مجھے ابھی ابھی اپنے ایک عزیز دوست اور کامریڈ تنویر گوندل (جنہیں یہاں لال خان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے: مترجم) کی وفات کی خبر ملی ہے۔ وہ پچھلے کچھ عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھا، مگر اس کے باوجود اس کی وفات کی خبر نہایت درد ناک ہے۔
[Source]
یہ سچ ہے کہ حالیہ وقتوں میں ہم کچھ سیاسی اختلافات کی وجہ سے دور ہو گئے تھے اور میرے لیے یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ میں اس کے آخری اور سب سے مشکل وقت میں اس کے ساتھ نہیں تھا۔ لیکن اس لمحے مجھے اختلافات یاد نہیں ہیں۔ فی الحال مجھے وہ عظیم اور گہری دوستی یاد آ رہی ہے جس نے کئی دہائیوں تک ہمیں جوڑے رکھا۔ اس سب کے باوجود ہمیں تقسیم کرنے والی چیزوں سے وہ چیزیں بہت زیادہ ہیں جو ہمیں ایک کرتی ہیں۔
یہ کچھ الوداعی الفاظ میری اور میرے عزیز دوست اور کامریڈ کی دوستی کے نام ہیں۔
میں تنویر سے پہلی مرتبہ 1980ء میں ملا جب وہ یورپ میں سیاسی جلاوطنی کاٹ رہا تھا۔ مجھے وہ ایک خوبرو اور دل کو بھانے والے نوجوان کے طور پر یاد ہے جس نے خود کو سوشلزم اور عالمی انقلاب کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ہم فوری طور پر دوست بن گئے اور یہ دوستی چار دہائیوں تک جاری رہی۔
اپنی 60 سال پر محیط انقلابی زندگی میں بہت سے اچھے لوگوں کے ساتھ میری دوستی رہی، مگر میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی دوستی اتنی قریبی نہیں رہی جتنی اس کے ساتھ تھی۔ یہ محض سیاسی ہم آہنگی کی بات نہیں تھی جو تقریباً اس تمام وقت کے دوران غیر متزلزل رہی۔ یہ ایک گرمجوش انسانی رشتہ تھا جس کی بنیاد باہمی اعتماد اور عزت پر تھی۔
تنویر پنجاب کے ایک مضافاتی علاقے کے زمین دار کا اکلوتا بیٹا تھا۔ یہ ناہموار زمین رکھنے والا وہ علاقہ تھا جو بہت پرانے وقتوں سے لے کر اب تک مسلح افواج کے لیے سپاہی مہیا کرتا تھا۔ وسطی پنجاب کے سرسبز میدانوں کے برعکس یہ ایک بنجر زمین تھی جو پہاڑیوں چٹانوں اور پتھروں سے بھری ہوئی تھی۔ تنویر مجھ سے کہا کرتا تھا: ’’یہ زمین گندم، پھل یا سبزیاں پیدا نہیں کرتی، یہ فوجی پیدا کرتی ہے‘‘۔ یہاں کے لوگ مضبوط اور سخت جان ہیں۔ یہ کافی خوش مزاج بھی ہیں اور موسیقی، ناچ گانے اور ہنسی کھیل کو پسند کرتے ہیں، لیکن جنگ کے وقتوں میں گاؤں اپنے مردوں کی موت پر بین کرتی عورتوں سے بھرے ہوتے ہیں۔
اس کے والد پاکستانی فوج میں ایک افسر تھے جو قدرتی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ان کا بیٹا ان کے نقش قدم پر چلے گا۔ مگر تنویر ہمیشہ سے ضدی اور خود مختار تھا اور مختلف خیالات کا مالک تھا۔ وہ طب کی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ اور معاشرے کی ناقابل برداشت ناانصافیوں نے اسے سوشلسٹ انقلاب کا راستہ چننے پر مجبور کر دیا۔
اس کے لیے سب سے مشکل وہ وقت تھا جب وہ اپنے والد کی وفات پر آمریت کی وجہ سے پاکستان نہیں جا سکا۔ مگر اس نے اپنے والد کو ہمیشہ یاد رکھا۔
اس نے مجھے بتایا کہ آخری بار گفتگو کے دوران جب اس کے والد کو اس کی انقلابی سرگرمیوں کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا: ’’بیٹا جو بھی ہو جائے اپنے یقین کی خاطر لڑنا۔ یاد رکھنا کہ تم ایک فوجی ہو۔ اپنے دشمن کو کبھی پیٹھ مت دکھانا۔ اگر مرنا ہی ہے تو سینے پر گولی کھا کر مرنا‘‘۔ اس نے اپنے باپ کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیا۔
1970ء کی دہائی میں تنویر پاکستان کے ایک کالج میں میڈیکل سٹوڈنٹ اور سیاسی کارکن تھا جو کیمپس میں انتہا پسند اسلامی رد انقلابیوں کے خلاف لڑا کرتا تھا۔ 1977ء میں ضیاء الحق کی فوجی بغاوت کے بعد اسےایک سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔
