انقلابی قوتیں کئی سالوں تک انقلاب کو تھکا کر ختم کرنے کے طویل مدتی تناظر پر عمل پیراں ہیں لیکن اب یہ لوگ سامنے آکر بھی انقلاب کے خلاف وار کر سکتے ہیں۔ شاویز کی جانب سے فوج کی کئی مرتبہ تطہیر کے باوجود مال کما نے والے اشرافیہ جرنیلوں کی جانب سے فوجی بغاوت کا امکان موجود ہے لیکن سامراج کی کوششیں بولیویرین تحریک کے بیو رو کریٹک دائیں بازو کے ذریعے ردِ انقلاب کو کامیاب بنانے پر مرکوز ہیں۔ اگرچہ دس برس سے خوف میں مبتلا ظالم بورژوازی انتہائی بے رحم ردِ انقلاب کرنے کی کوشش بھی کر سکتی ہے تاہم سامراج کی ایما پر رد انقلاب کی جانب سے اٹھایا جایا والا کوئی بھی سخت قدم انقلاب کو مشتعل کر سکتا ہے اور 2002ء سے بھی شدید عوامی ردِ عمل دیکھنے میں آسکتا ہے۔ شاویز کی بیماری کے بعد سے گزشتہ لمبے عرصے سے بورژوا میڈیاپر ’شاویز کے بغیر شاویزازم‘ کی باتیں ہو رہی تھیں۔ شاویز کی موت کے بعد اگر نکولس ماڈورو صدر منتخب ہو جاتا ہے تو اس حکومت کے زیادہ عرصہ تک چلنے کی امکانات کم ہیں۔ عوام اپنے عدم اطمینان کے اظہار کا راستہ تراش رہے ہیں۔ PSUV کے اندر طبقاتی بنیادوں پر صف آرائی بڑھ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میںPSUV کے اندر موجود مارکسسٹوں کی مقبولیت اور مقداری حوالے سے ان کی قوت میں اضافے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ پارٹی کے اندر جاری طبقاتی جدوجہد میں اگر مارکسسٹ کامیاب ہو جاتے ہیں اور PSUV سرمایہ دارنہ اثاثوں اور وسائل کو ضبط کر لیتی ہے تو انقلاب آگے بڑھتے ہوئے ردِ انقلا ب ا ور سامراج کو فیصلہ کن شکست دے ڈالے گا۔
Source: The Struggle (Pakistan)