1980ء میں وہ بھاگ کر نیدرلینڈز جانے میں کامیاب ہو گیا، جہاں اس نے جدوجہد نامی رسالے کے گرد بائیں بازو کے جلاوطن پاکستانیوں کا ایک گروپ منظم کرنا شروع کیا۔ اسی دوران وہ عظیم برطانوی مارکسسٹ ٹیڈ گرانٹ سے رابطہ استوار کرنے کی خاطر لندن آیا۔
شروع سے ہی اس کی اور ٹیڈ کی بہت گہری دوستی ہو گئی، جو اس نوجوان پاکستانی انقلابی کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ تنویر بھی ٹیڈ کو بہت سراہتا تھا اور عقیدت کی حد تک ان کی عزت کرتا تھا۔ آج بھی لاہور میں اس کے گھر کی دیوار پر ٹیڈ اور اس کی ایک بڑی تصویر آویزاں ہے۔
ان دنوں میں انقلابی سرگرمیوں کے سلسلے میں سپین میں تھا۔ لیکن انٹرنیشنل میٹنگز میں اکثر میری تنویر سے ملاقات رہتی تھی اور ہم بہت اچھے دوست بن گئے تھے۔ ٹیڈ کی طرح میں بھی اس کی صلاحیتوں کا معترف تھا۔
1989ء کی دہائی کے آخر میں اس نے پاکستان واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ ضیاء الحق کی ایک فضائی حادثے میں موت کے بعد، جو یقینی طور پر ایک قتل تھا، حالات کافی بہتر تھے، مگر پھر بھی پاکستان کی صورتحال بہت مشکل تھی۔ ٹیڈ کو اس کے واپس جانے کے فیصلے پر شکوک و شبہات تھے مگر تنویر ڈٹا رہا اور تقریباً صفر سے آغاز کرتے ہوئے اس نے بہت کم عرصے میں بہت بڑے نتائج حاصل کر لیے۔
انٹرنیشنل میں تقسیم کے دوران تنویر ٹیڈ گرانٹ کی سربراہی میں موجود اقلیت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا۔ مجھے پاکستانی سیکشن کی ذمہ داری سونپی گئی، جو بعد میں IMT کا پاکستانی سیکشن بنا اور میں نے کئی بار اس ملک کا دورہ کیا۔
ان دوروں کی بہت سی خوبصورت یادیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں، جن کے دوران میں پاکستانی سیکشن کی غیر معمولی بڑھوتری اور ترقی دیکھتا تھا۔ بلاشبہ مشکلات اور مسائل موجود تھے مگر تمام مشکلات کے باوجود سیکشن تیزی سے بڑھتا رہا۔
پاکستانی تنظیم کی کانگریس بہت متاثر کن ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ درحقیقت وہ کانگریس سے زیادہ جلسوں کی طرح تھی۔ پورے پاکستان سے بہت بڑی تعداد میں لوگ آتے تھے۔ بہت سے کامریڈ اسے سال کی سب سے بڑی سرگرمی کے طور پر دیکھتے تھے۔
یہ سیکشن کی سیاسی سرگرمیوں اور کامیابیوں سے متعلق بات کرنے کی جگہ تو نہیں ہے، اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے، لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ ان دوروں کے دوران میں بہت سے غیر معمولی افراد سے ملا۔ ان میں سے ایک سندھ کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والا بے زمین کسان تھا، جو جوانی میں ایک ڈکیت تھا اور کافی عرصہ جیل بھی رہا، جہاں سے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوا اور پھر اس نے ایک انقلابی کے طور پر اپنی زندگی کا مقصد پا لیا۔ اس کی زندگی کی کہانی پر ایک انتہائی متاثر کن ناول لکھا جا سکتا ہے۔
ایک اور پرانے کمیونسٹ (جام ساقی) بھی تھے جنہیں ضیاء الحق کے دور میں جیل میں رکھا گیا اور اس دوران ان پر شدید تشدد کیا جاتا رہا۔ انہوں نے سالوں قید تنہائی میں کاٹے، جو ان کے مطابق تشدد سے بھی بدتر تھا، جس دوران انہیں کسی بھی قسم کے انسانی رابطے سے محروم رکھا گیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اکثر خواہش کیا کرتے تھے کہ انہیں کوٹھری سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا جائے تا کہ وہ کم از کم دوبارہ انسانی آواز تو سن سکیں۔
ان سالوں کے دوران، سیکشن کی کانگریس کے بعد، تنویر مجھے اپنے ساتھ اپنے گاوں لے جایا کرتا تھا، جہاں میں اس کی ماں سے ملا جو انتہائی نفیس بزرگ خاتون تھیں جو سادہ لباس میں ملبوس ہوتیں اور نوکروں کے ساتھ مل کر گھر کے کام کاج کیا کرتی تھیں۔ وہ صبح صبح اٹھ کر ایک پرانی طرز کے جھاڑو سے صحن کی صفائی کیا کرتیں۔ اس طرز زندگی سے مجھے ترگنیف کی جانب سے کی گئی نیم جاگیردارانہ دور کے روس کی خاکہ کشی یاد آ جایا کرتی تھی۔
تنویر کو گاؤں جانا اچھا لگتا تھا تا کہ اسے لکھنے کے لیے کچھ سکون اور خاموشی میسر ہو سکے۔ درحقیقت اس نے پاکستان کی تاریخ، پارٹیشن کے جرائم، 69-1968ء کے انقلاب اور کشمیر اور ایسے کئی موضوعات پر کافی کتابیں لکھیں۔ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں کا سفر کیا کرتا تھا مگر اس کا زیادہ وقت لاہور میں ہی گزرتا تھا۔
ضیاءالحق کی آمریت سے پہلے لاہور نہ صرف پاکستان بلکہ شاید پورے برصغیر کا ادبی اور ثقافتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ مگر انتہا پسند اسلامی آمریت نے لاہور کے سینے سے دل ہی نکال لیا۔ اس کی ادبی اور ثقافتی زندگی کو شدید نقصان پہنچا اور وہ دوبارہ کبھی اس طرح بحال نہیں ہو پائی۔
اس کے باوجود پرانی ثقافتی زندگی کے کچھ عناصر ابھی بھی باقی ہیں۔ تنویر کا گھر ثقافتی شخصیات کے لیے مقناطیس کی طرح تھا۔ ان میں سے ایک جاوید شاہین تھے جو انتہائی باصلاحیت لکھاری اور شاعر تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک پُرخلوص کمیونسٹ بھی تھے جنہوں نے اپنے فن کو محنت کشوں، کسانوں، غریبوں اور مظلوموں کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ دوسرے میرے پرانے دوست منو بھائی تھے۔ ایک انتہائی باصلاحیت اور قابل عزت صحافی، ایک بہت اچھے شاعر اور عظیم ثقافتی اور ذاتی کردار کی حامل شخصیت۔
بہت سے یورپیوں کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ شاعری ایک ایسے انقلابی ہتھیار کا کام کرسکتی ہے جس سے مظلوم عوام تک پیغام لے کر جایا جا سکتا ہے۔ مگر برصغیر میں انقلابی شاعری کی ایک لمبی تاریخ ہے جہاں عام لوگ شاعری اور موسیقی کی قدیم روایت سے کافی متاثر ہوتے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ بہت سے موقعوں پر ہم تنویر کے گھر کی چھت پر ان بزرگ دانشوروں کے ساتھ گھنٹوں سیاست، مذہب، فلسفے، فن اور شاعری پر بات کیا کرتے۔ وہ ہمیں اپنی نظمیں سناتے اور تنویر اپنے مزاج کے مطابق انقلابی یا محبت کے گیت سنایا کرتا۔ وہ کافی سریلا تھا۔
اس طرح کی اور بھی بہت سی یادیں ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر تنویر گوندل مجھے ایک پُرخلوص انقلابی مارکسسٹ اور ایک گرم جوش، ہمدرد اور فیاض دوست کے طور پر یاد رہے گا۔
کیا اس میں خامیاں تھیں؟ ہاں بالکل اس میں بہت سی خامیاں تھیں، لیکن ہم میں سے کس میں نہیں ہوتیں؟ اگر کلی طور پر دیکھا جائے تو اس کی خوبیاں اور صلاحیتیں منفی پہلوؤں سے کہیں زیادہ وزن رکھتی ہیں۔ حتیٰ کہ اس کے شدید ترین نقاد بھی پاکستان میں مارکسزم کی قوتوں کی تعمیر میں اس کے کردار کو جھٹلا نہیں سکتے۔
اس نے اپنے تمام جاننے والوں پر گہرے اثرات مرتب کیے اور اس کے اثرات پاکستانی سرحدوں سے کہیں وسیع تھے۔ خاص طور پر ہندوستان میں بہت سے بائیں بازو کے افراد اسے برصغیر کی انقلابی تحریک کی ایک اہم شخصیت کے طور پر جانتے ہیں۔
میں لاہور سے ہزاروں میل دور ہوں۔ اور اب میرے اور میرے پرانے دوست اور کامریڈ کے درمیان ایک لامحدود فاصلہ ہے۔ مگر میں اسی فاصلے سے یہ پر اثر اشعار اس کی یادوں کے نام کرتا ہوں:
’’انہوں نے مجھے بتایا کہ ہراقلیطس تم مر چکے ہو
انہوں نے یہ کڑوی خبر سنا کر میری انکھوں میں کڑوے آنسو بھر دیے
میں روتے ہوئے اس وقت کو یاد کرتا ہوں
جب سورج ہماری باتوں سے تھک کر آسمان میں ڈوب جاتا تھا
اے میرے عزیز دوست اب تم بے حس و حرکت پڑے ہو
مٹھی بھر سرمئی راکھ کی طرح
ابھی بھی تمہاری آواز میرے کانوں میں گونجتی ہے
موت سب کچھ چھین سکتی ہے
پر تمہاری یادیں نہیں‘‘
ہم صدف، ان کے بچوں اور تنویر کے پرانے اور وفادار ساتھی پال (رانا) کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
لندن، 21 فروری 2020.